پروفیسر شمیمہ شال
ہسپتال میں زندگی کا آخری مہینہ جس صبر اور حوصلے کیسا تھ میرے ہمسفر میرے مہربان نے گزارا، وہ کمال وقت تھا اور دیکھنے کے قابل تھا۔ آپ کبھی گھر میں سر درد پر آسمان سر پر اٹھاتے تھے۔ اماں، دادی اور ابا سب آپ کے ارد گرد جمع ہوجایا کرتے تھے۔ کوئی سر تو کوئی پیر دباتا اور پھر ڈاکٹر مجید واصل صاحب معمولی سی گولی لکھ کر دیتے اور آپ ایک دم ٹھیک ہوجاتے۔ میں حیران وپریشان خدایا سر درد پر اتنا شور شرابہ مگر آج اپنے آبائی گھر سے بہت دور ریڈنگ ہسپتال لندن میں بہت نرمی سے نرس کے سامنے بازو آگے کرکے بتا دیتے ہیں مرضی ہے جتنا خون درکار ہے لے لیں۔میں خاموشی سے ان کے جانے کی تیاری دیکھ رہی تھی۔ ڈاکٹرز نے پہلے کرونا اٹیک کے بعد بتا دیا تھا کہ پھیپھڑے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ اب انہیں کون بتاتا کہ یہ تو گھر سے ٹیسٹ کیلئے آئے تھے کرونا کہاں سے ہوا مگر ہسپتال ہر جگہ ایک جیسے۔۔۔ جہاں علاج کیساتھ ساتھ انفیکشن ہونے کے زیادہ خطرات ہوتے ہیں۔
ہم آپ سے وقت گزارنے کا بہانہ تلاش کرتے کہ 30 برسوں میں ہمُ دونوں (بلکہ بچے بھی) سارا وقت اپنی تحریک کیلئے وقف کرچکے تھے۔ دسمبر 2023 کا پورا مہینہ بیٹا یاسر آپ کیساتھ گپ شپ لگاتا اور فلسفہ زندگی پر بحث کرتا۔ ساتھ ساتھ چپکے چپکے سورۃ یٰسین کی تلاوت کرتا، پورا سٹاف اپ کی یاداشت پر حیران تھا۔ آپ انہیں جنوبی افریقہ کی جغرافیہ اور تاریخ بتاتے۔

انڈین برازیل کے مدراس سے لیکر ممبئی تک جگہ ،ہوٹل اور تاریخی واقعات بتاتے۔ ڈاکٹر آپ کے دل اور بلڈ پریشر کو مانیٹر کرتے تھے اور آپ کا دل اتنا مضبوط کہ آخری لمحے تک نہ دل نے ساتھ چھوڑا نہ دماغ نے۔ آپ بہت بہادری سے جان جان آفرین کے سپرد کرنے کیلئے تیار بیٹھے تھے کہ جانا تو رب کے پاس ہی ہے جو ستر ماؤں سے زیادہ خیال رکھنے والا ہے۔ آپ نے اپنے ساتھی عبدالمجید ترمبو صاحب کو بلانے کیلئے کہا وہ جب آئے تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، شال صاحب آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ آپ تو بالکل ٹھیک ہیں۔ اسی شام ثوبیہ بلال بھی پہنچ گئی۔ وہ باپ کے ساتھ لپٹ کر روئی اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہی تھی بابا آپ ٹھیک ہیں نا۔ آپ کا ظاہر آپ کے باطن کے دکھ و درد کو صبر کی چادر میں چھپا رہے تھے۔ آپ پر سکون تھے۔ میں بھی خاموش اور کچھ کہنے سے قاصر تھیں کہ کہنے کے بجائے زیادہ سنا جائے۔ ان کا میری طرف دیکھنا اور مسکرا کر کہنا کہ آپ تو بہت کام کررہی ہیں اسے جاری رکھنا۔ میرا پھر ان کیساتھ مکالمہ شروع ہوجاتا کہ مجھے کچھ نہیں آتا۔ میں اکیلے کام نہیں کرسکتی۔بس آپ نے ٹھیک ہونا ہے۔ مگر وقت پورا ہوچکا تھا۔ بچے اپنی نظمیں لے کر آتے اور دادا کو سناتے وہ خوش ہوتے کہ مہوین کتابیں پڑھنا دادا کی طرح پسند کرتی ہیں اور ثویبہ کا آرٹ اورنظمیں لکھنا۔دادا کے بچے سب کچھ دادا کی طرح کرتے اور دادا انہیں سراہتے تھے۔ کتابوں کی لسٹ بنا کر دیتے اور آج دادا شہمیرکو میرا اسلامی سکالر کہہ کے پکارتے تھے۔اسی نے شال صاحب کے اس دنیا سے جانے سے 15 منٹ پہلے جب فرشتے ان کی روح قبض کرنے کیلئے آئے تو ثویبہ، فاطمہ اور شہمیر نے سورۃ والضحٰی کی تلاوت شروع کی۔ آپ تلاوت سن رہے تھے اور ساتھ ساتھ گہری لمبی سانس لینا شروع کی۔ میں نے منصور سے کہا پاپا جارہے ہیں۔ ایک دم آپ کو پسینہ آیا اور پھر آرام سے سانس لی اور اس وقت ثوبیہ کے ہاتھ میں ہاتھ تھا۔وہ پورا دن صبح سے ہی سورۃیٰسین اور سورۃ الکہف کی تلاوت کررہی تھی۔آرام سے ترمبو صاحب نے کلمہ شہادت پڑھا۔آپ نے زباں ہلا کر گواہی دی اور پھر ہمیشہ کیلئے ہم سے رخصت ہوئے۔یوں سورۃ الکہف کی تلاوت سنتے سنتے ہم سے جدا ہوئے۔ ہم بے دست و پا آپ کو اللہ کے سپرد کرکے دیکھ رہے تھے۔انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے رہے۔ میں ایک مہینے سے (چپکے چپکے اللہ سے یہ کہتی رہی آپ کی امانت اپ کے سپرد۔
آپ بہترین خلیفہ اور نگہبان ہیں۔ بچے اور ترمبو صاحب شال صاحب کو دیکھ رہے تھے۔ وہ چہرے پرمسکراہٹ لیے ہمیں زندگی کے صحرا میں چھوڑ گئے۔
بدھ کے دن مجھے پہلی بار اپنا آخری پیغام تحریری طور پر لکھنے کیلئے کہا۔میں نے اصرار کیا کہ آپ خود لکھیں مگر نہیں مانے اور مجھے ہی لکھنے کی تاکید فرمائی۔ بعدازاں کہا کہ پہلے مجھے دکھاؤ کیونکہ وہ لکھنے میں غلطی برداشت نہیں کرتے تھے اور پھر 28 دسمبر کو اسے پوسٹ کرنے کیلئے کہا ۔۔۔
Message From Nazir Ahmed shawl
I am great-full to Allah for bestowing me that I deserved. I have seen adversity but at the same time I was in a glorious light of my Lord I did what I could I met extraordinary people who polished my thoughts I tried to determine the meaning of existence . I made a successful effort in that direction I would like my friends to remain satisfied with the decision of my Lord
ولایت پادشاہی علم اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں؟ فقط اک نکتہ ایماں کی تفسیر میں
منصور، یاسر، ثوبیہ، بلال اور میں ہم ان کے پاس کھڑے انہیں دیکھ رہے تھے۔اپنے آبائی وطن سے دور کسی اور سر زمین پر جہاں اس وقت تسلی دینے کیلئے بھی کوئی موجود نہیں تھا ہم ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ شال صاحب نے اپنے تمام انتظامات ترمبو صاحب کو کرنے کیلئے کہا تھا۔ کہاں ان کی آخری آرام گا ہ ہو؟ جنازہ کہاں پڑھا جائے؟
ترمبو صاحب اور شال صاحب مشکل ترین حالات میں جس طرح ایک دوسرے کیساتھ کھڑے رہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ دونوں نے حق دوستی ادا کیا۔ ہماری فیملی ترمبو صاحب کی بہت مشکور ہے کہ وہ شال صاحب کی خبر گیری کیلئے ہر روز ہسپتال آتے اور ہمارے ساتھ آخری لمحات تک کھڑے رہے۔جب گھر کا سربراہ رخصت ہوتا ہے تو اپنے ساتھ بہت کچھ لیکر جاتا ہے۔ بے فکری ختم ہو جاتی ہے وسوسے جنم لیتے ہیں۔سمندر کی گہرایوں میں انسان ڈوب جاتا ہے۔ مجھے اپنے رب پر یقین کامل ہے اور اسی یقین کیساتھ میں اپنے رب سے بہترین فیصلے کی دعا کرتی تھی۔ دعا تو شال صاحب کی سننے کے لائق ہوتی تھی۔ ابھی دعا شروع نہیں ہوتی کہ وہ زار و قطار رونا شروع کرتے۔اپنے والد صاحب اور بشیر بھائی جان کا نام لیکر وہ گڑگڑا کر دعا کرتے۔ دعا کی فہرست اتنی لمبی کہ نام لیکر دعا مانگتے۔

28 دسمبر 2023 کو میں نے دعا کیلئے کہا تو بچوں سے ملتے وقت ساتھ بٹھا کر ان کیلئے نہ صرف دعا کی بلکہ بچوں کے سکول تک کے نام تجویز کیے کہ ان کے بعد ان کا تعلیمی سفر جاری رہے۔ 29 دسمبر بروز جمعتہ المبارک صبح تک پانی پیتے رہے۔ تاریخ پوچھی -منصور اندر کمرے میں داخل ہوئے۔ ناشتے کیلئے کہا تو ان سے صرف پانی مانگا اور لیٹنے کیلئے کہا اور پھر سو گئے۔ پھر عصر اور مغرب کے درمیان اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔انا للہ و انا الیہ راجعون ہم سب اسی کے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کے جا نا ہے۔ ہسپتال کا پورا سٹاف سوگوار تھا۔ وہ باخبر تھے کہ زندگی کا سفر ختم ہونے کو ہے۔ہم بھی جانتے تھے وہ ہم سے جدا ہورہے ہیں۔ مگر اتنی جلدی یہ اندازہ نہیں تھا۔ رب کے فیصلوں پر جتنے راضی شال صاحب تھے وہ بیان سے باہر ہے۔ ڈاکٹرز کی ٹیم جب ان سے آخری بار 27 دسمبر بروز منگل 2023 کو ملی تو وہ انہیں تسلی دیتی رہی۔ وارڈ میں موجود ہر سٹاف ممبر کا نام لیکر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا’’ڈاکٹر صاحب آپ نے بہت کوشش کی اب یہ میرے رب کا اور میرا معاملہ ہے ان شاء اللہ سب کچھ بہتر ہوگا۔ ‘‘شال صاحب بچوں سے پرسکون ہوکے ملے انہیں تسلی دی۔ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ میں صرف انہیں ایک ہی بات کہتی تھی آپ اللہ کی امان میں ہیں وہ بہترین مددگار ہیں، پوری رات وقفے وقفے سے زم زم پیتے رہے۔ مجھ سے پوچھتے رہے کہ منصور،یاسر اور ثوبیہ آئے ہیں۔ منصور جب کمرے میں داخل ہوئے تو ان سے پانی مانگا ساتھ مختصر بات کی اور سوگئے۔ میرے لئے یہ مشکل مرحلہ تھا۔بچے صبر کی وسل دل پر رکھ کر خاموشی سے پہلی بار زندگی اور موت کا سفر باپ کو طے کرتے دیکھ رہے تھے۔ وہ باپ جو بہترین دوست تھا جس نے کھبی بچوں پر اپنی رائے مسلط نہیں کی۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا نہیں تھا۔ جمعہ سے پہلے ہی ترمبو صاحب اپنی فیملی کیساتھ پہنچ گیے۔ جو سنا تھا پڑھا تھا آج سامنے دکھایا گیا فرشتے آئینگے اور کسی اور ہی شکل میں۔ یاسر کے بچے اچانک سے کمرے میں داخل ہوئے۔ پسینے سے شرابور شال صاحب کے سامنے فرشتوں کی طرح کھڑے ہوئے۔ادھر شہمیر نے اذان دی۔ادھر صرف 7 یا 8 منٹ کے بعد مشین رک گئی۔ میں نے پیر پر ہاتھ رکھے ۔۔۔ گرم تھے۔ ماتھے پر ہلکا پسینہ ایک لمحے کا فرق بس زندگی سے آزاد ابدی سفر پر روانگی۔ میت کی چند رسومات ہسپتال کے عملہ کو نہیں معلوم۔ اس لیے مجھے وہ سب کام خود ہی کرنے پڑے جو عموماً ہمارے بڑے رشتہ دار انجام دیتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ہمت نے جواب دیا مگر یہ سب مجھے کرنا تھا۔میرا رب جانتا تھا یہ کیسے کیا؟ اسی رب نے اس راستے کیلئے منتخب بھی کیا تھا۔ہمارا سب کچھ اسی کے سپرد۔ دیار غیر میں معلوم نہیں کیا کچھ سہا۔ ہم دونوں نے ہجرت کو دل سے قبول کیا ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کو حوصلہ دیا۔اور آج جب وہ مسکرا کر چل دیئے میں نے ان کے سارے کام خود ہی کیے۔ آج بھی دو بار نہائے۔ وہ روزانہ نہانے کے عادی تھے۔چاہے منفی درجہ حرارت ہی کیوں نہ ہوتا۔ روزانہ نہانا اور کپڑے تبدیل کرنا یہ عادت آخری دن تک جاری رہی۔ اپنے آبائی وطن سے دور 44 برسوں کی رفاقت اور عارضی ساتھ اختتام پذیرہوا۔ پر آشوب حالات میں جب ہم نے اپنا گھر بار چھوڑا تو ہم ایک دوسرے کی ڈھال بن گئے۔
نذیر شال صاحب میرے استاد بھی تھے جدوجہد کے مشکل ترین راستے میں۔ میری وجہ سے اسے بہت کچھ سہنا اور سننا پڑا مگر انہوں نے خاموشی کو ہتھیار بنایا تو یہ راز پا گیا کہ تیرے چاہنے والے۔۔۔تیرے بن عمر گزاریں کیسے؟
ہم نے44سال ایک ساتھ گزارے ان ماہ وسال میں 12 برس مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزرے۔ اپنے گھر میں ، اپنوں کیساتھ گزرے۔ باقی جدوجہد آزادی کے کھٹن راستے میں صرف ہوئے۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ ہر بار چاہا کہ میں بھی کچھ لکھ کر اس سے صفحہ قرطاس کی شکل دوں ۔ ۴۴ برس گزرنے کے بعد ہسپتال میں مسلسل ایک مہینے سے زیادہ دن گزارنے کے دوران میں اور نذیر صاحب زندگی کے اوراق دوبارہ پڑھنے کی کوشش کرتے تھے اور مجھے احساس ہوا کہ اس تجربے کو شیئر کرنا لازمی ہے۔
یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ہم نے اپنا گھر چھوڑا مگر یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اس گھر کیساتھ جڑے سب رشتے سب ناطے سب احساسات اور محبت ،ذ مہ داریاں، فرائض اور جذباتی لگاؤ۔ اس راہ پر چل کر سب لوگوں کو کتنے گھائو لگے۔ کتنے زخم آئے۔ وہ بیان نہیں ہوسکتے۔ آج اپنے مہربان دوست اعلیٰ کردار کے مالک شائستہ اور نفیس انسان کے بارے میں لکھنے کیلئے ہمت باندھ لی چونکہ اب زندگی کے مشکل فیصلے میں وہ ظاہری طور پر جدا ہوچکے ہیں مگر میرے لیے متعین کردہ راستے بہت واضح کرکے چلے گئے۔ انہوں نے 31 سالہ دشوار زندگی میں چلنا ہی تو سکھایا۔مجھے لکھنے اور بین الاقوامی معاملات سمجھنے کیلئے ہر وقت گائیڈ کرتے رہے۔ میں ایک استاد سے بھی محروم ہوگئی جو ہر وقت ہر کسی کو میسر ہوتے تھے۔ ہسپتال میں بھی وہ اپنے دیرینہ ساتھی ترمبو صاحب کی توجہ بار بار تحریک آزادی کی جانب مبذول کرا تے رہے ۔

ہر عید دکھ اور غم تازہ کرتی ہے رمضان کے پہلے عشرے میں۔ 1995 میں میر صاحب شہید کیے گئے۔ 2011 میں 25رمضان المبارک کو والد صاحب دکھوں کا پہاڑ اورجدائیوں کا غم دیئے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ آج کی عید جو وطن سے دور کیا خاک ان کی عید ہے کے ماند تھی۔ ہر کشمیری کا دکھ ایک جیسا آج بھی گھر پر کوئی نہیں۔ سب ادھر ادھر غمِ روزگار میں مصروف۔تب میں اور آپ کسی پروگرام کے سلسلے میں مختلف جگہوں پر ہوتے تھے۔ بچے اللہ کے سپرد۔کب سوچا تھا اب بھی کچھ اس طرح تیرے بغیر یہ عید ہوگی۔ تب آنے کی امید تھی اب صرف وہاں ہی ملنے کا انتظار ہے۔ بس اللہ ہی جانتا ہے جو بہترین سننے اور دیکھنے والا ہے۔ آپ ہوتے تھے تو دیار غیر میں بھی آپ اپنی روایات کو نہ صرف یاد رکھتے بلکہ سب کچھ ویسے کرنے کو کہتے۔کشمیری قہوہ نمکین چائے اور اس کیساتھ بیکری قلچے اور باقر خانی۔ آپ یہ سب بہت مس کرتے تھے۔ آپ اپنی روایات کے امین تھے۔ آپ کھانے پینے کے شوقین بھی تھے۔ آپ نے اگرچہ سب کچھ بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا مگر کبھی کبھار اپ بچوں کی طرح ضد کرتے اسی طرح سب کچھ ہونا چاہیے جیسے گھر میں ہوتا تھا۔ آج کسی نے صبح سویرے یہ نہیں کہا کہ نماز عید سے پہلے قہوہ پینا لازمی ہے۔ نا ہی شور مچایا کہ صبح قہوہ اور بیکری کی ساری چیزیں دسترخواں پر موجود ہوں۔ نماز عید کے بعد نمکین چائے اور بیکری۔ میں باور کراتی یہ مقبوضہ کشمیر نہیں ہے یہاں ایسے نہیں ہوتا مگر کل تک گھر میں ایسے ہی ہوا کرتا تھا۔ ہم سب آپ کو یہ چیزیں کھانے سے روک دیتے۔ میں آپ کو بیمار نہیں دیکھ سکتی۔ آپ کو تو کام کرنا ہے، 8 بجے سے10 بجے رات تک۔ کبھی کبھی آپ رات 12 بجے تک لکھتے رہتے۔ آپ نے کام کا دبائو خوشی خوشی قبول کیا۔ آپ نے اپنا مستقبل والدین،گھر، رشتے سب کچھ اپنی رضا سے چھوڑے مگر یہاں سب کچھ بہت مختلف تھا۔ یہاں تو تقسیم در تقسیم آگے پیچھے دوڑ (ہم ہی ہیں کا)بت دلوں میں گھر کر چکا تھا یہاں اقتدار اور اختیار کی جنگ کا آغاز بھی ہوا تھا کون مسنداقتدار پر بیٹھے یہ بھی طے کیا جاتا۔ دوسروں کو برداشت کرنے کا مادہ بھی نہیں تھا۔ اس پریشانی کے عالم میں عالمی سطح پر اپنی مظلوم قوم کا کیس لڑنے کے بجاے کشیدگی کا ماحول تھا۔ ان حالات میں تنظیمی بیساکھیوں کے بغیر کام کرنا ناممکن بنایا گیا تھا۔حالات کا جبر کیا ہوتا ہے یہ کوئی مجھ سے پوچھے۔ یہاں سیاست ہورہی تھی ہم تو اس ماحول میں کیسے کام کریں۔ بہت مشکل مرحلہ تھا۔کام بھی بہتsensitive جہاں کسی غلطی کی گنجائش نہیں تھی۔ سیدھا دو ٹوک اور سچ پر مبنی کیس، مگر یہاں آکر میرے چودہ طباق روشن ہوگئے۔ اس ماحول میں تو زندگی بسر کرنا ناممکن تھا۔ ہم تو مقبوضہ کشمیر میں سب کچھ ایک دوسرے پر قربان کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔ شہدا ء کے لواحقین کے پاس دفنانے تک ان کے ساتھ کھڑا رہنا، بھارتی فوجی کریک ڈاؤن میں صرف یہ فکر دامن گیر رہتی کہ کوئی بھوکا تو نہیں رہا۔کسی کو ہسپتال میں خون کی ضرورت ہوتی تو خون وقف کرنے کیلئے مرد وزن پہنچ جاتے۔ وہاں عوامی سطح پر یکسوئی اور ایثار کا جذبہ دیدنی تھا اگر چہ تنظیمی جوڑتوڑ بھی ہوتا مگر ہر ایک کی تکلیف سے واقف رہتے۔ میری آپ سے بحث ہوتی میں نے واپسی کا پروگرام بنایا میں نے اپنے گھر پاس پڑوس اور پھر عظیم اور لازوال قربانیاں۔ وہاں تو آزادی کا خواب کل پورا ہونے کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔
(جاری ہے)