امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر و گلگت بلتستان

ڈاکٹر محمد مشتاق خان جہاں ایک مستند علمی شخصیت ہیں وہیں ایک شعلہ بیان مقرر بھی ہیں۔وہ قرآن و حدیث کے نور سے منور ہونیکے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سیاست خاص کر خطے کی موجودہ صورتحال میں ہورہی تبدیلیوں کے پس منظر اور پیش منظر سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ جناب عبدالرشید ترابی اور جناب سردار اعجاز افضل خان جیسے کہنہ مشق سیاسی اور علمی شخصیات کی موجودگی میں امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر منتخب ہونا ان کی صلاحیتوں کا کھلا اعتراف ہے۔اپنے تو اپنے پرائے بھی ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔

ڈاکٹر محمد مشتاق خان 15اکتوبر1962ء سراںمیں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ہائی سکول سراں ضلع جہلم ویلی سے حاصل کی۔ایف ایس سی گورنمنٹ کالج مظفرآباد،ایم بی بی ایس نشتر میڈیکل کالج ملتان،ایم پی ایچ ہیلتھ سروسز اکیڈمی پشاور یونیورسٹی آف پشاور، ایم بی بی ایس اور صحت سے متعلقہ دیگر ڈگریوں کے حصول کے بعد MBAکی ڈگری بھی حاصل کی،یہ ڈگری ہیومن ریسورس مینجمنٹ پریسٹن یونیورسٹی پشاور کیمپس سے حاصل کی،پی ایچ ڈی پبلک ہیلتھ چولالانگ یونیورسٹی بنکاک تھائی لینڈ سے کیا ۔اپنی سروس کے دوران میڈیکل آفیسر سی ایم ایچ راولاکوٹ،میڈیکل آفیسر آر ایچ سی لیپہ،میڈیکل آفیسر آر ایچ سی چکار،میڈیکل آفیسر بی ایچ یو چھتر کلاس مظفرآباد،میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کشمیر سرجیکل ہسپتال مظفرآباد رہے ۔ اس کے علاوہ ممبر پبلک سروس کمیشن آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر،ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پبلک ہیلتھ فیکلٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز یونیورسٹی آف آزادجموں وکشمیر مظفرآباد اور پبلک ہیلتھ سپیشلسٹ مینسٹری آف ہیلتھ کنگڈم آف سعودی عربیہ میں بھی ایک ڈاکٹر اور ایک ایک منتظم کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا۔

31جولائی1985کو رفیق اور بعدازاں رکن اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان بنے اور مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے،1988ء میں جماعت اسلامی آزادجموں وکشمیر کے رکن بنے اور ہٹیاں بالا ضلع جہلم ویلی میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اس دوران میں جماعت اسلامی مظفرآباد شہر کے امیر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں،1996ء سے2002ء تک جماعت اسلامی آزادجموں وکشمیر کے مرکزی سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری پر فائز رہے،2008سے2017ء تک مرکزی نائب امیرجماعت اسلامی آزادجموں وکشمیر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاںادا کیں ۔2023ء میں امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر گلگت بلتستان منتخب ہوئے ۔

ڈاکٹر صاحب گذشتہ دنوں سیکرٹری جنرل راجہ جہانگیر خان اور سیکرٹری اطلاعات راجہ ذاکر خان کی معیت میں ماہنامہ کشمیر الیوم کے دفتر تشریف لائے ۔ان سے مختلف موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوئی ۔امیر محترم کی یہ گفتگو من و عن قارئین کی نذر(شیخ محمد امین ،محمد شہباز ) ۔۔عکاسی ڈاکٹر بلال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

س: امیر محترم۔۔۔کوئی خاص وجہ جس نے آپ کو سید مودودی ؒ کی دعوت پر لبیک کہنے پر قائل کیا؟

ج: مولانا مودودی ؒ کا لٹریچر بنیادی انسانی اور اسلامی اخلاقیات سے بالکل جڑا ہوا ہے اور یہ بالکل انسانی عقل سے مطابقت رکھنے والا، انسانی فطرت کے تقاضوں کا جواب دینے والا، اللہ رب العالمین کے برحق خالق ہونے کا یقین دلانے والا ایک منطقی لٹریچر ہے جس نے مجھے قائل کیا کہ میں سید مودودی ؒ کی اس آواز پر لبیک کہوں اور اللہ کی دھرتی پر اللہ کے دین کے غلبے کی اس جدوجہد میں اپنا پورا حصہ ڈالوں۔ اس پر میں اللہ کا شکر گزار ہوں

س: سید مودودی کی تعلیمات نے پوری دنیا میں مسلم امہ کو بیدار اور متحرک کرنے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔پاکستان میں لیکن ایسا کچھ نظر نہیں آرہا۔؟

ج: سید مودودی کے لٹریچر نے جس طرح پوری دنیا کے مسلمانوں کو متاثر کیا اور اقامت دین کی اس جدوجہد کے لیے آمادہ کیا پاکستان میں بھی بجا طور پر اس کے پورے امکانات موجود ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ کا جو لٹریچر جماعت اسلامی پاکستان کے پاس موجود ہے اس کو برینڈ بنا کر اس کی مارکیٹنگ کرنے کے لیے جس درجے کی کوشش درکار تھی شاید ہم وہ ابھی تک نہیں کر پائے جس گھڑی ہم گراس روٹ لیول تک جماعت اسلامی کی اس دعوت کو پہنچانے کی جدوجہد کریں گے پاکستانی معاشرہ بھی اس کا جواب دے گا اور اس کے ساتھ شامل حال ہوگا۔ چونکہ یہاں شرع خواندگی کی کمی اور سوسائٹی مختلف طبقات میں تقسیم ہے۔ اس لئے یہ رکاوٹ ابھی تک بیچ میں حائل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں کا جاگیردار، سرمایہ دار اور صنعت کار پاکستانی عوام کو ان کے حقوق دینے کے لیے آمادہ اور تیار نہیں۔

مولانا مودودی کا لٹریچر اورجماعت اسلامی کی دعوت انسان کو انقلابی بناتی ہے، اللّہ کے سوا ہر کسی کی غلامی سے آزادی کا درس دیتے ہوئے برابری کی بنیاد پر تمام لوگوں کو ان کے حقوق دلانے کی بات کرتی ہے اس وجہ سے یہ بڑے طبقات اس راستے میں رکاوٹ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دو بڑی وجوہات ہیں کہ ایک تو دعوت پیش کرنے والے لوگ اپنی دعوت کو گراس روٹ لیول تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کریں اور دوسرامعاشرے کے موثر طبقات کو بھی اس دعوت کو سمجھنے کی طرف راغب کریں۔

س:جماعت اسلامی کے قیام کو تقریباً 80 برس ہوچکے ہیں عوامی مقبولیت کے لحاظ سے دیگر مذہبی و مسلکی بنیادوں پر قائم تنظیموں سے کمزور نظر آرہی ہے۔کوئی خاص وجہ!!!؟

ج:پاکستان کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ دیہاتوں میں موجود ہے، جماعت اسلامی کی دعوت دیہات کی بنیاد پر پہنچانے کے لیے جس درجہ کی دعوتی و تنظیمی کوشش درکار تھی اس میں کماحقہ جدوجہد نہیں کی گئی جماعت اسلامی شہروں تک تو محدود ہے لیکن جس طرح دیہات میں سے کام کرنا چاہیے تھا وہ نہ کرنے کی بنا پر اس کی گراس روٹ لیول پر موجودگی بہت کم ہونے کی بنا پر ایسے ہوا ہے۔

س:پانچ اگست کے بعد کشمیر میں حالات کی بساط ہی الٹ گئی۔اس صورتحال کو کیسے بد لا جاسکتا ہے؟

ج :پانچ اگست 2019 کو بھارت کی مودی سرکار نے جس طرح اپنے آئین کی دفعہ نمبر 370 کو اور 35 اے کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کیا اور کشمیریوں کو یہ پیغام دیا کہ آپ یونین ٹیریٹری کا حصہ ہیں اورآپ ایک الگ ریاست کا وجود باقی نہیں رکھ سکتے۔ یہ تحریک آزادی کشمیر کی پوری جدوجہد کو ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ اب ہمیں کیا کرنا چائیے۔ جہاں تک میریرائے ہے اس کے مطابق سب سے پہلے پاکستانی حکومت کو سفارتی محاذ پر اپنی وزارت خارجہ کے ذریعے پوری دنیا میں اس مسئلے کو پوری قوت اور شدت سے اٹھانا چاہیے کہ ہندوستان کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اسے کسی طور پر بھی دنیا کا کوئی انصاف پسند فورم تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

الف۔ اسی طرح آزاد کشمیر کی حکومت چونکہ آزادی کشمیر کے بیس کیمپ کی حیثیت رکھتی ہے اپنی آئینی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے فوری طور پر ایڈوائزر برائے استصواب رائے کا تقرر کرے۔

آزاد کشمیر حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کو چاہے وہ اسمبلی میں ہیں یا اسمبلی سے باہر ایک متفقہ پلیٹ فارم پر کم سے کم جومسئلہ کشمیر کے حل کی مشترکہ بنیاد یں ہو سکتی ہیں کی بناء پر پر انہیں جوڑتے ہوئے کشمیر کی اس تحریک کی خاطر جدوجہد کرنے پر یکسو کرے اور ایک متفقہ کشمیر پالیسی بناکر اسے حکومت پاکستان کے سامنے رکھتے ہوئے اس کی تائید حاصل کرے۔

ب۔ اس متفقہ کشمیر پالیسی کی روشنی میں وزارت خارجہ خصوصی طور پر کشمیر ڈیسک کا قیام عمل میں لانے اور دنیا بھر کے تمام ممالک میں مقدمہ کشمیر پیش کرے اور دنیا بھر میں تمام پاکستانی سفارت خانوں کے ساتھ کشمیری مسلمانوں کی صلاحیتوں کو منظم و منضبط کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کو فروغ دیا جائے اور ہندوستانی پروپیگنڈے کا توڑ کیا جائے۔

ج۔ حکومت پاکستان مستقل بنیادوں پر کشمیر کے لئے ایک نائب وزیر خارجہ کا تقررعمل میں لائے جسے پوری تحریک کی ایڈووکیسی (Advocacy) کا ہی کام ہوگا۔

د۔پاکستان کی یونیورسٹیوں میں مسئلہ کشمیر پر پی ایچ ڈی کروانے کا اہتمام کرنا تاکہ پاکستانی عوام کے عالی دماغ طبقات اور تعلیمی اداروں میں مسئلہ کشمیر سے متعلق صحیح معلومات عام کی جا سکیں۔

ڈ۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی منشور میں مسئلہ کشمیر کے حل کو اپنی سیاسی پالیسی کے طور پر شامل کریں۔

س: پاکستان کی کشمیر پالیسی بھی گو مگو کی شکار ہے۔اس کو کس طرح واضح اور دوٹوک بنایا جاسکتا ہے؟

ج: پاکستان کی کشمیر پالیسی اج تک گو مگو کا شکار رہی اس کی بہت ساری وجوہات ہیں اور اس کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ ایک بنیادی اصول ہمیشہ کے لیے سامنے رکھا جائے اور وہ یہ کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے۔ مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں انڈیا پاکستان اور کشمیر۔۔۔مسئلہ کشمیر کے حل کی اس مثلث کے کسی ایک کونے کو بھی اگر اگنور کیا جائے گا تو آزادی کشمیر کی یہ تحریک ایک پائیدار حل سے محروم رہے گی۔اسی طرح مسئلہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک دوطرفہ مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اس اعتبار سے بھی اس کی نزاکت کا خیال رکھتے ہوئے کشمیر پالیسی مرتب کی جائے۔پاکستان اور ہندوستان آپس میں جتنے معاہدات کرنے کی کوشش کریں کشمیر ہمیشہ مرکزی حیثیت اختیار کرے۔ کشمیر ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے جو مقبوضہ جموں وکشمیر، آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل ہے۔ لہٰذا کوئی ایسی حکمت عملی جو ریاست کی وحدت کو متاثر کرے سے گریز کیا جائے۔ہندوستان سے مذاکرات جب کبھی بھی ہوں سہ فریقی ہوں بامقصد اور ٹائم باونڈ ہوں۔

س:او آئی سی کو متحرک رول ادا کرنے پر کیسے آمادہ کیا جاسکتا ہے؟

ج: او آئی سی کیونکہ مسلم ممالک کا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے اور اس میں پاکستان کی ایک زبردست اہمیت ہے حکومت پاکستان اور اس کے سفارت کاروں کو اپنے بنیادی اتحادیوں کو ساتھ لے کر مسئلہ کشمیر پر ایک زوردارمہم شروع کرنی چاہیے ترکیہ اور ملائیشیا کو ساتھ لیکر اور جملہ عرب اور افریقی ممالک کو مودی کی فاشسٹ اور ہندو توا پالیسیوں اور توسیع پسندانہ خطرناک عزائم سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مشرق وسطی، مشرق بعید اور افریقی ممالک میں موجود سفارت خانوں کو کشمیر ایشو پر زکامیاب آگہی مہم چلانے اور سفارت کاری کی ضرورت ہے۔

س: فلسطین کی موجودہ صورتحال میں کشمیر کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں؟

ج: سات اکتوبر 2023 کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو ہم دیکھ رہے ہیں کہ حماس کے شیر دل جوانوں کی کاروائی کے جواب میں اسرائیل نے ایک انتہا درجے کی قابل مذمت انسانیت کش جنگ مسلط کر دی ہے۔نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے اور اب تک بیس ہزار سے زائد لوگ شہید ہو چکے ہیں جن میں سے 70 فیصدخواتین اور معصوم بچے ہیں۔ ان حالات میں عرب لیگ نے کوئی بڑا کردار ادا نہیں کیا۔ او ائی سی اپنا مطلوبہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔امریکہ و برطانیہ اسرائیل کی پشت پر بطور اتحادی آج بھی موجود ہیں۔ اقوام متحدہ بے بس تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اسرائیل کی جارحیت جاری رہتے ہوئے فلسطین اور بطور خاص غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی اسرائیلی کوشش تو دراصل پوری دنیا کو بالعموم لیکن کشمیر اور پاکستان کو بالخصوص یہ پیغام ہے کہ بالکل اسی طرح ہندوستان بھی مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے میں اسرائیل کے اس ناپاک ماڈل کو بطور مثال استعمال کر سکتاہے۔ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ اسرائیل اس ناپاک کھیل میں ناکام ہو جائے تا کہ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے اور وہ آزادی کشمیر کی نقیب ہو۔

س:کشمیر اور فلسطین کے حالات میں آپ کیا مماثلت دیکھتے ہیں؟

ج: کشمیر اور فلسطین اس اعتبار سے بالکل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں کہ دونوں خطے ظالموں کے نرغے میں ہیں، دونوں تنازعات برطانیہ سامراج کے پیدا کردہ ہیں اور دونوں مقبوضہ ریاستوں کے عوام کے ساتھ اقوام متحدہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں حق خود ارادیت دیا جائے گا اور دونوں ایک لمبے عرصے سے انتظار میں ہیں کہ کب اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آتا ہے اور کشمیر آزاد ہو کر اپنی اس محکومی اور مجبوری کی زنجیروں کو توڑنے کا منظر دیکھ سکے گا۔

س:آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے عوام اور قیادت کو تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟۔

ج: آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کے ذمے تحریک آزادی کشمیر کا ایک انتہائی اہم فرض بطور قرض ان کی گردنوں پر موجود رہے گا جب تک کہ یہ اسے ادا کرنے کی کوشش نہ کریں۔۔ اس ضمن میں میری گزارش ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام جہاں اپنی تعمیر و ترقی کا خواب دیکھ رہے ہیں اپنے دیگر سماجی و معاشرتی اور اقتصادی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اپنی فی کس آمدن بڑھا رہے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ سری نگر میں گرتے خون کی پہرہ داری کا کام بھی کریں اور دو تہائی مقبوضہ حصہ کو بھارت کی غلامی سے آزاد کروانے کا اھتمام کریں۔

س:بھارتی سپریم کورٹ نے مودی کے اقدامات کی توثیق کی۔۔ مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوںگے؟۔

ج: بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی نتیجے میں دنیا بھر میں یہ ثابت ہوا کہ ہندوستانی ا فواج,ہندوستانی عدلیہ،ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ اور ہندوستانی پارلیمنٹ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے کوئی بھی طریقہ کار اختیار کر سکتی ہیں۔ ان سب کے نزدیک عدل، انصاف اور انسانی حقوق کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں۔بھارتی عدلیہ کے اعتبار سے دنیا جانتی ہے کہ ان کے پروفیشنل ایتھکس اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے آواز بلند کریں لیکن جس طرح بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا لگتا ہے کہ وہاں ججز تو نہیں بیٹھے بلکہ انصاف کی کرسی پر آر ایس ایس کے غنڈے جو مودی کے ہندوتوا نظریہ کو آگے بڑھانا چاہ رہے ہیں وہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس کا اظہار کر کے دراصل انہوں نے اپنے انصاف کے منہ پر کالک ملی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جو طریقہ کار وضع کیا ہے اس کو دنیا کی کوئی سپریم کورٹ ختم نہیں کر سکتی ہے اور نہ ہی اس کے متبادل کوئی حل پیش کر سکتی ہے۔ لہذا حالیہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ اقوام متحدہ کے ادارے کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔اس طرح مسئلہ کشمیر کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ اس فیصلے نے بھارت کی مودی سرکار اور بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کو نفسیاتی طور پر یہ طاقت دینے کی کوشش کی ہے کہ جناب آپ جس طرح جی چاہے کشمیر کو ہڑپ کرنے کی کوشش کریں اورکشمیریوں کو نفسیاتی طور پر اتنا مایوس کر دیا جائے انہیں لگے کہ اب آزادی ان کے مقدر میں نہیں ہے۔ اس کے سوا اس بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا کوئی اثر نہیں۔کشمیری اپنے جوتے کی نوک پر اس فیصلے کو رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مایوسی کفر ہے۔کشمیری روز اول سے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کبھی بھی بھارتی سپریم کورٹ ان کے حق میں فیصلہ نہیں دے گی۔ کشمیری لاکھوں کی تعداد میں شہیدہو چکے ہیں۔وہ اپنے شہیدوں کے خون کا سودا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دے گی۔ اس لیے ان کے سامنے بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ کوئی حیثیت اور کوئی معنی نہیں رکھتا۔

س:بعض مبصرین اور تجزیہ نگار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ کنٹرول لائن کو مستقل سرحد کا درجہ دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ضم یا صوبے کا درجہ دیا جائیگا۔۔۔آپ کی رائے

ج:کشمیری ریاست وحدت کی ایک ایسی اکائی ہے کہ جس کے حصے کے طور پر مقبوضہ کشمیرآازاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہے۔ یہ تینوں اکائیاں مل کر ریاست جمو و کشمیر کو وجود بخشتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان تینوں اکائیوں کو جوڑ کر انہیں حق خود ارادیت کا حق دیا گیا ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ دنیا کی کوئی طاقت کشمیر کی تقسیم کے کسی فارمولے کو کامیاب کر سکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ریاست کی تینوں اکائیاں اس کے خلاف مزاحمت کریں گی اور انشاء اللہ العزیز ہم اپنی آزادی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق لے کر دم لیں گے۔

بعض اوقات کچھ دانشور ایسے مغالطے پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جناب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان اپنے مختلف صوبوں کے ساتھ جوڑ کر مسئلہ کشمیر کو ختم کرنا چاہتا ہے ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ قائد اعظمؒ کی کشمیر پالیسی کے عین مطابق آزادی کشمیر کی منزل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حاصل ہو کر رہے گی۔ کوئی بھی طاقت پاکستانی ریاست اور کشمیریوں کے جذباتی اور ایمانی تعلق میں دراڑ نہیں ڈال سکتی۔ پاکستان کا اپنا وجود اس بات کا متقاضی ہے کہ پورے کا پورا کشمیر بطور ریاست آزاد ہو کر جب تک پاکستان کا حصہ نہیں بنتا تب تک تکمیل پاکستان کی تحریک اور سفر نامکمل اور ادھورا رہے گا۔

س:ماہنامہ کشمیر الیوم کے قارئین کے نام آپ کا پیغام,؟

ج: کشمیر الیوم کے جملہ قارئین گرامی سے میری استدعا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہمیشہ کے لیے ایک سفیر کا کردار ادا کیجئے مسئلہ کشمیر کو پاکستانی قوم کے اندر اس کے ہر طبقے اور ہر فرد تک پہنچانے کے لیے سفارت کاری کا ا ہم فریضہ انجام دیجئے۔ ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں سے یکجہتی کے پروگرامات کو مثالی بنائیے۔ مسئلہ کشمیر پر اپنی معلومات کو بڑھاتے ہو پاکستانی عوام کے تمام طبقات میں آگہی مہم کو تیز تر کرتے ہوئے کشمیری قوم پر ہندوستانی مظالم کو 25 کروڑ عوام تک پہنچانے کے لئے تمام ممکنہ ذرائع ابلاغ کو استعمال کیجئے۔

٭٭٭

شیخ محمد امین