ابو ہادیہ بتول
شہرہ آفاق اور افسانوی شہرت کے حامل نوجوان کشمیری رہنما برہان وانی اور ان کے دو ساتھیوں سرتاج اورپرویز احمد کی آٹھویں برسی ہے،جنہیں08جولائی2016 میں بمہ ڈورو کوکر ناگ اسلام آباد میں ایک فرضی جھڑپ میں شہید کیا گیا تھا،برہان وانی ایک معصوم اور کمسن ضرور تھے لیکن جو شہرت اور عزت اس کے حصے میں آئی ہے شائد ہی غاصب قوتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والی قوموں میں آج تک کوئی اس کے قریب قریب بھی پہنچا ہو۔اس کی معصومیت نے تحریک آزادی کشمیر کو وہ بام عروج بخشا ،جس کا اندازہ شایدکسی کو بھی نہیں تھا،مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے 1989 میں شروع کی جانے والی جدوجہد کے ٹھیک چھ برس بعد یعنی 19ستمبر 1994 میں شریف آباد ترال میںاستاد مظفر وانی کے گھر ایک بچہ جنم لیتا ہے،اس کا نام محمد برہان مظفر وانی رکھا جاتا ہے۔برہان خوش قسمت واقع ہوئے۔اس کے دونوں والدین درس وتدریس کے ساتھ وابستہ ہیں،یوں اس سے گھر سے ہی تعلیم و تربیت کا وہ بہترین ماحول میسر آیا، جودوسروں کو کم کم ہی میسر آتا ہے۔یہ والدین کی بہترین تربیت کا ہی اثر تھا کہ برہان یکم جماعت سے لیکر دسویں جماعت تک اپنی کلاس میں اول آتا رہا۔2011 میں برہان 16 برس کی عمر میںتحریک آزدی کشمیر کی جدوجہد کیلئے حزب المجاہدین میں شامل ہوئے۔ انہوں نے تحریک آزادی کشمیر کو ایک نئی جہت دینے کیلئے دو کام کئے،ایک اپنے اصل نام سے اپنے آپ کو اہل کشمیر میں متعارف کرایا،دوسرا سوشل میڈیا کو بطور ٹیکنالوجی ٹول استعمال کرکے کشمیری نوجوانوں میں بھارت کے خلاف جدوجہد میں شامل ہونے پر آمادہ کیا،وہ براہ راست کشمیری نوجوانوں سے مخاطب ہو کر انہیں تحریک آزادی کا حصہ بننے کی دعوت دیتا رہا،ان کی دعوت پراثر بھی تھی اور انہیںنوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کا فن بھی آتا تھا،اس نے جب بھی کشمیری نوجوانوں کو مسلح جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت دی تو ہمیشہ اپنی دعوت کا آغاز قرآن پاک کی آیات سے کرتے تھے۔یہ انہی کی دعوت کا نتیجہ ہے کہ بظاہر دم توڑتی تحریک آزادی کشمیر از سر نو منظم ہوئی،جس تحریک آزادی کو بھارت علی الاعلان ختم کرنے کا دعوی کررہا تھا ،اس تحریک نے جیسے نیا جنم لیا۔درجنوں اور سینکڑوںنوجوان برہان کی دعوت پر لبیک کہہ کر تحریک آزادی میں شامل ہوگئے،یوں ایک ریاست گیر تحریک دوبارہ جنم لیا،جس کا سہرا یقینا برہان وانی کے سر ہے۔بلکہ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ برہان وانی نے ایک دم توڑتی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔وہ بھارتیوں کیلئے خوف کی مانند تھے۔وہ اپنی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کرتے تھے کہ جنہیں اہل کشمیر کی جانب سے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔وہ ایک چھلاوے کی شکل اختیار کرچکا تھے۔لاکھوں بھارتی فوجیوں،ان کی ایجنسیوں اور پولیس نے برہان کو پکڑنے کا جال بچھایا تھا،مگر ادھر ڈوبے ادھر نکلے کے مصداق وہ بھارتیوں کو تگنی کا نچاچ نچاتے رہے۔بلاشبہ وہ اہل کشمیر کے دلوں میں گھر کرگیا اور آج بھی کشمیری عوام ان کے نام کی مالا جھپتے ہیں۔یہ انہی کی کاوشوں کا ثمر ہے کہ بھارت تمام تر جبراور تاریخ کے بدترین مظالم کے باوجود اہل کشمیر کی عظیم اور لازوال قربانیوں سے مزین تحریک آزادی کو کمزور اور ختم کرنے کیلئے بار بار اپنا سر زخمی کررہا ہے۔

2015 کے اوائل میں برہان وانی کے بڑے بھائی خالد مظفر کو اس وقت بھارتی سفاکوں کی جانب سے شہید کیا گیا جب وہ اپنے تین دوستوں کے ہمراہ ایک سیاحتی مقام کی جھیل پر تفریح پروگرام میں شرکت کیلئے جارہے تھے۔اس سفاکانہ کاروائی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ برہان کے عزم و حوصلوں کو کمزور کیا جانا تھا،مگر فولادی عز م کے مالک برہان حزب المجاہدین میں شامل ہوتے وقت یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ گھروالوں اور عزیز و اقارب کو بھی تحریک پر قربان کرنا پڑے گا،اور جوان سال بھائی کی مظلومانہ شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت تمام تر عالمی قوانین اور معاہدوں کو خاطر میں لائے بغیر کس طرح مزاحمت کرنے والے کشمیری عوام کے اہل خانہ کو بے دردی سے نشانہ بناتا ہے،مگر برہان نے اپنے بھائی کی شہادت کے باوجود غاصب بھارت کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی،اور کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہوا یہاں تک 2016 میں 08جوالائی کے دن ملت اسلامیہ کے ماتھے کا یہ جھومراپنے دو ساتھیوں سرتاج احمد اور پرویز احمدکے ہمراہ بمہ ڈورو کوکر ناگ میں بھارتی غاصبوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرگیا۔برہان کی شہادت کی اطلاع پھیلنے کی دیر تھی،کہ پورا مقبوضہ جموںوکشمیر بھارت کے خلاف ایک آتش فشان کی شکل اختیار کرگیا،لاکھوں لوگ شہید برہان کے آبائی قصبہ ترال میںاُمڈ آئے،چونکہ برہان اور ان کے ساتھیوں کی شہادت رات کے وقت ہوئی،اہل کشمیر نے اپنے اس بہادر بیٹے اور سپوت کو شاندار خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ترال کا رخ کیا،بھارتی درندوں نے اس صورتحال سے بوکھلا کر لوگوں پر بندوقوں کے دہانے کھول دیئے،جس کے نتیجے میں درجنو ں کشمیری برہان کے ساتھ ہی جام شہادت نوش کرگئے۔پروفیسر مظفر وانی کا گھر لوگوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکا۔واش روم کی چھت گرگئی۔پورا مقبوضہ کشمیر باالعموم اور جنوبی کشمیر کا قصبہ ترال باالخصوص پوری رات جاگتا رہا۔دوسرے دن 9 جولائی کو جب برہا ن کا جنازہ اٹھایا گیا تو اہل کشمیر کا سمندر نماز جنازہ میں شرکت کیلئے عید گاہ ترال کی جانب رواںدواں تھا،عیدگاہ ترال اپنی تمام تر وسعتوںکے باوجود کم پڑ گیا،اپنے تو اپنے غیر بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے کہ برہان وانی کی نماز جنازہ میں دس لاکھ سے زائد لوگ شریک ہوئے۔ جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی۔اس کے علاوہ پورے مقبوضہ جموںو کشمیر ،آزاد کشمیر ،پاکستان اور دنیا بھر میں ان کی غائبانہ نماز ادا کی گئی۔جس کی گونج بھارتی پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی گئی،جب ریاست تلگانہ کی دارلحکومت حیدر آباد سے منتخب بھارتی رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے بھارتی پارلیمنٹ میں برہان وانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ ایک کم عمر کشمیری بچے کی نماز جنازہ میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے،جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری اس کو بہت پسند کرتے تھے۔


برہان کی شہادت مقبوضہ جموںو کشمیر میں بھارت کے خلاف انتفادہ کی تحریک کی وجہ بنی،پورے پانچ ماہ تک بھارت کیخلاف احتجاج اور مظاہروں کاسلسلہ جاری رہا،بھارتی سفاکوں نے ان مظاہروں کے دوران 126 کشمیری نوجوانوں ،بزرگوں اورخواتین کے سینے گولیوں سے چھلنے کئے،جبکہ سینکڑوں افراد کو زخمی کیا گیا۔مگر اہل کشمیر کا جذبہ حریت کسی طرح ماند نہیں پڑسکا۔جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ کشمیری عوام کی جدوجہد میں 2016 سے لیکر آج تک سینکڑوں نوجوان جو برہان وانی کی دعوت پر مسلح جدوجہد میں شامل ہوئے،جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔برہان وانی گروپ کے تمام جانباز مرتبہ شہادت پر فائز ہوچکے ہیں۔آج بھی اہل کشمیر کے گبر و جوان بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے۔برہان وانی کے یوم شہادت کو کنٹرول لائن کی دونوں جانب ،پاکستان اور دنیا بھر میں یوم مزاحمت کے طور پرمنایا جاتا ہے۔اہل کشمیر کو شہید کے آبائی قصبہ ترال کی طرف مارچ اور ان کے حق میں دعائیہ مجالس منعقد کرنے کی اپیل کی جاتی ہے۔بلا شبہ شہید برہان وانی مقبوضہ جموں و کشمیر پرناجائز اور غاصبانہ بھارتی قبضے کے خلاف کشمیری عوام کی مزاحمت کی علامت ہیں۔اس معصوم شہیدکا خون بھارتی قبضے کے خلاف کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو ہمیشہ زندہ رکھنے کا اہتمام کرے گا۔ کشمیری عوام اپنے شہدا کی قربانیوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ یہ قربانیاں بھارت کیلئے پیغام ہیں کہ کشمیری عوام موت تو قبول کر لیں گے مگر غلامی نہیں۔ کشمیری عوام بھارتی تسلط سے آزادی تک اپنی جانیں قربان کرتے رہیں گے۔کوئی طاقت کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو روک نہیں سکتی۔بھارت اپنی فوجی طاقت کے ذریعے بہادر کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو نہ ماضی میں دبا سکا اور نا ہی آئندہ اس کوئی امکان ہے۔برہان وانی جیسے لوگ مرا نہیں کرتے ،بلکہ لوگوں کے دلوں پر ہمیشہ راج کرتے ہیں،وہ کل بھی اہل کشمیر کے دلوں پر راج کرتا تھا،آج بھی کررہا ہے اور تاصبح قیامت راج کرتا رہے گا۔ان کی شہادت تحریک آزادی کشمیر کیلئے تازہ ہوا ایک جھونکا ہے،جس کی تازگی 2016 کی طرح آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔آج بچہ بچہ برہان وانی کے نام سے واقف ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ برہان وانی اپنے پیچھے لاکھوں برہان پیدا کرچکا ہے۔ انہیں پاکستانی سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر دفنایا گیا۔اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ اجلاس سے اپنے خطاب کے دوران برہان مظفر وانی کو آزادی کا سپاہی قرار دیاتھا۔جبکہ تحریک آزادی کشمیر کے روح ورواں سید صلاح الدین احمد نے شہید برہان وانی کی شہادت پر اہل کشمیر کے والہانہ جذبہ حریت کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا بہت کم مشاہدے میں آچکا ہے کہ ایک معصوم نوجوان اس قدر اپنے قوم کے دلوں میں گھر کرچکا ہو۔جو اہل کشمیر کی تحریک آزادی اور مجاہدین کے ساتھ ان کے بے لوث رشتے کو ظاہر کرتا ہے،ایسے جذبے کو ختم کرنا کسی ظالم اور جابر طاقت کے بس کی بات نہیں ہے۔اللہ تعالی ایسے جذبوں کو قائم و دائم رکھے۔آمین
٭٭٭