مجا ہدین نے دشمن پر حملے کا فیصلہ کیوں کیا

مجاہد ین کے آپریشن سے چند دن پہلے تقریباً 5 ہزار صہیونیوں نے مسجدِ اقصیٰ میں گھس کر اس کی بے حرمتی کی

بیس، تیس سال کی عمر کو پہنچے ہوئے اکثر نوجوان زندگی کے ہر گوشے سے دور، روزگار سے محرومی کی زندگی جی رہے ہیں

دشمن ہمیں گزشتہ پندرہ برسوں سے دھیرے دھیرے موت کی طرف دھکیلنے کے اپنے منصوبے پر کار بند ہے۔

علامہ محمد بن محمد الاسطل (فلسطینی عالم دین)

ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی

میں ان لوگوں میں سے نہیں جو سوشل میڈیا پر چھڑنے والی ہر متنازعہ گفتگو کا جواب دینے کیلئے میدان میں اتر پڑتے ہیں، اس لیے کہ میں علمی مقام و منصب کا احترام ضروری سمجھتا ہوں اور میرا یہ ماننا ہے کہ غیر مفید یا محدود فائدہ والی باتوں میں وقت ضائع کرنے سے بچنا چاہیے۔ ایک دو دن پہلے بعض احباب کی طرف سے مجھ سے دریافت کیا گیا کہ: اس شخص کی رائے کے بارے میں آپ کا کیا جواب ہے جو یہ کہتا ہے کہ صہیونی دشمن کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں تاکہ اسے اتنے شدید ردِ عمل کا موقع نہ ملے۔خاموشی کے اپنے اصول کو کنارے رکھتے ہوئے، اپنے احساسات کو سرسری طور پر رکھوں گا۔ اس وقت جو صورتِ حال ہے اس میں تفصیل سے جواب دینے کیلئے ذہنی یکسوئی میسر نہیں ہے۔ میں اس ضمن میں ذیل کے صرف چار اسباب آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

پہلی وجہ:

دشمن مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی، اسے یہودی شناخت دینے، اور ہیکل کی تعمیر کے اپنے ایجنڈے پر ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اپنے اس ایجنڈے کو پورا کرنے کیلئے ماضی میں دو یا تین برسوں میں وہ جو اقدامات کرتا تھا اب دو تین ہفتوں میں ہی وہ سب پورا کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اہلیانِ شہر القدس کو ذلیل و رسوا کرنے، ہراساں کرنے اور ان کے اہلِ علم و فضل کو جیلوں میں بھرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

صرف یہی نہیں، اس کی حرکتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ اب وہ مسجدِ اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی سے لوگوں کو روک رہا ہے، اس کی رکاوٹوں کی وجہ سے لوگ نماز کیلئے مسجد تک نہیں پہنچ سکتے۔ مسجد کے اندر تقریبا 50 علمی حلقے منعقد ہوتے تھے لیکن اب سالوں سے ان پر بھی پابندی عائد ہے۔

مجاہد ین کے آپریشن سے چند دن پہلے تقریبا 5 ہزار صہیونیوں نے مسجدِ اقصیٰ میں گھس کر اس کی بے حرمتی کی۔ کئی دنوں سے ان کی یہی حرکات جاری تھیں۔ مسجد کی بے حرمتی کے ایسے مظاہر گزشتہ بیس برسوں میں بھی سامنے نہیں آئے تھے۔ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور اسے یہودی رنگ دینے کی بڑھتی ہوئی حرکتوں کے رد میں مجاہدین نے اپنے آپریشن کو انجام دیا۔ معرکہ کے نام ”طوفان الاقصیٰ” سے ہی اس کا مقصود ظاہر ہوتا ہے۔

دوسری وجہ:

دشمن ہمیں گزشتہ پندرہ برسوں سے دھیرے دھیرے موت کی طرف د ھکیلنے کے اپنے منصوبے پر کار بند ہے۔ہمارے درمیان نوجوانوں کی ایک پوری نسل ایسی ہے جس نے اسی بحران کے درمیان آنکھ کھولی ہے۔ بیس، تیس سال کی عمر کو پہنچے ہوئے اکثر نوجوان زندگی کے ہر گوشے سے دور، روزگار سے محرومی کی زندگی جی رہے ہیں، وہ اپنی تعلیم پوری نہیں کر سکتے، شادی نہیں کر سکتے، گھر نہیں بنا سکتے اور انہیں کوئی روزگار بھی نہیں ملتا۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں طرح طرح کی سماجی مشکلات پھیل چکی ہیں، بے روزگاری ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے، شادیوں کا سلسلہ رکا سا ہوا ہے، یوں سمجھیں کہ سماجی اور معاشی مسائل کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔

قریبی دنوں میں دسیوں ہزار کی تعداد میں نوجوانوں نے اس امید پر مغربی ممالک کی طرف ہجرت کی کوشش کی کہ انہیں زندگی گزارنے کیلئے روزگار کے کچھ مواقع میسر آئیں گے۔ وہ ایک مشکل سے نکل کر دوسری مشکل کی طرف جانا چاہتے تھے لیکن بحری راستے میں ایسے دسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں نوجوان سمندر اور مچھلیوں کا لقمہ بن گئے۔

تیسری وجہ

ہمارے جو افراد دشمن کی قید میں ہیں ان کے ساتھ اس کا رویہ وحشیانہ ہے، وہ ایسی شدید اذیتوں کا سامنا کر رہے ہیں کہ گویا ہر دن کئی کئی بار موت کی چکی میں پیسے جا رہے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو ڈیڑھ میٹر کے سیل میں 13 برسوں سے قید ہیں، کچھ قیدیوں کو براز و گندگی سے لت پت سیل میں ڈالا جاتا ہے۔ وہ درد و الم کا مارا، نفسیاتی اذیت سے دوچار قیدی دو تین دن لگا کر اس کی صفائی کرتا ہے کہ اس کے بعد اس میں رہ سکے، اس دوران اس کے کپڑے اتارے جاتے ہیں، اسے زدو کوب بھی کیا جاتا ہے۔ پھر جب سیل صاف ہو جاتا ہے تو اسے اسی طرح کے دوسرے گندے سیل میں منتقل کر دیا جاتا ہے تاکہ اذیت کا وہی سلسلہ پھر شروع ہو۔ ماضی قریب میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والا اذیت ناک سلوک برداشت کی حدوں سے بھی باہر جا چکا ہے۔ ان میں یہ إحساس پیدا ہونے لگا ہے کہ امت انہیں بھول بیٹھی ہے، کسی کو ان کی مصیبت اور ان کے حالات کی فکر نہیں بلکہ کسی کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے۔

صہیونی حکومت کے اندر بن غفیر اور اس جیسے دوسرے لوگوں کی قیادت میں انتہا پسند یہودیوں کی مضبوط گرفت کی وجہ سے قیدیوں کی زندگی کو اس طرح جہنم بنا دیا گیا ہے کہ عملًا ان کیلئے یہ سب وہ نا قابلِ برداشت ہو چکا ہے۔گزشتہ مہینوں سے یہ آواز اٹھ رہی تھی کہ ان قیدیوں کی رہائی اور اس جہنم سے ان کی آزادی کیلئے جد وجہد ضروری ہے۔ اس مصیبت میں ہماری قیدی بہنوں کی اذیت کا اضافہ بھی کر لیجیے۔ ہماری بہنوں کو رسوا کیا جا رہا ہے، ان کے دین، ان کی عفت، اور ان کی حیا کوجس طرح تار تار کیا جا رہا ہے میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ایسے مرحلہ میں مجاہدین نے آپریشن کیا تاکہ مظالم کے اس لا متناہی سلسلے پر بند باندھا جائے۔

چوتھی وجہ

مزاحمتی حلقوں کی طرف سے یہ وضاحت آ چکی ہے کہ انہیں موصول خفیہ معلومات کی روشنی میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ دشمن غزہ کو تباہ کرنے کیلئے اس کے خلاف ایک بھر پور حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ چنانچہ مزاحمتی قوت نے یہ طے کیا کہ دشمن کو اچانک حملے کا موقع نہیں دینا چاہیے، اچانک حملہ کر کے دشمن جو اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے اسے روکنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ اس کارروائی کا آغاز خود مزاحمتی قوت کی طرف سے اچانک ہو نہ کہ دشمن کی طرف سے۔چنانچہ مجاہدین نے ایک ساتھ کئی مقاصد اور اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے بھر پور کارروائی کی۔

ہم 2014 میں اسی قسم کا تجربہ دیکھ چکے ہیں۔ اس وقت بھی مزاحمتی قوت کو جب یہ اندازہ ہو گیا کہ دشمن غزہ کو تباہ کرنے کیلئے حملے کی تیاری کر رہا ہے تو انہوں نے جنگ کا رسمی اعلان کیے بغیر دو دنوں کے اندر دسیوں ہزار میزائل سے دشمن کو نشانہ بنایا تاکہ وہ اپنے منصوبہ سے پہلے ہی جنگ میں داخل ہونے پر مجبور ہو اور اچانک حملہ کر کے دشمن اپنے جو مقاصد پورا کرنا چاہتا ہے (، مثلاً اہم قائدین کو قتل کرنا یا سینکڑوں مجاہدین کو ان کی تربیتی مشقوں کے درمیان گرفتار کرنا وغیرہ،) انہیں پورا نہ کر سکے۔

میں نے جنگی جہازوں اور میزائلوں کی گھن گرج کے درمیان جلدی میں یہ چار اسباب بیان کیے ہیں۔

پھر یہ بھی عرض کروں کہ دشمن کے مقابلے میں کھڑے لوگ اپنے احوال سے بہتر واقف ہیں، جو ان احوال سے واقف نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے صحیح صورتِ حال دریافت کر لے۔ یہی حکمت کا تقاضاہے۔ اور جو وطن سے دور ہو اس پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ وہ ملکی معاملات میں فتویٰ نہیں دے سکتا، البتہ ضروری ہے کہ پہلے وہ حصول معلومات کے ممکنہ ذرائع کا استعمال کر لے کیونکہ فتویٰ کیلئے ایک ضروری شرط ہے۔

میں بہت ہی گھٹن کے ساتھ یہ سطور قلم بند کر رہا ہوں۔ جب معرکہ برپا ہو اس وقت ہمیں دستِ تعاون بڑھانا چاہیے نہ کہ تنقید اور محاسبہ کے تیر چلانے چاہئیں۔ جو لوگ صہیونی بیانیہ پر تکیہ کرنے والے استبدادی حکمرانوں کے بیانیہ کو درست سمجھتے ہوں وہ ان وضاحتوں سے بھی مطمئن نہیں ہو سکتے بلکہ یہ لوگ ہر اس شخص کے رد کیلئے تیار رہیں گے جو انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ اسی کی بات درست مانی جائے۔ لہذا اس قسم کی بحثوں میں الجھنے کا کوئی بڑا فائدہ نہیں۔

ہم نے برسہا برس سے ایسے تماش بین لوگوں کو دیکھا ہے جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودات میں ہمیں پہلے ہی بتا دیا گیا ہے ۔ہمیں نصوذ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ محاذوں پر ڈٹنے والوں کو اللہ کے حکم سے نہ تو ان کے مخالفین نقصان پہنچا سکیں گے اور نہ ہی ان کو بے یار مددگار چھوڑ کر تماشہ دیکھنے والے.

مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اس پر کوئی دکھ نہیں ہوتا کہ پوری کی پوری قوم ذلت، رسوائی، فقر، اور مظلومیت کے دلدل میں ہے، انہیں قید و بند کی زنجیروں نے جکڑ رکھا ہے، مسجد اقصٰی کی حرمت پامال ہو رہی ہے، ہمارے قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک ہو رہا ہے۔ان کے نزدیک یہ سب فطری اور معمول کی باتیں ہیں، ان سب کے ساتھ جینا سیکھ لینا چاہیے۔

مجھے نہیں معلوم کہ وہ باطل کہاں ہے جو تمہیں اس کی اجازت دے دے گا کہ تم اسے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرو اور پھر اس پر خاموش رہ کر تم سے محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتا رہے۔

اللہ جل جلالہ سے بس یہی فریاد ہے کہ الٰہی ہم کمزور ہیں ہماری مدد فرما، ہم محتاج اور تیری عنایت کے طلبگار ہیں ہم پر کرم فرما، ہم عاجز ہیں ہمیں غلبہ و قوت عطا فرما، ہم رسوائی سے دو چار ہیں ہمیں عزت و اقتدار عطا فرما، کسی بھی افواہ پھیلانے والے اور ساتھ چھوڑ کر بھاگنے والے کے احسان سے ہمیں بچا.
واللہ غالبٌ علی أمرہ ولکن أکثر الناس لا یعلمون. اللہ اپنے معاملے پر غالب آ کر رہنے والا ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے۔

٭٭٭