کشمیر پر جارحیت کے 77 برس

غلام اللہ کیانی

27اکتوبر1947میں سرینگر ہوائی اڈے پر پہلاقابض بھارتی فوجی دستہ اترا جس کے خلاف کشمیری عوام کی جدوجہد شروع ہوئی۔مقبوضہ جمو ںو کشمیر پر بھارت کے اس جبری قبضہ کے بعداور جارحیت کے 76برس مکمل ہونے سے قبل ریاست کے حصے بخرے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کرانے کے بجائے مقبوضہ ریاست کو ڈی گریڈ کرنے کے عوامل سامنے آ رہے ہیں۔ ریاست کے ٹکڑے کرنے کے بعد انہیںدہلی کی غلام نو آبادیات کالونیاں بنادینے پر ہی بس نہیں کیاگیابلکہ لاکھوں بھارتی ہندو شہریوں کو کشمیر کی شہریت دی گئی ۔ انہیں ووٹ اور ملازمت کا حق دیا گیا۔ اسی بنیاد پر نئی حلقہ بندیا کی گئیں ۔ اسمبلی حلقوں کی تعداد 87سے بڑھا کر90کر دی گئی جس میں سے زیادہ سیٹیں ہندو اکثریتی حلقے بنا کر انہیں دی گئیں۔اسی بنیاد پر مرحلہ وار اسمبلی انتخابات بھی کرائے گئے۔گو کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کودہلی نے اپنے مرکزی زیر انتظام علاقوں کا درجہ دیا اس مناسبت سے 5اگست 2019میں یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ اس دن بھارت نے مقبوضہ ریاست پر از سرنو حملہ کیا،لشکر کشی کی اور فوجی انخلاء کے بجائے مزید فوج داخل کی گئی جس نے کشمیری عوام کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے قتل عام شروع کر دیا۔ایک کروڑ سے زیادہ کشمیریوں کو گھروں میں قید کر کے ان کا محاصرہ کیا۔کرفیو اور پابندیاں سخت کیں اور کشمیر کو دنیا کے لئے انفارمیشن بلیک ہول بنا دیا۔آزاد کشمیر کے عوام نے مظاہرے کئے تو ان پرفائرنگ شروع کر دی گئی۔ چین نے لداخ میں بھارتی فوج کے قدم روکنے کی کوشش کی تب بھارت ، لداخ کو ہماچل پردیش اور مقبوضہ سرینگر سے ملانے کے لئے زیر زمین سرنگیں تعمیر کرنے لگا تا کہ جنگی تیاریوں کو بڑھا سکے۔

دنیا میں کہیں اگرغیر مسلم آبادی کے خلاف ایک دن بھی کرفیو اور پابندیاں لگیں تو شورو غل برپا ہو جاتا ہے۔انسانی حقوق کے ادارے حرکت میں آ تے ہیں۔ جارحیت پسند ملک پر معاشی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ مگر کشمیر میں مسلم آبادی کے خلاف مسلسل ریاستی دہشت گردی اور سخت پابندیوں کی دہائیاں گزرنے کے باوجوددنیا بھارت پر دبائو نہ ڈال سکی۔ بھارت کو کشمیری عوام کی نسل کشی جاری رکھنے کی چھوٹ دے دی گئی۔دہلی کی کشمیری عوام کے خلاف پہلی جارحیت 27اکتوبر1947میں سرینگر ہوائی اڈے پر پہلے بھارتی فوجی دستے کے اترنے کے ساتھ شروع ہوئی ۔ جموں و کشمیر کے عوام بیرونی جارحیت کے خلاف گزشتہ76برسوں یا 100 سال سے نہیں بلکہ4 صدیوں سے بھی زیادہ عرصہ سے برسرپیکار ہیں۔ 19؍نومبر1586ء کو جب شہنشاہِ کشمیر یوسف شاہ چک کے بیٹے یعقوب شاہ چک جوکہ خودمختار کشمیر کے آخری حکمران ثابت ہوئے نے مغل فوج پر گوریلا حملے کا پہلا وار کیا تو اُسے کامیاب ترین حملہ قرار دیا گیا کیونکہ اس میں متعدد مغل فوجی ہلاک ہوگئے۔ اس رات یوسف شاہ چک نے اپنی گوریلا فوج سے کہا تھا کہ ’’آزادی صرف ایک دن دور ہے، ہم کل تک مغلوں کو کشمیر سے مار بھگائیں گے‘‘۔ بدقسمتی سے وہ کل425 سال گزرنے کے باوجود نمودار نہ ہوسکا۔ مغلوں نے1586ء سے 1752ء تک167 سال کشمیر پر حکومت کی۔ انہوں نے کشمیر کو ’’باغِ خاص‘‘ کا خطاب دے کر700 باغات تعمیر کئے۔ کشمیر کو اپنی عیش و عشرت کے لئے تفریح گاہ بنا دیا۔ انہوںنے کشمیریوں پر ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت حکمرانی کی۔ پھر افغانوں نے1752ء سے1819ء تک جابرانہ قبضہ جمایا۔ 1819ء سے1846ء تک سکھا شاہی نے کشمیریوں کو روند ڈالا۔ پھر100سال تک ڈوگروں نے کشمیریوں کا خون نچوڑنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے بعد1947ء سے بھارت نے اپنی درندہ صفت افواج کے سہارے کشمیر کو اپنی کالونی میں بدل ڈالا۔ آج کشمیری اپنے ہی گھر میں قید ہیں۔ قابض بھارتی فوجی جس بے دردی سے کشمیریوں کی نسل کُشی کر رہے ہیں اس نے گزشتہ قابضین کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔پی ایچ ڈی سکالرز ڈاکٹر ظہیر الدین خان شہید، پروفیسر رفیع الدین بٹ شہید، ڈاکٹر عبدالمنان وانی شہید، ڈاکٹر سبزار احمدصوفی شہید ، پروفیسر نذیر بٹ شہید، ڈاکٹر خالد داوود سلفی شہیدسمیت لا تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیریوں کی شہادت بھارت کے فوجی قبضے کے خلاف ،آزادی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے قربانیاں پیش کرنے کے بھرپور عزم کو ظاہر کر رہی ہے۔آزادی پسند کشمیریوں کو نظربند کرنا اور انہیں جیلوں میں ڈال دینابھارت کا مکروہ حربہ ہے۔

بھارت اپنے قبضے کے حق میں جو دلائل دے رہا ہے وہ سراسر گمراہ کُن ہیں۔وہ کشمیر پر اپنے فوجی قبضے کو چار بنیادوں پر جائز قرار دیتا ہے۔
(۱) مہاراجہ کشمیر کی جانب سے 26؍اکتوبر1947ء میںدستاویزِ الحاق ہند،
(۲) 27؍اکتوبر1947ئمیں گورنر جنرل انڈیا لارڈ مائونٹ بیٹن کی جانب سے دستاویزِ الحاق کو تسلیم کرنا،
(۳)26؍اکتوبر1947ء میں مہاراجہ کشمیر کی جانب سے لارڈ مائونٹ بیٹن کو خط جس میں بھارت سے الحاق کے بدلے بھارتی فوجی امداد کا مطالبہ اور شیخ محمد عبداللہ کو ریاست کی عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کرنا ،
(۴) 27؍اکتوبر1947ء میں لارڈ مائونٹ بیٹن کا مہاراجہ کشمیر کو خط کہ جس میں مندرجہ بالا امداد کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ ریاست میں معاملات کے تصفیہ اور امن و قانون کی بحالی کے بعد ریاست کے الحاق کا سوال عوام کی ریفرنس سے حل کیا جائے گا۔

آج سابق وزرائے اعلیٰ فاوروق عبد اللہ، عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی سمیت بھارت نواز بھی، اپنے اقتدار کے لئے ہی سہی، دہلی کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں ۔ وہ بھارت کے خلاف گپکار اتحاد قائم کرتے ہوئے نام نہاد الحاق کو چیلنج کرتے ہیں۔ بھارت کے کشمیر پر قبضہ کا سارا دارومدا ر مہاراجہ کشمیر کی الحاق ہند کی دستاویز پر ہے جس کے بارے میں بالکل عیاں ہوچکا ہے کہ دو دستاویز یعنی دستاویزِ الحاق اور مائونٹ بیٹن کو خط جس پر مہاراجہ نے26؍اکتوبر1947ء میں دستخط کئے ، جعلی تھے۔ مہاراجہ 26؍اکتوبر کو سرینگر سے جموں کی طرف 300 کلومیٹر سے زیادہ لمبی سڑک کے ذریعے سفر کر رہے تھے۔ اتنی طویل شاہراہ پر سفر کے دوران دستاویز الحاق پر دستخط کیسے ہوئے جبکہ مہاراجہ کے وزیر اعظم مُہرچند مہاجن اور کشمیر معاملات سے متعلق بھارتی سینئر افسر وی پی مینن دہلی میں تھے۔ دہلی اور عازمِ سفر مہاراجہ کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ مہرچند مہاجن اور وی پی مینن27؍ اکتوبر ۱1947ء کی صبح10 بجے دہلی سے جموں بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہوئے اور مہاراجہ کو اسی دوپہر اُن دونوں کی زبانی اپنے وزیر اعظم کے بھارت کیساتھ مذاکرات کے نتیجہ کا پتہ چلا۔ جب بھارتی افواج نے سرینگر ہوائی اڈے پر قبضہ کیا اس کے بعد مہاراجہ کی مہاجن اور مینن سے ملاقات ہوئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متذکرہ بالا دستاویز پر مہاراجہ کشمیر کے دستخط نہیں تھے اور اگر کسی نام نہاد ستاویز پر دستخط کئے بھی گئے تو اُن پر26؍اکتوبر1947ء کی جعلی تاریخ رقم کی گئی۔ مہاراجہ اور مائونٹ بیٹن کے مابین خطوط کو 28؍اکتوبر کو بھارت نے شائع کیا لیکن الحاق کی دستاویز کو شائع نہ کیا گیا جبکہ دونوں خطوط حکومتِ ہند نے تیار کئے تھے۔ دستاویزِ الحاق کی کاپی پاکستان کو بھی نہیں دی گئی اور نہ ہی اسے1948ء کے آغاز تک اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا۔1948ء میں حکومت ہند نے جو وائٹ پیپر شائع کیا اس میں دستاویز الحاق کو شامل نہیں کیا گیا کہ جس کی بنیاد پر بھارت کشمیر پر قبضہ جائز قرار دینے کا دعویٰ کرسکے۔ آج تک مہاراجہ کے دستخط شدہ دستاویز الحاق کا کوئی بھی اصل پیش نہیں کیا جاسکا۔ اگر اُن تمام دستاویزات کو جوکہ جعلی ہیں کو اصل قرار دیا بھی جائے تو لارڈ مائونٹ بیٹن کی جانب سے دستاویز الحاق کو مشروط طور پر تسلیم کرنا اور عوام کی رائے معلوم کرنے کی بات سے بھی بھارت نے آج تک عمل نہیں کیا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن کے خط میں عوام سے ریفرنس کا جو تذکرہ تھا وہ رائے شماری تھا۔ دستاویز الحاق کے جعلی ہونے پر یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ بھارت نے ایک خودمختار ریاست پر جبری فوجی قبضہ کیا تھا کیونکہ اس ریاست کے راجہ نے کسی بھی ایسی دستاویز پر دستخط نہیں کئے جن کا مقصد کشمیر کا بھارت سے الحاق ہو۔

پاکستان بھی دنیا میں کشمیری عوام کی آواز بلند کر رہا ہے۔مگر بھارت ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ وہ معصوم کشمیریوں کا مسلسل قتل عام کر رہا ہے، معصوم بچوں تک کو بینائی سے محروم کردیا گیاہے۔ کشمیری عوام 1947ء سے بھارت کے خلاف بر سر پیکار ہیں ۔انتفادہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 2008ء سے 2010ء تک کا سلسلہ بھی اس نئی نسل کے شاندار عزم کا عکاس تھا جس نے سب سے پہلے امرناتھ شرائن بورڈ کو اراضی کی منتقلی کے خلاف احتجاج شروع کیا ۔ اس دوران کشمیریوں کو بعض نئے تجربات سے آشکار ہونا پڑا جس کے دوران بھارتی انہتاپسندوں کی سرپرستی میں وادیٔ کشمیر کی اقتصادی ناکہ بندی واقعتا حیرتناک اور عبرتناک ثابت ہوئی۔ بعد ازاں شوپیاں میں خواتین کی بے حُرمتی اور پھر برہان وانی کی شہادت کے بعد پوری وادی میں شدید احتجاج اور مظاہرین پر تشدد نے ثابت کردیا کہ کشمیر کی نئی نسل کوئی سمجھوتہ کرنے کے موڈ میں ہرگز نظر نہیں آتی ہے۔ دوسری طرف بھارت بھی کشمیر میں سرمایہ کاری کے دعوے کر رہا ہے۔ بھارتی حکمران سوال کرتے ہیں کہ اگر کشمیر میں پاکستان کے لوگ آکر اپنا خون بہا گئے تو بھارتی فوج نے بھی کشمیر میں اپنا لہو بہایا ہے تاہم اُن پر یہ واضح ہو جانا چاہئے کہ کشمیری جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن یا انٹرنیشنل بارڈر کے طور پر کبھی بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اس عارضی خونی لیکر کو کشمیری عبور کرنے میں آزاد ہیں۔ بھارتی فوج کے خلاف معرکوں میں شہادت پانے والے پاکستان میں موجود اُن لاکھوں کشمیری مہاجرین سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں صرف 1947ء سے1990ء تک بھارتی جارحیت اور مظالم کے باعث اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہی لوگ اگر اپنے مادرِ وطن کی آزادی کے لئے جدوجہد کریں، قربانیاں دیں ،تو کوئی بھی بین الاقوامی قانون انہیں اپنے گھر سے بیرونی قبضے کو ختم کرنے کے لئے کوئی بھی اقدام کرنے سے روک نہیں سکتا۔بندوق کشمیریوں کا آخری آپشن تھا۔اقوام متحدہ کا چارٹر اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے باوجود اگر آزاد کشمیر سے کوئی کشمیری جنگی بندی لائن کو عبور کرکے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوتا ہے تو وہ نہ تو بیرونی دہشت گرد ہے اور نہ ہی درانداز۔ ہر کشمیری کو اس عارضی لکیر جسے خونی لکیر کہا جاتا ہے کو روندنے کا حق حاصل ہے کیونکہ کشمیری کسی جنگ بندی لائن کو مستقل سرحد کے طور پرتسلیم نہیں کرتے ہیں۔
فلسطین طرز کی انتفادہ تحریک کو بندوق کی نوک پر دبانے کے لئے اس نے اسرائیل، روس اور امریکا کی مدد بھی حاصل کرتے ہوئے ہی لاک ڈائون اور پابندیاں عائد کیں۔ آج اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ان کی سرزمین پر جبری قبضہ کرنے کے بعد مقامی آبادی کو بیدخل کر رہا ہے۔ان کی جگہ صیہونی آبادکاروں کو بسا رہا ہے۔ اسرائیلی دہشتگردی پر مغرب اسرائیل کی کھلی مدد کر رہا ہے۔ فلسطینی بچوں ، ہسپتالوں پر بمباری کے لئے مہلک اسلحہ سپلائی کیا جا رہا ہے۔اسرائیل بھی بھارت کی ہی طرح تمام مذموم اور ظالمانہ حربے آزمانے کے باوجود ناکام و نامراد ہوگا۔ بھارتی حکمران بچوں اور عزت مآب خواتین کے عزم جو ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے بھی زیادہ گہرا ہے کو دیکھ کر چیخ اُٹھے۔ بوکھلاہٹ میں وہ اپنے آخری تیر آزما رہے ہیں لیکن عظیم کشمیری قوم اپنے جگر آزما رہی ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ کشمیری اپنی جنگ کس عزم کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔انقلاب میں بندوق کا کوئی کردار نہیںتھا۔جہاد کونسل کا درست فیصلہ تھا کہ عوامی انتفادہ کے دوران بھارت کے خلاف حملے شہروں اور دیہات سے باہر جنگلوں میں کئے جائیں تاکہ کسی کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع نہ ملے کہ موجودہ انقلاب عوامی نہیں بندوق کا ہے۔ ارون دھتی رائے کے بقول یہ وقت ایسا تھا کہ کشمیر کو بھارت سے آزاد ہونے سے بھی زیادہ بھارت کو کشمیر سے آزاد ہونے کی ضرورت تھی۔

بھارت کی طرف سے جاری قتل عام ، طویل ترین کریک ڈائون اور لاک ڈائون نے بھارت کو بے نقاب کر دیا ۔آزاد کشمیر پر بھارتی گولہ باری کو بھی پاکستان نے درست انداز میں اسلام آباد میں موجود عالمی سفارتکاروں کو سیز فائر لائن اور گولہ باری کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر اکے بے نقاب کیا۔ عالمی میڈیا حقائق بیان کرتا رہا ۔27؍اکتوبر1947ء میں کشمیر پر بھارتی قبضے سے متعلق غیر جانبدار قلمکاروں نے حقائق سے پردہ اٹھایا ۔ سٹینلے وال پرنٹ اور السٹر لیمب نے تو اس پر کھل کر بات کی ہے جبکہ سابق امریکی عہدیدار رابن رائفل نے28؍اکتوبر1993ء میں واضح کر دیا کہ امریکا مہاراجہ کی دستاویز الحاق کو تسلیم نہیں کرتا اور تمام کشمیر متنازعہ ہے۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام نے کرنا ہے۔ الحاق کی دستاویز پاکستان یا اقوام متحدہ میں پیش نہیں کی گئی۔بعد ازا ں بھارت نے کہا کہ وہ گم ہوگئی ہے۔ جنیوا کی انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے ایک قرار داد کے ذریعے کہا کہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز بوگس اور جعلی ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ بھارت نے کشمیر پر قبضے کا منصوبہ ستمبر1947ئمیں ہی بنا لیا تھا۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے مکتوبات سے بھی یہ بات ظاہر ہوگئی ہے۔ دوسری طرف جب گورنر جنرل پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے27؍اکتوبر1947ء میں پاکستانی فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا تو انگریز کمانڈ انچیف لیفٹننٹ جنرل سر ڈگلس گریسی نے اُس حکم کو ماننے سے انکار کردیا۔گریسی نے سپریم کمانڈر فیلڈ فارشل ایکون لیک سے ہدایات کیلئے رجوع کیا، ایکون لیک28؍اکتوبر1947ء میںدہلی سے لاہور پہنچ گئے۔ جس کے بعد محمد علی جناح نے مائونٹ بیٹن اورنہرو کو اگلے روز لاہور بلا لیا۔ اس طرح بھارت نے کشمیر پر جعلی دستاویز کا بہانہ بناکر فوجی قبضہ کرلیا۔2بٹالین فوج ڈیکوٹا جہازوں میں سرینگر پہنچ گئی۔ بھارت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فوجی قبضے کو مضبوط کرتا گیا۔ پاکستان نے کشمیر کو آزاد کرانے کی کوششیں کیں لیکن بھارت کے دبائو پر عالمی برادری نے مداخلت کی اور پاکستان کو ایسے موقع پر سیز فائر کرانے پر مجبور کیا جب پاک افواج جنگ جیت رہی تھی۔ پاکستانی افواج کو محاذسے واپس بلایا تو وہ رو پڑے کہ اُن کی فتح کو شکست میں بدل دیا گیا۔ آج بھی کشمیری عوام کرفیو اور پابندیوں کے باوجود تاریخ کا منفرد انتفادہ لڑ رہے ہیں۔پاکستان، چین کے تعاون سے سلامتی کونسل کے مشاورتی

اجلاس منعقد کرانے میں کامیاب ہوا۔ترکیہ، ملائشیا جیسے ممالک نے کشمیری عوام کیلئے بھارت سے ٹکر لی۔ بھارتی جارحیت پھر بھی کم نہ ہوئی۔اقوام متحدہ ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز، اداروں، تھینک ٹیکنس پر کشمیر کا مسئلہ مزید مؤثر انداز میں جارحانہ طور پر اٹھایا گیا۔ بھارت اپنے عوام میں جنگی ہیجان پیدا کرتا رہا۔ بھارتی ریاست مہاراشٹر اور ہریانہ سمیت دیگرریاستوں میں مودی کی جنگی پالیسی کو عوام نے رد کیا ۔ کیوں کہ آزاد کشمیر پر گولہ باری اور شہریوں کو نشانہ بنانے پر بھارت میں جب پروپیگنڈا شروع ہوا اور بھارتی فوجی چیف نے مجاہدین کے ٹریننگ کیمپوں کی تباہی کا دعویٰ کیا۔تو بی جے پی کو انتخابی فائدے کے بجائے نقصان ہوا۔مگر بھارتی ریاستوں میں الیکشن کے دوران جنگی جنون اور نفرت کی سیاست کی گئی۔نریندرمودی حکومت 2024کے عام انتخابات اور مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے ڈرامہ الیکشن جیتنے کے لئے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلاتی رہی ۔ پاکستان میں ہر حکومت کا عزم رہا کہ وہ دنیا کو بھارتی جارحیت سے آگاہ کرنے اور کشمیر میں ریفرنڈم یا رائے شماری کرانے کے لئے جارحانہ مہم جاری رکھے گی اور بھارت کو کوئی یک طرفہ نرمی نہیں دے گی۔کیوں کہ بھارتی آئین کے تحت انتخابات آزادی یا حق خود ارادیت کے متبادل نہیں ہو سکتے۔بھارت بات چیت سے مسلسل راہ فرار اختیار کر رہا ہے تا کہ مودی کے نفرت سے بڑھتا ووٹ بینک مزید بڑھے۔مگربھارت کی دو طرفہ مذاکرات سے کنارہ کشی کو دنیا میں سفارتی انداز میں پیش کیا جانا چاہیئے تا کہ دنیا دوطرفہ بات چیت کی ناکامی اور زیرو نتائج سے آگاہ ہو سکے۔ ان دوطرفہ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔دنیاسے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق رائے ریفرنڈم یاشماری کرانے کے واحد آپشن پر توجہ دلائی جائے تا کہ بھارت کو مسلہ کشمیر کو دو طرفہ مسئلہ قرار دینے اور اسی بہانے ٹال مٹول، تاخیری حربے، فرار ہونے کا کوئی موقع نہ مل سکے۔ غیر ملکی سفارتکاروں کو سیز فائر لائن کا دورہ کرانے، بھارتی جارحیت کے متاثرین کی حالت زار دکھانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے تا کہ وہ بھی بھارتی جارحیت اور شہریوں کو نشانہ بنانے کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کریں اورحقائق پر مبنی آنکھوں دیکھا حال دیکھ سکیں۔ کشمیر کے آر پار اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے منڈیٹ کو بھی مضبوط بنانے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بھارت کشمیر پر جبری قبضہ مضبوط کرنے کے لئے فوجی انخلاء کے بجائے مختلف بہانوں سے مزید فوج داخل کر رہا ہے۔دنیا کو اس سے بھی باخبررکھا جائے۔
٭٭٭

غلام اللہ کیانی معروف کشمیری صحافی، دانشوراور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔