شہید محمد جوادؒ

اویس بلال

یہ تقریباََ 14 برس قبل مئی 2010 ء کی بات ہے، شاعر اسلام علامہ محمد اقبال ؒ کے شہر سیالکوٹ میں مطیب الاسلام فاؤنڈیشن کی جانب سے شہدائے کشمیر اور دفاع پاکستان کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے متعلق اپنے اپنے خیالات کااظہار کیا اور کہا ،کہ خفیہ طاقتوں نے کشمیری مسلمانوں کے قتل عام پر بھارت کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔اس کانفرنس میں متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین امیر حزب المجاھدین سید صلاح الدین احمد ،مرحوم ریٹایرڈ جنرل حمید گلؒ ،مرحوم حاجی آفتاب ؒ ،حافظ عبد الجبار شاکر ،حاجی محمد اکبر بابا ،حاجی ملک محمد افضل ،اور ممتاز صحافی حامد میر اور شہدائے کشمیر کے ورثاء بھی شریک تھے۔

اس کانفرنس میں شیخ احمد یاسین شہیدؒ اور جہلم کے محمد جواد عرف بلال شہید کا خاص طور پر تذکرہ کیا گیا۔ مقررین نے اپنی گفتگو میں کہا کہ جموں و کشمیر بدستور ایک دیرینہ تنازعہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم کیے گئے رائے شماری کے ذریعے کیا جانا ہے۔ یہ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو تھے جو جنوری 1948ء میں جموں و کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں لے گئے تھے ،جہاں انہوں نے اپنے ملک کی طرف سے یہ عہد کیا تھا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا۔ مقررین نے ملیشیا کے مہا تیر محمد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت کسی تیسرے ملک کی ثالثی قبول کرنے کو تیار نہیں تو اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرائے۔ملیشیا ہمیشہ سے جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ سمجھتا رہا ہے اور ان قراردادوں کا احترام کرتا رہے گا جو کشمیر کے بارے پوری دنیا نے تسلیم کی ہوئی ہیں کیونکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی واحد بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہی ہے۔لہٰذا اس مسئلے کو جتنا جلدی ہو سکے حل کیا جائے اور کشمیری عوام کو پر امن طریقے سے زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے جس کا واحد حل یہ ہے کہ خطے کے عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق دیا جائے۔ بہت سارے ممالک بشمول چین ترکی روس ایران اور خاص کر ملیشیا ببارہا دونوں ممالک پاکستان اور بھارت سے اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا کہہ چکے ہیں باہمی مذاکرات ہمیشہ ناکام ہوتے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب بھارت سامراج جموں و کشمیر سے تیسرے ملک کی ثالثی پر بھی تیار نہیں۔ایسی صورت میں صرف ایک حل ہے کہ جموں وکشمیر کے عوام کو ان کا حق اقوام متحدہ کے ذریعے دلایا جائے۔ علامہ اقبال رح نے اپنے انتقال 1938ء سے پہلے کہہ دیا تھا کہ اہل کشمیر کی محکومیت زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہ سکتی ،اس کی وادیوں سے انقلاب کی تحریک ضرور ابھرے گی اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ کررکھ دے گی انشاء اللہ۔مہمان خصوصی جہلم کی محمد جواد عرف بلال شہید کی والدہ محترمہ تھی اس عظیم ماں نے چودہ سو سالہ پرانی تاریخ کو دہرایا۔ہم نے اس موقعے پر ان سے ہونے والی گفتگو قلمبند کی ،جو من و عن قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔حمد و ثنا کے بعد انہوں نے گفتگو کے آغاز تمام شہدائے جموں و کشمیر کی ماؤں بہنوں کو مبارکباد اور خراجِ عقیدت پیش کیا اور کہا کہ آپ کے بیٹے حقیقتاً اس وقت جنتوں کی سیر کر رہے ہیں، پھر انہوں نے مجاہدین کانفرنس میں شریک عزیز و اقارب کو سلام پیش کیا،انہوں نے کہا: سامعین و حاضرین میں پڑھی لکھی نہیں ہوں سیدھی سادھی عورت ہوں ،سچ بولنا ہمارے ایمان کا جزو ہے ان پڑھ ضرور ہوں لیکن اتنا شعور ہے کہ جو بیٹے جہاد کرنے جاتے ہیں ،وہ بن بلائے نہیں جاتے ،بلکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جاتے ہیں ۔میری دعا ہے کہ جتنے جوان اس میدان میں آنے والے ہیں ان سب کی دلی خواہش پوری ہو،جو شہید ہوجاتے ہیں وہ زندہ ہیں ۔ہم لوگ اصل میں مردہ ہیں۔میں نے اپنے شہید لخت جگر سے سب باتیں آزمائی ہیں کیونکہ میرا اصل کام کھیتی باڑی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرا گھر بہت بڑا ہے آس پاس کھیت ہی کھیت ہیں کھیتی باڑی بھی کرتی ہوں پودے بھی لگائے ہیں گملے بھی سجائے ہیں۔جب میرا بیٹا شہید ہوگیا مجھے اس کی یہ بات یاد آئی کہ امی! میری شہادت پر الحمداللہ کہنا ،میرا بیٹا اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو گیا ہے۔سوچنے لگی مگر میرے پھولوں کے گملے کون اٹھا کر دے گا مجھے ؟چھ مہینے سال کے بعد دیکھا کہ نیچے سے اوپر ،اوپر سے نیچے گملے کون لاتا ہے ؟میں یہ بات یقین سے کہتی ہوں یہ بات میں نے آزمائی ہے ،جب گملا اٹھائوںتو میرا بیٹا ساتھ ہوتا ہے جب بھی پودا کاٹ رہی ہوتی ہوں تو میرا بیٹا ساتھ ہوتا ہے جب میں سو رہی ہوتی ہوں تو بیٹا ساتھ ہوتا ہے ،کروٹ بدلتی ہوں تو میرا بیٹا ساتھ ہوتا ہے ،سانس کے ساتھ سانس لیتا ہے پھر میں نے کہا میں ساری دنیا کو مردہ کہہ سکتی ہوں لیکن اپنے شہید بیٹے بلال کو مردہ نہیں کہہ سکتی۔میرا بیٹا زندہ ہے وہ میرے پاس موجود ہے اور ہاں جب سارے گھر والے بیٹھتے ہیں محمد جواد کو یاد کرتے ہیں محمد جواد بلال کی یہ بات جیسے کانوں میں آواز آتی ہے بلال یہیں کہیں موجود ہوتا ہے ،خوشبو کی شکل میں میرا شہید بیٹا حاضر ہوتا ہے اس دوران پورے گھر میں خوشبو پھیلتی ہے سب گھر والے خوشبو محسوس کرتے ہیں۔حاضرین جماعت! شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ جہاد افغانستان ہو یا فلسطین کا جہاد یا مقبوضہ جموں و کشمیر کا جہاد ،ان جگہوں میں بھی بہت سارے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کبھی ہمارے پورے گھر میں شور مچ جاتا ہے جواد آگیا جواد آگیا ،چھوٹے بچے وہ بھی کہتے ہیں چاچو جواد آگئے ہیں چاچو جواد آگئے ہیں۔دوتین منٹ تک بلال شہید خوشبو کی شکل میں موجود رہتا ہے اپنا آپ ظاہر کرتا ہے سبحان اللہ ،یقین جانیں ، میں نے ا ن تین سالوں سے ہی تو زندگی کا حقیقی مزہ لینا شروع کیا ہے۔ میرے آٹھ بچے ہیں سات بیٹے اور ایک بیٹی۔ایک بیٹا اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوگیا ،باقی چھ بیٹے رہ گئے ہیں کسی بچے کے ساتھ میں نے اتنا پیار نہیں کیا جتنا بلال کے ساتھ کیا اس کے شہید ہونے کے بعد اب اسکی بہت یاد آرہی ہے۔شہید کے کافی معجزے دیکھ رہی ہوں جب رات کو میں پڑھ رہی ہوتی ہوں خاص کر جب نماز پڑھ رہی ہوتی ہوں یا جیسے ہی میں نماز کے بعد بیٹھتی ہوں تو رونا شروع کردیتی ہوں ،جب میں خیال کرتی ہوں کہ کیوں رو رہی ہوں اپنے آپکو سنبھالتی ہوں پھر کہتی ہوں یہ تو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے۔۔یہی حالت ظہر اور عشاء کی نماز کے وقت ہو جاتی ہے۔

میرے پیارے بھائیو بزرگو بیٹو! یہ باتیں میں اس لیے کررہی ہوں جن ماؤں کے بچے شہید ہوچکے ہیں یا جن بزرگوں کے بچے شہید ہونے والے ہیںاگر میرے لایق کوئی کام ہو یا خدمت ۔۔میں بھی شریک ہو کر شہید ہونا چاہتی ہوں ،دنیا سے دل اٹھ گیا ہے کیونکہ ہم اپنے شہید بیٹوں کے پاس چلے جائیں راستہ بس یہی ہے شہادت کا ،یہ عظمت والا راستہ ہے۔اگر کسی نے جنت میں جانا ہو تو جہاد کا راستہ اپنائیں۔
پھر شہید کی والدہ محترمہ نے گفتگو کے بعد ایک ترانہ پیش کیا۔ہاتھ بہنوں کے ہوں گے ،اس کے ہاتھ میں ھوگا گریباں تیرا ،اللہ پوچھے گا اے نوجوانو ،! کیا سنا نہ تھا قرآن میرا۔یہ جوانو!یہ جوانی کس کام کی ،لٹ گئی لٹ گئی بیٹی اسلام کی۔اس سے بہتر تھا کہ پہلے ہی مرجاتا میں ،کوئی نہ کہتا کیا ہوا انسان تیرا۔ہاتھ مظلوم بہنوں کے ہوں گے ،اور ہوگا گریباں تیرا۔
رمضان کی ستائیسویں یا اٹھائیسویں تاریخ تھی میں نے تہجد کی نماز پڑھی سحری کھائی روزہ رکھا نماز فجر ادا کرنے کے بعد پھر سو گئی ،اسی اثناء میں خواب دیکھتی ہوں کہ میں مکہ شریف میں ہوں۔ مکہ شریف جنہوں نے دیکھا ہے کہ ان کو پتہ ہے کہ وہ کیسی خوبصورت جگہ ہے یہاں کا ماحول کیسا ہے موسم کیسا ہے،زمین و پہاڑ کی رنگت کیسی ہے یعنی یہ علاقہ کیسا ہے اور آج سے چودہ سو سال سے زاید پہلے اس وقت کا ماحول کیسا تھا ،اب تو ہر چیز خوبصورت دکھائی دے رہی ہے آپ یقین کریں کہ چودہ سو سال سے زاید برس قبل جو مکہ شریف میں ماحول تھا وہ میں نے اس خواب میں دیکھا ،کیا دیکھتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش ہے ایک طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کھڑے ہیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کھڑے ہیں مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کھڑے نظر نہیں آرہے ہیں تو تھوڑی دیر ہوتی ہے ادھر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوتے ہیں میں پوچھتی ہوں آج یہ دوست اکٹھے کھڑے ہیں کیوں کھڑے ہیں کیا بات ہے کسی نے بتایا کہ ان کی آج مشاورت ہے اس لیے یہاں کھڑے ہیں ،یہ خواب میں نے دیکھا ہے۔کچھ عرصہ ہوا لگ بھگ تین مہینے گزر گئے ہوں گے پھر مجھے خواب آیا کہ ایک رسی ہے سرمئی رنگ کی ،ابھی بھی گھر میں پڑی ہوئی ہے وہ رسی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے خواب میں کہتی ہوں کہ یہ رسی حضرت علیؓ کی ہے میں یہ پایپ باندھ دیتی ہوں جتنی باندھی ،اتنی وہ سفید ہے جو ٹکڑا بچ جاتا ہے وہ ساری رنگت سرمئی ہوگئی ہے۔میں نے کہا یا اللہ مجھ سے کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی ہے ،اشارہ ملتا ہے غلطی نہیں ہوئی ،یہ ملاقات کا وقت اتنا ہی تھا تقریباً چار ہفتے ہوئے مجھے خواب آیا میں نے گھر میں ایک چھوٹا سا کمرہ اپنے لیے بنایا ہوا ہے جب بیٹا بلال شہید ہوا تو میں نے تب سے اپنا کمرہ الگ بستر وغیرہ الگ رکھا ہوا ہے اس کمرے میں میں نے صرف جہادی تحفے رکھے ہوئے ہیں کسی جگہ جہادی کتابیں ،کہیں شمشیر رکھی ہے جہادی ترانوں کے کیسٹس رکھے ہیں ،تھوڑا بہت پڑھ لیتی ہوں اُردو۔۔۔۔خواب میں کیا دیکھتی ہوں کہ رات کے گیارہ بج چکے ہوتے ہیں خواب میں ہی اپنے بستر پر قرآن پاک کی تلاوت کررہی ہوتی ہوں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ بیٹی پڑھ!اقراء باسم ربک الذی خلق۔خلق الانسان من علق۔یہ سبق مجھے انہوں نے یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا ہے میں بڑی پریشان ہوئی ،مجھ جیسی گنہگار بندی کے ساتھ ایسا تعاون اور تعلق کیوں ؟کیسے ہوسکتاہے پھر میں جاگ گئی ،اٹھی وضو کیا شکرانے کے نوافل پڑھے اپنے دل کو ٹٹولا سوچنے لگی یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے پھر میں نے بابا اکبر جی سے شکایت کی ،کہ یہ خواب کیوں آتے ہیں ؟میں اس قابل ہوں کہ ایسے خواب مجھے آئیں۔ میں آج ان بہنوں کو جن کے دو دو تین تین بیٹے شہید ہوئے ہیں پیغام دینا چاہوں گی میرا ان سے جہادی اور دینی رشتہ ہے میں ان کے ہر غم میںشریک ہوں بہنو،۔! میں آپ کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
الحمداللہ آپ کے بیٹوں نے اللہ کے راستے میں شہادت پائی ہے آپ خوش قسمت والدین ہو ،آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہی رحمتیں برس رہی ہیں اس سے بڑی اور کیا بات ہوسکتی ہے اللہ تعالیٰ نے ہم سب پر رحم فرمایا ہے ہم جیسی گنہگار ماؤں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے ہمارے بیٹوں کو اپنی راہ کے لئے چن لیا اور شہادت کا درجہ عطا کیا ،انشاء اللہ۔ جہلم کی محمد جواد عرف بلال شہید کی ماں گو کہ ان پڑھ ہے مگر ان کے جذبہ جہاد مجاہدین فی سبیل اللہ کے ساتھ محبت و الفت ،ان کے عزائم میں مضبوطی ہے اور ان کے خیالات و جذبات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ گھروں میں بیٹھی ہر ماں کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں کہ ظالموں جابروں غاصبوں اور بھارت سامراج کو بتادو ہم زندہ ہیں۔اٹھو بھارت کے درو دیوار ہلا دو جس نے ہماری کئی نسلوں کو تباہ و برباد کیا ہے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دو، اب بھی نہ اٹھو گے تو ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ اٹھو مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کا ساتھ دو ان کشمیری ماؤں بہنوں کا ہاتھ تھام لو،جو آج مدد کے لئے پکار رہی ہیں جنہیں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ تحریک اسلامی کی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے ہمیشہ ان پاکیزہ اور صالح سیرت نوجوانوں کو پیدا کیا جو گمراہی اور جہالت کے اندھیروں کے اندر مینارہ نور تھے۔

٭٭٭