ڈاکٹر عبدالروف
دجال: احادیث کی نظر میں
”الدجالون الکذابون ”
پچھلی قسط میں دوسری صدی کے جھوٹے دجال،مہدی ء موعود کے دعویدار، جھوٹے مدعیء نبوت، کذاب حارث بن عبد الرحمن بن سعید دمشقی کے بارے میں پڑھ چکے ہیں۔ اموی خلافت کے اسی دور میں ایک اور شیطان بھی نبوت کا دعوے دار ہوا۔ اس کا نام بیان بن سمعان تمیمی تھا۔ قبیلہ بنی تمیم سے تعلق رکھنے والا یہ جھوٹا دجال مغیرہ بن سعید عجلی کا ہم عصر تھا۔ یہ فرقہ بیانیہ کا بانی ہوا جو غالیء روافض کی ایک شاخ ہیجو اہل تشیع کی ایک شاخ مانی جاتی ہے۔ بیان اس گروہ کا پیرو کار تھا۔ بیان نبوت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ خدا ہونے،معبود برحق ہونے کا بھی دعوے دار تھا ۔یہ شخص فرقہ غالیہ کے عقائد رکھنے کے ساتھ ساتھ کچھ ہندوانہ عقائد بھی رکھتا تھا ۔بیان ہندوؤں کی طرح تناسخ و رجعت اور حلول کا قائل تھا۔عقیدہ تناسخ و حلول یہ ہے کہ کوئی شخص یہ سمجھے کہ مرنے کے بعد روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے خواہ وہ کسی آدمی کا بدن ہو یا کسی جانور کا جس کو فلاسفر تناسخ اور ہندو آواگون کہتے ہیں۔ نئے جنم اور روحوں کے بھٹکنے جیسے باطل تصورات اسی بد عقیدہ کی پیداوار ہیں ایسا عقیدہ بالکل ہی باطل اور اس کا ماننا کفر ہے”۔
بیان بن سمعان بڑا شاطر چالاک، اور استدلال کا ماہر تھا اس کا دعوی تھا کہ میرے جسم میں خدا کی روح حلول کر گئی ہے اور اس کے متبعین اس کو اسی طرح خدا کا اوتار یقین کرتے تھے جس طرح ہندئو رام چندر جی اور کرشن جی کو خدائے بر تر کا اوتار خیال کرتے ہیں۔ بیان اپنے اس دعوی کے اثبات میں کہ ذات خداوندی ہر چیز میں حلول کرسکتی ہے۔ قرآن پاک کی متعدد آیتیں پیش کر تا تھا لیکن ظاہر ہے کہ آیات قرآنی سے اس قسم کا استدلال انوکھا اور عجیب و غریب ہے۔ یہ قرآن مجید کی من گھڑت اور باطل تشریح کر کے شاطرانہ انداز میں اپنے عقیدے پر لوگوں کو قائل کرتا تھا۔ بیان کا دعوی تھا کہ مجھے قرآن بھی سمجھایا گیا ہے۔ قرآنی آیات کا جو مفہوم مجھے سمجھایا گیا ہے وہ مطلب و مفہوم دوسرے نہیں سمجھتے۔فرقہ بیانیہ کا خیال ہے کہ امامت محمد بن حنفیہ سے ان کے فرزند ابو ہاشم سے ایک وصیت کی بنا پر بیان بن سمعان کی طرف منتقل ہو گئی۔یاد رہے کہ یہ فرقہ ائمہ کی معصومیت اور انبیاء پر افضلیت کا قائل ہے۔
فرقہ قادیانی کی طرح فرقہ بیانیہ بھی اپنے پیشوا بیان بن سمعان کے بارے میں مختلف آراء کا شکار ہیں۔ بعض اس کو نبی مانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بیان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا ایک حصہ منسوخ کر دیا ہے اور بعض اسے نعوذ باللہ۔ خدا یعنی معبود بر حق خیال کرتے ہیں۔ اس لیے کہ بیان نے ان سے کہہ رکھا تھا کہ خدا کی روح انبیا اور ائمہ کے اجساد میں منتقل ہوتی ہے اور اسی طرح میرے اندر بھی حلول کر گئی ہے۔ یعنی حلولی مذہب کا یہ موجب خود اپنی ربوبیت کا بھی مدعی تھا۔ اس کے پیروکاروں کا خیال ہے کہ قرآن کی یہ آیت نعوذ باللہ اس دجال کذاب بیان ہی کی شان میں وارد ہوئی ہے۔ترجمہ: یہ لوگوں کے لیے بیان اور متقین کے لیے ہدایت و نصیحت ہے ” ۔اس ملعون بیان بن سمعان کا دعوی تھا کہ قرآن کی اس آیت میں بیان کے لفظ سے مراد میں ہی بیان ہوں اور میں ہی ہدایت و موعظت ہوں(نعوذ باللہ)۔یہ جھوٹا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدائی کا قائل بھی تھا۔ حلولی نظریہ سے استدلال کرتے ہوئے بیان حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدائی کا اعتقاد رکھتا تھا،اور من گھڑت جھوٹی کہانی بیان کرتا تھا کہ اللہ تعالی کا ایک جزو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے جسد مباد ک میں حلول کر کے ان سے متحد ہو گیا ہے۔ چنانچہ ان کے اندر وہی قوت الہی تھی جس کی بدولت انہوں نے درہ خیبر اکھاڑ دیا تھا۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد وہ جزو الٰہی جناب محمد بن حنفیہ کی ذات میں پیوست ہوا۔ ان کے بعد ابو ہاشم عبد اللہ بن محمد کے جسم میں آیا۔ جب وہ بھی فوت ہوئے تو وہ یہ خدائی عنصر بیان بن سمعان یعنی خود اس کی ذات میں حلول کر گیا ہے۔ بیان یہ بھی کہا کرتا تھا کہ آسمان اور زمین کے معبود الگ الگ ہیں۔
بیان نے حضرت امام محمد باقر جیسی جلیل القدر ہستی کو بھی اپنی خود ساختہ نبوت کی دعوت دے ڈالی۔ اور لکھا کہ تم میری نبوت پر ایمان لاؤ تو سلامت رہو گئے اور ترقی کرو گے۔ تم نہیں جانتے کہ خدا کس کو نبی بناتا ہے۔ جب خالد بن عبد اللہ عامل کوفہ نے اپنے سابقہ غلام مغیرہ بن سعید عجلی کو گرفتار کیا تو اسی کے ساتھ 119ھ میں ہی بیان بھی اس وقت گرفتار کر کے کوفہ خالد کے دربار میں لایا گیا تھا۔ جب مغیرہ جل کر خاک ہو گیا (جس کا تفصیلی تذکرہ پچھلی قسط میں ہوا) تو خالد نے بیان کو حکم دیا کہ خشک جھاڑیوں کا ایک گٹھا تو بھی اپنے گرد لپیٹ لے۔ سمعان نے فورا اپنے گرد جھاڑیاں لپیٹ لیں۔ یہ دیکھ کر خالد نے کہا تم پر افسوس ہے کہ تم ہر کام میں حماقت اور جلدی سے کام لیتے ہو۔ کیا تم نے مغیرہ کو جلتے نہیں دیکھا؟ اس کے بعد خالد کہنے لگا کہ تمہارا دعوی ہے کہ تم اسم اعظم کے ساتھ لشکروں کو شکست دیتے ہو۔ اب یہ کام کرو کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو جو تجھے قتل کرنے کے در پے ہیں شکست دے کر اپنے آپ کو بچالو مگر یہ کذاب جھوٹا تھا کچھ بول نہ سکا۔ اس کے بعد خالد نے تیل چھڑک کر مغیرہ کی طرح اس بد بخت کو بھی زندہ جلا کر ہلاک کر دیا۔
پچھلی اقساط میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ ”قیامت سے پہلے میری امت میں تیس جھوٹے دجال آئیں گے جن میں ہر ایک نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا ” کے مصداق کچھ جھوٹے مدعیان نبوت کا ذکر کر چکے ہیں۔ اور یہ وضاحت بھی کر چکے ہیں دجال اکبر ایک فرد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فتنے کا نام بھی ہے۔ جو دنیا میں سب سے بڑا فتنہ ہو گا۔ دجال کا فتنہ، دجالِ مجسم سے کئی صدیوں پہلے رونما ھو گا۔ اور جوں جوں دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے بعید تر اور محشر کے دن سے قریب تر ہوتا جا رہاہے فتنہ دجال بھی نت نئی چالوں، اور نت نئے ہتھیاروں کے ساتھ شدت اختیار کر رہا ہے۔ یہ وضاحت بھی ہو چکی کہ دجال کا حملہ مسلمانوں کے ایمان پر ضرب کاری ہو گا۔ وہ توحید اور رسالت کو مشکوک اور مکدر کرے گا۔ اسی اعتبار سے حدیث مبارکہ کے اندر جھوٹے مدعیان نبوت کو بھی الدجالون الکذابون سے موسوم کیا گیا ھے۔ ان میں سے چند جھوٹے مدعیان نبوت کا ھم ذکر بھی کر چکے ہیں۔ جن میں کذابِ یمامہ مسیلمہ کذاب، عبہلہ بن کعب بن غوث العنسی (اسود العنسی)، حارث دمشقی، مغیرہ بن سعید اور بیان بن سمعان شامل ہیں۔ یہ سب ملعون پہلی صدی ہجری کے ہیں اور ان میں سے پہلے دو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی دعویٰ نبوت کی جسارت کر چکے تھے۔
صالح بن طریف:
مذکورہ جھوٹے دجالوں کے بعد صالح بن طریف برغواطی کا نام ہے جس نے دوسری صدی کے پہلے ربع میں نبی ھونے کا دعویٰ کیا۔ اس نے اندلس کے ایک قلعہ میں جنم لیا۔ عبید اللہ معتزلہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس لیے اس پر معتزلہ کے عقائد کی بھی چھاپ تھی۔ تاریخ کے مطابق یہودی الاصل تھا۔ زندگی کے ابتدائی دور میں سخت تنگدستی اور غربت کا زمانہ دیکھا۔ سیر و سیاحت یا روزگار کی تلاش یا پھر حصول علم کے لیے مغرب کے ایک علاقے تانتا جا پہنچا جہاں اس نے بربر قبائل دیکھے جو انتہائی جاہل اور وحشی لوگ تھے۔ اس کے لیے یہ ماحول آئیڈیل تھا اس نے وہیں رہنا شروع کر دیا۔ وہیں کا بود و باش اپنایا اور بربر قبائل کی مختلف زبانیں بھی سیکھ لیں اور ان لوگوں کو اپنے سحر، شعبدہ بازیوں، کرامتوں اور ان ھونیوں سے اپنا گرویدہ کر لیا۔ یہاں اس کا دجل خوب پھیلا اور اسے خوب ترقی ملی۔ لوگ اس کے مرید ھو گئے اور اس کے آگے پیچھے پروانہ وار قربان ہونے لگے۔ وہاں یہ دجال لوگوں کی حمایت سے حکومت کے مرکزی عہدوں سے ہوتا ھوا بہت جلد وہاں کا فرماں روا ھو گیا۔
125ھ یا 127ھ میں اس نے دعویٰ نبوت کر دیا۔ اس وقت خلیفہ ہشام بن عبد الملک اسلامی ممالک کا خلیفہ تھا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں صالح کی حکومت کو ایسی ترقی ملی کہ شمالی افریقہ میں اس کے کسی اور ہم عصر بادشاہ کو وہ عظمت و شوکت حاصل نہ ھوئی۔ دعویٰ ء نبوت کے علاوہ اس کا یہ بھی دعوی تھا کہ ”میں ہی وہ مہدی بھی ہوں جو قرب قیامت کو ظاہر ہو کر حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کا ساتھ اختیار کریں گے اور حضرت مسیح علیہ السلام جس شخص کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ میںہی ہوں۔
اسحاق اخرس۔ (گونگا اسحاق)
اس کذاب کا اصل نام اسحق اور اخرس اس کا لقب تھا۔ جو لوگوں نے اسے دے رکھا تھا۔ یہ بلاد مغرب کا رہنے والا تھا۔ اہل عرب کی اصطلاح میں مغرب شمالی افریقہ کے اس حصہ کا نام ہے جو مراکش، تیونس، الجزائر اور اس کے قرب و جوار کے ممالک پر مشتمل ہے۔ اسحق 135ھ میں اصفہان میں پیداہوا۔ اسحاق اخرس بھی جھوٹے انبیاء میں سے ایک تھا۔ یہ بھی اسی زمانے سے تعلق رکھتا ہے جس زمانے میں اس کے پہلے پیش رو بیان بن سمعان اور صالح بن طریف تھا۔ اس کا دعویٰ نبوت ان کذابین کے دعوے کے معاً بعد تھا۔ اس وقت مشرقی اسلامی ممالک پر عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کی حکومت تھی۔
یہ کذاب علوم مشرق و مغرب کا بہت بڑا عالم، کیمیا دان، مورخ، زبان دان اور ادب کا ماہر تھا۔ اس نے سب سے پہلے مدرسے سے تمام آسمانی کتب تورات، انجیل زبور اور قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ پھر تقریبا سب مروجہ علوم دینوی کی تکمیل کی۔اسے نہ صرف مذہبی معلومات پر بھی دسترس تھی بلکہ اس نے کئی زبانیں بھی سیکھ رکھی تھیں۔ اس کے علاوہ دیگر علوم و فنون میں بھی کمال حاصل تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ کمال کا کیمیا گر بھی تھا۔ ان علوم اور اس کیمیاگری نے اس کو اپنے دجل کو پھیلانے اور لوگوں کو اپنا حلقہ بگوش بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ماہر الہیات ہونے کی وجہ سے اسے مذاہب کے متعلق بھی بہت معلومات تھیں۔ ان صلاحیتوں نے اس کذاب کو لوگوں کے سامنے بہت پزیرائی دی تھی۔ کمال کا شعبہ باز اور مقرر تھا۔ (جاری ہے)