صیہونی تحریک

پروفیسر میاں عبد الحمید

صہیون یروشلم کے قریب ایک پہاڑ ہے جہاں حضرت داوود ؑ نے ایک قلعہ اور چھائونی تعمیر کی تھی ۔ حضرت داوود ؑ کی سلطنت ایک عظیم سلطنت تھی جس میں یروشلم کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور اس سلطنت کی حد فلسطین، عراق، شام، اردن اور مدینہ منور تک تھیں اور یہی یہودیوں کے عروج کا زمانہ تھا ۔ جبل صہیون اور اس عظیم سلطنت کی نسبت سے انہوں نے اپنی جدید تحریک کو صیہونیت کا نام دیا اور اس کا بنیادی مقصد اسی وسیع و عریض یہودی سلطنت کا احیاء ہے جس کا نام انہوں نے اسرئیل رکھا ہے۔اسرائیل حضرت یعقوب ؑ کا لقب تھا۔ جس کے معنی ہے’’ اللہ کا بندہ ‘‘ یہ لقب ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو ا تھا ۔ یہ حضرت ابراہیم کے پوتے اور حضرت اسحاق ؑ کے بیٹے تھے ۔ حضرت یعقوب کے بڑے بیٹے کا نام یہودا تھا جس کی نسبت سے بنی اسرائیل یہودی معروف ہوئے۔
یہودیوں کے آبائی وطن کے حوالے سے خاصا اختلاف پایا جاتا ہے بالعموم ان کا آبائی علاقہ عراق سمجھا جاتا ہے جہاں دریائے فرات کے کنارے یہ آبادتھے یہیں کے شہراُر میں حضرت ابراہیم ؑ مقیم تھے اور یہیں سے آپ ؑ نے حضرت اسحا ق ؑ کوفلسطین میں تبلیغ کیلئے بھیجا تھا۔ حضرت یوسف ؑ کے توسط سے یہ مصر میں آباد ہوئے جہاں فرعون کے تسلط میں آئے۔ حضرت موسیٰ ؑنے انہیں آزاد کرانا چاہا اور اس حوالے سے قرآن کریم میں ان کی قبیح عادات و خصائل اور اللہ کے احسانات کا تذکرہ ہے اور یہ صحرائے سینا میں کئی سال مارے مارے پھرتے رہے بالآخر حضرت یوشع ؑ کے ذریعے یہ فلسطین پر قابض ہوئے اور وہاں حضرت صالح ؑ ، حضرت داوود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے دور کی عظیم سلطنت قائم ہوئی جس کے احیاء کا انہوں نے بیڑہ اُٹھا رکھا ہے ۔ حضرت سلیمان ہی کے دور میںیروشلم کے اس علاقے میں ہیکل سلیمانی تعمیر ہو ا تھا۔ آٹھویں صدی قبل مسیح میں آشوریوں نے شمالی فلسطین اور چھٹی صدی ق م بابل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی حصہ پر قبضہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہیکل سلیمانی کو بھی تباہ کر دیا پھر ایرانی یہاں غالب آئے جن کے دور میں یہودی دوبارہ آباد ہوئے اور ہیکل سلیمانی تعمیر کیا۔ 70ء میں یہودیوں نے رومیوں کے خلاف بغاوت کی جس کے نتیجے میں ہیکل سلیمانی پھر مسمار ہوا اور یہ منتشر ہوئے۔ حضرت عمر ؓ کے دور میں رومی عیسائی یہاں قابض تھے جن سے بیت المقدس کو آزاد کرا لیا گیا تھا بعد میں بیت المقدس کے حوالے سے مسلمانوں اور عیسائیوں میںصلیبی جنگوں کا سلسلہ جاری رہا جس کی باز گشت اب بھی سنائی دیتی ہے ۔
یہودی کم و بیش دو ہزار سال سے فلسطین میں آباد ہونا چارہے تھے اور ان کا دعوی ٰ ہے کہ یہ ارض مقدس انہیں اللہ تعالیٰ نے ورثہ میں دی ہے-31 29 جولائی 1897ء کو تھیوڈر ہرزل کی تحریک پر سوئیرزلینڈ کے شہرباسل میں پوری دنیا سے ان کے تین سو نمائندے اکھٹے ہوئے اور پہلی صیہونی کانفرنس منعقد ہوئی جس میںیہودی قومی مملکت کا قیام کا فیصلہ ہوانیز یہاں پوری دنیا سے لا کر یہودیوں کی آباد کاری ان کے مختلف اداروں کے ذریعے تنظیم سازی ، یہودی جذبے اور خود آگاہی کے فروغ اور صیہونی مقاصد کے حصول کیلئے جہاں ضروری ہو حکومت کی اجازت حاصل کرنا طے پایا اس کانفرنس میں یہودیوں کو عبرانی زبان اپنانے کا کہا گیا اور فلسطین کے بجائے اس مملکت کا نام اسرئیل رکھا گیا علاوہ ازیں پروٹوکول کے نام سے پوری دنیا میں افراتفری کا ایک منصوبہ بنایا گیا تاکہ اپنے مقاصد کے حصول میں آسانی ہو سکے ۔ یہ تحریک ہر حوالے سے مذہبی تھی اس لئے اسے Back to Zion بھی کہا جاتاہے

یہودیوں نے اس طے شدہ پروگرام یعنی صیہونی تحریک کے تحت فلسطین میں آبادکاری کی کوششیں شروع کر دیں اور اپنے مقاصد کے حصول کیلئے بین الاقوامی سطح پر رابطے شروع کیے۔ فلسطین اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ تھیوڈر ہرزل نے سلطان عبدالحمید سے فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کے عوض تمام قرضہ جات ادا کرنے کی پیش کش کی جسے سلطان نے یہ کہتے ہوئے حقارت سے ٹھکرادیا کہ تمہاری ساری دولت کے عوض فلسطین کی ایک انچ جگہ بھی نہیں دوں گا ۔ پھر اس یہودی رہنما نے جرمنی سے تعاون چاہا جو نہ مل سکا۔
ترکی کی خلافت عثمانیہ 1300ء سے قائم تھی۔ اس وسیع وعریض سلطنت میں اگر چہ ترقی کے کام بھی ہوئے لیکن اب یہ روبہ زوال تھی ، دوسری طرف یورپی قوتیں بالخصوص فرانس اور برطانیہ اس سے یورپی علاقے آزاد کرانے اور اسے پارہ پارہ کرنے کیلئے متحرک تھیں۔ انہوں نے سلطنت عثمانیہ میں قوم پرستی کی تحریکوں کو ہوا دی۔ پہلی جنگ عظیم میں عربوں اور دیگر اقوا م کو ترکوں سے آزادی کیلئے ابھاراانہیں اسلحہ اور ٹرینگ دی۔ سنیٹ جان فلمی اور لارنس جیسے زیرک اور شاطر انگریز ایجنٹ یہاں متحرک رہے ۔عیسائی مشینریاں بھی فعال تھیں۔ 1916میں لارنس آف عربیہ نے حجاز ریلوے کو بم دھماکوںسے اُڑا یا جو پھر کبھی نہ چل سکی ۔ ان اقدامات سے سلنطت عثمانیہ خلفشار کا شکار ہوگئی اور بالآخر خلافت کا خاتمہ ہو گیا اور عرب علاقے آزاد ہونے کے بجائے یورپین اقوام کے زیر تسلط آگئے۔
( مسلمانوں میں انتشارو افتراق پیدا کرنا اسے بڑھاوا دینا تخریب اور بم دھماکے اصلاََ انہی اقوام کا شیوہ ہے ۔ یہ اس مقصد کیلئے مختلف متحارب گروہوں کو بیک وقت امداد اور اسلحہ دیتے ہیں ’’ بقول شخصے ‘‘شکار کے وقت کتے کے ساتھ بھی ہوتے ہیں اور خرگوش کے ساتھ بھی ‘‘

تاریخ شاہد ہے کہ آزادی اور خود مختاری کے حسین نعروں کی بنیاد پر مسلمانوں میں قوم پرستی کی جو تحریکیں اٹھی ہیں ان سے یہ پارہ پارہ ہوئے ہیں اور ان کی محکومی بڑھی ہے دشمن نے بھی اکثر یہ ہتھیار استعمال کیا ہے عظیم سلطنت عثمانیہ میں شامل ان علاقوں کے اکثر ممالک اب بھی بے بسی کی تصویر پیش کررہے ہیں اور گہری سازشوں کا شکار ہیں ۔ پہلی جنگ عظیم میں یہودیوں نے اپنی دولت اور جدید ہنر مندی سے برطانیہ کی خوب مدد کی ۔ مانچسٹر یونیورسٹی کی یہودی کیمیادان پروفیسر ویز مین نے آتش گیر مادہ کے بم بنا کر دئیے جن سے برطانیہ کی شکست فتح میں بدلنے لگی چنانچہ یہودیوں کے احسان کا بدلہ چکانے اور مسلمانوں سے صلیبی جنگوں کا انتقام لینے کیلئے برطانوی وزیر خارجہ نے یہودیوں کے قومی وطن کی اعلان بالفور کے ذریعے منظوری دے دی۔
ایک مورخ جارج ووڈ کا کGeorage Wood Cock اپنی کتابWho killed the British Empire میں لکھتا ہے پہلے جنگ عظیم کے دوران بیشمار مذہب پرست انگریزوں کا خیال تھا کہ رومن شہنشاہیت سے پانچ گنابڑی مملکت پیدا کرنے کے بعد اب برطانیہ کیلئے موقع ہے کہ جو کچھ صلیبی جنگوں میں حاصل نہ کیا جا سکا تھا اب وہ کر لیا جائے اور مقدس شہر بیت المقدس کو کافروں کے تسلط سے نکالا جائیبرطانوی وزیر خارجہ ارتھر جیمز بالفور ( جس کی ویزمین سے کئی ملاقاتیں ہو چکی تھیں ) نے دو نومبر کی دستاویز میں کہا تھا ملک معظم کی حکومت فلسطین میں یہودی عوام کے قومی وطن کے قیام کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے اور اس مقصد کے حصول کو سہل بناے کیلئے اپنی تمام تر کوشش برو کار لائے گی ۔پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر یورپی قوتوںنے فاتح کی حیثیت سے سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کر کے آپس میں بندر بانٹ کر لی جس میں فلسطین اورمیپیو نامیا برطانیہ جبکہ شام اور لبنان فرانس کے حصے میں آئے اور عرب جنہیں آزادی کے سبز باغ دکھائے گئے تھے اور جنہوں نے ان کے حلیف بن کر خلافت عثمانیہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپا تھا دیکھتے رہ گئے بعد ازاں اس بندر بانٹ کی لیگ آف نیشنز ’’مجلس اقوام ‘‘نے توثیق کردی جسے بقول علامہ اقبال ؒ بنایا ہی اس لئے گیا تھا
من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
لیگ آف نیشنز اور بعد میں اقوام متحدہ جیسے ادارے دراصل انہوں نے اپنی من مانیوں کی توثیق کیلئے بنائے ۔چناچہ فلسطین پر قبضے کے بعد 1897 کی صیہونی عالمی کانفرنس میں طے شدہ پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ ابتداء میں امریکہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کو انصاف کے منافی سمجھتا تھا اس ضمن میں صدر ولسن کے بنائے ہوئے کمشن نے یہ رپورٹ دی تھی کہ فلسطین میں یہودیوں کا قومی وطن غیر یہودی اقوام کے شہری اور مذہبی حقوق پامال کئے بغیر ممکن نہیں ہے اور کمیشن کے ساتھ یہودی نمائیدوں کی ملاقاتوں میں بار بار یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ صیہونی رہنما فلسطین کی غیر یہودی اقوام کو ان کی آبائی سر زمین سے عملی طور پر نکال دینے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں غیر یہودی آبادی نوے فیصد بتائی جو کہ صیہونی منصوبے کی شدید مخالفت کرے گی اور اس پر عملدرآمد کیلئے پچاس ہزار فوجی در کار ہوں گے کمیشن نے یہ بھی اعتراف کیا کہ فلسطین میں موجود مقامات مقدسہ یہودیوں عیسائیوں اور مسلمانوں سے متعلقہ ہیں ۔یہودی عیسائیوں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کو محترم نہیں مانتے جبکہ مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات کو بھی برابر مقدس سمجھتے ہیں۔ اس لئے مسلمان ان مقامات مقدسہ کو زیادہ اطمینان بخش نگراںثابت ہوئے ہیں۔ان نکات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کمیشن نے سفارش کی کہ فلسطین میں یہودی نو آبادکاری کو قطعی طور پر محدود کر دیا جائے اور فلسطین کو علیحدہ یہودی دولت مشترکہ بنانے کا منصوبہ بلکل ترک کر دیا جائے۔

امریکی صدر ولسن کے مقرکردہ کمیشن کی صیہونی منصوبے کے بارے میںرپورٹ حقیقت پسندانہ تھی مگر صدر ولسن کو برطانیہ اور یہودی دباو کے آگے جھکنا پڑا۔ اور 24 جولائی1922ء میں’مجلس اقوام ‘‘ نے اپنی قراردادمیں یہودیوں کے فلسطین سے تاریخی تعلق اور ان میں ان کے قومی وطن کے قیام کو تسلیم کر لیا اور لکھا کہ اتحادی طاقتوں کا اس پر اتفاق ہے کہ برطانیہ عظمیٰ کی حکومت کے اعلان مورخہ 2 نومبر1917ء پر عملددرآمد کرایا جائے اور اس مقصد کیلئے اتحادی طاقتوں نے برطانیہ کوابتدابی قوت کی حیثیت سے منتخب کیا۔
صورتحال بلکل واضح ہے کہ تمام اتحادی قوتیں فلسطین میں یہودی قومی وطن بنانے پر متفق ہو گئیں اور صیہونی منصو بے کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے میں لگ گئیں اور ان قوتوں میں بنیادی رول برطانیہ کا تھا کیونکہ ایک تو فلسطین اس کے کنٹرول میں دیا گیا تھا ، دوسرا اس منصوبے کی تکمیل کی ذمہ داری بھی اس کے سپرد کی گئی تھی صیہونی عالمی کانفرنس سے ہی فلسطین میں یہودیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اس عمل سے یہاں ان کی آبادی پچاس ہزار سے بھی کم تھی جب کہ فلسطینی عربوں کی آبادی کم از کم چھ لاکھ تھی پہلے جنگ عظیم کے اختتام پر یہودی آبادی دس فیصد یعنی ستر ہزار بیان کی جاتی ہے جبکہ فلسطینی عربوں کی آبادی بالفور کے مطابق سات لاکھ تھی۔
1917 ء میں روس میں کمیونسٹ انقلاب کے نتیجے میں یہودی سرمایہ داروں نے تیزی سے ادھر کا رخ کیا ۔دیگر ممالک سے بھی آمد جاری رہی انہوں نے خالی سرکاری زمینوں کے علاوہ دھونس سے عربوں کی زمینیں بھی ہتھیانا شروع کردیں۔ ان کے پاس سرمایہ اور
جدید ہنرمند ی تھی ۔ جس سے نئی خوشحال آبادیاں قائم کرنا شروع کیں۔ 1924ء میں تل ابیب کی بستی قائم کی گئی 1930ء تک ان کی آبادی دو لاکھ سے متجاوز ہو چکی تھی ۔چنانچہ عربوں میں رد عمل پیدا ہو ا اور فسادات شروع ہو گئے جنہیں ختم کرنے کیلئے فوجی دستے منگوانا پڑے۔ اسی وجہ سے قبل ازیں 1929ء میں برطانیہ کے سیکرٹری نو آبادیات Lord passfield نے یہودیوں کی فلسطین میں لا محدود آمد پر پابندی لگانی چاہی تو دینا کے اکثر ممالک اور خود برطانیہ میں طاقتور یہودی لابی نے طوفان کھڑا کر دیا جس پر وہ پابندی واپس لینا پڑی۔
نقل مکانی کے ساتھ ہی بیسویں صدی کے آغاز میں یہودیو ں نے فلسطین میں دہشت انگیز تنظیموں کی بنیاد رکھ دی تھی۔ ولادیمر جیبو ئیسکی برملا کہتا تھا کہ اس قدیمی وطن میں یہودیوں کی بقا کا سارا دارو مدار تشدد اور دہشت انگیزی پر ہے۔ اہم یہودی دہشت گرد تنظیموں میں حشو مر تھی اس کا کمانڈر پترک بن زوی Yitzhok ben zvi تھا جو بعد میں اسرائیلی حکومت کا سربراہ بنا۔1915ء میں برطانیہ میں برطانیہ نے کرنل پیٹرسن کی زیر کمان ایک صیہونی Zion mule crops تنظیم بنائی جو خالصتاََ فو جی تھی جس سے یہودی تربیت یافتہ ہوئے اور انہوں نے فوجی تجربے کو دہشت گردی کیلئے استعمال کیا ۔ پترک بن زری اور ڈیوڈ بن گوریان نے حکومت پر دباو ڈال کر 1917ء میں Gewish Legian کے نام سے علیحدہ فوجی دستے کی منظوری حاصل کی۔ مینجم بیگن کی دہشت گرد تنظیم تھی یہی بن گوریان اور بیگن بعد میں یکے بعد دیگرے اسرائیل کے وزیر اعظم بنے ۔ہگانہ تنظیم نے بھی دہشت گرد ی میں اہم رول ادا کیا ان تنظیموں کے پاس ہر طرح کا اسلحہ موجود تھا بلکہ فیکٹریاں لگا رکھی تھیں۔ جن میں خود کار ہتھیار گولہ بارود اور بم تک تیار ہوتے تھے۔ ہگانہ تنظیم کے اراکین کی تعداد اکیس ہزار سے متجاوز تھی جس میں چار ہزار خواتین بھی تھیں۔

1936سے1939تک کے عرصہ میں جب عربوں نے یہودی آمد اور دہشت گردی پر احتجاج کیا تو ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر کے اسلحہ رکھنے والوں پر جرمانے اور موت کی سزا رکھی گئی چنانچہ اس قانو ن کی زد میں عرب ہی آئے۔ ایک سو نو عرب باشندوں کو سزائے موت دی گئی۔ اسی سالہ شیخ قربان السعدی کے گھر سے ناقابل استعمال پرانی رائفل ملی جس پر انہیں تختہ دار پر چڑھایاگیا یعنی عربوں سے بچا کھچا اسلحہ بھی لے لیا گیا ۔جرمانے اور پھانسیوں کی سزائیں دی گئیں۔ انہیں نہتا کر دیا گیا جبکہ یہودیوں کیلئے اسلحہ سازی کی فیکٹریاں اور فوجی تربیت سب جائز اور قانونی قرار دی گئی۔ سر آر جی بولڈ دیول نے یہاں انگریزوں اور یہودیوں پر مشتمل مشترکہ فوج تشکیل دی جس کی نفری ہنگانہ تنظیم سے لی گئی اس کے علاوہ یہودیوں کی ایک نیم فوجی تنظیم Notrim بنائی گئی جس کے دو حصے تھے ایک یہودی آباد کاری پولیس jews settlement police دوسری غافرز Ghafirs یعنی چوکیدار تھی اس کا تذکرہ ایک یہودی مصنف J C Huwitzنے اپنی کتاب The Struggle for palaistine p84میں کیا ہے
جاری ہے