غزہ اور عالم اسلام

غلام اللہ کیانی

غزہ، مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کو اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ نسل کشی سے بچانے کیلئے اقوام متحدہ ابھی تک اپنی امن فورس تعینات نہیں کر سکا ہے۔اب جنوبی افریقہ نے بھی یو این امن فورس تعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ کی سرپرستی میں تازہ اسرائیلی جارحیت میںمظلوم خواتین، بچوںسمیت شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اگر اسرائیل قتل عام سے حماس کو کچلنے میں کامیاب بھی ہو گیا تو اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت کو کبھی کچلا نہیں جا سکتا بلکہ اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔فلسطین پر 7 دہائیوں کے وحشیانہ اسرائیلی جارحانہ قبضے کے باعث حالات نے یہ کروٹ لی۔ جس طرح بھارت نے مقبوضہ جموںو کشمیر پر جارحانہ قبضہ کیا اسی طرح اسرائیل بھی فلسطینیوں کے خلاف حالتِ جنگ میں ہے۔وہ فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، صیہونی آبادکاروں کے تشدد، انسانی حقوق کی شدیدخلاف ورزیوں، قبلہ اول سمیت مقدس اسلامی مقامات کی بے حرمتی اور نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کررہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سلامتی کونسل میں تسلیم کرتے ہیں کہ 76برسوں سے فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل نے قبضہ کیا ہوا ہے، ان کی زمینوں پر، کاروبار پر، ان کی مساجد پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے حماس کے حملے کوفلسطینی عوام کے قتل عام کے جواز کے طور پر پیش کرنے پر تنقید کی تو اسرائیل نے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے ایک سفارت کار جوزف بوریل نے غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ۔ غزہ کیلئے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کرکے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کردی ۔ اسرائیلی افواج نے 17 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کی دھمکی دی ۔ اقوامِ متحدہ تباہ کُن نتائج کیلئے خبردارکر رہا ہے اور اب غزہ میں لوگوں کو ایک بڑے انسانی المیے کا سامنا ہے۔اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی عمل دخل ہے۔آئرلینڈ کی اسمبلی کی خاتون رکن کا کہنا ہے کہ 2006 سے 2023 تک غزہ محاصرے میں رہا اور اس محاصرے میں ڈھائی لاکھ سے زائد فلسطینی شہیدہوئے جن میں 33 ہزار مائیں، بچے اور بیٹیاں شامل ہیں۔
7 اکتوبر سے آج تک16000ہزارسے زائد لوگ شہید ہوچکے ہیں، ہسپتالوں ، اسکولوں، کھیلوں کے میدانوں پر بمباری، شہری آبادی پر بمباری۔نوہزار سے زیادہ صرف ہماری مائیں اور بچے شہید ہو چکے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ،حضرت عمر،حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کا دور ہوتا یاصلاح الدین ایوبیؒ،طارق بن زیادؒ، امیر تیمورؒ،محمد بن قاسمؒ کا دور ہوتا تو کیا وہ اسرائیل کے خلاف اعلان جہاد نہ کرتے یا وہ امریکا کی طرف دیکھنا شروع کر تے۔ اسرائیل کے مقابلے میں غزہ کے مظلوم مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا تو کل مظلوموں کے ہاتھ ہوں گے اور مسلم حکمرانوں کے گریبان ہوں گے۔ زمانے کے میر جعفر، میر صادق ، غدار ابن غدارکون قرار دیئے جائیں گے۔اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بیدخل کیا ۔انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا ۔ انہیں ظلم وجبر، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا نشانہ بنایا ۔شہری اور دیہی بستیوں کو مسمار کردیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کیلئے راہ ہموار کی گئی۔ ان بدترین مظالم نے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کوگوناں گوں مصائب و آلام میں مبتلا کر دیا۔غزہ کی 22 لاکھ سے بھی زیادہ آبادی گزشتہ 16 برسوںسے اسرائیل کی مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کررہی ہے اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو اجیرن بنادیا ہے۔کشمیری عوام کی طرح وہ بھی ایسے علاقے میں رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ قرار دیاجاتا ہے۔ظلم و جبر اورناانصافیوں کی تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔
حماس سیاسی اور عسکری مزاحمتی فلسطینی تحریک ہے ۔ یہ نام حرکۃ المقاومۃ الإسلامیۃ یا اسلامی مزاحمتی تحریک کا مخفف ہے۔اس کا غزہ کی پٹی پر تسلط ہے ۔ یہ گروپ مغربی کنارے میں بھی موجودہے جو فتح گروپ کے قابو میں ہے۔ فلسطین لبریشن آرگنائزیشنPLO سیکولر اپروچ کے مقابلے میں حماس کو 1987میں قائم کیا گیا۔اسرائیل کی وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائیوں نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کیا ہے۔ اسرائیل نے ’دردناک انتقام‘ کے نام پر غزہ کا محاصرہ کیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی کے نہتے عوام پر کررہا ہے۔ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں پربمباری کررہا ہے جوکہ بدترین جنگی جرائم ہیں۔ اس بمباری سے بچوں سمیت کئی ہزار فلسطینی شہید ہوئے ۔ 17لاکھ سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں۔ہزاروں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے دفن ہیں جنہیں لا پتہ قرار دیا جا رہا ہے۔
فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس موقف کی غیرمشروط حمایت سے زیادہ وکالت اور تشہیر کررہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے،وہ اسرائیل کو مکمل فوجی تعاون فراہم کر رہاہے۔اس نے مشرقی بحیرہ روم میں دو طیارہ بردار بحری جہاز تعینات کیے اور اسرائیل کو تباہی پھیلانے والے ’جدید ہتھیار‘ بھی دیئے ہیں۔کوئی بھی شخص ایسے کسی بھی اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا جس کے تحت دونوں جانب نہتے شہری مارے گئے ۔مغربی ممالک کی حکومتوں نے اسرائیلیوں کی اموات پر غم و غصے کا اظہار کیا مگر بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام پر وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔
ایک طرف اسرائیلی بمباری سے فلسطینی آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن (او آئی سی) کے بیان میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ ان حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرچکے ہیں، یا دوستی کے خواہاں ہیں ،سے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کا کہا گیا۔ اسی چاپلوسانہ پالیسی نے اسرائیل کو حوصلہ دیا اور وہ آزادی سے غزہ میں حملوں کا سلسلہ جاری رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس طلب ہوا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کرکے خاموشی اختیار کرلی۔ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی۔ مغربی ممالک کی خواہش ہے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے تاکہ اسرائیل کی جارحیت جاری رہے۔8اکتوبر کے اجلاس میںروس جنگ بندی اور بامعنی مذاکرات کیلئے دباؤ ڈالتا رہا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو سلامتی کونسل کا اجلاس بھی شدید اختلافات کی نذر ہو گیا۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کیلئے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنی امریکا، برطانیہ اور فرانس نے کوئی توجہ نہ دی ۔یوں سلامتی کونسل اسرائیلی تشدد روکنے میں اپنا فرض ادا نہیں کرسکی۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ اقوامِ متحدہ قتل عام بند کرانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر بھی تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے پر موجود ہے۔
تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ فوجی طاقت اور ظلم وجبر سے مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا یا جاسکتا۔ اسرائیل کے وحشیانہ مظالم پر مغربی میڈیا کی یکطرفہ اور متعصبانہ رپورٹنگ نے اس کی معروضیت کے دعوئوں کو بے نقاب کر دیاہے۔اسرائیل سچائی کو توڑ مروڑ کر پیش کررہا ہے۔ ایک جانب مغربی میڈیا حماس کے حملے کی کوریج زیادہ کر رہا ہے دوسری جانب غزہ میں بمباری سے ہونے والی تباہی اور ہزاروں مظلوم فلسطینیوں کی اموات جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، کو انتہائی کم کوریج دی جارہی ہے۔اسرائیل کے جنگی جرائم کا دفاع اس جملے سے کیا جارہا ہے کہ ’اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردینے والی اس وحشیانہ بمباری کے دوران 64 عرب صحافیوں کے قتل عام پر بھی مغربی میڈیا کی جانب سے کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا۔ آزادی اور جمہوریت کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا یہ دوہرا معیار چونکا دینے والا ہے۔ مغربی صحافیوں کی بڑی تعداد اسرائیل سے کوریج کررہی ہے۔ گنتی کے چند صحافی غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے کی فیلڈ رپورٹنگ کررہے ہیں۔ میڈیا تصویر کا ایک ہی رخ دنیا کو دکھا رہا ہے۔ میڈیا رپورٹنگ کا بڑا حصہ متعصبانہ طور پر صیہونی غاصبوں کی طرف داری کررہا ہے۔ مغربی میڈیا 7 اکتوبر کے واقعات کی صرف حماس کے حملے کے طور پر منظر کشی کرتا ہے۔ اس حملے کے پیچھے موجود اصل وجہ یعنی فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد کے پہلو کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جارہا ہے۔اسرائیلی بچوں کے سر قلم کرنے کی غیرمصدقہ خبروں سے مغرب کے جذبات کو بھڑکایا گیا اور غزہ پٹی پر بسنے والے 23 لاکھ لوگوں کو طاقت سے کچلنے کے منصوبے پر عمل درآمد کیلئے اس جھوٹے جواز کو استعمال کیا گیا۔ کچھ اسرائیلی رہنما اور مغربی میڈیا کے تجزیہ کار حماس کے حملے کو /11 9 کے حملوں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ غزہ میں اس وقت جو قیامت ڈھائی جارہی ہے، ماضی قریب میں ہمیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ نوآبادیاتی قوت مظلوم اور محکوم آبادی کی نسل کشی کر رہی ہے جس سے بدتر کوئی امر نہیں ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل، غزہ اور لبنان میں اپنی عسکری کارروائیوں میں وائٹ فاسفورس کا استعمال کررہا ہے جس سے عام شہری سنگین اور دیرپا زخموں سے دوچار ہوسکتے ہیں۔دنیا کی گنجان ترین آبادیوں میں سے ایک غزہ پر وائٹ فاسفورس کے استعمال سے وہاں کی آبادی کیلئے خطرات بڑھ جاتے ہیں ۔ یہ شہریوں کو غیرضروری طور پر خطرے میں نہ ڈالنے کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے‘۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی حالیہ فضائی بمباری سے سینکڑوں بچے قتل اور زخمی ہوچکے ہیں۔ ’تصاویر اور خبروں سے صورتحال واضح ہے، بچوں پر جلنے کے خوفناک نشانات ہیں، وہ بمباری سے زخمی اور اعضا سے محروم ہوئے ہیں‘۔ ان کی تعداد میں ہر لمحے اضافہ ہورہا ہے۔
غزہ کے انسانی المیے کو نظرانداز کرتے ہوئے مغربی میڈیااسرائیل کے فوجی ایکشن کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ حقائق کو مسخ کرکے مغربی میڈیا پروپیگنڈا پھیلانے میں ان لوگوں کا آلہ کار بن رہا ہے جو جنگ کے خواہش مند ہیں۔ ان کی معروضی صحافت کا مقصد صرف اپنے حکمرانوں کی اسرائیلی حمایت کی غیرمبہم پالیسی کی حمایت کرنا ہے۔الیکٹرانک میڈیا پر جیسے کوئی ورچول سنسرشپ عائد ہے اور یہاں منطقی خیالات کیلئے جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کے معروف ٹی وی نیٹ ورک ایم ایس این بی سی نے 3 مسلمان اینکرز کونوکری سے نکال دیا کیونکہ وہ غزہ میں محصور عوام کی حالت زار اپنے شو کے ذریعے دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہے تھے۔ عرب نیوز کے مطابق ایک صحافی نے کہا کہ ’یہ بلکل 9 ستمبر کے بعد کا دور لگ رہا ہے کہ یا تو اس بحث میں آپ ہمارے ساتھ ہیں یا پھر ہمارے خلاف‘۔ بی بی سی ٹی وی کی رپورٹ میں فلسطینیوں کی حمایت میں کئے جانے والے مظاہرے کو ’حماس کی حمایت میں مظاہرے‘ کے طور پر بیان کیا گیا۔ بعدازاں ادارے نے عوام کو گمراہ کرنے کا اعتراف کیا لیکن اس پر معذرت نہیں کی۔ یورپی ممالک بشمول فرانس، جرمنی اور اٹلی نے مظاہروں پر پابندی لگادی لیکن پابندی کے باوجود لوگ جنگی جرائم کا شکار ہونے والے فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں نکال رہے ہیں اور ان سے اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں۔ غزہ میں خراب ہوتی صورتحال سے عوام کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہوگا۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم پر مغربی مین اسٹریم میڈیا آنکھیں بند کئے ہوئے ہے لیکن اسرائیلی بمباری سے ہونے والی تباہی کی سوشل میڈیا اور الجزیرہ جیسے چند میڈیا نیٹ ورکس بھرپور کوریج کررہے ہیں۔ مگر اب ان پلیٹ فارمز کو بھی غزہ میں قتلِ عام کی رپورٹنگ اور تبصرے کرنے سے روکنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔نیو یارک ٹائمز کی پلٹزر انعام یافتہ تحقیقاتی رپورٹر اور کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر عظمت خان کہتی ہیں کہ انسٹاگرام اسٹوری پر غزہ میں جنگ کے حوالے سے پوسٹ کرنے پر ان کے اکاؤنٹ کو ’شیڈوبین‘ کردیا گیا۔ وہ ایکس پر لکھتی ہیں کہ ’یہ جنگ میں معتبر صحافت اور معلومات کے تبادلے کیلئے غیرمعمولی خطرہ ہے‘۔غزہ پر اسرائیل کی بلاتعطل بمباری، اسے فلسطینی بچوں کا مقتل بنانے اور لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرنے کے دوران نیو یارک ٹائمز کے اداریے میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ ’اسرائیل جس کے دفاع کیلئے لڑ رہا ہے وہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو انسانی زندگی اور قانون کی حکمرانی کو اہمیت دیتا ہے‘۔ایک ایسا اخبار جو جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے، اس کے ایڈیٹرز جرائم کی مرتکب نسل پرست حکومت کا دفاع کر رہے ہیں جس سے زیادہ عجیب کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس اداریئے میں اسرائیلیوں کی طرف سے فلسطینی سرزمین کو نوآبادی بنانے اور وہاں کے باشندوں کو بے گھر کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ۔ نیو یارک ٹائمز آخر کس قانون کی حکمرانی کی بات کررہا ہے؟ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے ، اسرائیلی خواتین اور بچوں کے اغوا کی مذمت کرتے ہوئے ایڈیٹرز نے جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظرانداز کیا کہ اسرائیل کے پاس 5 ہزار فلسطینی قیدی ہیں۔شہری آبادی پر فاسفورس بموں کا استعمال اور لاکھوں لوگوں کو خوراک سے محروم رکھنا، کیا یہ ایک ایسے ملک کی روش ہوسکتی ہے جو انسانی زندگی کو اہمیت دیتا ہے؟ اس طرح کے دوغلے پن اور مغرب کی حمایت نے اسرائیل کی مزید حوصلہ افزائی کی ہے اور حالات کو پہلے سے زیادہ غیر مستحکم کیا ہے۔

عرب دنیا سنجیدہ نہیں۔ وہ مفادات کا پیچھا کر رہی ہے ۔اسرائیل سے 4 عرب ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں ۔اردن کی آبادی 63 لاکھ ہے۔ شام کی آبادی 2 کروڑ 24 لاکھ ہے۔ لبنان کی آبادی 44 لاکھ ہے اورمصر کی آبادی 8 کروڑ 45 لاکھ ہے اور غزہ سے مصر کی 12 کلومیٹر کی سرحد رفح ملتی ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کی کل آبادی 95 لاکھ ہے جو صرف پاکستانی شہر کراچی کی آبادی کا 37 فی صد بنتی ہے ۔اسرائیل کے پڑوسی
ممالک کے مسلمانوں کی آبادی 11 کروڑ 76 لاکھ ہے جس کے مقابلہ میں اسرائیل کی آبادی 7 فی صد ہے ۔بیت المقدس کی آزادی صرف عربوں کا مسئلہ نہیں ، ہر کلمہ گو مسلمان کا مسئلہ ہے۔ غزہ کے مسلمانوں کو بچانے کیلئے حماس کے مجاہدین کو ہتھیار فراہم کرنا ان کا مسئلہ نہیں۔پاکستان میں جماعت اسلامی نے امریکی سفارتخانے کے سامنے غزہ مارچ کا اعلان کیا تو امریکی نائب وزیر خارجہ کی ایک فون کال پر اسلام آباد کی سڑکوں پر جماعت کے کارکنان پر تشدد کیاگیا۔ سڑکوں اور گلیوں سے پوسٹرز اور بینرز، مسجد اقصٰی کے پوسٹرز پھاڑ دیئے گئے۔کیا بیت المقدس کی آزادی کا جہاد صرف عربوں کا مسئلہ ہے یا ہر کلمہ گو مسلمان کا مسئلہ ہے۔ دنیا بھر کے باضمیر مسلمانوں نے دنیا کے ہر شہر میں عظیم الشان مظاہرے کر کے فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیا۔جب اسلام آباد میں مظاہرین پر لاٹھیاں برسا ئی جا رہی تھیں تو اسی وقت ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان استنبول میں لاکھوں مرد وزن کے جلسے کی قیادت کر کے اسرائیل کو پیغام دے رہے تھے کہ حماس لاوارث نہیں ہے، حماس دہشت گرد نہیں ہے۔یہی امریکہ ہے جس نے عراق کے سابق صدر صدام حسین کوعیدالاضحٰی کے دن پھانسی دی۔مغل شہنشاہ کو اپنے ملک میں قبر کیلئے جگہ نہیں ملی۔ ایران کے رضا شاہ پہلوی کو اپنے ہی ایران میں دفن ہونے کیلئے دو گز قبر کی جگہ نہیں ملی۔ پاکستان کے پڑوس میں افغان سرفروشوں نے ناقابل شکست سمجھے جانے والی سوپر پاورز کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔اسرائیل اور بھارت کو بھی عبرتناک شکست ہو گی۔

٭٭٭

غلام اللہ کیانی

غلام اللہ کیانی معروف کشمیری صحافی، دانشوراور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔