شہبار بڈگامی
ارض فلسطین لہو لہاں ہے۔غزہ جو کہ اہل فلسطین کی مزاحمت کا استعارہ ہے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ 25 اکتوبر کی شام کو جب یہ سطور ماہنامہ کشمیر الیوم کیلئے لکھی جارہی تھیں اس دن کی صبح تک6800 سے زائدمعصوم فلسطینی مرتبہ شہادت پر فائز ہوچکے ہیں جن میں 2700 بچے اور 1500 خواتین شامل ہیں،جبکہ 17 اکتوبر کو الاہلی ہسپتال پر اسرائیلی بمباری میں 900 فلسطینی خواتین،بچے اور پیرا میڈیکل سٹاف بھی شہداء کا حصہ ہیں۔17000سے زائد زخموں سے چور ہیں۔دس سے بیس لاکھ فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں،دنیا اس ننگی جارحیت کا خاموش تماشہ دیکھ رہی ہے۔
مسئلہ فلسطین ہے کیا؟ یہ جاننا ضروری ہے۔1923 میں جب سلطنت عثمانیہ اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کی بے وفائی اور بے اعتنائی کے باعث شکست سے دوچار ہوئی تو سرزمین فلسطین جو برطانوی سامراج کی زیر تسلط تھی کو فرانس اور برطانیہ میں تقسیم کیا گیا۔اس سے قبل ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کی ذلت آمیز ہلاکت کے بعد برطانوی سامراج اسی طاق میں تھا کہ کسی طرح بچے کچھے یہودیوں کو کسی ایسی خطہ زمین پر بسایا جائے جہاں وہ کسی کے تابع فرمان نہ ہوں اور وہ کھل کر اپنی خصلت بد کا مظاہرہ کرسکیں۔بالآخر اس منحوس قوم کیلئے ارض فلسطین کا انتخاب کیا گیا۔اس کیلئے برطانوی شاطر جو شروع دن سے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا تھے کے کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس جو لارنس آف عربیہ کے نام سے بھی مشہور تھا 1914 میں پہلی عالمی جنگ میں عربوں کو یہ پٹی پڑھانے میں کامیاب ہوگیا کہ عربوں کو ترکوں پر برتری حاصل ہے اور انہی مسلمانوں بالخصوص عربوں اور فلسطینوں کی نمائندگی کرنے کا حق حاصل ہے۔ شریف مکہ حسین بن علی برطانوی کرنل کے جھانسے میں آیا ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو ترک صلیبیوں کے خلاف برسر پیکار تھے ا ن کی رسد روک دی گئی اورصرف چار دنوں میں 22000 ترک گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے۔لارنس چونکہ پہلے ہی سلطنتِ عثمانیہ میں شامل فلسطین اور شام کے علاقوں کے بارے میں وسیع معلومات رکھتے تھے اس لیے ترکی کے فوجیوں سے بہت جلد بے تکلف ہو کر ان سے ا فواج سے متعلق بہت سے باتیں معلوم کر لیا کرتے تھے۔ 1916 میں لارنس آف عربیہ برطانوی سفارت کار سر رونلڈ اسٹورس کے ساتھ ایک مشن پر عرب گئے جہاں ان کی ملاقات شریفِ مکہ حسین بن علی سے ہوئی۔سلطنتِ عثمانیہ میں حجاز پر، جہاں مسلمانوں کے دو مقدس ترین شہر مکہ اور مدینہ ہیں، پیغمبر اسلام علیہ السلام کے قبیلے بنو ہاشم سے تعلق رکھنے والے خاندان کا حکمران بنایا جاتا تھا اور یہ ‘شریفِ مکہ’ کہلاتے تھے۔


ترکی میں نوجوانانِ ترک کے نام سے شہرت پانے والا اصلاح پسند جماعتوں کا اتحاد قدم جما چکا تھا اور ان کی جانب سے نظامِ سلطنت میں کئی تبدیلیوں کا مطالبہ بھی کیا جا رہا تھا۔ اسی لیے شریفِ مکہ کو اپنی معزولی کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔جس کی بنا پر شریفِ مکہ حسین بن علی نے جون 1915 میں سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت شروع کر دی تھی جس کیلئے ایک اندازے کے مطابق مختلف عرب قبائل سے تعلق رکھنے والے 30 ہزار افراد کی فوج تیار کی گئی تھی۔مختلف مبصرین کا کہنا ہے کہ کرنل لارنس عثمانی افواج میں شامل عربوں کو بغاوت پر آسانی سے اکسانے میں کامیاب ہوا۔لارنس کو مغربی محاذ پر جنگ کی شدت کا احساس ہوا۔مصر اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں فوجی کارروائیوں کا محور تھا۔ لارنس کو اپنے مشاہدے کی بنیاد پر اندازہ ہو چکا تھا کہ مشرقی محاذ پر جرمنی کو روکنے کیلئے اس کے اتحادی ترکی کو کمزور کرنا ہو گا۔اس فوج کو شریفِ مکہ کے بیٹے علی، عبداللہ، فیصل اور زید کمانڈ کر رہے تھے۔ اس بغاوت میں حصہ لینے والوں کا تعلق جزیرہ نما عرب کے مغربی کنارے پر بسنے والے قبائل سے تھا۔مورخین کے مطابق سلطنت عثمانیہ کا انتظامی ڈھانچے اور معیشت سترھویں صدی میں بتدریج کمزور ہونا شروع ہو گئے تھے اور اس کے بعد یہی دو مسائل آنے والے حکمرانوں کیلئے بڑا چیلنج ثابت ہوئے۔یہی وجہ بنی کہ29 اکتوبر 1923؛ جب مصطفیٰ کمال اتا ترک نے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کیا۔ لارنس کو اس کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف کھڑی ہونے والی عرب بغاوت میں خاصا اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔ بلکہ لارنس نے خود یہ دعویٰ کیا کہ وہ اس تحریک کے دماغ بن گئے۔اُن کیلئے دوسرا اہم ہدف ترکوں کے خلاف گوریلا کارروائیاں منظم کرنا تھا جس میں خاص طور پر سامان رسد کی ترسیل میں خلل ڈالنے کیلئے پل اور پٹریاں تباہ کرنے کی کارروائیاں شامل تھیں۔ان کارروائیوں سے دمشق سے مدینہ تک ریل کی آمد و رفت کو محال بنا دیا گیا جس سے ترکوں کی رسد کے ساتھ ساتھ مزید فوجی کمک کا راستہ روک دیا گیا۔ اس کی وجہ سے وہ عرب باغیوں کے سامنے زیادہ دیر ٹھہر نہ سکے۔بعدازان1921میں اس سے برطانیہ کے وزیر نو آبادیات ونسٹن چرچل کا مشیر برائے عرب امور مقرر کیا گیا تھا۔ یوں ارض فلسطین کے سینے پر ایک ایسا خنجر گھونپا گیا جو گزشتہ سو برسوں سے معصوم فلسطینوں کے خون سے مسلسل رس رہا ہے۔اہل فلسطین کو بے یارو مدد گارچھوڑا گیا۔عرب جنہیں اہل فلسطین کا والی وارث بنانے کے خواب دکھائے گئے ترکوں کے خلاف بغاوت نے انہیں قیادت و سیادت سے یکسر محروم کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امت مسلمہ کا قبلہ اول یہود وہنود کے حملے کی زد میں ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر اہل فلسطین کو عبادت سے محروم بلکہ ان کا مسجد اقصی میں زدو کوب بھی کیا جاتا ہے۔اہل فلسطین کے کھیت و کھیلان تختہ و تاراج کیے جاچکے ہیں،زیتون کے باغات کو دن دیہاڑے بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ان کے رہائشی مکانوں کو بلڈوزروں سے ملیا میٹ کیاجاتا ہے۔نئی نئی یہودی بستیاں قائم کی جارہی ہیںجہاں یہ کمینہ خصلت یہودی زمینوں کے اصل مالکان فلسطینیوں کی عزت نفس کو ہر روز ٹھیس پہنچانے میںکوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔سعودی عرب سے اسرائیل کو تسلیم کرانے میں لاکھوں مسلمانوں کا قاتل امریکہ پیش پیش تھا کہ 07 اکتوبر کو تحریک مزاحمت فلسطین حماس کے اولالعزم مجاہدین نے ایک ایسی کاروائی کی ہے جس نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت سے دوچار کردیا۔حماس کی اس کاروائی پر سرکردہ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے بڑا معنی خیز جملہ لکھاـ;حماس نے اسرائیل کے خلاف ایک ایسی کاروائی کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ مشرقی وسطی میں ویٹو پاور کسی اور کے پاس نہیں بلکہ حماس کے پاس ہے؛نیویارک ٹائمز کے اس جملے کی تصدیق امریکی صدر جو بائیڈن نے یہ کہہ کر کی ہے کہ حماس نے امریکی ثالثی میں سعودی عرب اسرائیل امن معاہدے کو سبوتاژ کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سات اکتوبر کی کاروائی کے دوسرے ہی روز امریکی وزیر انٹونی بلکن اسرائیل پہنچا اور یہ جملہ کہنا مناسب سمجھا کہ وہ بھی یہودی ہے اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔دو دن بعد جو بائیڈن بھی اسرائیل پہنچا اور نہ صرف نیتن یاہو کو اہل فلسطین کی نسل کشی کرنے کی تھپکی دی بلکہ دو امریکی بحری بھیڑے بھی مشرق وسطی اسرائیل کی مدد کیلئے بھیجے اور اسرائیل کو تمام تر عسکری اور دوسری امداد دینے کااعلان کیا ،جس پر سعودی عرب کے فرمانروا ،مصری سیسی،اردن کے شاہ عبداللہ اور فلسطینی صدر محمود عباس نے تھوڑی بہت حمیت کا مظاہرہ کرکے بائیڈن سے ملنے سے انکار کیا۔امریکی پالتوبرطانوی وزیر اعظم رشی سونک جوکہ بھارتی نثراد ہیں بھی اسرائیلی سفاک نیتن یاہو سے ملنے گیا اور پھر بڑی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا وہ نیتن یاہو کو جیتا ہو ادیکھنا چاہتے ہیں۔
جس کے بعد اسرائیلی درندگی اپنی تمام حدو د کو پھلانگ چکی ہے ۔اہل فلسطین کے بن کھلے پھول یکے بعد دیگرے مرجاتے گئے اور الاہلی ہسپتال میں 900 شہدا کی موجودگی میں ڈاکٹروں کو پریس کانفرنس کرنا پڑی جو دنیا کی منفرد پریس کانفرنس تھی۔اہل فلسطین عملٔٔا کربلا سے گزر رہے ہیں۔ہم نے صرف کربلا کتابوں میں پڑھا اور مقرریں سے سن رکھا ہے مگر آج اس کا عملی مشاہدہ ارض فلسطین پر کیا جاسکتاہے جہاں خوراک،پانی ،بجلی،ایندھن اور دوائیاں درندہ صفت اسرائیل نے بند کی ہیں۔پوری غزہ پٹی کو محصور کیا جاچکا ہے اور اس سے ایک بڑی کھلی جیل میں تبدیل کیا گیا ہے ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیلی بربریت کا ذکر کیا کیا ہے انہیں اسرائیلیوں کی کھلی دھمکیوں کا سامنا ہے۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تنازعہ فلسطین سے متعلق پاکستان کی پالیسی اس وقت طے کی جب انہوں نے کہا تھا کہ ‘اسرائیل مغرب کی ناجائز اولاد ہے۔بانی پاکستان نے 8 نومبر 1945 میں فرمایا تھا کہ بھارتی مسلمان محض تماشائی بن کر نہیں رہیں گے بلکہ وہ فلسطین میں عربوں کی ہر ممکن مدد کریں گے۔آج مرد آہن اورمرشد جناب سید منور حسن بڑی شدت کے ساتھ یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ اسماعیل ہنہ کی حماس،حسن نصر اللہ کی حزب اللہ اور سید صلاح الدین کی حزب المجاہدین نے امت کا بھرم قائم رکھا ہے جو حالات کے تمام تر جبر کے باوجود صہیونی اور برہمن سامراج کے خلاف تاریخ کی لازوال جدوجہد کرتی ہیں۔



بھارت اور اسرائیل امن کے بدترین دشمن ہیں۔ان دونوں نے کشمیری اور فلسطینی عوام کو طاقت کی بنیاد پر غلام بنائے رکھا ہے او ر الٹا یہی ظالم اور سفاک مظلوم اور محکوم کشمیری اور فلسطینی عوام کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔یہ دونوں سفاک ممالک خود کو تمام عالمی قوانین اور مروجہ اصولوں سے ماورا سمجھتے ہیں۔مقبوضہ جموںوکشمیر اور فلسطین پر گزشتہ 7 دہائیوں سے وحشیانہ قبضے دنیا میں عدم استحکام کی بڑی وجہ ہیں۔قابض بھارت اور صہیونی اسرائیل مقبوضہ جموںو کشمیر اور فلسطین میں بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ہندوتوا بھارت اور صیہونی اسرائیل دونوں کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی کے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔مقبوضہ جموںوکشمیر اور فلسطین جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین شکل کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔مودی اور نیتن یاہو نے مسلمانوں کو مارنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے۔نیتن یاہو اور مودی نسل پرست ہیں۔فاشزم نیتن یاہو اور مودی کا نظریہ ہے۔بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنے آباد کار نوآبادیاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے فلسطین میں اسرائیلی پالیسیوں پر عمل پیراہے۔بھارت اور اسرائیل کے مقبوضہ جموںوکشمیر اور فلسطین میں غیر قانونی اوریکطرفہ اقدامات اقوام متحدہ کی ساکھ کو ختم کر رہے ہیں۔بھارت اور اسرائیل کے درمیان قریبی فوجی تعاون انسانیت اور عالمی امن کیلئے خطرہ ہے۔ مودی اورنیتن یاہو کو معلوم ہونا چاہئے کہ ظلم و جبر کا کوئی بھی حربہ اہل کشمیر اور اہل فلسطین کے غاصبانہ اور ناجائزقبضوں کے خلاف ان کی مزاحمت کرنے کی خواہش کو توڑنہیں سکتا۔اگر اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے بارے میں اپنی قرارداد وںپر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہا تو اس کی رہی سہی ساکھ پر دھبہ لگ جائے گا۔وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ اب گہری نیند سے بیدار اور مسئلہ کشمیر اورفلسطین کے تنازعات کو اپنی منظور شدہ قراردادوں اور دونوں عوام کی امنگوںا ور خواہشات کے مطابق حل کرے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔دنیا میں اس وقت تک پائیدار امن ممکن نہیں جب تک مقبوضہ جموںو کشمیر اور فلسطین کے تنازعات مقبوضہ سرزمین کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہوتے۔دنیا کا فرض ہے کہ وہ کشمیری اور فلسطینی عوام کو بھارت اور اسرائیل کے جابرانہ چنگل سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرے۔فلسطین میںاقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسیسکا البانیز کے مطابق اسرائیلی فوجی فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کے قریب پہنچ چکے ہیں اس سے پہلے کہ ہمارے پاس واپسی کا راستہ نہ رہ جائے۔البانیز کے بقول اسرائیلی حکومتی عہدیدار کھلے عام ایک اور نکبہ کا پرچار کر رہے ہیں، نکبہ کی اصطلاح 1947 سے 1949کے دوران پیش آنے والے واقعات کیلئے استعمال ہوتی ہے جب 7 لاکھ 50 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور اپنی سرزمین سے بے دخل کیا گیا اور اس کے نتیجے میں ناجائز اسرائیل وجود میں آیا تھا۔ آج مشرقِ وسطیٰ کا جو نقشہ ہم دیکھتے ہیں اس پر کئی ممالک نظر آتے ہیں۔ عراق، شام، اُردن اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک میں تقسیم یہ خطہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔پہلی جنگِ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں نے اپنے مدِ مقابل سلطنتِ عثمانیہ اور جرمنی کو پسپا کرنے کیلئے جو فیصلے کیے وہ اس خطے میں نقشوں پر نئے ممالک کی شکل میں سامنے آئے۔
٭٭٭
محمدشہباز بڈگامی معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔