بھارت میں حریت جماعتوں پر پابندیاں

عروج آزاد

12 مئی 1963ء کو جب تنازعہ کشمیر پر ہونے والے پاک بھارت مذاکرات میں کشمیر مستقل تقسیم کی تجویز زیر غور تھی ، پاکستان کے شہر راولپنڈی میں جمع ہونے والے ایک سو کشمیری وکلاء ، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں نے پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ تین ملکوں بھارت ، پاکستان اور چین میں تقسیم خطہ کشمیر کی وحدت کو بحال کرتے ہوئے اسے مکمل خود مختاری دی جائے ان افراد نے اس ہدف کے حصول کے لیے ’’ کشمیر انڈی پنڈنس کمیٹی ‘‘کے قیام کا بھی اعلان کیا۔اپریل 1963 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ’’کشمیر انڈی پنڈس کمیٹی کے مرکزی عہدیداروں پر مشتمل
(Jammu & Kashmir Pelbicite Front) کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ برطانیہ میں مقیم کشمیریوں نے بھی فرنٹ کی شاخ قائم کر لی۔اگست 1963 میں فرنٹ میں شامل کچھ پرجوش افراد نے الگ ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ قیادت کے منشور میں کشمیر کی آزادی کے لیے مسلح جدو جہد کی شق ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔ان افراد نے جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ ( جے کے ایل ایف ) بنانے کا اعلان کیا جس کا ہدف کسی بھی طریقے سے بشمول مسلح جدو جہد ، کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانا تھا جس کے تحت وہ اپنے سیاسی مستقبل کا خود فیصلہ کر سکیں۔

بعد میں جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ کو جموں کشمیر پلیبی سائیٹ فرنٹ کا عسکری ونگ تسلیم کر لیا گیا‘‘۔برطانیہ میں قائم جموں کشمیر پلیبی سائیٹ فرنٹ نے مئی 1977ء میں تنظیم کا نام اور آئین بدلنے کا فیصلہ کیا ،اس طرح جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا قیام عمل میں آیا جس کے دفاتر 1981 میں یورپ ، امریکہ اور مشرقی وسطیٰ میں قائم کیے گے۔1982 میں اس کا دائرہ پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جبکہ 1987مین گلگت بلتستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر تک پھیلا دیا گیا۔

کشمیر انڈی پنڈنس کمیٹی سے شروع ہوکر جے کے ایل ایف یعنی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ تک پہنچنے کے تمام مراحل میں گلگت سے تعلق رکھنے والے امان اللہ خان بنیادی محرک تھے۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں فرنٹ کے نمایاں لیڈرمقبول بٹ ؒکو ایک بھارتی پولیس افسر کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی لیکن اس پر عملدرآمد سے پہلے وہ سری نگر جیل سے فرار ہوکر پاکستان میں چلے آئے۔پاکستانی حکام نے مقبول بٹؒ کو حراست میں لے لیا لیکن چند ماہ بعد ہی انہیں رہائی مل گی۔کچھ مدت وہ یہاں ٹھہرے پھر واپس وادی میں داخل ہوئے جو ان کا آبائی وطن تھا۔ وہاںمقبول بٹؒ پر بہت سے الزامات لگا کر انھیں دوبارہ بھارت نے گرفتار کر لیاگیا۔ 11 فروری 1984کو مقبول بٹ ؒکو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دیدی گی۔1987 میں کشمیر میں جے کے ایل ایف سے تعلق رکھنے والے چار بڑے عسکری کمانڈروں حمید شیخؒؒ ، اشفاق مجید وانیؒ ، جاوید میر اورمحمد یٰسین ملک نے اپنے نام کے پہلے حروف ملا کر حاجی گروپ قائم کیا جس کے فوری بعد حمید شیخ ؒاور اشفاق مجید وانیؒ تو بھارتی فورسز سے مقابلے میں شہید ہوگئے جبکہ یٰسین ملک اورجاوید میر کو گرفتار کیا گیا یوں تب سے اب تک یٰسین ملک کو بھارتی حکومت گرفتار کرتی آرہی ہے لیکن اپنے ناپاک عزم میں ہمیشہ ناکام ہی رہی ہے۔اب مودی حکومت نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ جس کی قیادت عسکری کاروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام کا سامان کررہے یٰسین ملک ہیں پر پابندی عائد کردی۔فیصلوں کا علان کرتے ہوئے بھارتی مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ جو بھی ملک کی سلامتی ، خودمختاری اور سالمیت کو چیلنج کرتا پایا گیا اسے سخت قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مودی حکومت نے جموں و کشمیر نیشنل فرنٹ کو غیر قانونی تنظیم قرار دیا ہے اسکے علاؤہ بھارتی حکومت نے جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر ، مسلم لیگ ، تحریک حریت ، ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی ، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ ، دختران ملت اور مسلم کانفرنس پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کا حریت جماعتوں پر پابندیوں کا مقصد کشمیریوں کی آزادی کے لیے آواز کو دبانا ہے۔یہ اقدام کشمیریوں کو بے اختیار کرنے کی غرض سے کیے جارہے ہیں لیکن بالآخر مودی سرکار کو ہمیشہ کی طرح منہ کی کھانی پڑے گی اپنے مکارانہ منصوبوں میں ناکام ہی ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ۔