نہ لے چل خانقاہوں کی طرف شیخ حرم مجھ کو
مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ
یہ راستہ لاکھ مشکل صحیح مگر اے دشمنو سن لو
یہ جذبہ عشق مستی کا ہمیں رکنے نہیں دیتا
واہ عبدالمجید شاہین اور خواجہ تنویر تم دونوں کے مقدس لہو سے ایک بار پھر تحریک آزادی کشمیر کو تقویت مل گئی ہے اور ایک بار پھر اس مقدس خون کی بدولت بھارت پر لرزہ طاری ہے آج جن دو شہیدوں کا میں تذکرہ لکھنے کی جسارت کرنے جا رہا ہوں یہ دونوں شہید 30 مئی 2010 ء میں حمام مرکوٹ رفیع آباد بارہمولہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں رتبہ شہادت سے سرفراز ہوئے جب بھی ان شہیدوں کے بارے میں کچھ بھی لکھنے کی کوشش کرتا ہوں ابھی آغاز ہی ہوتا ہے، تو ان شہیدوں کی یاد سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ان کی زندگی کے گزرے ہوئے ایام کو یاد کر کے میرے اوپر لرزہ طاری ہوجاتا ہے اور بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں کہ میں سوچتا ہوں کہ اے میرے خدا تیری شان بھی کیا خوب ہے تو نے انسانوں کی شکل میں بھی فرشتے پیدا کیے ہوئے ہیں ،جو اس دنیا کے لیے صرف 15 سے 25 برس کے درمیان کی زندگی لے کر آتے ہیں اور پھر دنیا میں اس طرح جیتے ہیں کہ جیسے ان کو اللہ نے بتا دیا ہو کہ تم لوگوں کی بہت ہی کم زندگی یہاں گزرنی ہے اور پھر تمہیں شہادت جیسی عظیم دولت ملے گی۔ جو عرصہ گزارا تو وہ بھی دین کے علمبردار بن کر،میں اپنے بھائی عبدالمجید شاہین شہید کے ساتھ ساتھ ان کے دوست خواجہ تنویر شہید کا ذکر نہ کروں تو یہ عبدالمجید شہید اور تنویر شہید دونوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ ان دونوں کو ہم کسی بھی جگہ تنہا نہیں کر سکتے اور ہم ہوتے بھی کون ہیں ان کو جدا کرنے والے وہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ رہے اور جب اس دنیا سے جانے کا وقت آیا تو بھی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑا اور پرندوں کی طرح ہواؤں کے جھونکوں کی طرح مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے علاقے رفیع آباد پہنچ گئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ ایک ساتھ پیش کر کے یہ ثابت کر دیا کہ یہ جہادی جنون یہ جذبہ عشق و مستی ہمیں رکنے نہیں دیتا۔ اے میرے رب کیا خوب منظر ہوا ہوگا اس وقت جب عبدالمجید شاہین اور خواجہ تنویر نے تیری راہ میں سر کٹوائے ہوں گے اور کیا یہ خوب منظر ہوا ہوگا جب ان دونوں کی معرکہ آرائی ہوئی ہوگی، فرشتے زمین پر آئے ہوں گے حضرت عزرائیل علیہ السلام ان کی ارواح کے استقبال میں کھڑے ہوئے ہوں گے اور مجھے کامل یقین ہے کہ تو نے ضرور اپنے فرشتوں سے کہا ہوگا کہ دیکھو میرے معصوم مجاہد میرے معصوم فوجی میرے معصوم فوج کے سپہ سالار کس طرح میری رضا کی خاطر اپنی جانیں اور جوانیاں لڑا رہے ہیں۔ اے رب تو نے ضرور اعلان کیا ہوگا تو نے ضرور فرشتوں کو گواہ کر کے کہا ہوگا کہ میرے فرشتو گواہ رہنا یہ دونوں مجھ سے راضی تھے اور آج میں ان سے بھی راضی ہو گیا ہوں یقینا ان دونوں شہیدوں نے بھی یہی کہا ہوگا

جان دی،دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
میں تو کہتا ہوں خوش قسمت ہیں وہ دونوں جن کو ایسے عظیم اور متقی کمانڈرز ملے جنہوں نے دونوں کی عسکری تربیت کی میں تو یہ کہوں گا کہ خوش قسمت ہیں ان دونوں کے کمانڈرز بھی جن کو عبدالمجید شاہین اور خواجہ تنویر جیسے جانباز ملے، میرا رب ، تیرا کیا خوب انداز محبت ہے کہ تو اپنے دین کی سربلندی کے لیے دنیا سے ایسے پھول چنتا ہے کہ ان پھولوں کی اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی خوشبو مہکتی ہے۔ اس دنیا میں مجھے کبھی کسی بات پر خوشی نہیں ہوئی پہلی بار میرے لیے وہ خوشی کا موقع تھا جب میں نے مقبوضہ کشمیر میں قدم رکھا اور اس سے بڑھ کر خوشی اس وقت ہوئی کہ جب میرے معصوم بھائی نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ وفا کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے خوشی یہ بھی تھی کہ جن دو اللہ کے شیروں نے ایک ساتھ جینے کی قسمیں کھائی تھیں انہوں نے ایک ساتھ اپنے جسموں کو گولیوں سے چھلنی کروایا اپنی گردنیں کٹوا کر اپنے ہاتھوں سے لکھے ہوئے اشعار کو حقیقت میں بدل ڈالا۔
جان راہ خدا میں دینے سے انکار نہیں
جو بھی اس میں جان بچائے اس کو خدا سے پیار نہیں
شہید عشق ہی واقف ہے اسرار محبت سے
وگرنہ کس کو آتا ہے سلیقہ سر کٹانے کا

قارئین کرام! اگر میں ان شہیدوں کی روداد زندگی لکھنا جاری رکھوں تو ان کی زندگی کے گزرے ہوئے ایک ایک منٹ کے لیے مجھے کئی دن لگ جائیں گے مگر ان کو خدا کی طرف سے عطا کردہ اوصاف کی کہانی مکمل نہیں ہوگی ۔ ان دونوں معصوموں نے 25 گھنٹوں کا طویل معرکہ لڑ کر یہ ثابت کر دیا کہ جو بھی اللہ کی راہ میں نکلتا ہے تو اللہ اس کی جان اور عمر نہیں دیکھتا اگر دیکھتا ہے تو صرف اخلاص کو،ان کے جواں ارادوں کو،میں تو کہتا ہوں کہ میں بہت ہی خوش نصیب ہوں کہ اس معرکے میں میرا ایک بھائی نہیں بلکہ دو بھائی شہید ہوئے ہیں ہاں خواجہ تنویر بھی میرا بھائی تھا اکثر میرے پاس آتا اور کہتا تھا شاہین بھائی موٹرسائیکل دو ۔۔۔میں کہتا کیا کرو گے موٹرسائیکل لے کر جواب دیتا شاہین بھائی میں اس سال شہید ہو جاؤں گا ،دل کرتا ہے کہ خوب موٹرسائیکل چلاؤں جب اس کو موٹر سائیکل دے دیتا تو آہستہ آہستہ تھپڑ بھی مار دیتا تھا،میں کہتا کہ شہید موٹرسائیکل سے گر کر نہیں ہونا اس لیے آہستہ چلانا مجھے کیا پتہ کہ کچھ عرصے بعد میرا معصوم بھائی اللہ کا مہمان بن جائے گا۔ اکثر جب بھی کسی شہید کا تذکرہ لکھا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کا تعارف لکھا جاتا ہے مگر قارئین کرام دونوں کی تربیت ہی ایسے لوگوں نے کی ہوئی تھی تو واقعی بہت عظیم ہیں ۔میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ کی عظمت کی قسم ہم سے زیادہ ان دونوں شہداء کے وارث وہ لوگ ہیں کیونکہ ان کو اللہ نے شہادت جیسا انعام دیا ہے۔ ان لوگوں کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ مجھے تو یہ فکر ہے کہ اللہ نہ کرے کہ قیامت کے دن عبدالمجید شاہین شہید اور خواجہ تنویر شہید کہیں ہم سے نظریں نہ پھیر لیں اور کہیں ہم تو ان لوگوں کو اپنے ساتھ جنت میں لے کر جائیں گے ۔جنہوں نے ہمیں جنت کے راستے پر چلایا۔۔ میں دعا گو ہوں کہ قیامت والے دن یہ دونوں شہداء ہمارے لیے شفاعت کا ذریعہ بنیں۔ لانچنگ سے قبل اکثر عبدالمجید میرے پاس آتا اور کشمیر کے جنگی حالات کے بارے میں مجھ سے معلومات لیتا رہتا اور کبھی کہتا ہے کہ شاہین بھائی اگر گرفتاری کا چانس بن جائے تو کیا کرنا چاہیے ۔وہ آخری ایام میں تو اکثر میرے گھر آتا اپنے بھتیجے حماس شاہین سے بہت پیار کرتا مجھے کیا، پتہ تھا کہ یہ اسے آخری پیار کر رہا ہے اس پیار کا حق ان شاء اللہ بھارت سے اپنے بھائی کا بدلہ لے کر کیا جائے گا،ہم اپنے ہر شہید کا بدلہ لیں گے ،عبدالمجید ہمیشہ شہادت کا متلاشی تھا۔ شہادت کے لیے اس کی تڑپ اس مچھلی سے بھی زیادہ تھی جس کو پانی سے نکال کر خشکی پر رکھ دیا جائے۔ ہم تمام بھائی بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ نے ایسے والدین دئیے جنہوں نے آج تک ہمیں کسی اچھے کام سے نہیں روکا ،اچھے کام میں ہماری پشت پناہی کی جب میں نے مقبوضہ کشمیر جانے کا پروگرام بنایا تو اس وقت کھوئی رٹہ سیکٹر لانچنگ کے لیے مجھے چھوڑنے گئے اورشہیدعبدالمجید شاہین کو خوشی سے اللہ کی راہ میں وقف کیا ہوا تھا۔ ہر وقت دعا گو رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ والدین کو ایسی اولاد عطا فرمائے کہ جو عبدالمجید اور خواجہ تنویر کے راہی ہوں تمام والدین بھی خواجہ تنویر اور عبدالمجید کے والدین جیسے ہوں ،عبدالمجید نے جہاد کے ساتھ ساتھ مظفرآباد چہلہ میں دکان بھی بنا رکھی تھی، دکان گرلز ہائی سکول کے ساتھ تھی وقفے اور چھٹی کے وقت سکول کی بچیاں دکان پر آتیں تو اپنی نظریں جھکا لیتا۔ ہر وقت یہ کہتا ہے کہ اللہ ہمیں محفوظ رکھے اور دین پر استقامت دے ۔سکول کے باہر وہ اس طرح تھا کہ جیسے 32 دانتوں کے بیچ زبان محفوظ رہتی ہے، ٹھیک اسی طرح عبدالمجید بھی وہاں محفوظ تھا۔ ایک دن جب واپس گھر آیا تو چیخ چیخ کر امی اور بہنوں کو کہنے لگا کہ مجھے اس دکان کی وجہ سے اللہ جہنم میں نہ بھیج دے گھر والوں نے پوچھا کیوں تو کہنے لگا کہ دکان کے سامنے ایک گھر ہے وہاں کی ایک خاتون ڈبل روٹی کے لیے آئی تھیں، انہوں نے پوچھا کہ ڈبل روٹی تازہ ہے تو میں نے بول دیا کہ جی تازہ ہے، ڈبل روٹی بالکل ٹھیک تھی مگر آج نہیں بلکہ کل منگوائی تھی، یعنی جھوٹ بولا ڈبل روٹی خراب بھی نہیں تھی، صرف یہ تھا کہ یہ آج نہیں کل کی لائی گئی تھی۔ اس بات سے اس عظیم شہید کی پاکیزگی پارسائی اور تقویٰ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان دونوں کی شہادت کو 13 برس کا عرصہ بیت چکا ہے ہمیں صرف معمولی دکھ ہے کہ دونوں ہم سے جدا ہو گئے مگر شہادت کی خوشی آسمان کو چھوتی ہے ۔ایک بات ہے کہ دونوں ہم سے بازی لے گئے اللہ کی قسم وہ جیت گئے ان کی جیت کا اعلان اللہ نے کیا ہوگا، ان کی چہلہ بانڈی میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کا وقت قریب آیا تو آسمان بھی رو پڑا 10 منٹ تک ایسی بارش ہوئی کہ لگتا تھا کہ اب نماز جنازہ پڑھنی مشکل ہے مگر جب پروگرام کا آغاز ہوا تو بارش تھم گئی۔ جب پروگرام ختم ہوا تو لگتا تھا کہ عید کا سماں ہے ہر کوئی مبارک باد دے رہا تھا۔ ایک کشمیری مجاہد میرے پاس آیا اور اس کی آنکھیں نم تھیں خوشی سے اس نے مجھے گلے لگایا اور اس کی آنکھیں برس پڑیں زار و قطار رونے لگا میں نے کہا رونا نہیں بھائی مجھے جواب دیا شاہین بھائی آج رونے سے مت روکنا کیونکہ آج آسمان بھی خوب رویا ہے۔ جب شہید عبدالمجید شاہین کے آبائی گاؤں(راجکوٹ) راجپیاں میں شہادت کانفرنس ہوئی تو وہاں پر بھی یہی کیفیت تھی کہ اچانک بہت تیز بارش ہوگئی ،میں کہتا ہوں کہ شہید عبدالمجید خواجہ شہید تنویرکے والدین اہل و عیال رشتہ دار اہل علاقہ خوش نصیب ہیں کہ وہ شہید کے وارث ہیں میں اس تحریر کے توسط سے عبدالحق صاحب (شہید کے چچا)اخبار الحق صاحب(چچا)عزیز الحق صاحب(چچا) عارف صاحب(چچا)اور دیگر تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے شہیدمجید اور تنویر شہید سے والہانہ محبت کا اظہار کیا اور شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ان کے علاوہ گورنمنٹ ہائی سکول کے اساتذہ کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو شروع دن سے تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ ہیں ۔سکول کے اساتذہ بھی اسی طرح شہیدوں کے وارث ہیں جس طرح شہیدوں کے والدین اہل و عیال و اقرباء اور مجاہدین،اللہ کا شکر ہے گورنمنٹ ہائی سکول راجپیاں مظفرآباد میں تعلیم حاصل کرنے والے نصف درجن کے قریب نوجوان شہید ہو چکے ہیں اور بعض میدان کارزار سے واپس غازی بن کر لوٹے کچھ اپنی باری کے منتظر ہیں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شہداء کے درجات بلند فرمائے ان کی شہادتوں کے بدولت پوری امت مسلمہ کے حال پر رحم فرمائے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے غیور عوام کو آزادی جیسی نعمت سے ہمکنار فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
٭٭٭