(داستان حجازی)
وسیم حجازی
ایک دن میرا ایک پاکستانی دوست شہید انصر محمود میری عیادت کو آئے۔ انصر سے میری ملاقات اکتوبر 1995 میں ہوئی تھی جب میں وہاں تربیت کیلئے گیا ہوا تھا۔ چونکہ پاکستان کے بہت سارے طلباء جن میں اکثر کا تعلق اسلامی جمیعتِ طلبہ سے ہوتا تھا، گرمی کی چھٹیوں میں یا پھر امتحانوں کے بعد عسکری تربیت کیلئے جایا کرتے تھے۔ اسلئے انصر بھی انہی دنوں بارہویں جماعت کا امتحان دے کر وہاں تربیت لینے آیا تھا۔ ہماری تربیت انتہائی سخت ہوتی تھی اور کھانا بھی کم ہی ملتا۔ہمارا خیمہ ایک چھوٹے سے ٹیلے پر تھا۔ ایک دن شام کو انصر اپنے ایک دوسرے ساتھی کے ساتھ ہمارے خیمے کے پاس آیا اور چْپکے سے مجھے اشارہ کیا اور کھانا مانگنے لگا کیونکہ وہ تین دن سے بھوکے تھے جو کہ انکی تربیت کا ایک حصہ تھا۔ میں نے انہیں کھانا دیا اور وہ شکریہ ادا کرکے چل دیئے۔۔۔۔۔یہیں سے ہماری دوستی ہوئی۔ واپسی کے بعد انہوں نے میرے حادثے کے بارے میں سْنا تو وہ لاہور میری عیادت کو آئے۔ پھر دو برس تک مجھے انکے بارے میں پتہ نہیں چلا۔ ایک دن میں ایک رسالہ “جہادِ کشمیر” پڑھ رہا تھا کہ اچانک میری نظر تذکرہ شہداء عنوان پر پڑی جس میں انصر کی زندگی اور شہادت کا تذکرہ تھا۔ انصر سوناواری کے کسی علاقے میں ایک معرکے میں شہید ہوئے تھے اور وہیں پر کہیں دفن ہیں۔ اللہ انکی شہادت قبول کرے۔ آمین
1993 میں جب ہم نے اکٹھے ہجرت کی تو مجھے انکی خوبیوں اور صلاحیتوں کو بذاتِ خود مشاہدہ کرنے کا موقعہ ملا۔ انہیں جب ہمارے گروپ کا امیر مقرر کیا گیا تو میں نے انہیں انتہائی فرض شناس پایا۔انکی رفاقت میں گزرے تمام ایام میرے دل و دماغ میں نقش ہیں۔ انہوں نے اْس وقت بھی میرا اور دوسرے ساتھیوں کا بھرپور خیال رکھا جب ہم رات کی تاریکیوں میں بڑے بڑے کوہساروں کو اپنے پاؤں تلے روند رہے تھے۔ دورانِ سفر وہ گروپ کے پچھلی صفوں میں اسلئے چل رہے تھے تاکہ کہیں کوئی ساتھی تھک کر رْک نہ جائے۔ رْکنے کا مطلب تھا بھیانک موت۔اُس مشکل وقت میں بھی انہوں نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی جبکہ موت قدم قدم پر ہمارے سروں پہ کھڑی تھی ۔ایک فرض شناس امیر کیسا ہونا چاہیے اس وقت شاکر صاحب نے اسکا عملی مظاہرہ پیش کیا۔ دوران سفر ایک نازک موقعہ پر انہوں نے گروپ کے حوالے سے تنہائی میں ایک اہم مشورہ مجھ سے مانگا جس وقت ہم بہت مشکل میں گِھر گئے تھے۔ تب انہوں نے میرے مشورے پر عمل کیا اور سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔میری زندگی کے حلقہِ یاراں میں شہید شاکر صاحب کی حیثیت وہی ہے جو ستاروں کے جھرمٹ میں چودھویں کے چاند کی ہوتی ہے۔ جس طرح چاند سورج سے روشنی لیتا ہے اسی طرح میں نے شاکر صاحب سے علم اور تجربے کی روشنی لی۔ اکتوبر 1993 سے لیکر دسمبر 2001 تک دوستی کا یہ سفر خوبصورت اور انمول یادوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہجرت کا مرحلہ ہو یا بیس کیمپ میں فکری تربیت کا مرحلہ یا پھر معسکر میں عسکری تربیت کا مرحلہ ،وہ ہمیشہ نظم کی طرف سے امارت کی ذمہ داری کامیابی سے نبھاتے رہے۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہر طرح کے معاملات پر تبادلہِ خیالات کرتے رہتے تھے چاہے وہ نجی معاملات ہوں، تنظیمی یا تحریکی یا دینی معاملات ہوں یا پھر عالمی معاملات ،یہ سلسلہ انکی شہادت تک خطوط کے ذریعے بھی جاری رہا۔جب تک شاکر صاحب بیس کیمپ میں رہے ،انہوں نے میرے حادثہ سے پہلے بھی اور میرے حادثے کے بعد بھی میرا بھرپورخیال رکھا۔ جب وہ اپریل 1997 میں میدانِ کارزار کی طرف جانے والے تھے تو خونی لکیرسے مجھے خط لکھا جس میں ایک جملہ مجھے اب بھی یاد ہے ’’پیارے وسیم، میں اب جا رہا ہوں لیکن میرا ایک بازو یہیں رہ گیا ہے۔ اگر زندگی رہی تو پھر ملیں گے ورنہ جنت میں ملاقت ہوگی، ان شاء اللہ۔‘‘ شاکر صاحب نے مجھے میدانِ کارزار میں بھی فراموش نہ کیا۔ مجھے انکے خطوط کا انتظار رہتا اور انہیں میرے خطوط کا۔ وہ میری ہمت بندھاتے اور میں اْنکی ہمت بندھاتا کیونکہ وہ بھی میدان کارزار میں بہت ساری آزمائشوں سے گزرے۔ کشمیری زبان میں اپنے لکھے گئے اشعار بھی مجھے بھیجتے رہتے۔ غرض “بچھڑ کے بھی اک دوسرے کا خیال ہوگا یہ طے ہوا تھا” کا ہم دونوں نے عملی مظاہرہ کیا۔

میدانِ کارزار میں اُنکی عسکری صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔ شمالی کشمیر کی ساری کمان انہی کے ہاتھوں میں تھی ۔انکے زیر کمان تربیت یافتہ جانثاروں کا ایک ایسا گروہ تھا جنہوں نے شمالی کشمیر میں عسکری محاذ کو بامِ عروج تک پہنچایا اور اخوان جیسی ناپاک گندگی کا شمالی کشمیر سے تقریباً مکمل صفایا کیا۔تقریباً پانچ برس میدانِ کارزار میں گزارنے کے بعد بالآخر 13 دسمبر (27 ماہ رمضان) 2001 میں وہ اپنے ہی علاقے میں ایک معرکے میں جام شہادت نوش کرگئے۔ دشمن اْس وقت حیرت زدہ رہ گیا جب اْنہوں نے اُس سے 32 لاکھ روپے برآمد کئے جبکہ اْنہوں نے جسم پر معمولی نوعیت کے کپڑے اور پاؤں میں پُرانے سستے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ شہادت کے تین ماہ بعد شہید شاکر غزنوی ؒاپنے سْسر کے خواب میں آئے اور ان سے کہا کہ انکی قبر میں پانی جمع ہو گیا ہے لہٰذا انہیں دوسری جگہ دفنایا جائے۔ جب قبر کھودی گئی تو انکی میت تروتازہ تھی اور جسم سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ انہیں پھر دوسری جگہ منتقل کیا گیا۔ شہداء کی روحیں جنت میں حاضر رہتی ہیں جبکہ دوسرے لوگوں کی روحیں قیامت کے دن حاضر ہونگی۔ شہید بیشک زندہ ہوتے ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق پاتے ہیں۔ شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے سینوں میں داخل کر دی جاتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتی پھرتی اور اسکی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتی ہیں ۔
(جاری ہے)
٭٭٭
ایک دن شاکر صاحب اپنی مصروفیت کے باوجود وقت نکال کر منصورہ ہسپتال تشریف لائے۔ وہ ایک سلیقہ شعار اور نفاست پسند انسان تھے ۔انہوں نے تمام کمرے کا معائنہ کیا، صفائی سْتھرائی کا جائزہ لیا اور ساری بے ترتیب چیزوں کو ترتیب میں رکھنا شروع کیا۔میرے پاؤں کے ناخنوں پر نظر پڑی تو انہیں اپنے ہاتھوں سے تراشا۔ دو تین بیڈ شیٹ کاٹ کر اْنکی سوئی دھاگے سے سلائی کر کے میرے لئے ایک طرح کی دھوتیاں بنائیں تاکہ شدید گرمی میں مجھے راحت ملے اور بیڈ پر بھی لیٹتے وقت دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سوئی دھاگہ، چاقو، ٹوپی، تسبیح، قلم، چھوٹی ڈائری ہمیشہ انکے پاس رہتی۔ درمیانی سائز کا ایک رومال وہ اپنے کندھے پر رکھا کرتے تھے۔ انکی عادت تھی کہ وہ چھوٹے چھوٹے کام بھی ساتھیوں سے کہنے کے بجائے خود ہی کرتے۔ میرے حادثے کے بعد انہوں نے مجھے کبھی بھی اکیلے پن کا احساس نہیں ہونے دیا۔شاکر صاحب میری کتابِ زندگی کا ایک حسین باب ہے۔ میں تو انہیں بچپن سے ہی جانتا تھا لیکن انکے ساتھ تفصیلی تعارف اسلامی جمیعت طلبہ کے حوالے سے 1990 سے 1993 کے دوران ہوا۔ وہ جمیعت کے سرگرم کارکن تھے۔ دینی اجتماعات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ درسگاہوں میں صباحی اور شبینہ قرآن کلاسوں کا اہتمام کرواتے۔ 1993 میں جب جمیعت کے سیکرٹری تحصیل کے منصب پر فائز ہوئے تو دن رات محنت کرکے طلباء میں دینی شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ میں نے اْس دور میں بھی انہیں ہمیشہ سرگرمِ عمل پایا۔ انکی گوناگوں صلاحیتیں ہمیشہ دین کے کام آتی رہیں۔