اسلامی جہاد عالمی امن کا ضامن ہے

اسلامی جہاد عالمی امن کا ضامن ہے

اسلامی جہاد عالمی امن کا ضامن ہے

مجاہد اپنے عمل میں ایک خاص جذبے، محویت اور توکل سے میدان میں اترتا ہے

جہاد انفرادی زندگی سے لے کر قومی، ملی اور بین الاقوامی زندگی کی اصلاح کے لئے عمل پیہم اور جہدِ مسلسل کا نام ہے

جہاد امن لے کر آتا ہے، جہادی لشکر کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ شورش زدہ علاقوں میں ان کا ریاستی امن لوٹا دے

موضوع گفتگو کے اعتبار سے، تقریر پر تفصیل سے بات اور بحث کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ جہاد کیا ہے، اس کا ماخذ کیا ہے اور جہاد کا مدعا کیا ہے۔
جہاد کیا ہے؟
لغوی اعتبار سے’’ جہاد‘‘ کے معنی کسی ناپسندیدہ چیز کے دفع کرنے میں انتہائی کوشش کرنے کے ہیں۔ یہ کوشش کبھی ہتھیار سے ہوتی ہے کبھی زبان سے کبھی قلم سے کبھی کسی اور طریقے سے۔ یعنی جس وقت جس کے مقابلے میں جس طرح مصلحت ہو جہاد کیا جائے۔ (سورۃتوبہ آیت 73)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق عسکری جہاد کو جہاد اصغر قرار دیا گیا ہے۔غزوہ تبوک سے واپسی پر رسول اللہ نے یہ فرمایا تھا۔اور روزمرہ کی معاشرتی زندگی، جو نفسانی خواہشات سے بھری ہوتی ہے اسے کو ’’جہاد اکبر ‘‘کہا گیاہے۔اس اعتبار سے بھی قرآن پاک سورۃالنساء آیت 95 میں جہاد کے لئے مسلمانوں کو مال و جان کی قربانی دینے کا حکم دیا گیا ہے۔جہاد مقدس سچائیوں پر مشتمل انسانی خوشیوں اور فلاح انسانیت کا لا زوال پیغام ہے۔ وہ پیغام جو محسن انسانیت،رحمت العالمین خاتم لمرسلین نے میدان عرفات میں ’’ جبل ِرحمت‘‘ پر کھڑے ہو کر 9 ذلحج 10 ھجری، بمطابق، 6 مارچ 632 عیسوی کو دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے، رنگ و نسل اور زبان و قومیت کے بت توڑتے ہوئے اعلان کیا تھا:-
’’ کسی گورے کو کالے پر، کسی کالے کو گورے پر، عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ تم سب ایک آدم کی اولاد ھو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے۔‘‘
اللہ اور رسول اللہ کے اس پیغام کے مخالفین کے خلاف جیسی کیسی بھی جد وجہد ہو گی (قلمی، زبانی یا شمشیر و سناں سے)،وہ جہاد کہلائے گی۔ الانفال 13۔ قدرت کے نظام حیات میں خلل ڈالنے والا گویا اللہ اور رسول اللہ کا مخالف ہے۔جہاد بالقلم ہو، جہاد باللسان ہو، جہاد اکبر ہو یا جہاد اصغر ہو اس کا مقصد ہر شکل میں معاشرتی امن میں رکاوٹ بنے والی قوتوں اور امور کی مدافعت کرنا اور انہیں ختم کرنا ہوتا ہے۔ گویا جہاد کی اصطلاح میں اسلام(جو اللہ کا دین ہے) کو پھیلانے یا اس کا دفاع کرنے کے لیے کی گئی جنگ اور اقدامات کو جہاد کہا جاتا ہے۔
جہاد کا مدعا کیا ہے
جہاد در اصل انفرادی زندگی سے لے کر قومی، ملی اور بین الاقوامی زندگی کی اصلاح کے لئے عمل پیہم اور جہدِ مسلسل کا نام ہے۔ پہلے نمبر پر دین اللہ کی سر بلندی اور حفاظت کے لئے کی جانے والی ہر کوشش جہاد شمار ہوتی ہے۔دوسرا خاص مفہوم جس کے تحت دین کی سربلندی اور حفاظت کے لیے کی جانے والی مسلح جد وجہد ہی جہاد ہے جسے قتال بھی کہا گیا ہے۔ فرمان الٰہی ہے کہ آپ کافروں کا کہا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے سے ان کا مقابلہ زور و شور سے کیجئے۔
سورۃ الفرقان آیت نمبر 52.
یاد رکھنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جہاد کا لفظ قرآن کریم میں اکتیس31 بار ذکر کیا گیا۔جب کہ جنگ( حرب)کا ذکر صرف چار بار ہوا ہے۔ جہاد کے معنی، قتال کے معنی سے مختلف ہیں۔قتال کا مطلب جنگوں میں ہونے والی مسلح لڑائی ہے۔ جب کہ جہاد کا مطلب دشمن کے خلاف مزاحمت یا اس کا سامنا کرنا ہے۔ یہ کہ دشمن کوئی حملہ آور شخص ملک یا شیطان کیوں نہ ہو، ہر مومن کا اس کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے۔
دین اسلام کی خصوصیات
1۔اسلام میں عباداث فرض ہیں، جن کی ادائیگی لازم ہے۔ اور جہاد فرائض میں شامل ہے۔2۔اسلام میں عبادت قرض کی مانند ہے جس کی ادائیگی لازم ہے۔3۔اسلام میں فرمان برداری لازم ہے۔4۔ اسلام میں انصاف لازم ہے۔ ظالم مظلوم، جابر اور مسکین کے درمیان انصاف سے جہاد نافذ ہوگا۔ 5۔ بے دین طاقتوں کے جبر کرنے پر جہاد لازم ہے۔ ہر احساس، فرد،تنظیم،قوم جو دینداروں کو دین کی سرگرمیوں سے روکے اس کے خلاف کھڑے ہونے کا نام جہاد ہے۔یہ مرحلہ وار عمل میں آئے گا۔ مذاکرات،نہیں۔ تو مدافعت، نہیں تو بالشمشیر، جیسا سورۃ الانفال کی آیات 12 اور 13 میں درج ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔میں کافروں کے دل میں تمہارا رعب ڈال دوں گا۔سو مارو ان کی گردنیں اور کاٹو ان کا پور پور۔اس لیے کہ وہ مخالف ہوئے اللہ اور رسول اللہ کے۔ اور جو ہوگا مخالف اللہ اور رسول کا تو بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے۔ اسلامی جہاد کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ (1998کے ایٹمی دھماکے)۔جہاد کی کامیابی اور بے دینوں پر غالب آ جانے کے بعد بھی ایسا نہیں کہ اللہ اور رسول اللہ کے مخالف اب دوست بن جائیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ان سے حسن سلوک سے تو پیش آیا جائے گا لیکن وہ مسلمانوں کے دشمن ہی رہیں گے دوست نہیں بنیں گے جب تک وہ دین اسلام میں داخل نہیں ہونگے۔
6۔دین اسلام باہمی تعاون RECIPROCITY کا دین ہے۔یہ فلاح انسانیت اور معاشرتی امن کا ضامن دین ہے۔ جیسا کافر سلوک کریں گے ویسا ہی وہ پائیں گے۔یہاں پر اس واقعہ کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ 11 مئی،1998 سے 28 مئی 1998 دو ہفتوں کے ہندوستانی اخبارات نے اپنے 5 ایٹمی دھماکوں پر وہ ادھم مچایا کہ اللہ کی پناہ۔
ایسا لگتا تھا جیسے ہندوستان نے پاکستان کو فتح کر لیا تھا۔اور پھر پاکستان کے 28 مئی 1998 کے بعد جب پاکستان نے 6 ایٹمی دھماکے کر دئیے تو ہندوستان کا سارا جنگی طوفانی گروہ دوستی کے راگ الاپنے لگا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان یہ وہ جنگ تھی، جو چینی جنرل سن زو SUN. TZU کے فلسفہ کے مطابق ’’ بہترین جنگی جیت وہ ہے کہ جنگ ہو نے ہی نہ دی جائے‘‘۔
یہ سب پاکستان کی طرف سے جہاد کی تیاری کی کرامت سے ممکن ہوا تھا۔
اسلام اور ادیان غیر
اوپر جتنے جہادی اصولوں کا ذکر کیا گیا ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ الفاظ کے معنی ہوتے ہیں ان کی آواز ہوتی ہے اور ان کی تاثیر سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ (از راہ تبصرہ۔ Absolutely Not امریکی صدر جو بائیڈن کو کھا گیا اس کی انٹیلیجنس چیف کمبرلی چیتل کو کھا گیا)
مجاہد اپنے عمل میں ایک خاص جذبے، محویت اور توکل سے میدان میں اترتا ہے جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں۔۔۔ہم مصطفوی مصطفوی مصطفوی ہیں۔
دین ہمارا دین مکمل،استعمار ہے باطل ارذل ۔۔۔خیر ہے جہد و جہد مسلسل عنداللہ ۔مجاہد کو اللہ اور رسول اللہ کی حمایت حاصل ہونے کا پورا بھروسہ ہوتا ہے۔ اس لیے مجاہد کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ دوسرا پہلو اس سے بھی اہم تر ہے۔ الہامی کتب رکھنے والی دوسری امتوں، (اہل زبور،،اہل تورات اور اہل انجیل) کے نظریہ حیات کو مذاہب کہا گیا جب کہ اسلامی طرزِ زندگی کو دین کہا گیا ہے۔ دوسرے مذاہب میں اللہ اور نبی پر ایمان لانا، عبادات اور معاشرتی آداب و رسوم یکے بعد دیگرے سکھایا گیا تھا۔ ایک زاویہ سے یہ دین اسلام کی نرسری کا کام کر رہے تھے۔ جب بنی نوع انسان کی بنیادی تربیت مکمل ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے خاتم المرسلین امام الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا، دین مکمل کیا اور فرمایا کہ اب نہ تو قیامت تک کوئی الہامی کتاب نازل ہوگی اور نہ ہی کوئی نبی مبعوث ہوگا۔ مغربی تہذیبی فلاسفروں نے بڑی جانفشانی سے اسلامی فلسفہ حیات پر تحقیق کر کے اس میں یہ ںڑے بڑے ستون مسمار کرنے کی کوشش کی ہے جس پر اسلامی معاشرت کی پر شکوہ عمارت کھڑی ہے۔ وہ ستون ، ’’ نمبر ون ، سب انسان انسانیت کے حوالے سے برابر ہیں۔ دوسرا۔چور کے ہاتھ کاٹنا، تیسرا زنا کے مرتکبین کو سنگسار کرنا اور چوتھا قاتل کو سزائے موت دینا۔
غیر مسلم تہذیبیں مگر مذکورہ مجرمین کے لئے اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ سزاؤں کو ظالمانہ PUNISHMENTS CAPITALقرار دیتے ہوئے ان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔عالمی معاشرت کے ہر شعبے میں کافر معاشروں نے اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ اصول و ضوابط کو ترک کر کے اپنے صوابدیدی قوانین بنا رکھے ہیں‘‘۔۔ انسانی برابری کا دعویٰ تو ہے مگر غلامی آج بھی کسی نہ کسی شکل میں مغربی تہذیب میں جائز اور کالے افریقی قابل تضحیک ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی ریاستوں میں غلاموں کے برابری کے حقوق تسلیم ہی نہیں کئے گئے بلکہ انہیں ریاست کا سربراہ تک بنایا گیا۔ جیسے 1206 عیسوی میں ہندوستان میں ایک ایسی بادشاہت کی بنیاد رکھی جس کا سربراہ ایک غلام قطب الدین ایبک تھا۔ دونوں معاشروں میں یہی بڑا تضاد ہے۔
مغربی تہذیب کے اصول و ضوابط فلسفہ جہاد سے چرائے گئے ہیں۔
4 جولائی 1776 امریکہ کا یوم آزادی ہے۔ سیکنڈ کانٹینینثل کانگریس کی طرف سے کہا گیا بیان ہے کہ برطانیہ کی بادشاہت کے ساتھ حالت جنگ میں موجود 13 کا لونیاں اب تیرہ خود مختار ریاستوں کے طور پر خود کو شمار کریں گی۔ اعلامیہ کے مطابق ان تیرہ ریاستوں نے ریاستہائے متحدہ امریکہ USA کی تشکیل کی طرف ایک اجتماعی پہلا قدم لیا۔ یاد رہے کہ امریکہ برطانیہ کے تابع ریاست تھی۔ 4 جولائی 1776 کو انہوں نے اپنے آزاد ریاست ہونے کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ کو خود تو برطانوی حکومت کے تابع رہنا گوارا نہ تھا مگر دوسروں کو اپنے تابع کرنے کا مذموم عمل آج بھی جاری ہے۔ دنیا میں امریکہ نے ہر ملک میں جنگ چھیڑی جو آج تک جاری ہے۔ امریکی آزادی کے چارٹر میں عوام کے حقوق و عقائد دو سو سال پہلے طے گئے تھے۔ یہی حکومت امریکہ کے ستون ہیں۔۔ جنہیں تبدیل کرنا عام حالات میں ممکن نہیں۔ یعنی اظہارِ رائے،اسقاط حمل کا حق اور خود حفاظتی ہتھیار رکھنا آئینی طور پر آج بھی محفوظ ہے۔
عسکری جنگ اور جہاد
عسکری جنگ جہاں بھی لڑی جائے وہ نا انصافی جبر اور برائی سے شروع ہو کر مذید برائی پر پہنچ کر بند ہوتی ہے۔ امریکی مداخلت جہاں جہاں ہوئی ان ممالک کی سیاسی اور معاشی ابتری بڑھی کم نہیں ہوئی۔ آپ کسی تاریخی جنگ کا نتیجہ دیکھ لیں کہ وہ کس قدر تباہ کن اور اذیت ناک ثابت ہوئی۔۔ جنگ عظیم اول ہوئی لاکھوں افراد مارے گئے۔ممالک تباہ ہوئے۔ ، لیگ آف نیشن بنائی گئی کہ آئندہ جنگ نہ ہونے پائے۔ پھر بھی جنگ عظیم دوم ہو گئی۔لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے۔ اقوام متحدہ بنی ہے مگر جنگیں ہیں کہ بند نہیں ہو رہیں۔ عسکری جنگ فساد کا منصوبہ ہوتا ہے اور فساد زدہ علاقوں میں نہ لوگوں کی جان و مال محفوظ ہوتے ہیں اور نہ امن و چین میسر آتا ہے۔ جہاد امن لے کر آتا ہے، جہادی لشکر کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ شورش زدہ علاقوں میں ان کا ریاستی امن لوٹا دے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
جب کہ غیر اسلامی افواج و طاغوتی قوتوں کو مقصد ہی دیگر ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنا، مفتوحہ ممالک کو کمزور و پسماندہ رکھ کر ان کی دولت پر خود کو طاقتور بنانا ہوتا ہے۔اپنے ملک کی معیشت کو مضبوط بنا کر غریب ریاستوں کو اپنی منڈیوں میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ اس بد اخلاقی کو برا نہیں سمجھتے بلکہ اس پر فخر کرتے اور برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ جیسے برطانیہ نے بر صغیر پر قبضہ کیا تھا اس وقت دنیا کی معاشی ترقی میں برصغیر کا حصّہ 27 فیصد ہوتا تھا۔ جس میں 17 فیصد تو صرف بنگال کا ہوتا تھا۔ یاد رہے کہ تب امریکہ آزاد ملک نہیں بلکہ برطانیہ کے تابع کالونی تھا۔
1993 میں صومالیہ، ایک مسلم ریاست سیاسی عدم استحکام اور اندرونی خانہ جنگی کا شکار تھی۔ امریکہ نے وہاں پر امن لوٹانے کی خاطر Operation Restore Hope کیا۔ اپنے رینجرز اور ڈیلٹا فورسز سے جہاز بھرے اور موغادیشو کے البقرہ کے علاقے میں اتار دئیے۔ ڈیلٹا فورسز نے بلیک ہاک ہیلی کاپٹر میں 20 صومالی باغی گرفتار کرنے کی کوشش کی تو معاملہ بگڑ گیا۔ امریکی ہیلی کاپٹر مار گرایا گیا۔ آپریشن کرنے والوں سے 18 امریکی موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ امریکیوں کی لاشوں کو موغادیشو کی گلیوں میں گھسیٹا گیا۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ امریکیوں کو وہاں سے بحفاظت نکلنا نکالنا مشکل ہوگیا۔ بل کلنٹن کو۔ اضافی عملہ بھیجنا پڑا اور راتوں رات وہاں سے امریکیوں کو نکال کر دم دبا کر بھاگنا پڑا۔ ٹکراؤ سے امریکی اور اتحادیوں فورسز کے 43 بندے مارے گئے 153 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ تکبر کے نشے میں بہت کمزور منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ بعد میں پاکستان سے فوجی دستے یو این فورس کے طور پر صومالیہ گئے امن بحال کرایا اور واپس وطن لوٹے۔1756 میں رابرٹ کلائیو نے ہندوستان بنگال میں سراج الدولہ کو غدار میر جعفر سے مل کر شکست دی۔ پھر ہندوستان کو 1947 تک غلامی اور محکومی بھگتنا پڑی۔
اس واقعہ پر تبصرہ مورخوں سے سنتے ہوئے ایک شاعر مظفر رزمی نے بڑا بر محل شعر لکھا ہے۔
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی۔
جہاد اور اخلاق حسنہ
حسن اخلاق اور حسن عبادت دونوں جہاد کا بہترین اثاثہ ہے۔جہاں جہاں جہاد اور مجاہد پہنچے اپنے اخلاق حسنہ سے مقامی آبادیوں کو اپنا گرویدہ بناتے چلے گئے۔ امریکی فوج کی دو خواتین جو افغانستان میں جنگی قیدی بن گئی تھیں،زیر حراست رہنے کے بعد افغانی مجاہدین کے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئی تھیں۔کنفیوشس چین کا بہت بڑا فلاسفر ادیب استاد اور امن پسند شہری تھا۔ اس نے چین میں تعلیمی نظام کی باقاعدہ بنیاد ڈالی تھے۔ صدیوں کی بادشاہت کی کار کردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کنفیوشس نے لکھا تھا:-
’’ ہمیشہ لوگوں سے خوشدلی اور متبسم چہرے سے ملو۔ دوسروں کی غلطیوں کوتاہیوں اور حماقتوں کو معاف کر دیا کرو۔تحمل اور برداشت اپناؤ، اچھی گفتگو کرو۔ دوست ہو یا دشمن اس کے لئیے اچھی دعا کرو۔ طاقت اور قدرت رکھنے کے باوجود معاف کرنا بہت بہتر ہے۔ ٹھنڈے دماغ سے رہیں۔ سیدھی اور سچی بات کریں اور سچ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں‘‘۔کیا لگتا نہیں کہ یہ کنفیوشس کا عقیدہ بیان ہو رہا ہے یا نظریہِ اسلام کا ایک پیرا پڑھا جا رہا ہے۔اس کی تحریریں پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس کے تحت الشعور میں کہیں دین اللہ کا خاکہ نقش تھا۔ کنفیوشس نے تین ہزار سال پہلے ایک فلاحی اور پر امن ریاست قائم کرنے کی تجویز لکھی تھی:-
The importance of having a good moral character, which can then affect the world around that person through the idea of “cosmic harmony.” If the emperor has moral perfection, his rule will be peaceful and benevolent.
ترجمہ”حکمران کا بلند اخلاق اور ہمدر ہونا بہت ضروری ہے۔ ایسے کردار کا مالک، انسانی برابری کے عملی اقدام کر کے دنیا بھر کو اپنے تابع بنا سکتا ہے۔ ایسے نظریات کے حامل شخص کی حکومت یقیناً پر امن اور فلاحی ریاست ہو گی”۔
افغانستان پر روسیوں کا حملہ ہوا۔ وہاں جہاد اور جہادی پہنچے تو حملہ آور روسی جابر افواج کو نکال باہر کیا۔ افغانستان کو امن واپس لوٹایا۔ ان جہادی کوششوں پر تبصرہ اس فطری حقیقت کے مطابق ’’ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ھے ‘‘ کے مطابق لکھا گیا۔ مغربی فلاسفرز نے یونانی تہذیب کو اپنا امام بنایا۔ انہوں نے سقراط کے زہر کے پیالے کی بڑی تشہیر کی۔مگر یہ نہ بتایا کہ اسے موت کی سزا قومی عدالت نے باقائدہ مقدمے کی سماعت کے بعد سنائی تھی کہ سقراط ان کی قومی سماجیات PIETY کو نئی نسل کے ذریعے برباد کر رہا تھا۔ مغربی تہذیبوں میں سقراط کا فلسفہ حیات حاوی دکھائی دیتا ہے‘‘۔ ’’میٹھا میٹھا ہپ‘‘ مغربی تہذیب و ثقافت اسلام کی ازلی حریف ہونے کے ناطے ہمیشہ انتقامی کاروائی کرتی ہے۔ وہ دنیا کی وسیع و عریض وسعتوں کو جان کر، انسانی نفسیات پر تحقیق کر کے دنیا کو اپنے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ کنفیوشس کا نظریہ حیات انسانیت کے قریب تر ہے۔ وہ نظام ریاست و حکومت کو مکمل انسانیت اور اخلاقیات کے تابع لکھتا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ انسان کو وہ خود آگاہی درکار ہے جو دوسرے انسانوں کو اخوت اور ہمدردی کی نظروں سے دیکھے۔، انسان کے ہر عمل میں اخلاقیات کو اولیت دے کر ہی معاشرہ پر امن رہ سکتا ہے۔
”Confusious tradition is based on moral self Perfection, learning as a moral virtue and the primacy of action over thoughts,with the highest virtue.”
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
علامہ محمد اقبال نے جس عقیدت اور روحانی طلب سے قرآن پاک کی تلاوت کی، قرآنی آیات کی حکمتوں کو جانا اور عالمی تاریخ کا مطالعہ کیا ویسا عمل بہت ہی کم مسلمانوں کو نصیب ہوا۔ ان کا مندرجہ بالا شعر
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
ایک تاریخی حقیقت کی ترجمانی میں لکھا گیا ہے۔ وہ یوں کہ سوڈان کے شیخ محمد احمد رحمہ اللہ المعروف مہدی سوڈانی ایک جری اور بہادر مسلمان تھے۔ انہیں سوڈان میں تحریک اسلامی کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔وہ اگست 1845 میں پیدا ہوئے۔ جامع الازہر میں تعلیم پائی۔ وہیں ان کی ملاقات جمال الدین افغانی سے بھی ہوئی۔وہ صوفی ازم سے متاثر تھے اور سامراج شکن بھی تھے۔ تمام عمر احکام اسلام کی سختی سے پابندی کرتے رہے۔ 1870 میں سوڈان کے جنوبی علاقوں پر مصری حکومت پر محمد علی پاشا کا قبضہ ہو گیا۔ مصر تب تک مکمل انگریزوں کے زیر اثر جا چکا تھا۔ مصری سلطنت نے سوڈانی باشندوں کے ساتھ بہت ناروا سلوک کیا جس پر سوڈانیوں نے انتہائی شدید ردعمل دکھایا۔
یوں تو اسلامی تاریخ میں بہت ساری تحریکیں چلیں اور کامیاب بھی ہوئیں مگر جو اعلیٰ پائے کا نمونہ ’’ مہدی سوڈانی ‘‘ کی راہنمائی اور قیادت میں چلنے والی اسلامی تحریک نے پیش کیا وہ بہت ہی نادر اور قابل تحسن و تقلید ہے۔ مصری سلطنت کے سوڈانیوں کے خلاف جابرانہ معاشی اقدام کرنے پر 29 جون 1881 کو ایک خانقاہ میں مصلے پر بیٹھنے والے 36 سالہ صوفی احمد عبدللہ المعروف مہدی سوڈانی، اللہ کل شیء قدیر سے اس کی مدد،فضل اور رحمت طلب کرتے اٹھا اور ممتاز لوگوں کو کتاب و سنت کی بالا دستی قائم کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے اس پر زور دیا کہ اس مقصد کے لئے لوگوں کو جانو مال کی قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اور تمام لوگ جزیرہ پیرو سے ہجرت کر کے’’ آبا ‘‘ آ جائیں۔ بس اس کے بعد سوڈان کے مصری حکام اور مہدی سوڈانی کے حامیوں میں جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ جو بالآخر میدی کی فتح پر ختم ہوئیں۔ 1883 میں سوڈانیوں نے درویش صفت 38 سالہ مہدی سوڈانی کی راہنمائی میں جہاد بالشمشیر شروع کر دیا۔ یہ تھے بے تیغ لڑنے والے سپاہی۔ جنہوں نے دو سال کے اندر اندر تقریبآ پورے سوڈان پر قبضہ کر لیا۔ مصری حکومت نے بغاوت کچلنے کے لئے انگریز جنرل گورڈن کو بھیجا۔ مہدی سوڈانی کے سپاہی اس ثابت قدمی، جرأت اور بہادری سے لڑے کہ دنیا نتائج دیکھ کر حیران رہ گئی۔ سوڈانی نہتے سپاہیوں نے انگریز جنرل کو ناکوں چنے چبوائے، اس کے سپاہیوں کو جہنم واصل کیا، زخمی کیا اور قیدی بھی بنایا۔ آخر کار جنرل گورڈن اپنے سپاہیوں سمیت 1885 میں مارا گیا۔ مہدی سوڈانی اب مصری سلطنت پر حملے کی تیاری کر رہا تھا کہ وہ فوت ہوگیا۔ 1900 میں جب سوڈان پر مصریوں اور انگریزوں نے قبضہ کر لیا تو انگریز لارڈ کچنر KITCHENER نے جذبہ حسد و بعض اور انتقام سے مغلوب ہو کر مہدی سوڈانی کی قبر کھدوا کر اس کی ہڈیاں نکلوا کر پہلے تجزیہ کروایا کہ اس شخص کے اندر غیر معمولی صلاحیت کس بنا پر قائم تھی۔ اور پھر ان ہڈیوں کو نذر آتش کروایا دیا۔ اس سارے واقعہ کے پس منظر کو سمجھنے میں ہمیں کوئی دقت و سہو پیش نہیں آنی چاہیے کہ دنیا میں جنگ اقتدار کی کم اور دین اسلام(دین اللہ) کے فروغ کو روکنے کی خاطر زیادہ لڑی گئیں اور آئیندہ بھی انہیں وجوہات پر لڑی جائیں گی۔
فاعتبروا یا اولی الابصار
٭٭٭

شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں