شہید غلام رسول ڈارؒ

ابو ہادیہ بتول

اسلام کے داعی،مربی اور تحریک آزادی کشمیر کو اہل کشمیر کے گھر گھر پہنچانے والے جناب غلام رسول ڈارؒ کو ہم سے بچھڑے 20برس ہوچکے ہیں۔16 جنوری 2004ء میں جمعہ کے دن ڈار صاحب سرینگر میں اپنے خفیہ مقام پر بھارتی فوجیوں کی جانب سے مارے گئے ایک چھاپے میں جام شہادت نوش کرگئے۔ان کے ہمراہ عباس راہیؒ ڈوڈہ اور عابد بھائیؒ ترال بھی جام شہادت نوش کرگئے،جو باالترتیب حزب المجاہدین کے ملٹری ایڈوائزر اور ترجمان کے فرائض انجام دے رہے تھے ،جبکہ خود ڈار صاحب حزب المجاہدین کے چیف آپریشنل کمانڈر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔1990ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے شروع کی گئی مسلح جدوجہد نے ہر مکتبہ فکر اور تنظیم و جماعت کو بھی اپنی جانب کھینچ لیا۔ ڈار صاحب شروع دن سے اسلام کے مبلغ اور دین کے داعی کے طور پر جانے پہنچانے تھے،ضلع بڈگام میں ہر خاص و عام ان سے واقف اور شناسا تھے کیونکہ ڈار صاحب گاوں گاوں مساجد میں وعظ و تبلیغ کیلئے جاتے تھے،ان کی ان انتھک کاوشوں نے انہیں نوجوان طبقے میں بے حد پذیرائی بخشی۔جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر کے ساتھ وابستگی اور پھر کشمیری زبان میں قرآن و حدیث بیاں کرنے میں ڈار صاحب کو ملکہ حاصل تھا۔ڈار صاحب کشمیر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اور فائن آرٹس میں گریجویشن کرچکے تھے۔انہیں انگریزی اور اردو پر اچھا خاصا عبور حاصل تھا،مگر اپنی مادری زبان کشمیری میں شریں کلامی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔کشمیری نوجوانوں پر خصوصی توجہ مبذول کررکھی تھی،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نواز جماعتوں کے ساتھ وابستہ جو بزرگ ڈار صاحب کی مخالفت میں پیش پیش رہتے تھے،وہ نوجوانوں کی جانب سے ڈار صاحب کی کھلی تائید کے باعث کمزور پڑگئی تھی۔ڈار صاحب کی دعوت فکر نے نوجوانوں میں بھارت کے خلاف بغاوت کا لاوا بھر دیا،جو 1989ء میں ایک بغاوت کی شکل میں پھٹ پڑا۔

تحریک مزاحمت کے اولین روح رواں محمد اشرف ڈار اور عبدالوحید شیخ ،ڈار صاحب کو اپنا استاد اور ان کے ساتھ بے حد عقیدت رکھتے تھے۔عسکری تحریک کے آغاز میں ہی ڈار صاحب بیس کیمپ روانہ ہوئے، یہاں پہنچتے ہی انہیں حزب المجاہدیں کا اولین سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔جس پر وہ 1992ء تک کام کرتے رہے۔وہ بیت المال کے بھی نگران تھے۔ان کے تقوی کا یہ عالم تھا کہ اپنے تو اپنے ان کے شدید مخالفیں بھی ان کی دیانت و امانت کے گرویدہ اور قائل تھے۔سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد انہیں لانچنگ کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔1993 ء میں عسکری تحریک کی پہلی کاروائی میں شرکت کرنے والے محمد مقبول الٰہی کی شہادت کے بعد ڈار صاحب کو وسطی کشمیر کا ڈیوژنل کمانڈر مقرر کیا گیا،انہوں نے رخت سفر باندھا اور اپنے ایک دیرنیہ کارکن اور ہمدرد الفت اور ماجد سلطان کے ہمراہ ایک دشوار گزار پہاڑی سلسلے کو عبور کرتے ہوئے میدان کارزار میں پہنچے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں تین برسوں تک مجاہدین کی قیادت کرتے رہے۔انہی کے دور میں چرار شریف بڈگام کا مشہور زمانہ واقعہ بھی رونما ہوا،جہاں سینکڑوں مجاہدین چرار شریف کی درگاہ میں موجود تھے۔ہزاروں بھارتی فوجیوں نے چرار شریف جو ضلع بڈگام کی سب سے بڑی بستی ہے کو باہر سے محاصرے میں لے رکھا تھا،جوتقریبا ایک ماہ تک جاری رہا،جس میں حزب المجاہدین کے بٹالین کمانڈر ظفر کاوا ؒشہید جبکہ باقی سارے مجاہدین بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔جس کے انتقام میں بھارتی سفاکوں نے چرار شریف کی پوری بستی کو اگ لگا کر سینکڑوں رہائشی مکانات اور درگاہ کو نذر اتش کیا تھا۔چرار شریف کا محاصرہ اور مجاہدین کا بچ نکلنا بھارت کیلئے عالمی سطح پر سبکی کا باعث بنا،کیونکہ عالمی میڈیا نے پہلی بار چرار شریف کے لوگوں کے ساتھ براہ راست بات چیت کی تھی۔جس میں اہلیاں چرار شریف نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ بستی کو بھارتیوں کے ہاتھوں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرنا قبول مگر مجاہدین کا نقصان ناقابل برداشت ہے۔

1996ء کے آواخر میں ڈار صاحب کو دوبارہ بیس کیمپ بلایا گیا۔ ان کی جگہ جناب میر احمد حسنؒ کو میدان کارزار میں بھیجا گیا،گو کہ میر احمد حسنؒ مقبوضہ وادی کشمیر جانے کے بجائے پونچھ و راجوری کی طرف چلے گئے،جہاں اگست 1997 ء میں وہ ایک خونریز معرکے میں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ڈار صاحب 1997 ء سے لیکر 2003 ء تک حزب المجاہدین کی مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے۔1997 ء میں وہ نیلم ویلی سے واپس آرہے تھے تو ایک خطرناک موڈ کاٹتے ہوئے گاڑی حادثے کا شکار ہوئی،جس میں ان کے ڈرائیور عرفان شہید جبکہ خود ڈار صاحب شدید زخمی ہوئے تھے۔جس کے نتیجے میں انہیں CMH مظفر آباد میں کئی دنوں تک ایڈمٹ رہنا پڑا۔1998۔ 99 میں ان کے بچے بھی ہجرت کرکے یہاں پہنچے۔ان کی فیملی کو شدید مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا، بھارتیوں نے ڈار صاحب کی فیملی کو بے وطن ہونے پر مجبور کیا،2003ء میں حزب المجاہدین نے میدان کار زار کی پیش بندی اور حکمت عملی کے پیش نظر ڈار صاحب کو جناب انعام اللہ خان کی شہادت کے بعد چیف آپریشنل کمانڈر مقرر کیا۔ڈار صاحب اگست 2003ء میں پھر ایکبار عسکری میدان میں پہنچے۔چھ ماہ تک ڈار صاحب عسکری داو پیچ اور مجاہدیں کو برہمن سامراج کے خلاف نبرد ازما کرانے کی قیادت اگلی صفوں میں کرتے رہے۔شب وروز گزرتے رہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت جدید ٹیکنالوجی متعارف کراچکا تھا۔ عسکری میدان میں ڈار صاحب 1993 سے 1997 ء چار برس تک داد شجاعت دیتے رہے۔حکمت عملی بدل چکی تھی۔

2001ء کے بعد عالمی حالات تبدیل ہوچکے تھے۔بھارت ان بدلتے عالمی حالات کا بھرپور فائدہ اٹھارہا تھا۔امریکہ بھارت کو اپنا حلیف قرار دیکر اس سے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی بھی فراہم کرچکا تھا۔ڈار صاحب کے ایک قریبی ساتھی اور ملٹری ایڈوائزر کو گرفتار کیا جاچکا تھا۔ڈار صاحب دارالحکومت سرینگر میں اپنے خفیہ ٹھکانے پر موجود تھے۔ان کے سیٹلائٹ فون کی ٹریکنگ مسلسل ہورہی تھی۔اور پھر 16 جنوری 2004ء میں بھارتی فوجیوں نے سرینگر کے اس علاقے کو کارڈن آف کیا جہاں ڈار صاحب اپنے خفیہ مقام پر موجود تھے،ان کے ساتھ حزب المجاہدین کے ترجمان عابد بھائی ترال بھی موجود تھے۔دونوں نے ہزاروں بھارتی فوجیوں کا مقابلہ کیا اور پھر دونوں شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوئے۔یقینا ڈار صاحب اسی مقام اور مرتبے کے حق دار تھے جو انہیں 16 جنوری 2004ء میں نصیب ہوا۔یہ سعادت ہر ایک کے نصیب میں بھی نہیں ہوتی،البتہ انہوں نے جن ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو شہادت کے راستے کے سفر پر گامزن کیا،خود بھی اسی راستے پر بڑی ثابت قدمی کے ساتھ فائز رہے اور پھر اپنے لہو سے اس بات کی گواہی دی ہے کہ وہ دیکھو کہ میرے دستار کے ساتھ میرا سر بھی پڑا ہے۔انہیں اپنے بچوں میں سے کسی کی شادی کی خوشیاں نصیب نہیں ہوئیں۔

2003ء میں ڈار جب مقبوضہ جموں و کشمیر کیلئے رخت سفر باندھ چکے تھے۔اسی برسی کے اوائل میں ان کی بڑی لخت جگر بیٹی کی منگنی طے پاچکی تھی۔ ڈار صاحب کے سارے بچے پڑھے لکھے ہیں۔ان کا بڑا بیٹا ظہور احمد بولنے سے قاصر ہیں۔انہیں بھی بھارتی درندوں نے کئی بار تشدد اور مظالم کا نشانہ بنایا ہے۔ تمام بچوں کی شادیاں بھی ہوچکی ہیں۔یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ڈار صاحب جماعت اسلامی کے حوالے سے کافی حساس تھے۔وہ کوئی خلاف معمول بات برداشت نہیں کرتے تھے۔اپنے وقت کے امرائے جماعت اسلامی جناب قاضی حسین احمد اور جناب عبد الرشید ترابی کے ساتھ ان کی بڑی عقیدت اور احترام کا رشتہ تھا۔شہید ڈار صاحب کے بچوں نے بھی اپنے والد گرامی کے جماعت اسلامی پاکستان وآزاد کشمیر کے افراد کے ساتھ تعلقات کی خوب قدر کی،اور وہ آج بھی اپنے والد کے تعلقات کو نبھا رہے ہیں

یہاں اس بات کا تذکرہ ناگزیر ہے کہ ڈار صاحب جیسی شخصیات عسکری نہیں بلکہ دعوتی فکر و شعور کی حامل تھیں۔البتہ تاریخی حوادث نے نجانے کتنی ایسی شخصیات کو عسکری میدان کی جانب دھکیلا جو عسکریت کے بجائے دعوت و تبلیغ میں اپنا لواہا منواتے لیکن مورخ جب ڈار صاحب جیسی شخصیت کا تذکرہ کرے گا،تو یہ ضرور لکھے بغیر نہیں رہے گا،کہ جس شخص کے خطابات نے ہزاروں نوجوانوں کے جذبوں کو بھارت جیسی برہمن سامراج کے ساتھ ٹکرانے پر مائل کیا، بالآخر اسی راستے میں 52 برس کی عمر میں اپنا لہو بھی بہایا۔اللہ تعالی ڈار صاحب اور ان لاکھوں کشمیریوں کی قربانیوں کو رائیگان نہیں جانے دے گا،جنہوں نے اپنا اج قوم کے کل پر قربان کیا ہے۔یہ قربانیاں اور شہادتیں ضرورتحریک آزادی کشمیر میں ممدو معاون ثابت ہوں۔شہید ڈار صاحب کی اہلیہ محترمہ جو کہ ہم سب کیلئے ماں کا درجہ رکھتی تھیں وہ بھی 17 فروری 2021 میں اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔وہ کافی عرصہ بیمار بھی رہیں اور طبیعت کی ناسازی کے باوجود ان کے چہرے پر کبھی شکن اور مایوسی نہیں دیکھی گئی۔وہ بڑی وضع دار خاتون تھیں جس کا ثبوت انہوں نے ڈار صاحب کی شہادت کے بعد اپنے بچوں کی تربیت کرکے دیا ہے۔اپنے چھوٹے فرزند ڈار اعجاز کی شادی کے موقع پر ان کی طبیعت زیادہ ناساز رہی اور بالاخر 17 فروری 2021 میں اس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔وہ بلاشبہ مجاہدہ تھیں۔بلاشبہ ڈار صاحب کی ذات ایک نمونہ عمل تھیں جس کی گواہی ان کااجلا کردار بار بار دے رہا ہے بالخصوص 1997 اور 2004 میں جب حزب المجاہدین سخت آزمائشیوں سے دوچار ہوئی تو ان ایام میں ڈار صاحب نے جس ثابت قدمی اور اولولعزمی کا مظاہرہ کیا تھا وہ انہی کا خاصہ تھا۔

اللہ تعالی شہید ڈار صاحب اور دوسرے لاکھوں کشمیریوں کی ان قربانیوں کے صدقے اہل کشمیر کو اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لیں اور بھارت کے غاصبانہ قبضے کی صورت میں جو طویل اور سیاہ رات مسلط ہے اس کا خاتمہ فرمائیں۔

اللہ تعالی شہید ڈار صاحب اور دوسرے لاکھوں کشمیریوں کی ان قربانیوں کے صدقے اہل کشمیر کو اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لیں اور بھارت کے غاصبانہ قبضے کی صورت میں جو طویل اور سیاہ رات مسلط ہے اس کا خاتمہ فرمائیں۔
خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را
٭٭٭