بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے 21اپریل 2024ء کو راجستھان میں ایک عوامی جلسے میں مسلمانوں کے خلاف کھل کر نفرت انگیز تقریر کی جس میں عملاؒؒ انہوں نے کھل کر مسلم دشمنی کا اظہار کیااور واضح پیغام دیا کہ آنے والے دور میں بھارتی مسلمان اب موجودہ حالات سے زیادہ خوفناک حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہونگے۔مودی نے اپنی تقریر میں کہا ’’جب وہ کانگریسی اقتدار میں تھے تو وہ کہتے تھے کہ مسلمانوں کا وسائل پر پہلا حق ہے۔ وہ تمہاری تمام دولت جمع کریں گے اور ان میں تقسیم کردیں گے جن کے زیادہ بچے ہیں۔ وہ دراندازوں میں تقسیم کردیں گے۔‘‘۔مودی نے جب یہ تحقیر آمیز جملے کہے، تو جلسے کے شرکا نے زوردار نعرے لگائے۔مودی نے مزید کہا’’کیا آپ چاہتے ہوں کہ آپکی محنت کا کمایا ہوا پیسہ دراندازوں کو دے دیا جائے۔ کیا آپ یہ قبول کرو گے؟‘‘ انہوں نے بھارتی خواتین کو بھی یہ کہہ کر مسلمانوں سے ڈرایا کہ کہ عرب نسل کی یہ سوچ آپ کا منگل سوتر بھی بچنے نہیں دیں گے”۔نریندرا مودی مسلمانوں کے بارے میں پہلی بار ایسی باتیں نہیں کررہے ہیں ۔ان کی مسلمانوں کے ساتھ نفرت اس حد تک بھی ہم نے دیکھی ہے کہ جب وہ گجرات کے چیف منسٹر تھے اور وہاں 2002ء میںمسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا۔اس پر 2011تک موصوف نے زبان نہ کھولی ۔2011میں جب دہلی کے ایک صحافی نے پوچھا کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سے آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی تو مودی نے طنزیہ جواب دے کر صحافی کو یہ کہہ حیران کردیا کہا کہ گاڑی کے ٹائر کے نیچے اگر کتے کا بلا بھی آئے اور مرجائے تو تکلیف تو ہوتی ہے ۔مودی سرکار کا ایجنڈا صرف ہندوتوا ذہنیت پر مبنی ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں پر بھارت کی زمین تنگ کردی گئی ہے۔ نہ صرف عام بھارتی مسلمان بلکہ بھارتی مسلم پارلیمنٹ ممبران بھی بی جے پی کی نفرت انگیز سیاست کی بھینٹ چڑ ھے ہیں۔ مسلمانوں کے گھروں، کاروباری مراکز اور عبادت گاہوں کو غیر قانونی اور تجاوزات قرار دے کر مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے، ہندوتوا نظریے کو پروان چڑھانے کیلئے سرکاری سطح پر ہندو انتہا پسندوں کو مکمل اور کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔رواں سال بھارت میں مودی سرکار کی جانب سے سی اے اے قانون میں بھی ترمیم کر دی گئی جس کے بعد بھارتی مسلمانوں سے ان کی شہریت کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ بطور مسلمان بھارت میں رہنا مودی سرکار نے اجیرن کر دیا ہے۔بھارتی مسلمان گھروں سے نکلنے سے ڈرتے ہیں، یہاں انصاف کا قتل عام ہو چکا ہے۔ نماز پڑھتے ہوئے انہیں بھارتی پولیس کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہر ریاست میں حکومت اور پولیس یک طرفہ انصاف کرتی ہے۔ مسلمان بظاہرایک آزاد ملک میں رہ کر بھی۔۔ غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔بھارت کے ایک معروف صحافی ،دانشور اور محقق وی ٹی راج شیکھرنے21اپریل 2009ء کو پنجاب یونیور سٹی لاہور میں ’’اسلام‘‘ مستضعفین اور اچھوت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کی حالت زار ان الفاظ میں بیان کی تھی “ہندی مسلمان بھارت کی کل آبادی کا 20% سے 25% ہیں۔ جن کی مجموعی حالت زار بھارتی اچھوت سے بھی بدتر ہے۔ اچھوت بھارت کی کل آبادی کا تقریباً 20% ہے جبکہ اچھوت قبائل کی تعداد 10% ہے۔ اس طرح بھارت کی اچھوت اور قبائل بھارت کی کل آبادی کا 30% ہیں۔ یہ اچھوت اقوام یعنی 30% بھارتی عوام پچھلے تین چار ہزار سال سے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی کسمپرسی اور بے بسی اچھوت اقوام سے بھی گئی گزری ہے،اس وقت بھارت میں مسلمان کو دہشت گرد اور غدار کہا جاتا ہے۔ 9/11 کی عالمی ڈرامے کے بعد بھارت میں مسلمانوں کو گرفتار کرنا‘ مارنا اور بنیادی انسانی حقوق اور بھارت کے نام نہاد سیکولرازم کے ثمرات سے محروم رکھنا معمول بن گیا۔ اس وقت تقریباً 45 ہزار مسلمان بھارت کی جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں جن کو عدالتی کارروائی کی بھی اجازت نہیں ہے۔بھارتی مسلمان برہمن کے غیظ و غضب مکر و فریب اور بھارت ماتا کی تقسیم کے باعث شدید ترین انتقام کا شکار ہیں۔ بابری مسجد کا انہدام 1992ء گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام 2002ء اور مالیگائوں میں بھارتی فوجی کرنل پروہت کے ماتحت منظم انداز میں مسلمانوں کا قتل عام 2008ء بھارتی زندگی کا معمول بن گیا ہے۔ وی ٹی راج شیکھر نے مزید بتایا کہ برہمن کے مکر و فریب کے روپ ہزار ہیں اور ہر روپ انتہائی بھیانک اور خطرناک ہے ۔” بھارت کی یہ صورتحال تب تھی جب بظاہر ایک سیکولر اور جمہوری حکومت تھی اور من موہن سنگھ اس حکومت کی قیادت کررہے تھے ۔اب اس صورتحال کا موازنہ آج کریں تو صاف ظاہر ہے کہ بھارتی مسلمان کی حالت اس دور سے بھی انتہائی بد تر ہے اور آنے والوں برسوں میں اس سے بھی ان کی حالت بدتر ہوتی جائیگی ۔موجودہ حکومت اعلانیہ مسلمانوں کو درانداز کہہ رہی ہے اور درانداز کے ساتھ پیار محبت کا رشتہ استوار نہیں ہوتا۔ماضی کو بھو لنے کا مشورہ دینے والے کو یہ پیغام پہنچنا چا ئیے کہ یہ باتیں ماضی کی نہیں حال کی ہیں ۔آپ نے ماضی کو بھلاکر اپنے حال اور اپنے مستقبل کو دائو پر لگایا ہے ۔نہ صرف بھارتی مسلمان بلکہ مقبوضہ کشمیر سمیت اس خطے کا ہر مسلمان آنے والے برسوں میں غیر محفوظ ہوگا۔کیونکہ حالت قیام میں جو سجدے کا مشورہ دیا گیا اور پھر کرایا بھی گیا اس کے نتائج اس پورے خطے پر پڑیں گے اور وہ پڑ رہے ہیں ۔اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگ رہا ہے اور اس کیلئے سرعت سے کام جاری ہے ۔اللہ رحم فرمائے۔