کشمیر’’یکجہتی‘‘کو بامعنی بنانے کا وقت آگیا ہے

سید عارف بہار

پانچ فروری کو یوم کشمیر پر پاکستان اور آزادکشمیر میں مقبوضہ جموںو کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا روایتی مظاہرہ کیا گیا۔ یکجہتی کے اس سلسلے کو چل نکلنے اب پینتیس برس مکمل ہوچکے ہیں۔اس عرصے میں پلوں تلے بہت سا پانی بہہ گیا ۔جب پہلا یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا تھا تو یہ 1990کا سال تھا ۔جب سوویت یونین کو بکھرے ہوئے دیواربرلن کو گرے ہوئے ،مشرقی اور مغربی جرمنی کے ملاپ اور وس اوروسط ایشیائی ریاستوں کی بن چاہی آزادی کو محض چند ماہ کا عرصہ ہوا تھا بلکہ ابھی کچھ علاقوں میں جن میں مشرقی یورپ کے کئی ممالک شامل تھے سردجنگ کے بعد کی تبدیلی کی لہریں ابھی چل ہی رہی تھیں۔ اس ماحول میں مقبوضہ جموںو کشمیر بھی عالمی اور علاقائی تبدیلی کے اس ماحول سے جڑکر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا ۔یونی پولر ہوتی ہوئی دنیا کا سب سے بڑا کھلاڑی امریکہ اوراس کے اتحادی مغربی ممالک سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے انہدام کے نتیجے میں ’’یوسفِ بے کارواں ‘‘ ہونے والے بھارت کو اپنے دانہ ٔ دام کا شکار کرنا چاہتے تھے۔ اس ماحول میں مقبوضہ جموںو کشمیر بھی مشرقی یورپ کی طرح شدید عوامی مظاہروں کی لپیٹ میں آرہا تھا ۔صرف سیاسی مزاج لوگ اور نوجوان ہی نہیں سرکاری ملازمین بھی اس عوامی لہر میں بہتے چلے جا رہے تھے ۔مقبوضہ جموںو کشمیر پر بھارت کی انتظامی گرفت ڈھیلی پڑرہی تھی ۔یہ مرحلہ یونہی گزر گیا اور کشمیری عوام کی مزاحمت طوالت کے دائروں کا شکار ہو کر رہ گئی ۔ایک کے بعد دوسرا حادثہ اور واقعہ کشمیر کا مقدر بنتا چلا گیا ۔یہاں تک بھارت نے امریکہ کیلئے اپنی منڈیاں کھول دیں اور سب پھر ایکبار ہنسی خوشی سے رہنے لگے ۔کشمیری عوام کی مزاحمت پرائیوٹائز یشن کی ایک زنجیرمیں پھنس کر رہ گئی۔ دس برس کے وقفے سے ہونے والانائن الیون کا واقعہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کے وسیع وعریض رقبے اور آبادی کو متاثر کرنے والا دوسرا واقعہ تھا ۔امریکہ کے ٹوئن ٹاورز کا ملبہ جن علاقوں پر گرا مقبوضہ جموںوکشمیر ان میں سرفہرست تھا ۔بھارت اور امریکہ مشترکہ دشمن اور مشترکہ مظلومیت کے ایک ہی خیمے میں سماگئے۔امریکہ نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کا موقف اور اصطلاحات اپنالیں اور یوں قالین کو لپیٹنے کا ایک عمل شروع ہوگیا ۔ 5فروری 1990میںیوم یکجہتی منا کر قاضی حسین احمد گھر جا کر نہیں بیٹھے تھے بلکہ انہوںنے بیرون ملکوں سے لیکر پاکستان کے کونے کونے میں جاکر ایک لہر اٹھانے سمیت بہت سے عملی اقدامات کرکے یکجہتی کو بامعنی بنا دیا تھا۔جس کے نتیجے میں سارا منظر بدل کر رہ گیا تھا ۔اب یہ یکجہتی صرف نعروں اور ہاتھوں کی زنجیروں تک محدود ہو کر رہ گئی اور چیلنج ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ بڑا اور سنگین ہو گیا ہے بلکہ یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مقبوضہ جموںو کشمیر کو ’’اب یا کبھی نہیں مرحلہ درپیش ہے ‘‘پانچ اگست 2019دنیا کیلئے تو شاید اہم نہیں تھا مگر جنوبی ایشیا ء میں یہ سردجنگ اور نائن الیون کے بعد ایک اہم واقعہ ہے۔اس فیصلے کے بعد بھارت بے خوف ہو کر مقبوضہ جموں و کشمیر کی عملی ،ذہنی ،ثقافتی اور تہذیبی انڈینائزیشن تک محدود نہیں رہے گابلکہ اس خطے کی Saffornisation (زعفرانیت)کی طرف تیزی سے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔بات سرینگر تک بھی رکتی نظر نہیں آتی۔ایودھیا کے رام مندر کی تعمیر کی تقریب میں آزادکشمیر کے تاریخی سیاحتی قصبے شاردہ کا ’’متبرک‘‘ پانی کا چھڑکائوکہانی کے اگلی اقساط کا پتا دے رہا ہے۔رام کی مورتی پر چھڑکا جانے والا پانی شاردہ کا تھا یا نہیں مگر اس کی علامتی حیثیت ہی کافی ہے۔ شاردہ آزادکشمیر کی وادی نیلم کا وہ تاریخی مقام ہے جسے کشمیری ہندو اپنا آغاز وارتقاء قراردیتے ہیں۔اسی طرح دریائے نیلم کے کنارے مقبوضہ جموں وکشمیر ٹیٹوال میں شاردہ مندر کی علامتی تعمیر سمیت اس زنبیل میں ابھی بہت کچھ باقی ہے۔پینتیس سالہ تاریخ کے اس بہتے ہوئے دھارے میں پاکستان اور آزادکشمیر میں استقامت کے ساتھ یوم یکجہتی منایا جا رہا ہے۔پانچ اگست 2019کے بعد تو اب یکجہتی کا خالی ڈھول ہی باقی رہ گیا ہے۔اس بار پانچ فروری بھی یکجہتی کے بھرپور رنگ لئے ہوئے رہا ۔یہ تو خیریت گزری کہ اس پانچ فروری ایک خوفناک تصادم کا شکار ہونے سے بچ گیا ۔آزادکشمیر کی کمزور ہوتی ہوئی جماعتی سیاست اور مضبوط ہوتے ہوئے پریشر گروپس میں لمحہ موجود میں خطے کی سب سے فعال قوت تاجر ایکشن کمیٹی نے اچانک پانچ فروری کو یوم یکجہتی کے موقع پر اپنے مطالبات کی حمایت میں پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا ۔ایکشن کمیٹی کئی ماہ سے بجلی کے انراخ سمیت اپنے جائز مطالبات کیلئے تحریک چلائے ہوئے ہے۔پانچ فروری کو جب پورا پاکستان مقبوضہ جموںوکشمیر کے عوام کیساتھ اظہار یکجہتی کرنے جا رہا تھا ایکشن کمیٹی نے اس روز اپنے مطالبات کے حصول کیلئے سار ا منظر اورماحول بدل ڈالنے کا راستہ چن لیا تھا ۔گویا کہ ایک طرف مقبوضہ کشمیر کے سیاسی حقوق کی بات ہور ہی ہوتی تو دوسری طرف آزادکشمیر کے عوام اپنے اقتصادی حقوق کیلئے سراپا احتجاج ہوتے ۔اس منقسم ماحول میں کئی مقامات پر تصادم کے خطرات بھی اُبھرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔آزادکشمیر کے حقوق کیلئے کوشاں حلقوں نے سرینگر اور مظفرآباد میں اشیائے خوردو نوش کی قیمتو ں پر موازنے کی ایک فہرست جاری کر کے یہ جملہ کسنا ضروری سمجھا کہ سرینگر والوں کو ان حالات میں آزادکشمیر کے لوگوں کیساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے ۔پانچ فروری کا دن کسی تصادم کی زد میں آئے بغیر خیریت سے گز رگیا مگر حالات و واقعات کی بساط بدستور بچھی ہوئی ہے۔ گلگت بلتستان میں ایک احتجاج کئی ماہ سے جاری ہے اور آزادکشمیر بھی اسی طرز کے احتجاج کا رنگ ڈھنگ لئے ہوئے ہے۔اب مقبوضہ جموں وکشمیر کے لداخ اور کرگل میں بھی اسی انداز کے احتجاج منظم ہورہے ہیں۔نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے آزادکشمیر پہنچ کر یکجہتی کا اظہار کیا ۔بدلے ہوئے حالات میں یکجہتی کے اس اذکار رفتہ مظاہرے سے متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین احمد اس معنی خیز جملے کے ذریعے ایک فاصلہ بناتے ہوئے نظر آئے ۔پانچ فروری کو جاری کردہ بیان میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے تیز رفتار اقدامات کی فہرست گنوانے کے بعدسید صلاح الدین احمد کا کہنا تھا ’’ان حالات میں صرف سیاسی اخلاقی اورسفارتی حمایت تک یکجہتی کو محدود کرناکچھ زیادہ معنی نہیں رکھتا پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور ایک اہم فریق کی حیثیت سے کشمیری عوام کی عملی مدد کرنا اس کا فرض ہے‘‘۔ان حالات میں زبانی کلامی یکجہتی کے ڈھول پیٹنے کے بجائے بڑھتے اور بدلتے ہوئے چیلنجز میں اپنے رول کا ازسرِ نوجائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔یکجہتی کے خالی مظاہروں سے بات بہت آگے نکل گئی ہے اگر اس ضمن میں کوئی ٹھوس منصوبہ ہے تو اسے روبہ عمل لانے میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے سردست لٹکائو کا عمل ہی جاری معلوم ہوتا ہے۔

٭٭٭

جناب سید عارف بہار آزاد کشمیر کے معروف صحافی دانشور اور مصنف ہیں۔کئی پاکستانی اخبارات اور عالمی شہرت یافتہ جرائدمیں لکھتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی ترجمانی کا الحمد للہ پورا حق ادا کر رہے ہیں ۔کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں

سید عارف بہار