چیف ایڈیٹر کے قلم سے
27اکتوبر کو کون کشمیری بھلا سکتا ہے ۔1947 میں اسی روز ایک منصوبہ بند سازش کے تحت بھارتی افواج جموں و کشمیر میں قیام امن کے نام پر سری ینگر ایئرپورٹ پر اتریں۔وہ دن اور آج کا دن ۔جس امن کے نام پر اقوا م عالم کو گواہ ٹھہراکرکشمیری عوام کو استصواب رائے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔اس امن کیلئے ہماری قوم ترستی ہے۔ اس اکتوبر کے بعد ہی نومبر آیا۔چار ،پانچ اور چھ نومبر1947 میں اس امن کی دیوی کو سر عام ننگا اور رسوا کیا گیا۔3لاکھ سے زائد کشمیری جن میں خواتین ،مرد ،بزرگ ،بچے ،جوان شامل ہیںکو جموں شہر اور اس کی گرد و نواح کی بستیوں میں بے دردی اور بے رحمی سے قتل کیا گیا۔لاکھوں لوگوں کو پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔تب سے یہ سلسلہ جاری ہے ۔بغل میں چھری منہ میں رام رام کی مالا جھپتے نہرو سے لے کر من موہن سنگھ تک اپنے ناجائز فوجی قبضے کو دوام بخشتے رہے۔ لوگوں کو مارتے رہے ،قید کرتے رہے،پھانسیاں دیتے رہے ۔پیلٹ اور بیلٹ سے دہشت کی فضا قائم کرتے رہے ،معصوم بچوں کی بینائیاں چھینتے رہے ،گھر اور تعمیرات خاکستر کرتے رہے ،فصلیں تباہ کرتے رہے ۔ یہ سب کچھ قیام امن کے نام پر ہوتا رہا ۔بات اور عمل اس حد تک محدود رہتی تو شاید سمجھنے میں کچھ دیر اور لگتی ۔ لیکن جناب نریندر مودی نے 5اگست 2019میں بالکل کافرانہ انداز میں 27اکتوبر 1947کی منافقانہ انداز میں ترتیب دی گئی حکمت عملی کو عریاں کردیا۔ ریاست کو بھارت میں ضم کردیا گیا۔بھارتی آئین میں درج آرٹیکل370اور35اے کو ختم کردیا گیا۔اب اس ریاست کا اکثریتی کردار ختم کرنے کیلئے اقدامات ہورہے ہیں اور بڑی تیزی سے ہورہے ہیں ۔لاکھوں بھارتیوں کو ریاستی شہری قرار دیا جاچکا ہے ۔آنے والے برسوں میں لاکھ۔۔ کروڑ میں تبدیل ہونگے ۔ا تنا ہی نہیں گھر واپسی کے نام پر کشمیری مسلمانوں کو ہندو مت اختیار کرنے پر مختلف حربے استعمال کرنے کے طریقے اپنانے کا عمل شروع کیا گیا ہے ۔مودی کی تنظیم بی جے پی کھل کے اپنے اہداف بیان کررہی ہے ۔وہ منافقت سے کام نہیں لے رہی۔ہر مسلم کش اقدام کررہی ہے اور بغیر کسی شرم و حیا کے کررہی ہے ۔۔۔ 27اکتوبر کو کون کشمیری بھلا سکتا ہے۔۔کیا بھلائیں اور کس طرح بھلائیں ۔ہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کشمیری اور پاکستانی قیادت 27اکتوبر47ء میں جس طرح نہرو اور بھارتی پالیسی سازوں کی منافقانہ پالیسیوں اور چالبازیوں کو نہ سمجھ سکے۔یہ قیادتیں آج بھی سمجھنے سے قاصر ہیں ۔یہ5اگست 2024ء کو بھی نہ سمجھ سکے اور ابھی تک سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کررہے ۔امام سید علی گیلانی ؒ نے بار بار سمجھانے کی کوشش کی لیکن انہیں دقیانوسی خیالات قرار دے کر روشن خیال بننے کا مشورہ دیا جاتا رہا۔ماضی کو بھلاکر آگے بڑھنے کا مشورہ دیا جاتا رہا۔ لیکن اب حالات انتہائی خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔معروف کشمیری مصنفہ اور صحافی نعیمہ احمد مہجور نے اپنے ایک کالم میں اس کی نشاندہی ان الفاظ میں بیان کی ہے” کہ صورتحال اسی طرح رہی تو دس سال بعد نہ کوئی کشمیر ی ہوگا اور نہ کہیں کشمیر کا وجود ہوگا ــ”۔میں نعیمہ احمد مہجور صاحبہ کی اس بات کی نہ صرف تائید کرتا ہوں بلکہ یہ عرض کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو دس بیس برسوں کے اندر اندر مجھے کسی مسلمان کا وجود بھی وہاں نظر نہیں آرہا۔۔27اکتوبر۔۔ ایک المناک کہانی کا آغاز تھا اور ۔۔یہ کہانی اب المناک انجام کی طرف بڑھ رہی ہے ۔اللہ رحم فرمائے ۔اللہ رحم فرمائے ۔اللہ رحم فرمائے ۔