ڈاکٹر بلال احمد
ٓؒاللہ رب العزت قرآن کر یم میں ارشاد فرماتا ہے ’’ ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دنیا میں ہر ذی روح کو یعنی ہر جاندار نے موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ لیکن خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ کے دین کی سر بلندی کی خاطر اپنی پیاری جان اللہ کی راہ میں نچھاور کرتے ہیں ۔ ان ہی خوش قسمت لوگوں میں کمانڈر امتیاز عالمؒ بھی تھے جنہوں نے اسلام کی سر بلندی اور وطن عزیز کی آزادی کیلئے اپنا سب کچھ نچھاور کرتے ہوئے اپنی جان عزیز بھی پیش کی۔ شہید کا تعلق ایسے خاندان سے تھا جو علاقے میں دین کی آبیاری اور ترویج کا کام کررہاتھا ایک دیندار گھرانے سے تعلق نے شہید کو تحریک اسلامی کے قریب کرنے میں اہم کردار اد ا کیا۔ آ پ فلاح عام ٹرسٹ کے ایک سکول میں بطور استاد کام کرتے رہے یوں تحریک اسلامی کے بزرگوں سے قربت حاصل رہی اور تحریک اسلامی کے بزرگوں کی درس و تدریس کی محافل میں شمولیت کو اپنا معمول بنا لیا ۔ان ہی دنوں میں مقبوضہ کشمیر کا قریہ قریہ آزادی کے نعروں سے گونج رہا تھااور یکم نومبر 1989 ء میں حزب المجاھدین کے قیام کا باقاعدہ اعلان ہوا۔ یوں بشیر احمد پیر ، امتیاز عالم کے نام سے حزب کی صفوںمیں شامل ہوا ۔اس دوران قابض بھارتی افواج نے ان کے والد پیر سکندر ؒصاحب اور جواں سال بھائی پیر نذیر ؒصاحب کو شہید کر دیا اور آبائی مکان کو بھی نذر آتش کر کے خاکستر کر دیا۔

نوے کی دہائے میں امتیاز عالم پختگی اور مظبوط عزائم کے ساتھ ماہ اگست 1990ء میں بیس کیمپ تشریف لے گئے۔کچھ مہینے یہاں رہ کر واپس مقبوضہ کشمیرچلے گئے ۔ ابتداء سے حزب المجاہدین کے پرچم تلے مجاہدین کی مضبوط صف بندی سے دشمن کی نیند حرام کر دیں ۔دشمن کے ساتھ امتیاز عالم ؒکے معرکے کی ایک طویل داستان ہے یہاں صرف ایک معرکے کا تھوڈا سا ذکر کرنا مناسب رہے گا۔’’ ظفر کھنی معرکہ‘‘ ایک تاریخی معرکہ جس میں اگر چہ مجاھدین کی شہادتیں بھی ہوئیں لیکن دشمن کا بے تحاشا نقصان ہو ا۔دوکمشنڈ افسران سمیت 20 بھارتی فوجی جہنم واصل اور 30سے زائد زخمی ہوئے ۔ اس معرکے کے بعد ان کے گھر میں موجود افراد جن میں بیوی بچے اور رشتہ دار شامل ہیں پر قابض بھارتی افواج کی طرف سے ظلم کا لامتنا ہی سلسلہ شروع ہو ا یوں ان کے زندہ بچ جانے والے افراد خانہ آزاد کشمیر کی طرف سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ 2008ء میں شروع ہونے والا پرویز مشرف کا دور مجاہدین کیلئے انتہائی مشکلات کا سبب بنا ۔جہادی سر گرمیوں پر روک لگا دی گئی تحریک آزادی کشمیر نا قابل بیان نقصان سے دو چار ہوئی ۔ بیس کیمپ میں نقل و حمل پر قد غن لگا دی گئی اس دوران مقبوضہ وادی کشمیر میں مجاھدین شدید مشکلات کا شکار ہوئے۔اس صورت حال سے مایوسی پھل گئی ۔ان مایوس کن حالات میں حزب المجاہدین سے وابستہ افراد جن میں امتیاز عالم نمایاں حیثیت رکھتے تھے نے مجاھدین کو مایوسی کے دلدل سے نکالنے کیلئے ہر ممکنہ اقدام کیا اور کا فی حد تک کامیاب بھی رہے۔
ان کی شہادت سے چند روز پہلے ملاقات کا موقع ملا۔مختلف معاملات پر بات ہوئی تحریک آزادی کشمیر کے ماضی حال اور مستقبل کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ ملک کے اندرونی و بیرونی حالات اور کمزورڈپلومیسی، مسلم ممالک کا تحریک آزادی کشمیرکے حوالے سے سرد مہری پربات کرتا رہا اور میں اسے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا رہا کہ ہم نے اپنا نقصان کرنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیںکیا۔ میری باتیں غور سے سنتے رہے ۔پھر مسکراتے ہوئے بہت ہی میٹھے اور پر سکون لہجے میں میری ہمت بندھائی ۔فرمایا ” ہماری جدو جہد کبھی نہیں رکے گی نہ ناکام ہوگی اور یہ کبھی نہ سوچیں کہ جب حالات ساز گار ہو نگے اور ہماری مرضی کے ہونگے تب ہم جدوجہد کریں گے ہمیں اس سے بھی بُرے حالات کا سامنا کرناہو گا ، لیکن جان لیںبد سے بدتر حالات ہمیں سخت جا ن بنائیں گے اور اللہ کے زیادہ قریب کریں گے۔ اللہ سے قریب ہونے کی دیر ہے خود بخود ہمارے لئے کا میابی کے راستے کھلیں گے”۔ اس ملاقات میں عجیب اتفاق یہ ہوا کہ قریب قریب ایسے ہی الفاظ ان سے پہلے ایک اور تحریکی رہنما اور دوست نجم الدین خان ؒ سے سن بھی چکا تھا۔ صف اول کے محترک نڈر اور بے باک شخصیت وفات سے پہلے ان سے ملا قات ہوئی تھی ۔وہ چونکہ جسمانی طور معذور تھے صحت بھی ٹھیک نہیں تھی لیٹے رہے اور بات شروع کی ’’ میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں میں نے کہا آپ حکم کریں کہنے لگے حکم کچھ نہیں مجھے یہ بتا دیں کہ حالات کیسے ہیں اور ہماری آزادی کی تحریک اس وقت کس مرحلے میں ہے۔ میں پریشان ہو گیا کہ میں کیا جواب دوں بہرحال دبے لفضوں سے میں نے کہا نجم صاحب ہمارے تو پر کاٹ لئے گئے ہیں اوربین ا لاقوامی؎ حالات بھی ہمارے لئے ساز گار نہیں ہیں۔ہم صبر کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرسکتے بس ہمیں موزوں وقت اور حالات کا انتظار کرنا پڑے گا ۔

میں نے ابھی بات ختم نہیں کی تھی نجم صاحب اٹھ کے بیٹھ گئے اور شدید غصے کے انداز میںمیری طرف دیکھا اور کہنے لگے ۔’’ میں نے آپ کو سیا سی گفتگو کیلئے نہیںبلایا ‘‘آپ سے سوال پوچھا آپ نے سیاسی بیان دینا شروع کیا ۔ جن لوگوں نے کچھ کرنا ہوتا ہے وہ حالات نہیں دیکھتے۔ چند غزوات کا ذکر کیا غزوہ بدر کا ذکر کرتے ہوئے امام حسین ؓ کی شہادت اور واقعہ کربلا کا ذکر بھی کیا۔ میرے پاس کہنے کیلئے الفاظ ہی نہیں تھے اورآخری بات جو انہوں نے کی ، فرمایا” جہاد ایسے ہی حالات میں ہوتا ہے جہاد کیلئے حالات اپنی مرضی کے کبھی بھی میسر نہیں ہوتے”۔ نجم صاحب نے تحریکی سر گرمیوں میں اپنی جسمانی کمزوری کو کبھی بھی حائل نہیں ہونے دیا۔تنظیم کی طرف سے جو بھی ذمہ دار ی دی گئی احسن طریقے سے انجام دیتے رہے بالاآخر24اگست2021 میں اللہ کے حضور ر پیش ہوئے
تیرا شوق بھی تو عجیب تھا ۔۔۔کہ اسی میں جان سے گزر گیا
مرد خد ا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات ،موت ہے اس پر حرام
٭٭٭