راہ حق میں ہوئے میرے حادثے کی کہانی میری زبانی

وسیم حجازی

(گذشتہ سے پیوستہ)

اگلے دن میں نے ساتھیوں سے کہا کہ میں نہاؤں گا اور خود نہاؤں گا، ساتھی خوش بھی ہوئے اور حیران بھی کیونکہ ایسا پچھلے سات مہینوں میں پہلی بار ہو رہا تھا۔ ساتھیوں نے غسل خانے میں کرسی رکھی، مجھے اس پر بٹھایا اور میں نے اتنے مہینوں کے بعد پہلی بار خود نہایا۔ میں بہت خوش ہوا کیونکہ مجھے اب اس بات کا یقین ہوگیا کہ میں اپنی محتاجی کو کسی حد تک کم کر سکتا ہوں۔ بظاہر تو یہ ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن میرے لئے یہ بہت بڑی بات تھی۔ اس بات کو وہی بہتر سمجھ سکتا ہے جو میری طرح ان قیامت خیز مراحل سے گذر چکا ہو۔ دل و دماغ پر نشتر کی طرح زخم لگانے والے ان احساسات و جذبات کو الفاظ کا جامعہ پہنانے کیلئے دنیا بھر کی لغات (ڈکشنریاں) بھی کم پڑ جائیں گی۔ یہ بات کم ہی سمجھیں گے کہ یہ دل ناتواں کس دردوکرب سے گزرا ہے

میں نے خود آخری بار حادثے کے دن نمازِ فجر سے پہلے نہایا تھا۔ پھر تین مہینے گذر جانے کے بعد ساتھی کبھی کبھار میرا سِر دھویا کرتے تھے۔ اس دوران سپرٹ واش کرکے میرے جسم کو صاف رکھا جاتا. پھر دوسرے آپریشن کے بعد جب حالت کچھ سنبھلی تو ساتھی مجھے سٹریچر پہ ڈال کر مجھے نہلایا کرتے، ٹھیک اسی طرح جس طرح مردے کو نہلایا کرتے ہیں۔ اب چونکہ اس دفعہ میں نے خود نہایا، اس سے میرا حوصلہ بڑھ گیا اور میرا احساسِ کمتری کسی حد تک کم ہوا۔ مجھے رفتہ رفتہ Dependency سے Self Dependency کی طرف بڑھنا تھا، لیکن یہ سفر اتنا آسان نہ تھا، میں جسم کا جو بھی حصہ یا جو بھی Function کھو چکا تھا مجھے اسکا عارضی نعم البدل تلاش کرنا تھا۔ بہرحال میں اپنے کھوئے ہوئے جسم کی بہت بھاری قیمت چکا رہا تھا۔

ایک دن میں Time Magazine پڑھ رہا تھا جو کہ New York سے شائع ہوتا ہے۔ اس میں Hollywood کے مشہور ادا کار Christopher Reeve کے حادثے کی کہانی لکھی تھی، 1995 میں اس وقت انکی Spinal injury ہوئی تھی جب وہ گھڑسواری کے دوران نیچے گر گئے تھے۔ وہ Quadriplegic تھے۔ میں نے اس میگزین میں انکی ایک تصویر دیکھی جس میں Exercise کے دوران وہ Standing Stretcher کے ساتھ کھڑے تھے۔ میں نے فاطمہ باجی کو تصویر دکھائی۔ وہ یہ تصویر لیکر مارکیٹ گئی اور کچھ دنوں کے بعد ایک ایسا ہی Stretcher بنوا کر لائی۔ جب ساتھیوں نے پہلی دفعہ اسکے ساتھ باندھ کر مجھے کھڑا کیا تو مجھے ایسی خوشی محسوس ہورہی تھی جسکا تذکرہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ مجھے وہ لمحات شدت سے یاد آنے لگے جب آخری بار میں رسی پر کھڑا تھا۔گرنے کے بعد میں پہلی دفعہ کھڑا ہو رہا تھا۔ گو کہ یہ کھڑا ہونا ایک مصنوعی عمل تھا لیکن پھر بھی میں اسکی لذت محسوس کر رہا تھا۔ پہلی بار کھڑا رہنے کا یہ دورانیہ بہت کم یعنی کچھ ہی منٹوں پر مشتمل تھا کیونکہ اسکے بعد مجھے چکر آنے لگے اور ساتھیوں نے مجھے بیڈ پر لٹا دیا۔ ہر روز میرے ساتھی دن میں ایک بار مجھے اسی طرح کھڑا کرتے ۔آہستہ آہستہ یہ دورانیہ ایک گھنٹے تک بڑھ گیا۔ اب میں نے اس ورزش کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا لیا اور وطن واپسی تک اس پر سختی سے عمل کرتا رہا۔ اس دوران میں عموماً یا تو مطالعہ کرتا یا پھر Tv دیکھتا۔ یہ میری Physical Rehabilitation کے سفر کا ایک اور سنگِ میل تھا۔ اس ورزش نے میری کمزور ٹانگوں کو کسی حد تک قوت فراہم کی کیونکہ انہیں ایک دفعہ پھر سے جسم کا بوجھ اْٹھانے کی عادت ہوگئی۔

میں جب Christopher Reeve کی کہانی پڑھ رہا تھا تو مجھے انکی اس تکلیف کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا جس تکلیف سے وہ گزر رہے تھے ۔حادثے کے بعد جب انہیں معلوم ہوا کہ اب وہ دوبارہ چل نہیں سکیں گے اور اب انہیں عمر بھر وہیل چیئر پر زندگی گزارنی ہے تو انہوں نے سوچا کہ ساری عمر دوسروں پر بوجھ بننے کے بجائے کیوں نہ ابھی زندگی کا خاتمہ کیا جائے۔ پھر اپنے اس فیصلے کے بارے میں جب انہوں نے اپنی شریک حیات ڈینا کو آگاہ کیا تو ڈینا نے روتے ہوئے جواب دیا:’’جو آپ کرنا چاہتے ہیں میں آپکو منع نہیں کرونگی کیونکہ یہ آپکی زندگی ہے اور یہ آپکا فیصلہ ہے۔ لیکن میں آپکو یقین دلانا چاہتی ہوں کہ میں اس مشکل صورتحال سے آپکو نکالنے میں ہمیشہ آپکے ساتھ رہوں گی چاہے کچھ بھی ہو۔آپ اب بھی وہی ہو جو آپ تھے اور مجھے آپ سے محبت ہے‘‘۔
اپنی بیوی کے اس ایک جملے نے Christopher کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے زندگی کی جنگ ہارنے کے بجائے اسے جیتنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنی تکالیف سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران Christopher کو پوری دنیا سے چار لاکھ خطوط موصول ہوئے جن میں اسکی صحتیابی کی دعاؤں کے علاوہ اسکی ہمت بندھائی گئی۔ چونکہ اسکے بازو بھی کام نہیں کر رہے تھے اسلئے اس کے لئے ایک ایسی وہیل چیئر بنائی گئی جو اسکی سانسوں کے زور سے چلتی تھی۔ اسکی نگہداشت کیلئے اسکے ساتھ ہمیشہ دس نرسیں رہتیں تھیں۔اپنے آپکو مصروف رکھنے کیلئے انہوں نے دوبارہ فلمی دنیا میں ڈائریکٹر اور پروڈوسر کی حیثیت سے قدم رکھا۔ انہوں نے ایک Foundation کے ذریعے Spinal cord Injury treatment کی Research کیلئے مہم چلائی اور فنڈذ جمع کئے۔

منصورہ ہسپتال کے اْس کمرے میں Christopher کی پوری کہانی پڑھنے کے بعد میری سوچوں کے بند دریچے کھُلنے لگے۔ حدیثِ نبوی کے مطابق حکمت مومن کی گْمشدہ میراث ہے جہاں سے بھی ملے اسے لے لو۔ میں نے اس کہانی سے حکمت کے نئے موتی تلاش کئے۔ جب انسان مایوسی کو چھوڑ کر امید کا دامن پکڑتا ہے تو زندگی کے نئے راستے خود بخود اس کیلئے کھُلتے جاتے ہیں۔ ہزار مشکلوں کے باوجود بھی جب انسان جینے کا عزم کرتا ہے تو بڑی سے بڑی مصیبت بھی اسکی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ایک انسان اپنی معذوری کے باوجود بھی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق گزار سکتا ہے۔ کوئی حادثہ انسان کو جسمانی طور معذور تو کر سکتا ہے لیکن اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں اب زندگی ختم ہو گئی۔ اگر ایک راستہ بند ہوتا ہے تو دوسرا راستہ کھُل جاتا ہے۔ انسان چاہیے تو ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔
میں ایک دن ٹیلی ویژن پر نیوز دیکھ رہا تھا۔ نیوز میں کچھ وہیل چیئر پر بیٹھے لوگوں کی مختلف activities دِکھائی جا رہی تھی جو کہ لاہور کے ہی رہنے والے تھے۔ انہوں نے Spinal Cord Injury Association بنائی تھی۔ ان میں ایک شخص کا نام منظر خورشید تھا جو اس تنظیم کے بانی تھے۔ میں نے انکا پتہ معلوم کروایا اور ایک دن ان سے ملنے گیا۔ وہ مجھے اپنے کمرے میں لے کر گئے تاکہ مجھے اپنے کمرے کا سارا Set up دکھا سکیں۔ کیونکہ وہیل چئیر پر بیٹھے شخص کیلئے ضروری ہے کہ اسکا کمرہ اور غسل خانہ User Friendly Wheelchair ہو۔انہوں نے مجھے اپنی ساری activities کے بارے میں بھی جانکاری دی کہ کس طرح وہ خود کو مصروف رکھتے ہیں۔ انہوں نے بھی جاوید صاحب کی طرح میری رہنمائی کی۔
منظر خورشید صاحب نے ایک دن SCI persons کا ایک Get together پروگرام رکھا جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا .مقررہ تاریخ پر میں اتوار کے دن لاہور کی اس پارک میں گیا جہاں یہ پروگرام منعقد ہو رہا تھا. پہلی دفعہ میں نے اتنے سارے لوگوں کو اکٹھے دیکھا جنکی spinal cord injury ہوئی تھی۔ یہ سارے لوگ وہیل چیئر پر تھے۔ اپنا ذہنی تناؤ دور کرنے، اپنے غموں کو بْھلانے اور اپنے آپ کو خوش رکھنے کیلئے یہ لوگ کبھی کبھار اسطرح اکھٹے ہو کر آپس میں گپ شپ کیا کرتے اور کھیل کود میں حصہ لیا کرتے۔ اس دن ان لوگوں نے کرکٹ میچ کھیلا۔ جسمانی طور معذور افراد کا اسطرح کوئی گیم کھیلنا میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ اسطرح ان لوگوں کو دیکھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ انہی تکالیف سے گزر رہے ہیں جس تکلیف سے میں پچھلے کئی مہینوں سے گزر رہا تھا۔
گو کہ اس حادثے نے میری زندگی کو تہہ و بالا کر دیا تھا لیکن میری زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی. جیسے تیسے بھی، بہرحال مجھے ابھی جینا تھا۔ لیکن جو مسئلہ مجھے پریشان کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ کب تک مجھے میرے ساتھی سنبھالتے رہیں گے جبکہ وہ خود وطن واپس جانے کیلئے ہر لمحہ بیتاب رہتے تھے۔ میں ایک ایسی صورتحال کا سامنا کر رہا تھا جس میں دوسری مدد و اعانت کے بغیر میں ایک پل بھی گزار نے کے قابل نہیں تھا۔ دوسرا، ہمارا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ہم خانہ بدوشوں کی طرح کبھی کہیں ہوتے اور کبھی کہیں۔ تیسرا اب آگے مجھے کیا کرنا ہے یہ بھی مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا۔ میں پچھلے ڈھائی سالوں سے تیغوں کے سائے میں زندگی گزار رہا تھا۔ تیغوں کا عشق میرے وجود میں رچ بس چکا تھا۔ اب اس ماحول سے دوری ناقابل برداشت تھی۔

شہید عبدالباسط

میں انہی الجھنوں میں الجھا ہوا تھا کہ ایک دن عبدالشکور بھائی منصورہ ہسپتال میں آئے۔ عبدالشکور قریباً 17 سال کا ایک خوبرو نوعمر نوجوان تھا۔ 1994 میں ہم دونوں ایک ہی کیمپ میں قیام پذیر تھے 1994کے اواخر میں کیمپ میں volleyball کھیلتے ہوئے بال کے پیچھے دوڑتے ہوئے وہ ایک گہری کھائی میں منہ کے بل گر گئے ،انکی گردن کی ہڈی میں fracture ہوا جسکی وجہ سے انکی Spinal injury ہوئی۔ اس گہری چوٹ نے انکی ٹانگوں کے ساتھ ساتھ انکے بازو بھی مفلوج کئے۔ عبدالشکور کئی مہینے CMH ہسپتال مظفرآباد میں ایڈمٹ رہے جہاں انکی حالت انتہائی نازک تھی۔ کئی ماہ تک وہ ایک زندہ لاش کی طرح ہسپتال کے بیڈ پر پڑے رہے۔

حادثے کے بعد ایک ہفتہ تک عبدالشکور مسلسل بیہوش رہے۔ انہیں حادثے کے فوراً بعد ایبٹ آباد ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں شہید عبدالباسط صاحب نے ہسپتال میں انکی نگہداشت اور تیمارداری کی۔ شہید عبدالباسط ان دنوں تنظیم میں ناظم تعلیم و تربیت تھے اور ہمیں قرآن کی تفسیر پڑھایا کرتے تھے۔ شہید عبدالباسط ہماری مسجد کے پنج وقتہ امام بھی تھے۔ وہ ایک نیک، صالح اور متقی و پرہیزگار شخص تھے۔۔۔، ایبٹ آباد ہسپتال سے عبدالشکور کو CMH ہسپتال مظفرآباد منتقل کیا گیا جہاں وہ کئی ماہ تک زیرِ علاج رہے۔ اسکے بعد انہیں سرجیکل ہسپتال مظفرآباد میں منتقل کیا گیا. اس ہسپتال کو کشمیری مہاجرین کے علاج کیلئے وقف کیا گیا تھا. 1995 میں اسی ہسپتال میں عبدالشکور کی عیادت کیلئے میں بھی گیا تھا۔میں نے جب انہیں سلام کی اور ان سے ہاتھ ملایا تو عبدالشکور نے مْسکرا کر میری سلام کا جواب دیا حالانکہ وہ اس وقت انتہائی تکلیف میں تھے۔ میں اس حسین مسکراہٹ کو کبھی نہیں بْھول سکتا۔ اس کے بعد عبدالشکور کو پشاور ہسپتال منتقل کیا گیا۔ جب عبدالشکور نے میرے حادثہ کے بارے میں سْنا تو وہ 1997 کے اوائل میں میرے پاس منصورہ ہسپتال لاہور چلے آئے اور تقریباً تین ماہ تک اسی ہسپتال میں میرے کمرے کے متصل دوسرے کمرے میں ایڈمٹ رہے۔
یہاں مجھے قریب سے عبدالشکور کی اْس تکلیف کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا جس تکلیف کا مقابلہ وہ پچھلے ڈھائی سالوں سے بڑی بے جگری سے کر رہے تھے ۔گو کہ وہ عمر میں مجھ سے کچھ سال چھوٹے تھے لیکن ہمت اور حوصلے میں وہ مجھ سے بھی آگے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میری ٹانگوں کی قوت تو چھین لی لیکن میرے بازؤں کو سلامت رکھا، لیکن عبدالشکور کو اپنے ٹانگوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں کی قوت سے بھی محروم ہونا پڑا۔ انکے ہاتھ بہت کمزور ہوچکے تھے اور انکی انگلیاں بھی ٹیڑھی ہو چکی تھی۔ کھانا کھاتے وقت انکے دائیں ہاتھ میں ایک چھوٹے سے بیلٹ کے ساتھ کھانے کا چمچ باندھا جاتا کیونکہ ایک ذرا سے چمچ کو پکڑنے کی طاقت بھی انکے ہاتھوں میں نہ تھی۔ گو کہ انکا جسم کافی کمزور پڑ چکا تھا لیکن انکا عزم اور ارادہ چٹان سے بھی زیادہ مضبوط تھا۔
حادثے کے بعد مشکل ترین مراحل سے گزر کر میں ایک ایسے دوراہے پر پہنچ چکا تھا جہاں ایک راستہ مایوسی کی طرف جاتا تھا اور دوسرا راستہ اْمید کی طرف۔ مایوسی کا مطلب موت تھا اور اْمید کا مطلب زندگی میں نے اس بچے کچھے جسم کو غنیمت سمجھا اور اْمید کا دامن تھام لیا۔اب اس ادھورے جسم کو جسمانی بحالی Physical Rehabilitation کے مرحلہ سے گذرنا تھا تاکہ زندگی کے آنے والے مشکل مراحل کیلئے اسکو تیار کیا جاسکے ۔اللہ تعالیٰ نے جس طرح پہلے مرحلے میں میری مدد کی ،اسی طرح اس دوسرے مرحلے میں بھی مدد کی ۔جاوید صاحب، منظر خورشید صاحب اور عبدالشکورکیساتھ ملاقاتوں کے علاوہ Christopher Reeve کی کہانی نے میری قوتِ ارادی کو جِلا بخشی.مجھے اْن بہت سارے سوالوں کے جواب مل گئے جو بار بار میرے ذہن کو پریشان کر رہے تھے۔
اسی دوران ایک دن مبشر بھائی نے ایک کتاب کی فوٹوسٹیٹ کاپی مجھے دی جسکا نام غالباً Life after SCI تھا۔ یہ کتاب امریکہ سے مبشر بھائی کے کسی جاننے والے نے منگوائی تھی جو کہ خود Quadreplegic تھے۔ اس کتاب میں اْس زندگی کا ایک خاکہ پیش کیا گیا تھا جو spinal injury کے بعد انسان کو گزارنی پڑتی ہے۔ اس کتاب میں تمام معاملات کو زیرِبحث لایا گیا تھا چاہے وہ جسمانی مسائل ہوں یا نفسیاتی مسائل، معاشرتی زندگی ہو یا ازدواجی زندگی۔.اس کتاب نے گر چہ ایک طرف میری بھرپور رہنمائی کی تو دوسری طرف اس کتاب نے میرے ہوش اْڑائے کیونکہ آنے والی زندگی کا خاکہ میرے تصور سے بھی زیادہ پیچیدہ تھا۔

یہ کتاب سالہاسال تک Rehabilitation proces میں میری رہنمائی کرتی رہی. اس کتاب کے کئی ابواب میں Diagrams کے ذرئیعے باتیں سمجھائی گئی تھیں۔اس کتاب میں persons SCIسے جڑے چھوٹے چھوٹے مسائل پر بھی مفصل روشنی ڈالی گئی تھی۔ وہیل چئیر سے بیڈ پر کیسے چڑھنا اور اترنا ہے۔ کیسے نہانا ہے اور کیسے کپڑے بدلنے ہیں۔جسم کی ورزش کس طرح کرنی ہے۔ بدن کے کس کس حصے کو Pressure sores کا زیادہ خطرہ ہے اور ان سے کیسے بچنا ہے۔ خود کوکس طرح انفیکشن سے بچانا ہے۔ کھانے پینے میں کیا احتیاط برتنی ہے ۔بیڈ پر کیسے اور کتنے گھنٹے کے بعد کروٹ بدلنی ہے۔ اپنے گھر کو کیسے Wheelchair accessible بنانا ہے ۔کیسے گاڑی میں چڑھنا اور اترنا ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت سارے مسائل پر مفصل روشنی ڈالی گئی تھی۔
(جاری ہے)
٭٭٭