محمود احمد ساغر کنوینر آل پارٹیز حریت کانفرنس

محمد شہباز وانی

آزادی پسند رہنما محمود احمد ڈار المعروف محمود احمد ساغر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے وائس چیئرمین ہیں اور اس تنظیم کے چیئرمین سید شبیر احمد شاہ کے جیل میں مقید ہونے کی وجہ سے ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے اس وقت قائم مقام چیئرمین بھی ہیں۔ بیس کیمپ میں ابتدء سے ہی کل جماعتی حریت کانفرنس کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اور اس وقت اس فورم کے کنوینئر بھی ہیں۔ اپنے بچپن سے ہی کاروان آزادی کے ساتھ منسلک رہے ہیں اور پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت رہی ہے۔ان کے والد محمد اسمٰعیل ساغر مرحوم 1935ء میں وجود میں آنے والی مسلم کانفرنس کے بانی ارکان میں شامل تھے۔1945ء میں جب بانی پاکستان قائد اعظم ؒ کشمیر تشریف لائے تو سپاسنامہ ان کے والد مکرم نے ہی تحریر کیا تھا جس پر قائداعظم ؒ نے انہیں’’ ساغر‘‘ کا خطاب دیا ۔ان کے والد محمد اسمٰعیل ساغر 1990ء میں سرینگر میں خالق حقیقی سے جاملے ۔محمود ساغر جن کی عمر اس وقت صرف 14یا 15 برس تھی، اس وقت تہاڑ جیل میں نظر بندتھے جس کی وجہ سے والد صاحب کے جنازے میں شریک نہ ہوسکے۔ 1984ء میں اسلامک سٹوڈنٹس لیگ وجود میںآئی۔ جنا ب محمود ساغر صاحب نے تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد کا آغاز اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے کیا۔ بعد میںشبیر احمد شاہ کی قیادت میں پیپلزلیگ میں شامل ہوگئے اور تحریک آزادی کی جدوجہد میں اپناکردار ادا کرتے رہے۔ جناب ساغر تحریک آزادی کا ایک معتبر نام ہیں ۔بچپن سے آج تک آزادی کے شجر کے ساتھ ہی پیوستہ رہے اس امید کے ساتھ کہ آزادی کی بہار ضرور آئیگی۔محمود احمد ساغر تحریک آزادی کشمیر کے افق پر ابھرنے والا ایک معروف کردار ہیں، وہ تحریک آزادی کی نظریاتی اساس کے امین ہیں اور اپنے اسلاف کے نظریات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔

س:تحریک آزادی کشمیر ۔۔۔آپ کب اس تحریک میں شامل ہوئے؟

دراصل تحریک آزادی کشمیر کی ابتدء اس وقت ہوئی جب ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے ظلم و جبر کے خلاف کشمیری قوم سراپا احتجاج تھی ۔1940ء میں جب پاکستان کا نام معرض وجود میں آیا اور قرارداد پاکستان سامنے آگئی تو مسلم کانفرنس کے پرچم تلے کشمیریوں نے 19 جولائی 1947ء میں قرار داد پاس کی کہ کشمیر پاکستان کے ساتھ الحاق کرے گا جبکہ ابھی پاکستان معرض وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔پھر1947ء میں ہی کشمیر دو حصوں میں بٹ گیا اور کشمیری قوم پر ایک کاری ضرب لگائی گئی ۔ نومبر 1947میں ڈوگرہ فوجی اور ہندو بلوائیوں نے جموں میں ڈھائی سے پونے تین لاکھ مسلمان بے دردی سے قتل کئے۔اس کے بعد ایک بڑی تحریک ’’ محاز رائے شماری‘‘ کے نام سے چلی جس کی قیادت شیخ محمد عبداللہ نے کی لیکن شیخ محمد عبداللہ نے جب 1975ء میں ’’اندرا عبداللہ ایکارڈ‘‘ کے نام پر بھارتی حکمرانوں کے سامنے خود سپردگی کے نام پر شرمناک حرکت کی تو لوگ اس سے مایوس ہوئے تو پیپلز لیگ ’’الفتح‘‘ جیسی آزادی پسند تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر کو ہم تحریک آزادی کی Mother Organizationسمجھتے ہیں۔ میں اور مجھ جیسے ہزار ہا نوجوان اس ساری صورتحال کو دیکھ رہے تھے اور قابض بھارت کے ظلم اور اپنوں کی بے وفائیوں سے دل برداشتہ تھے ۔بالآخر ہم نے اس غلامی کے بندھن کو توڑنے کا فیصلہ کر لیا اور جدوجہدآزادی سے وابستہ تنظیموں میں شامل ہوگئے ۔میں نے اپنی جدوجہد کا آغاز اسلامک سٹوڈنٹس لیگ کے پلیٹ فارم سے کیا۔

س::حق خوداردیت کے مطالبے پر چلنے والی تنظیموں نے عسکریت کا روپ کب اور کیوں دھارا؟

ج:1988ء تک تمام سیاسی تنظیمیں پر امن ذرائع استعمال کرکے حق خود ارادیت کا مطالبہ کرتی تھیں لیکن بھارت نے سیاسی تحریک کو کچلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔1987ء میں ہی تمام سیاسی جماعتوں نے ملکر مسلم متحدہ محاذ بنایا۔ ہم یعنی پیپلز لیگ نے براہ راست اگرچہ اس الیکشن میں حصہ نہیں لیا لیکن مسلم متحدہ محاز کے امیدواروں کے ساتھ ہر قسم کا تعاون جاری رکھا۔لیکن خوفناک دھاندلی کرکے اس اتحاد کو ہرایا گیا اور عملاََ یہ پیغام دیا گیا کہ غلاموں کا کوئی ووٹ نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی کوئی اہمیت ہوتی ہے ۔مسلم متحدہ محاذ کو بندوق کے بل پر ناکام بنانے کے بعد کشمیری حریت پسندوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بھارتی بندوق کا جواب بندوق سے ہی دیا جانا چاہیے۔اس کی پیش بندی پہلے سے ہی ہورہی تھی اس حوالے سے 1984ء میں ہی اسلامک سٹوڈنٹس لیگ وجود میںآئی۔میں اسی تنظیم کے ساتھ وابستہ رہا۔1984ء سے1986ء تک یہ تنظیم پورے جموں وکشمیر میں ایک منظم تحریک بنی تھی اور پھر عسکری تحریک کی بنیاد بنی۔میں یہ دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جیسے آپ نے دیکھا ہوگا اسلامک سٹوڈنٹس لیگ کے پرچم میں گلوب نشان تھا اور اس کا نعرہ تھا’’دنیا کے مسلمانوں ایک ہوجائو‘‘۔اس میں کلاشنکوف کا نشان بھی تھا کہ یہ واحد حل ہے آزادی حاصل کرنے کا۔1988ء میں ہم نے ایک اجلاس بلایا جس میں شہید عبدالحمید شیخ ،شہید اشفاق مجید وانی ،یاسین ملک اور جاوید احمد میر اور بہت سارے نوجوان شامل تھے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ اقوام متحدہ نے ہمیں طاقت استعمال کرکے اپنا جائز حق حاصل کرنے کی اجازت دی ہے، ہم عسکری تربیت حاصل کرکے بھارت کے جابرانہ تسلط کے خلاف لڑیں گے۔اس لئے ہم نے اپنے بیس کیمپ آزاد کشمیر کا رخ کیااور تربیت لے کر واپس چلے گئے۔عبدالاحد وازہ اور غلام نبی بٹ جو اس عسکری تحریک کے بانی ارکان میں سے ہیں، مجاہدین کو بیس کیمپ پہنچاتے اور تربیت کے بعدواپس کشمیر پہنچاتے تھے، اس طرح کاروان بنتا گیا اور تحریک نے زور پکڑا۔

س:کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیری لوگ فلسطین کے طرز پر کیوں نہیں لڑتے، آپ کا کیا خیال ہے؟

ج:میرا خیال ہے کہ کشمیر اور فلسطین دو الگ الگ مسئلے ہیں۔ فلسطین دنیا میں ایک تسیلم شدہ Recognisedریاست ہے اس سے اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہے جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی بحیثیت ایک ریاست تسلیم نہیں کیا گیا ہے جبکہ ہمیں یہ حق دیا گیا ہے کہ ہم رائے شماری کے ذریعے خود یہ فیصلہ کریں کہ ہم بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔اقوام متحدہ کی قرار دادیں یہی کہتی ہیں جن میں کسی تیسرے آپشن کا ذکر نہیں ہے۔1993ء میں جب کل جماعتی کانفرنس کا آئین بنا، اس اجلاس میں سید علی گیلانی ؒ اور دیگر اکائیوں کے سربراہان موجود تھے، چونکہ شبیر احمدشاہ صاحب جیل میں تھے اس لئے ان کی نمائندگی میں نے کی۔اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ہم حق خود ارادیت کیلئے جدوجہد کریں گے۔ جب ہمیں یہ حق ملے گا پھر جیسے کہ پاکستان کا آئین آرٹیکل 257 میں خود اس کی وضاحت ہے کہ کشمیری خود فیصلہ کریں گے کہ وہ کن شرائط پر پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے یعنی یہ کوئی انضمام نہیں ہوگا۔

س: محترم ساغر صاحب جیسا کہ آپ نے فرمایا آپ1984ء میں تحریک آزادی کے حوالے سے پاکستان آئے تھے، اس وقت آپ نے یہاں کے ارباب اقتدار سے کوئی معاہدہ نہیں کیا کہ ایک جہادی تحریک بھارت کے خلاف شروع کرنی ہے، آپ کس حد تک اور کس طرح سے ہماری عملی مدد کریں گے؟

جـ : معاہدے کی کوئی بات نہیں ہوئی، زبانی کلامی ہوا ہے جو کچھ ہوا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر کسی کے ساتھ یہ باتیں نہیں ہوئی ہیں۔دراصل ہم عمر کے لحاظ سے اتنے ذہنی طور پر بالغ نہیں تھے کہ ہم ہر بات کی کھال اتار سکتے۔ ہم نے جن کے ساتھ ملاقاتیں کیں وہ سیاسی سیٹ اپ کے لوگ نہیں تھے۔ مظفر آزاد کشمیر میں جن لوگوں سے ہماری ملاقات ہوئی انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اس تحریک کو آپ شروع کریں، آگے لے جائیں پھر ہم سب اس میں شامل ہونگے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج تک ہم نے وہ چیز نہیں دیکھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت تحریری معاہدہ کرنا شاید ضروری نہیں سمجھا گیا۔ہمیں یقین دلایا گیا کہ جس طرح بنگلہ دیش میں مکتی با ہنی نے تحریک شروع کی جہاں پاک فوج کے مقابلے میں بھارتی فوج نے لڑا اور فوج نے فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے مکتی با ہنی کے سامنے نہیں۔اسی طرح آپ تحریک شروع کریں باقی ہم سنبھال لیں گے لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

س:تحریک آزادی کشمیر مختلف مراحل سے گزر کر موجودہ حالت تک پہنچی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آگے اس کو کس طرح زندہ رکھا جائے اور آزادی کی منزل تک پہنچایا جائے۔ آپ کے ذہن میں کیا نقشہ ہے؟

ج: تحریکو ں میں اتار چڑھاو آتے رہتے ہیں اس سے گھبرانا نہیں چا ئیے۔ محمود ساغر آزادی نہیں دیکھ سکے گا اسکی آئندہ نسلیں آزادی دیکھیں گی ۔ ہم اپنی کوشش ہر سطح پر جاری رکھیں گے اب کرنے کی بات یہ ہے کہ پہلے ہم متحدہ ہو جائیں اور جدوجہد کو منظم طریقے سے شروع کریں طریقہ کار یہ ہو گا کہ ہمارے پاس آزاد کشمیر بحیثیت بیس کیمپ موجود ہے جہاں ہم عوامی تحریک چلا سکتے ہیں مقبوضہ کشمیر میں موجودہ سنگین حالات میںایسا کرنا ممکن نہیں ہے گر چہ انتہا ظلم و جبر کے باوجود کشمیری عوام کا جذبہ آزادی ختم نہیں ہوا اس لئے بی جے پی حکومت وہا ں دس لاکھ فوج میں کمی کے بجائے روز بہ روز اضافہ کر رہی ہے ہم اس تحریک کو آزاد کشمیر اور بیرون ممالک میں مقیم تارکین وطن کشمیریوں کو ساتھ لے کر باہر سے ہی منظم کریں گے جب تک مقبوضہ کشمیر میں کوئی نئی صورت حال پیدا ہو تی ہے۔

س: محترم ساغر صاحب آپ نے فرمایا کہ عوامی تحریک برپا کر نی ہے سوال یہ ہے کہ کیا آزاد کشمیر کی سیاسی، سماجی اور مذہبی قیادت کے ساتھ اس حوالے سے ملاقاتوں کا کوئی سلسلہ حریت کانفرنس نے شروع کیا ہے ؟

ج : محترم عارف صاحب اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے آپ نے گزشتہ ڈیڑھ دو برسوں سے آزاد کشمیر کی پوری قیادت کے ساتھ اور اس سے پہلے یہاں موجود مقبوضہ کشمیر کی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کا جو سلسلہ شروع کیا تھا‘ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کی ٹیم اور تنظیم کی انتھک محنت اور کوششوں کا نتیجہ ہے کہ پچھلے دنوں وزیر اعظم چودھری انوار الحق صاحب نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں آزاد کشمیر کی سیاسی و مذہبی قیادت کے علاوہ کل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت بھی موجود تھی۔اس میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب تحریک آزادی کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر منظم کرکے چلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم APHC آزاد کشمیر اور پاکستانی حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیںکہ آپ عسکریت کو مضبوط سے مضبوط تر کردیںیہی آپ کے لئے Bargaining Hub ہے۔اس میٹنگ میں یہ بھی کہا گیا کہ آزاد کشمیر کی حکومت تحریک آزادی کے لئے ایک بجٹ مقرر کرے تاکہ بیس کیمپ اور بیرونی دنیا میں تحریک کو مضبوط کیا جائے۔افسوس کا مقام ہے کہ جناب شبیر احمد شاہ اور جناب یاسین ملک صاحب اس وقت منی لانڈرنگ کیس میں تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں کیونکہ انہیں کوئی own ہی نہیں کررہا ہے۔ اگر کوئی own کرے کہ یہ تحریک ہم چلا رہے ہیں اس کے پیچھے ہم کھڑے ہیں تو شاید ایسی کوئی پرابلم نہیں ہوسکتی۔آپ نے جو عوامی تحریک اور مشترکہ پلیٹ فارم ، مشترکہ ایجنڈے کی بات کی ،میٹنگ میں ساری باتیں ہوئیں۔ایک مشترکہ فورم کشمیر لبریشن کونسل کے نام سے وجود میں لایا گیا۔اسکے چیئر مین آزاد کشمیر کے وزیراعظم اور ڈپٹی چیئر مین کل جماعتی حریت کانفرنس کے کنوینئر ہوں گے۔ اور اس اتحاد کے تحت ہم نے چند دن پہلے کوٹلی آزاد کشمیر میں ایک عوامی جلسہ منعقد کیا جس میں مردحضرات کے ساتھ ساتھ خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور یہ سلسلہ پوری ریاست آزاد کشمیر میں جاری رہے گا۔ ان شاء اللہ

س: محترم ساغر صاحب!حریت کانفرنس اور جہاد کونسل کے ذریعے آج تک جتنے نوجوان ڈاکٹر ، انجینئر وغیرہ تیار ہوئے کیا ان کو تحریک آزادی کے ساتھ منسلک کرنے کیلئے آپ نے کوئی پروگرام بنایا ہے ،نیز ہمارے بچے جو ایک دوسرے کو جانتے ہی نہیں ہیں ،کیا ان کو ایک نظم میں پروکر تحریک آزادی کے ساتھ جوڑنے کی کوئی کوشش کی گئی ہے تاکہ ہم یہ تحریک اپنی نئی نسل کو منتقل کریں؟

ج:بہت اہم سوال کیا ہے آپ نے !اس پر ویسے کوئی کام نہیں ہوا ہے البتہ ہم نے مشورہ کیا ہے کہ اس اہم کام کیلئے کچھ بنیادی اقدامات کریں گے ۔یہ حقیقت ہے کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں لیکن ہمارے بچے ایک دوسرے کو جانتے ہی نہیں ہیں ۔

فی الحال ہمارے پاس آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے 1990 ء کے مہاجرین کی باز آبادکاری Rehabilitation کا ایک پروگرام ہے جس پر عمل شروع ہوا ہے ۔یہ ایک بڑا پروجیکٹ ہے ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں اور فیملیز کو اسی پروگرام کے تحت اکٹھا کرکے آپسی تعارف اور تحریک آزادی کے ساتھ ان کی وابستگی کی کوشش کریںگے۔ان شاء اللہ
٭٭٭