غازی اویس
اسرائیل نے اہل فلسطین خاص طور پر غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف آتش و آہن کا بازار گرم کر رکھا ہے۔صیہونی بر بر یت سے نہ مساجد محفوظ ، نہ سکول اورنہ ہی مدارس۔۔ اب تو ہسپتالوں کو بھی درندگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے صرف غزہ کے الاہلی ہسپتال پرحملے میں آٹھ سو سے زائد فلسطینی بچے اور عورتیں لقمہ اجل بنے ہیں۔صیہونی اسرائیل مقبوضہ فلسطین میں وہی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے جو غاصب بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں معصوم کشمیریوں کے خلاف کر رہا ہے۔جس طرح 1947ء1965,اور پھر اس کے بعد جموں میں بھارت کے ہند وانتہا پسندوں اور ڈوگرہ ا فواج نے جو قتل عام کیا،بعینہ صیہونی اسرائیلی افواج غزہ میں کر رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا بھارت جموں میں قتل عام کے بعد تحریک آزادی کشمیر کو دبا سکا ہے جو اسرائیل غزہ میں کشت و خون کا بازار گرم کر کے وہاں آزادی کی تحریک کو دبا سکے گا۔جواب بالکل نفی میں ہے،1947ء میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین لاکھ لوگ صرف ڈیڑھ دو ہفتے میں قتل کئے گئے،پھر 1989ء سے مسلح تحریک کا دوبارہ آغاز ہوا تو اہل جموں نے قربانیوں کی اپنی لازوال داستان ازسرنو تازہ کردی۔اس حوالے سے شہدائے جموں کی روداد پیش خدمت ہے
بستی بستی وادی وادی،صحرا صحرا خون
امت والے امت کا ہے کتنا سستا خون
6نومبر کو شہدائے جموں نہایت ہی عقیدت و احترام کے ساتھ ان شہداء کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے آزادی کی راہ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔اس دن دنیا بھر میں بسنے والے جموں و کشمیر کے عوام عقیدت و احترام کے ساتھ یہ دن مناتے ہیں۔گزشتہ 76 برسوں سے ہر روز کشمیری عوام بھارتی غاصبانہ قبضے اور ظلم کے خلاف جدوجہد کے دوران مالی و جانی قربانیاں دیتے رہے۔تقسیم ہند سے پہلے 1931ء اور 1947 ء کے درمیان کشمیری مسلمانوں نے اپنے حقوق اور جمہوری و ذمہ دارانہ حکومت کے قیام کیلئے جدو جہدکے دوران بھی قربانیاں دیں۔6 نومبر 1947ء یوم شہدائے جموں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔پاکستان 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا،پاکستان کا وجود میں آنا بھارتی انتہا پسند ہندوؤں کیلئے ناقابل برداشت تھا۔ انتہا پسند ہندوؤں کی سرپرستی کیلئے وزیر داخلہ پٹیل اور وزیر دفاع سردار بلدیو سنگھ حکومت میں بھی موجود تھے۔ بھارتی حکومت نے بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی پس پردہ حوصلہ افزائی کرکے مظلوم مسلمانوں کا قتل عام کرایا۔یہ لہر آر آر ایس ایس،راشٹریہ سیوک سنگھ اور جن سنگھ کے ہاتھوں جموں کے صوبہ تک پہنچائی گئی۔ان دو دہشت گرد تنظیموں کی حوصلہ افزائی ڈوگرہ حکومت کر رہی تھی۔صوبہ وادی کشمیر اور لداخ میں مسلمانوں کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات برپا کرنے میں ہندوانتہاپسند تنظیمیں ناکام رہیں۔لیکن صوبہ جموں کے اندر ڈوگرہ حکومت کی سرپرستی میں آر ایس ایس بجرنگ دل اور جن سنگھ مسلمانوں کی قتل وغارت گری کرنے میں کامیاب رہیں۔جن علاقوں میں مسلمان اہنے اہل و عیال اور احباب کو بچانے میں کامیاب ہو گئے انہوں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔کچھ لوگ جموں شہر کی جانب چل پڑے اور کچھ پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ سلسلہ ماہ اگست سے شروع ہوا،جموں کے اندر ہزاروں مسلمان جمع ہوئے۔جموں شہر کی مسلمان فلاحی تنظیموں نے ان کے رہنے اور کھانے پینے کا بندوست کیا۔ کچھ لوگ پاکستان کی جانب انفرادی طور پر چل پڑے۔جموں شہر میں مسلمان اکثریت میں تھے،ان میں اکثر لوگوں نے پاکستان ہجرت کرنے کا مصمم ارادہ کیا اور انتظامات کو آخری شکل دی۔ٹرانسپورٹ کی کمی تھی۔زیادہ تر لوگ پیدل سفر کرنے پر تیار ہوئے۔اسی دوران ڈوگرہ انتظامیہ نے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت اعلان کیا کہ پاکستان جانے والے خواہش مندوں کیلئے ٹرانسپورٹ کا خصوصی انتظامات کیا گیا ہے،،اس کے بعد انہیں ایک خاص مقام پر جمع ہونے کیلئے کہا گیا۔یہاں سے بسوں اور ٹرکوں میں لاد کر آگے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کربے دردی سے شہید کیا گیا۔مشہور صحافی راجہ افسر خان کہتے ہیں کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یکم اکتوبر 1947ء سے ہی جموں شہر کے ارد گرد مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا اور نومبر کے مہینے کے آخرتک تمام ا ضلاع میں مسلمان بستیاں نیست و نابود کی گئیں۔انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں دریائے توی کے ارد گرد شہید ہونے والے بے گناہ مسلمان مردوں،عورتوں،بچوںاور بزرگوں کی شہادت کی گواہ دریائے توی کے دو کنارے،اس میں بہنے والا پانی اور اوپر سے چلنے والی ہوا ئیں ہیں۔جموں توی کے علاقے میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون کیا گیا۔ڈوگرہ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ مقام پر ہزاروں مسلمان پاکستان جانے کیلئے جمع ہوئے۔ صحافی راجہ افسر خان مزید کہتے ہیں کہ جموں شہر سے روانہ ہونے والے قافلوں میں مرد،عورتیں،بچے بوڑھے،جوان،امیر غریب سب دل میں،,, پاکستان زندہ باد،، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ،،کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔5اور 6 نومبر 1947 ء کو پاکستان براستہ سیالکوٹ روانہ ہونے والے قافلوں کو بیدردی سے ایک منظم سازش کے تحت قتل کیا گیا۔پاکستانی سرحد کے قریب ایک جگہ ان قافلوں کا راستہ روکا گیا۔شرکاے قافلہ کو بندوقوں،شمشیروں،نیزوں،کلہاڑیوں،اور چھریوں سے تہہ تیغ کیا گیا۔قاتلوں میں ڈوگرہ حکومت کے اہلکار،آر ایس ایس ،جن سنگھ اور دیگر انتہا پسند گروہ ملوث تھے۔ بھارتی پنجاب کے انتہا پسند ہندو اور سکھ بھی ان قاتلوں میں شامل تھے۔ مشرقی پنجاب اور دہلی کے علاقوں میں اس وقت فرقہ وارانہ فسادات عروج پر تھے،ان علاقوں سے انتہا پسند ہندو جموں آکر آر ایس ایس اور جن سنگھ کی مسلم کش سازش میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔پہلے سے طے شدہ سازش کے تحت قافلوں میں موجود نوجوان اور جسمانی طور پر طاقتور افراد کو مارا گیا۔عورتوں کو اغوا کیا گیا،ضعیف مرد اور خواتین کو پاکستان کی جانب دھکیل دیا گیا۔جموں کے مسلمانوں کا قتل عام اور یکطرفہ فسادات تاریخ کے بدترین واقعات ہیں۔پورے صوبہ جموں میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے مکانوں میں آگ لگا کر جلا دیا گیا۔مسلمانوں کی قیمتی اشیاء چھین لی گئیں،بے شمار عورتوں کو اغوا کیا گیا،سینکڑوںخواتین کی آبرو ریزی بھی کی گئی۔مسلمانوں کی جائیدادوں پر قبضہ کیا گیا جو ابھی تک بدستور قائم ہے۔


اکتوبر نومبر 1947ء کے مہینوں میں فسادات اور ظلم نے ایک عام آدمی سے لے کر قومی راہنما چودھری غلام عباسؒ جیسے لوگوں کو بھی زخمی کردیا۔ان فسادات میں جموں شہر کا ہر گھر تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔سوال یہ ہے کہ اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے۔۔بھارت۔۔۔کیونکہ 13 جولائی 1931ء میں قتل عام کی ذمہ دار مملکت جموں و کشمیر کی’’ ـظالم و جابر‘‘ڈوگرہ حکومت تھی۔جبکہ 6 نومبر 1947 سے لیکر آج تک مسلم قتل وغارت گری کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔فسادات سے نو روز قبل 27اکتوبر1947 ء میں بھارت نے جموں و کشمیر میں فوجیں اتار کرقبضہ کیا تھا اور ڈوگرہ انتظامیہ کی باگ ڈور فوج کے ہاتھوں میں تھی اگر بھارت چاہتا تو کسی شہری کا ناخن تک نہ کٹتااور کسی کے چھت کی گھاس کا تنکا بھی نہ اڑتا،مگربھارت سامراج نے جموں کے اندر مسلمانوں کا قتل عام ایک طے شدہ سازش کے تحت کرایا۔مسلمانوں کو تہہ تیغ کرکے صوبہ جموں کو ہندو اکثریتی صوبہ بنا دیا گیا۔وادی کشمیر کے اندر مسلمان اکثریت میں ہونے کی وجہ سے بھارت جو کھیل وہاں نہ کھیل پاتا ہے وہ جموں میں کھیلتا ہے۔6 نومبر 1947ء کے قبیح و دلخراش اور وحشیانہ قتل عام کے متاثرین اور چشم دید گواہ اب بھی زندہ اور صحیح سلامت ہیں۔ان کی آنکھوں سے وہ تڑپتی جانیں،اغوا شدہ عورتیں کسی بھی طرح اوجھل نہیں ہونگی۔وہ جموں کے اس دلدوز سانحے پر گواہی پیش کرنے کیلئے تیار ہیں۔اگر یہودیوں،سربوںاور نازیوں پر کیے گئے مظالم پر موجودہ دور میں کسی ملک پر سپر پاور کی طرف سے فرد جرم عائد کر کے پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں تو بھارت پر جموں کے مسلمانوں کے قتل عام کے حوالے سے فرد جرم عائد کیوں نہیں کی جاسکتی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھائے اور بھارت پر پابندیاں عائد کروانے کیلئے کوششیں کرے اور اس قتل عام کوجنیوا کنونشن کے مطابق عالمی عدالت میں اٹھایا جائے تاکہ جموں کے بے گناہ لوگوں کا قتل عام کروانے والے درندوں کو سزائیں دلوائی جاسکیں۔
٭٭٭