شیخ محمد امین؍عادل وانی
20فروری 2023کی شام اچانک یہ دلخراش خبر آئی کہ نامور حریت پسند مجاہدرہنما پیر بشیر احمد المعروف امتیاز عالم برما ٹاون کھنہ ڈاک میں نامعلوم قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ اس خبر پر فوری طور پریقین کرنا مشکل ہوگیا کیونکہ اس واقعے سے پہلے مقبوضہ کشمیر کے کسی بھی شخص کا اس طرح قتل ۔۔مملکت پاکستان کی حدود میں نہیں ہوا تھا۔ افغانستان میںامریکی اور نیٹو حملے اور قبضے کے بعد 2001 سے 2021تک نامعلوم بندوق برداروں کی طرف سے پاکستان میں کئی اہم شخصیات اور رہنماوں پر حملے ہوئے اور انہیں شہادت سے سرفراز ہونا پڑا۔ہزاروں پاکستانی بم حملوں اور خود کش حملوں کی نذر ہوگئے ۔ان واقعات کی اکثر تحریک طالبان پاکستان نے ذمہ داری بھی قبول کی ۔تاہم ان برسوں میں کبھی بھی کسی کشمیری کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔بہر حال یہ اب ایک دلخراش واقعہ وجود میں آچکا تھا ۔امتیاز عالم شہادت کی منزل حاصل کرچکا تھا۔اب مذید سوال کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ کس نے کیا اور کیوں کیا ۔صاف ظاہر تھا کہ امتیاز عالم آزادی کا متوالا تھا ۔ایک عظیم جنگجو تھا ۔دشمن دین کا۔دشمن تھا۔ اس لئے آزادی کے دشمنوں اور دین کے دشمنوں کا ہی یہ کام تھا جو انہوں نے انجام دیا ۔بھارتی میڈیا کئی دن تک اسے اپنے دفاعی اداروں کی کامیابی قرار دیتا رہا ۔امتیاز عالم شہید کو اپنا مقام مل گیا لیکن ان کا اس طرح جانا ۔۔۔انتہائی تکلیف دہ ہے اور یہ تکلیف آج ایک سال بعد بھی ہم پوری شدت کے ساتھ محسوس کررہے ہیں ۔
پچھلے سال ہمارے اپنے قلمکار اور اس پوری تحریک پر گہری نظر رکھنے والے دوست عادل وانی المعروف عادل ترابی نے شہید امتیاز عالم ؒ کی زندگی اور سفر آخرت کا ذکر بہت ہی آسان اور دلربا انداز میں “شہداء کا اجتماع “کے نام سے اپنی ایک تحریر میں کیا ہے ۔آئیے اسی تحریر کو پھر ایک بار پھرپڑھیں ،سنیں اور سن کر شہید امتیاز عالم ؒ اور لاکھوں شہدائے کشمیر کی بلندی درجات اور مظلوم و محکوم کشمیری عوام کی آزادی کیلئے دعا کریں ۔
شہداء کا اجتماع ۔۔۔۔میری 45 سالہ زندگی کا حاصل یہ ہے کہ میں ایک ایسی ’’تحریک‘‘ سے وابستہ ہوں جو لاکھوں شہدا ء کی وارث اور امین ہے۔جس کا مقصد اور نصب العین دینِ الٰہی کا قیام اور اللہ کی رضا کا حصول ہے۔جو شخص جس حیثیت میں بھی اس مقدس مقصد اور نصب العین کے ساتھ جُڑا اور کھڑا ہے وہ یقیناً خوش بخت،سعادت مند اور قابلِ رشک ہے۔ اور یہ اجتماعیت تمام تر بشری کمزوریوں کے باوجود میرا کل اثاثہ ہے۔مجھے بس اپنی نیّت اور اخلاص کو اشکال و ابہام کے موذی مرض سے محفوظ رکھنا ہے۔باقی میری کوئی ذمہ داری،کوئی پریشانی اور کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے! نِیّت کی یہ درستگی،اخلاص کی یہ موجودگی اور پھر ہمہ جہت سعی کے لئے ہر لمحہ بے چینی اور فکرمندی ۔۔۔اگر میں اور آپ سب ان مطلوب اوصاف کے مالک بن جائیں تو آج بھی نمرود مودی کی وادی میں دہکائی ہوئی آگ ٹھنڈی ہوسکتی ہے۔آج بھی بھارت کا فرعونی غرور دریائے جہلم کے گہرے پانیوں میں دفن ہوسکتا ہے اور آج بھی کشمیر پر چڑھائی کرنے والے کیل کانٹے سے لدے ہوئے بھارتی ابرہہ کے لشکر ’’کعصف ماکول‘‘ جیسے عبرت ناک انجام سے دوچار ہوسکتے ہیں۔پھر کہتا ہوں کہ مجھے اور آپ سبوں کو ایمان، اخلاص، عمل، توکل اور تعلقِ باللہ جیسی بنیادی شرائط کو پورا کرنا ہے تو میں آپ سبوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ان شا ء اللہ سارے مخالف موسم اور ہوائیں،سارے طوفان اور آندھیاں اور سارے خاکے اور رنگ ہماری مرضی اور چاہت کا روپ دھار لیں گے۔ میں اپنے تمہیدی الفاظ میں ابھی کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا مگر ڈر رہا ہوں کہ کہیں میری یہ تمہیدی طوالت آپ کو’’اجتماعِ شہدا ء‘‘ کی رُوداد پڑھنے سے دُور رہنے کا سبب نہ بن جائے۔

آج کے اس اجتماع کی ہر بات اور ہر انداز بالکل ہی منفرد اور نِرالا ہے۔ یہ انوکھا، عجیب اور تصوّراتی اجتماع عرشِ الٰہی کے سائے تَلے منعقد ہورہا ہے! شرکا ئے اجتماع صرف اور صرف شہدا ہیں۔اجتماع میں شرکت کا پروٹوکول اتنا زبردست اور سخت ہے کہ مجھے اپنی خیالی شرکت کو بھی یقینی بنانے کے لئے پہلے ’’یکسوئی‘‘ کی کسوٹی سے گزرنا پڑا تب جاکر مجھے شہدا ء کے اس خاص اجتماع میں شرکت کی اجازت مل گئی ہے۔ بس اب آپ ہمہ تن گوش رہیے میں آپ کو اس’’اجتماعِ شہدا ء‘‘ کی لائیو رُوداد بشکلِ تحریر میں پیش کرنے کی کوشش اور سعادت حاصل کروں گا۔ انشا ء اللہ
میرا احساس اور اندازہ تھا کہ اس اجتماع کا آغاز بھی تلاوت سے ہوگا، پھردرس اور کوئی صدارتی اختتامی خطاب ہوگا مگر اس اجتماع کی ترتیب اور ہیّت بالکل ہی مختلف ہے۔اللہ کے عرش سے لٹکے ہوئے نورانی فانوس اور اُن کی چھنکار عجیب و غریب بلکہ ناقابلِ بیان سماں پیدا کرچکے ہیں اور اِس عرشی و نورانی سوز و ساز میں حدِ نگاہ تک شہدا ء سبز پرندوں کی صورت میں اُڑ پِھر رہے ہیں اور کچھ تو ان گھونسلا نما نورانی فانوسوں پر بیٹھے ہوئے آپس میں گپ شپ بھی کررہے ہیں۔جنتی نورانی سبز پرندوں کا روپ پاکر ان شہدا ء کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح ہر جانب پُرسکون روشنی بکھیررہے ہیں اور یہ سبھی مطمئن اور ہشاش و بشاش چہرے ستاروں کی طرح ایسے چمک اور دھمک رہے ہیں کہ میرے لئے اُن کی طرف ٹِکٹِکی باندھ کر دیکھنا مشکل اور محال ہورہا ہے۔کُھلے تازہ زخموں اور بہتے لہو سے ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے ابھی ابھی یہ سارے کے سارے ’’شہادت کا جام‘‘ پی کر یہاں پہنچے ہوں،ہر سو کستوری اور یاقوتی خوشبووں کے ایسے ڈھیرے کہ بیچاری جنت بھی سوالیہ نگاہوں سے ان سب کے مقام و مرتبے کو جاننے کے لئے جیسے بے تاب اور متجسس ہے۔اونچی اونچی مسندیں،گائو تکیے،نوعمر خدمت گار غِلمان،حور و خیام، شرابِ طہور سے آغازِ میزبانی، ہیروں،موتیوں اور یاقوت سے لدے بھرے کناروں اور تہوں میں بِچھی ہوئی سونے اور زمردی کنکریوں پردودھ،شہد اور پانی کی بہتی نہروں اور جھرنوں کا ایسا سُوز کہ جس پر سارے سُر اور سُکوت قربان!
بہرحال جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ شہدا ء کے ان پُرنور چہروں کو بھرپور انداز سے دیکھنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہورہی! اور اِس کیفیت سے مجھے اب ایک اور مشکل یہ پیش آرہی کہ میں ان ہم شکل،ہم انعام اور ہم ماحول شہدا ء میں سے کوشش اور چاہت کے باوجود بھی جموں و کشمیر کے شہدا ء کو بھی پہچان نہیں پارہا ہوں! ہر زاویے اور عنوان سے اس ایک جیسے دِکھنے والے ماحول اور کیفیت نے مجھے بے حد پریشان اور مغموم کردیا کہ مجھے تو اب صرف اپنی تحریک کے شہدا ء کو بھی دیکھنا اور پہچاننا مشکل بلکہ ناممکن سا لگنے لگا ہے ! کاش میں صرف شمس الحق،انعام اللہ خان،غلام رسول ڈار،برہان الدین حجازی،مقبول الٰہی،راہی، انصاری برادران، سید سلمان،حیدر علی،جوہر حیات برہان وانی، عابد حسین میرے بچپن کا ہم جھولی،میرا ہمسایہ،کھیل کود،تعلیم اور جہاد کے میدانوں کا میرا ساتھی،شاکر غزنوی عبدالباسط،شیر خان،حنیف خان،خوبرو سکندرِ اعظم،جعفر صدیقی،بہادر حسین وحید آڑگامی،مدثر فاضلی،عبدالاحد کولنگامی مسعود تانترے، ’’کیسے سب کے نام لے سکوں گا؟ ہم نے تو اِن عظیم شہدا ء کے مشن اور قربانیوں کو بھلا دیا ہے تو پھر ان سب کے نام کیسے یاد رہ سکتے ہیں۔‘‘ اور خاص کر صرف چند روز قبل ہی ہم سے رخصت ہونے والے میرے بھائی اور دوست ’’ پیر امتیاز عالم‘‘ کو ہی دیکھ اور مل لیتا تو میری یہ تصوراتی شرکت اپنے معراج پر منتج ہوتی۔ میں اس وقت بس اسی مخمصے اور اُلجھن کا شکار ہوں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کِیا جائے۔ذرا رُکیے! وہ دُور اسٹیج پر ایک دراز قد،سُراہی گردن،نیلی آنکھوں،کشادہ چمکتی پیشانی، گداز کالی زلفوں والا، زرق و برق بادشاہی پوشاک میں ملبوس کوئی خاص شخص تمام شہدا ء سے مخاطب ہونے لگا ہے۔یہ کون ہوسکتا ہے؟ یہ اتنے وقار و وفا کا پیکر کون ہے کہ جس کو دیکھنے اور سُننے کے لئے تمام شہدا ء بے تاب اور بے چین ہیں؟

’’میں امتیاز عالم ہوں میرا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہے یہاں میرے ہزاروں بھائی،بہنیں اوربیٹیاں پہلے سے ہی آپ کی مبارک صفوں میں موجود ہیں۔جوں جوں ’’امتیاز‘‘ بھائی کی تقریر آگے بڑھتی رہی،شہدا ء کے اس کثیر الکثیر مجمعے سے جنت نظیر ارضی جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے اسٹیج کی طرف ایسے بڑھنے لگے جیسے پروانے شمع کی اور کِھنچے چلے آرہے ہوں وہ سب شہدا ء وہیں اور میں تصوّر میں بہت دھیان، سنجیدگی بلکہ تشنگی سے ’’امتیاز‘‘ بھائی کی گفتگو ایسے سُن رہے تھے کہ جیسے وہ کوئی’’خاص بات‘‘ کرنیوالے ہیں۔ ہم سب کا گمان بالکل درست ثابت ہوا اور اُن کی نہ صرف ’’کوئی‘‘ بلکہ’’ہر بات‘‘ ہی ایک نئے انداز اور ایک نئی فکر کے حوالے سے خاص تھی۔فرمانے لگے کہ میں تین دہائیوں سے ’’شہادت‘‘ کا متلاشی اور متمنی رہا مگر مجھے ’’انصار‘‘ کے مدینہ میں مسجد سے نکلتے ہوئے سرِشام شہید کردیا گیا۔ مجھے اپنے بزدل دشمن کی مکاری اور پُراسراریت پر واقعی تعجب ہے! میں کبھی خواب میں بھی سوچ نہیں سکتا تھا کہ مجھے اپنے خیر خواہوں کی موجودگی میں بھی اجنبیت اور عدمِ تحفظ کا شکار ہونا پڑے گا یہ میرے لئے کسی قیامت سے ہرگز کم نہ تھا!مجھے اپنے مقدس مقصد کی اپنے انداز میں آبیاری کے جرم کی پاداش میں اپنوں کی ناراضگی اور بے رُخی بھی سہنی پڑی یہ میرے لئے سب سے بڑی آزمائش اور انتہائی مشکل امتحان تھا جِس سے مجھے گزارا گیا۔
شہید امتیاز عالم کی یاد میں
اعجاز نازکی ؔ
یہ امتیاز ہے آپ علیہ رحمہ کے لئے خاصہ رتبہ
ورنہ مایوسیوں نے گھیر رکھی تھی اقوام ہجوم
کرشمہ قدرت ہے شب کی تاریکیوں میں لوگ
چراغ جلا جلا کر ڈھونڈیں گے ایسے کردار اب
انمول سرمایہ تیری تاریخ اوجھل نظروں سے
بابائے حُر اپنوں میں اضطرابی کیفیت وطلاطم
سرفہرست تھے دشمنان دین کو مطلوب شہید
تمسخرا اُڑایا اپنوں اور غیروں نے کیاخوب
رحمتوں کی چادریں اوڑھے سلادے گئے کیوں
کہ انہیں نہ جگانا جاگے گا زمانہ بابائے قوم