(گذشتہ سے پیوستہ)
وسیم حجازی
چونکہ اس گہری چوٹ کی وجہ سے میرا جسم کئی مہینوں سے مسلسل تکلیف سے گذر رہا تھا اس لئے میرے دل و دماغ پہ ایک عجیب سا خوف طاری تھا۔میرا جسم ذرا سا بھی ہلنے لگتا تو مجھ پر ایک خوف سا طاری ہونے لگتا کہ کہیں میرے جسم کو مزید کوئی چوٹ نہ پہنچے۔ کشمیری میں جو کہتے ہیں نا کہ’’یَس سرْف چھ ٹوف دِوان, سُو چھْ رز کٹعن تع کھوژان, یعنی جس کو سانپ کاٹے وہ پھر رسیوں سے بھی ڈرتا ہے‘‘ سو چھ رز تعہ کھوژان یا اردو کا محاورہ کہ ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘ بہرحال مجھے اس خوف سے نکالنے کیلئے مبشر بھائی جب بھی میرے پاس آتے تو مجھے مْکے مارنا شروع کر دیتے۔ جب بھی میں مبشر بھائی کو دیکھتا تو مجھ پہ خوف سا طاری ہوتا۔ لیکن مبشر بھائی نے بھی ٹھان لی تھی کہ وہ مجھے اس خوف سے نکال کر ہی دم لیں گے۔
ایک طرف اگر چہ میرے تیماردار ساتھی Rehabilitation process میں لمحہ بہ لمحہ میرا ساتھ دے رہے تھے تو دوسری طرف مبشر بھائی اور فاطمہ باجی نے اس مرحلے پر بھی مجھے تنہا نہ چھوڑا۔ بیس کیمپ سے جو ساتھی میری عیادت کو آتے رہتے انکی وجہ سے میری دلجوئی اور حوصلہ افزائی بھی ہوتی رہتی۔ شاکر صاحب کے خطوط مسلسل میرا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ وہ میری Progress کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہتے اور مجھے اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہتے۔ اس محبت اور اخوت نے مجھے نفسیاتی مریض بننے سے بچا لیا ورنہ ایسی صورتحال میں بہت سارے مریض ذہنی صدمے کا شکار ہو کر ہمت ہار جاتے ہیں اور پھر یا تو خودکشی کرتے ہیں یا مایوس ہو کر آہستہ آہستہ زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے مجھ پہ کرم کیا کہ دیارِ غیر میں غیروں کو میرا اپنا بنایا۔
مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے میں 100 برس پیچھے چلا گیا ہوں۔ کہاں زندگی کی وہ تگ و دو، وہ سرگرمیاں، وہ دوڑدھوپ اور کہاں یہ بے بسی، بے کسی اور لاچارگی۔ کہاں وہ کیمپ کی رونقیں، وہ خوبصورت محفلیں اور کہاں یہ ہسپتال کی ویرانیاں اور تکالیف بھری تنہائیاں۔ زندگی نے یکایک ایک ایسی کروٹ بدلی کہ زندگی کی ساری خوشیاں اسکے نیچے دب گئیں اور غموں کے بے انتہا بوجھ نے مجھے نڈھال کر دیا۔ مجھے اب اس گہرے صدمے سے نکلنا تھا اور اپنے آپ کو ایک نئی زندگی کیلئے تیار کرنا تھا۔ مجھے اپنی ذہنی و جسمانی قوتوں کو پھر سے بحال کرنے کا کٹھن مرحلہ درپیش تھا۔ کیونکہ میں زندگی کی اْس رزم گاہ میں اْترنے والا تھا جہاں قدم قدم پہ مجھے مصیبتوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ میں زندگی کی وہ داستان رقم کرنے جارہا تھا جس کا عنوان ہمت و حوصلہ اور صبر و استقلال تھا۔
اس حادثے کے مہینوں بعد جب میری حالت تھوڑی بہت سنبھلنے لگی تو یہ احساس مجھے اندر ہی اندر کھایا جانے لگا کہ اس حادثے نے تو میری آنکھوں کے سارے خواب چکنا چور کرڈالے ہیں، میرے دل کے سارے ارمان کھرچ لیے ہیں۔خواب تھے کہ ادھورے ہی رہے،ارمان تھے کہ پورے نہ ہوئے۔ اپنے ان خوابوں اور ارمانوں کو ہمیشہ کیلئے بھلانے کا وقت آچکا تھا۔ جن تمناؤں، حسرتوں اور آرزؤں کو پورا کرنے کیلئے میں نے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا تھا اب انہیں دفنانے کا وقت آچکا تھا۔ میرا دل اب ارمانوں اور آرزؤں کا قبرستان بن چکا تھا۔میری آنکھوں میں اب سوائے ویرانیوں کے کچھ نہیں تھا۔ نڈھال جسم، اُداس دل اور ویران آنکھوں کے ساتھ مجھے زندگی کا بقیہ سفر طے کرنا تھا۔ آہ! اس مرحلے پر خود کو سمجھانا کس قدر مشکل تھا، دل کو بہلانا کس قدر مشکل تھا، زخموں کو سہلانا کس قدر مشکل تھا۔
مجھے نہ صرف اپنی جسمانی قوت کو بحال کرنا تھا بلکہ مجھے اپنے ذہن کو منتشر ہونے سے بھی بچانا تھا۔ مجھے اب اپنی بکھری ہوئی زندگی کو سمیٹنا تھا۔ زندگی اب میرے لئے وہ میدانِ جنگ بن چکی تھی جہاں میرے حوصلوں کو مایوسیوں سے ٹکرانا تھا۔ مجھے ایمانی قوت کیساتھ ساتھ دماغی صلاحیتوں سے بھی کام لینا تھا۔ میری دنیا تو اسی دن میرے ہاتھ سے نکل چکی تھی جس دن میں گھر سے نکلا تھا۔ اب سوائے آخرت کی اُمید کے سوا میرے پاس بچا ہی کیا تھا۔ لیکن اب اُس آخرت کو پانے کیلئے میرے رب نے مجھے سخت امتحان میں ڈال دیا تھا۔ میرے جسم کو دائمی تکلیف میں مبتلا کر کے میرا خالق و مالک میرے صبر کو شاید آزمارہاتھا۔ رب کی رضا یہی تھی کہ اب میں عمر بھر بیٹھا رہوں اور مجھے رب کی اِس رضا کے آگے سر تسلیمِ خم کرنا تھا۔میرے Rehabilitation Process میں برس ہا برس تک فاطمہ باجی کا مرکزی کردار رہا۔ دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے جیتے ہیں۔ فاطمہ باجی بھی انہی لوگوں میں سے تھیں۔ وہ ایک ایسی ذہین و فطین خاتون تھیں کہ جس کے مشوروں کا میں ہمیشہ محتاج رہا۔ وہ Motivational power میں یدِ طولیٰ رکھتی تھیں۔ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق انکی وہ صفت تھی جس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اپنے رب سے انکا تعلق کچھ اس نوعیت کا تھا کہ بسا اوقات میں حیران و ششدر رہ جاتا۔ مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ انہوں نے میرے حوصلے کو ذرے سے پہاڑ بنا دیا اور میرے عزم کو قطرے سے سمندر میں بدل دیا۔ وہ سورج کی طرح گردشوں میں رہتی تھیں۔میں جہاں جہاں رہا اس سورج کی روشنی سے فیضیاب ہوتا رہا۔
(جاری ہے)
٭٭٭