.11000س. 11000 سال پہلے مالی ،مذہبی اور جسمانی طور پر مضبوط افراد نے کمزور لوگوں کو اپنے تابع رکھ کر محکومی اور غلامی کا رواج متعارف کروایا
امریکہ میں کالوں (افریقی باشندوں) کو 1965 میں مارٹن لوتھر کنگ کی کوششوں سے انسان تسلیم کر کے ووٹ دینے کا حق دیا گیا
ریاست جموں و کشمیر صدیوں سے آزاد ریاست تھی، اسے بھی یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی مرضی سے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرے
کشمیری عوام کے جذبات و عزائم میں تلاطم ہے۔اس کی شدت روز افزوں ہے

شہزاد منیر احمد
غلامی اور محکومی کا ماخذ ہمیشہ سے کم مایہ اور بے وسیلہ افراد کی محنت کا صلہ اور معاوضہ پا کر عیش و عشرت کی زندگی گزارنا رہا ہے۔ غلامی اور محکومی کی ثقافت میں نہ انسانیت پیش نظر ہوتی ہے نہ انسان کی قدر و قیمت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جابر حاکم اپنے غاصبانہ اور ظالمانہ رویے پر نہ شرمندہ ہوتا ہے نہ پشیمان کہ اسے اپنی لذت دہن و ذہن اور مفادات عزیز تر ہوتے ہیں۔ مورخ لکھتے ہیں:-بادشاہت کے زمانے اور اس سے پہلے پتھر اور دھات کے زمانے سے لے کر آج تک جتنے بھی ادوار گزرے ہیں، غلاموں کی تجارت کو بہت بڑا فعل سمجھا جاتا تھا۔
جابر و بے حس لوگ غلام لے کر جہازوں میں پھرتے تھے انہیں منڈیوں میں فروخت کر کے پیسے کھرے کرتے اور چلے جاتے۔ اس بردہ فروشی کے اثرات اس غلام سے لے کر اس کے خاندان اور معاشرے پر پڑنے والے منفی اثرات پر ذرا غور کریں تو بندہ دھنگ رہ جاتا ہے کہ اشرف المخلوقات کے ساتھ اذیتوں بھرا یہ سلوک، استغفرُللہ۔
ایسی ہی دردناک کہانی کا ایک کردار حضرت یوسف علیہ السلام بھی رہے جو نہ صرف خود جلیل القدر پیغمبر تھے بلکہ پیغمبر کی اولاد بھی تھے۔
غلامی، محکومی اور انسانی تجارت کے خلاف سب سے پہلی جو آواز اٹھی وہ نبی کریم ﷺ رحمت العالمین کی تھی۔ آپ نے انسانی تجارت کو ایک قبیح رسم بتا کر مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ اپنی بساط سے روکنے کی کوشش کریں۔ دین اسلام میں غلام آزاد کرنے پر معاشرے میں محبت،اخوت اور ہمدردی پھیلتی ہے۔ اللہ الرحمٰن کی طرف سے بہت بڑا ثواب اور اللہ کریم کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔
مسئلہ کشمیر
برطانیہ جو اس مسئلے کا سب سے بڑا سبب ہے وہ اور بھارت چونکہ تاریخی ممالک ہیں ان کے سفارتی تعلقات پاکستان کی نسبت زیادہ پرانے اور مضبوط رہے ہیں اس لیے وہ اقوام متحدہ میں امریکی شہہ اور یورپین ممالک کی سپورٹ سے اپنی بات منوانے میں کامیاب رہتے ہیں۔۔
تقدیر کے قاضی کا فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
یوں بھی انسانی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں چلتی آئی ہیں اور آج بھی موجود ہیں کہ بڑے بڑے حکمرانوں،شہنشاہوں، بادشاہوں اور سلطنتوں نے اپنے گھمنڈ اور تکبر کی خاطر چھوٹی اور کمزور مملکتوں پر راجدھانیوں اور شہروں پر بڑھ چڑھ کر حملے کیے۔ ان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کیا اور عوام کو ذلیل و رسواء کرنے کی نیت سے ایسا کیا۔ مسئلہ کشمیر کئی اعتبار سے منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ غالبا یہ اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر سب سے پرانا مقدمہ ہے جس کا نہ صرف فیصلہ نہیں ہو سکا بلکہ ابھی تک اس کے حل ہونے کے امکانات بھی دور دور تک نظر نہیں اتے۔
مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ حساس ترین مسئلہ بھی مانتی ہیں، عالمی امن کیلئے خطرناک ایشو بھی تسلیم کرتی ہے لیکن ان سب عوامل و عناصر کے باوجود اس مسلے کو حل کرنے کیلئے اس تشویش اور فکر مندی کا مظاہرہ نہیں کرتی جو یہ مسئلہ تقاضا کرتا ہے۔

مسئلہ کشمیر پر دونوں ممالک تین چار جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ان جنگوں کی وجہ سے پاکستان میں اقتصادی ترقی بری طرح متاثر ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ لڑنے سے بہت سارے قومی وسائل کا ضیاع ہونے سے ملک کمزور ہوتا ہے۔ لیکن اگر ملکی وسائل کو بہتر جنگی حکمت عملی سے استعمال میں لایا جائے تو وسائل ضائع نہیں ہوتے بلکہ قوم اور محنتی اور مضبوط ہوتی ہے۔ پچھلی ایک صدی سے سب سے زیادہ طویل جنگیں جرمنی، جاپان اور کوریا نے لڑی ہیں، پھر بھی وہ ترقی یافتہ ممالک کی پہلی صف میں کھڑے ہیں۔ جب مسلمان جہادی جنگوں میں مصروف تھے وہی زمانہ مسلمانوں کی ترقی اور عروج کا زمانہ تھا۔ جب سے بزدلی اور سہل پسندی بلکہ جنگ سے ڈرنے اور خوف میں مبتلا ہیں پسماندگی ان سب کا مقدر بن گئی ہے۔ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی میں کشمکشِ زندگی بڑی اہم ہوتی ہے۔
ظاہر ہے ایسے حالات میں تحریکِ آزادی کشمیر کی سرگرمیوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے لیکن جذبہ حریت میں ہرگز کمی نہیں دیکھی جاتی۔۔
ہم تو نادیدہ خوف کی گھٹی میں پلے ہیں
بہادر ماؤں نے کیسے کیسے سپوت جنے ہیں
تباہ شدہ گھر میں بیٹھ کر تلاوت قرآن پاک
نہیں معلوم اس معصوم نے کتنے درد سہے ہیں
میرے ہاتھ میں پتھر، ہمت ہے تو چلاؤ گولی
سبحان اللہ،کس جرآت سے یہ الفاظ کہے ہیں
تحریک آزادی کی روشن منزلوں کے جری شہید ہو کر مجاہدوں سے اوجھل بھی زندہ رہے ہیں
صرف انہیں کا مقدر، کشمکش حیات کا الہام
جو خشوع و خضوع سے اللہ کے حضور رہے ہیں
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جنگ آزادی کشمیر کے سلسلے میں جو جو بھی امن بحالی اور کشمیری عوام کی آزادی کیلئے کوششیں کی گئیں سب لا حاصل ثابت ہوئی ہیں۔ ہندوستان نے اپنے جبر و تشدد ظلم و نا انصافیوں کی پالیسیوں میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں لائی۔میں سمجھتا ہوں کہ بین الاقوامی (اقوام متحدہ) کے دباؤ کے بغیر ہندوستان اپنی استبدادی پالیسیوں کو ختم نہیں کرے گا اور مسئلہ کشمیر بھی حل نہیں ہوگا۔ بھارت کو بین الاقوامی جواب دہی کے کٹہرے میں اگر کوئی کھڑا کراتا ہے تو وہ مسئلہ کشمیر ہے۔اس لیے اس کی ہر جائز نا جائز کوشش ہے کہ کشمیری عوام کی آواز بند کی جائے تاکہ تحریک آزادی کشمیر ختم ہو جائے، مگر کشمیری عوام اور پاکستان ایسا کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔

٭٭٭
شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں