جذبات کی خوشبو

محمد احسان مہر

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

قرآنی تعلیمات سے جڑی علامہ اقبالؒ کی شاعری کو عام فہم اور سادہ پیرائے میں بیان کرنا ،اور پھر اقبالؒ کے پیغام کو اپنے کردار، اخلاق اور گفتار سے حلقہ احباب تک پہنچانا ،یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں،بہت کم خوش قسمت افرادایسے ہوتے ہیں ،جو دنیا کی رنگینیو ںاور آرائشوں کے میسّرہونے کے باوجود بھی سادہ زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ،میرے دوست اور (صحافتی سفر کے استاد)فیض رسول صاحب کا شمار بھی انہیں لوگوں میں ہوتا ہے ،عشق رسولﷺ سے معمور یہ شخص اقبالؒ کی” خودی”کی حد تک خود پر یقین رکھتا،1994 میں جن دنوں اپنی کتاب “چشمہ نور” تحریر کر رہے تھے، ایک دن وجدانی کیفیت میں کہنے لگے کہ جب تک میں اس کتاب کا مسودہ چھپوا کر لوگوں تک نہ پہنچا لوں ،مجھے یقین ہے کہ میرا رب مجھے موت نہیں دے گا ،باوجود اس کے کہ انہوں نے پنجابی میں ایم اے کیا وہ اردو ادب سے بھی گہرا لگائو رکھتے ،کسی نہ کسی لائبریری کی رکنیت اختیار کئے رکھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ رہا، تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور اے،جی،آفس میں بطور آڈٹ آفیسر تعینات ہوئے،محدود وسائل کے باوجود رشوت کا خیال طبیعت پر گراں گزرتا،رسول اللہ ﷺ کی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے کہ حرام کمانا گناہ ہے ،اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ایمان سے خارج ہونے کے مترادف ہے، ادبی محافل کا انعقاد کرتے، دوست احباب کی تحریروں کی نوک پلک درست کرنے میں اہم کردار ادا کرتے،تعلیم کی ڈگری کو سرکاری نوکری کے حصو ل کیلئے ضروری سمجھتے اور قرآن کی آیت ؛لیس للا نسان الا ماسعی کے حوالہ سے کہتے کہ انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کیلئے اس نے کوشش کی ، دوستوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے کہ اپنی خدادادصلاحیتوں کو اسلام،پاکستان اور مفاد عامہ کیلئے استعمال کرنا بے حد ضروری ہے ،تقریر پسند کرتے،سادگی ایسی کہ عام سامعین میں ہی بیٹھنا پسند کرتے اور نمایاں نظر آنے کی کوشش نہ کرتے ،لیکن جب سٹیج پر انہیں تقریر کیلئے بلایا جاتا تو مجمع ان کی مٹھی میں بند ہوتا،وہ دھڑکتے دلوں کی آمیزش کے ساتھ اپنے جذبات کو موثر انداز میں سامعین تک پہنچاتے،وہ بلند نصب العین ،بہترین قوت اظہار ،مجمع کی نفسیات سے آشنائی،تلفظ کی صیح ادائیگی ،مطالعہ کتب،اور موضوع کے متعلق تقریر کی عادت کے قائل رہے، ان کی تقریر کے بعد بڑے بڑے خطباء ان کے اسلوب بیاں کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ،اور یہ سچ ثابت ہوا کہ ایک ادیب کے مقالات کی نسبت ایک مقرر کے جذبات انسانوں کی ایک کثیر تعداد کے دل و دماغ کو منور کرکے انہیں ذہنی انقلاب سے ہمکنار کر سکتے ہیں ۔مذہبی،ادبی اور سماجی حلقوں میںاپنے جذبات کی خوشبو سے ہزاروں دلوں کو معطر اور عشق رسولﷺکے دامن سے وابستہ کرنے والا یہ شخص 6 6 برس کی عمر میں 14دسمبر 2023 میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔اور اقبالؒ کے اس شعر

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

کا مصداق ٹھہرا۔ ا للہ تعالیٰ اس کی لحد پر رحمتوں کا نزول فرمائے اور ہم سب کو دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی فکر عطاء فرمائے (آمین)

٭٭٭

محمداحسان مہر