ڈوئیاں سے زوجیلا تک

امیرجان حقانی

کتاب ’’ڈوئیاں سے زوجیلا تک: میرا سفر جہاد‘‘ جنگ آزادی گلگت بلتستان کے عظیم مجاہد مولانا عبدالمنان صاحب کی خود نوشت ہے۔ یہ کتاب 2017 میں شائع ہوئی، مگر مجھے تب سے اب تک اس کتاب کا شدت سے انتظار رہا۔ ستمبر 2024ء میں مولانا کا انتقال ہوا، لیکن ان کی جدوجہد کی کہانیاں آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ مولانا عبدالمنان کی اس کتاب کو دیکھ کر اور اس کے صفحات کو کھول کر جو کچھ سامنے آیا، وہ نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ ان کی زندگی اور گلگت بلتستان کی تاریخ کو سمجھنے میں اہم کار فرما ثابت ہوتی ہے۔جب ستمبر 2024ء میں مولانا عبدالمنان کا انتقال ہوا، تو میرے ذہن میں ایک اہم سوال ابھرا کہ وہ انٹرویو اور مضمون کہاں ہیں جو میں نے 2008 میں اسلام آباد میں مولانا سے لیا تھا۔ وہ انٹرویو سہ ماہی ’’خیر کثیر‘‘ میں شائع ہو چکا تھا اور اس میں مولانا کی زندگی اور جہادی سرگرمیوں پر تفصیل سے لکھا تھا۔ مگر جب میں نے انہیں ڈھونڈنا شروع کیا تو یاد آیا کہ وہ شاید گوہرآباد میں موجود کتابوں کی کسی الماری میں ہوں گے۔17 اکتوبر 2024ء میںمجھے ایک سیمینار میں گیسٹ اسپیکر کے طور پر مدعو کیا گیا۔ وہاں میری ملاقات مولانا مرحوم کے بیٹے، برادرم جاراللہ (اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان گلگت) سے ہوئی۔ انہوں نے اس کتاب کا ایک نسخہ مجھے عنایت کیا، اور اس کتاب کو پڑھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ مولانا کی زندگی کی حقیقت پسندانہ اور چشم کشا تفصیلات نے مجھے مکمل طور پر مسحور کر لیا۔

کتاب کا تاریخی پس منظر اور اہمیت

یہ کتاب گلگت بلتستان کی جنگ آزادی کے حوالے سے ایک انمول دستاویز ہے۔ مولانا نے اس میں اپنی زندگی اور جہاد آزادی کے تمام پہلوؤں کو انتہائی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ آپ بیتی کی شکل میں جہاد آزادی گلگت بلتستان پر اتنا مفصّل مواد میری نظروں سے اب تک نہیں گزرا جو انتہائی دو ٹوک ہونے کیساتھ بناوٹ و تصنع اور جھوٹ و ملمع سازی سے پاک بھی ہو۔کتاب میں ان کے خاندان، شجرہ نسب اور ابتدائی دینی تعلیم کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ، ضلع استور اور گلگت میں تعلیمی و تحریکی سرگرمیوں اور گلگت بلتستان کی آزادی کے حصول کیلئے مولانا کی بھرپور شرکت اور ان کی بے لوث جدوجہد کو بیان کیا گیا ہے۔

جہاد آزادی گلگت بلتستان اور مولانا کا کردار

کتاب کے ایک باب میں جنگ آزادی گلگت بلتستان کا احوال بیان کیا گیا ہے، جہاں مولانا عبدالمنان نے دراس، زوجیلا اور برفانی راستوں پر اپنے ساتھیوں کیساتھ دی گئی قربانیوں کا ذکر کیا ہے۔ مولانا اور ان کے رفقاء نے ان شدید موسمی حالات میں جس طرح علاقے کی آزادی کیلئے اپنی جانیں پیش کیں، وہ جذبہ اور حوصلہ آج کی نسل کیلئے قابلِ تقلید ہے۔ دراس کی فتح، زوجیلا میں ایک ماہ تک قیام اور جہاد کشمیر میں مختلف سازشوں کا احوال بھی اس کتاب میں تفصیل سے موجود ہے۔

اہم شخصیات اور قومی مشن کی جدوجہد

مولانا نے استور کے ڈی سی اسماعیل اور کرنل حسن جیسے اہم شخصیات کا تذکرہ بھی کیا ہے، جو گلگت بلتستان کی آزادی کیلئے سرگرم تھے۔ کرنل حسن کے مقامی قیادت سے اختلافات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر مولانا کے تبصرے اس کتاب میں شامل ہیں۔ مولانا نے نہ صرف گلگت بلتستان کی آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ قحط کے دوران پاک ا فواج اور مقامی حکومت کیساتھ مل کر استور اور جنگی محاذوںکے دائیں بائیں عوامی مسائل حل کرنے کی عملی کوششیں بھی کیں۔ دارالعلوم تعلیم القرآن استور کا قیام اور انجمن نصرۃ الاسلام کی بنیاد مولانا کی دینی و تحریکی خدمات کا اہم حصہ ہیں۔کتاب کے شروع سے آخر تک گلگت بلتستان، جموں وکشمیر اور پاکستان کی سینکڑوں نامور شخصیات کا ذکر مختلف امور کے حوالے سے موجود ہے۔کتاب میں اپنے استاد قاضی عبدالرزاق مرحوم (فاضل دارالعلوم دیوبند) کا ذکر بھی محبت و عقیدت سے کیا گیا ہے اور قاضی صاحب کی ایما ء پر طالب علمی کے دور کی چند کاوشیں بھی مرقوم ہیں اور قاضی عبدالرزاق مرحوم کے ذریعے ہی بابا چلاسی سے متعارف ہوئے ہیں۔

گلگت بلتستان اور قومی تعمیر میں کردار

مولانا کی کتاب میں پاکستان و آزاد کشمیر کی اعلیٰ قیادت کیساتھ ملاقاتوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جن میں وزیراعظم خان لیاقت علی خان، آزاد کشمیر کے صدر اور چوہدری غلام عباس شامل ہیں۔ یہ ملاقاتیں گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کیلئے مولانا کے جذبے کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان ملاقاتوں کے ذریعے مولانا نے علاقے کی فلاح و بہبود کیلئے جدوجہد کی اور پاکستانی قیادت کے سامنے گلگت بلتستان کے مسائل کو پیش کیا۔ مولانا مرحوم کی گلگت بلتستان کیلئے خدمات کثیرالجہتی ہیں، ان میں بالخصوص سیاسی، مذہبی اور رفاہی خدمات سرفہرست ہیں۔ ان کی آپ بیتی میں جگہ جگہ تفصیل کیساتھ ان خدمات کا ذکر ملتا ہے۔ علاقے کیلئے درد دل بھی وافر ہے۔ ان کثیر الجہت خدمات کے عوض وہ کسی سے کچھ مانگتے بھی نہیں اور نہ ہی کسی پر احسان کرتے ہیں بلکہ اپنا فرض سمجھ کر اس کی ادائیگی میں جُٹ جاتے ہیں اور اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں۔ اس خلوص کی وجہ سے اللہ نے انہیں ہر اعتبار سے مالا مال بھی فرمایا تھا۔

جماعت اسلامی اور مولانا سید مودودی کیساتھ تعلق

مولانا عبدالمنان نے اپنی کتاب میں جماعت اسلامی کیساتھ اپنے طویل سفر کا ذکر بھی کیا ہے، جس میں ان کی مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ سے ملاقاتیں اور جماعت اسلامی کی مقامی امارت میں ان کی خدمات شامل ہیں۔ مولانا کا بابا چلاسی اور دیگر معروف شخصیات سے روحانی تعلق اور محبت ان کے وسیع علمی و تحریکی سفر کی عکاسی کرتے ہیں۔ مولانا مودودی اور بابا چلاسی نے مولانا عبدالمنان کی زندگی میں گہرا اثر چھوڑا ہے۔ وہ ان دونوں عظیم المرتبت شخصیات کو اپنے لئے نعمت عظمیٰ اور سرمایہ خیر سمجھتے ہیں اور ان سے والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار بھی برملا کرتے ہیں۔ لاریب! ان دونوں کے افکار و نظریات اور علمی تجرے نے ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی لائی ہے اور انہیں ایک وسیع الفکر اور صاحب علم بنا کر رکھ دیا ہے۔

پاکستان سے محبت اور مقبوضہ جموںوکشمیر کی جدوجہد

مولانا عبدالمنان نے اپنی کتاب میں پاکستان سے بے پناہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو نعمت عظمیٰ قرار دیا اور 1965 ء کی جنگ میں کشمیری مجاہدین کیساتھ تعاون کیا۔ کتاب میں مولانا نے کشمیری قیادت کی ناکامی پر بھی تبصرہ کیا ہے اور پاکستان کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کیلئے قربانی دینا دینی و قومی فریضہ ہے۔

نایاب تفصیلات

اس کتاب میں بہت ساری اہم تفصیلات موجود ہیں جن میں خصوصیت کیساتھ، جہاد آزادی گلگت بلتستان پر چشم کشا حقائق جو اب تک نظروں سے اوجھل تھے مذکور ہیں۔مولانا مرحوم اور ان کے رفقاء کار کا جہاد میں شرکت، بالخصوص علاقہ دراس کہ فتح، خطرناک برفانی راستوں پر جہاد ی کاروائیاں، زوجیلا میں ایک ماہ کا قیام ،زوجیلا کی فتح، کچھ مقامات میں پسپائی، اور جہاد کشمیر میں قادیانیوں کی سازشیں جیسے عنوانات، آج کی نسل نو کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی و شافی ہیں۔ کچھ علاقوں میں اپنوں کی بے رعنائیوں کی وجہ سے فتح کے بعد پسپائی اور بہت کچھ پڑھنے کو ملے گا۔مولانا رسول خان مرحوم سے 1970 ء میں جامعہ اشرفیہ لاہور میں خصوصی ملاقات اور ان کی چلاسی بابا کے کلام پر تبصرہ و تعریف، اسی طرح ازدواجی زندگی، اولاد وغیرہ کی تفصیلات، گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کیلئے کوششیں اور پاکستان کی ٹاپ کلاس انتظامیہ اور لیڈر شپ سے جہاد آزادی گلگت بلتستان اور گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کیلئے ملاقاتوں کی تفصیلات اور کامیابیاں، جماعت اسلامی کیساتھ گزرا طویل سفر، گلگت بلتستان کی جماعت اسلامی کی امارت، بابا چلاسی اور مولانا سید مودودی کیساتھ محبت و عقیدت کی تفصیلات،جنرل ظہیر الاسلام، جسٹس محمد افضل چیمہ، مقبول گیلانی اور امان اللہ خان، گروپ کیپٹن شاہ خان، صوبیدار شیرعلی وغیرہ سے ہونے والی ملاقاتیں اور رفاقت اور ان ملاقاتوں اور رفاقتوں کے ذریعے علاقے کی خدمات و جذبات بھی اس کتاب کے صفحات میں جابجا ملیں گے۔ضلع دیامر گوہرآباد کے عادل جج شیرافضل مرحوم اور بہت ساری اہم شخصیات کا تعارف اور ان کا مثالی کردار کا ذکر اس کتاب میں موجود ہے۔مولانا شکریہ ادا کرنے اور اپنے احباب و رفقاء کا ذکر کرنے میں بھی بڑے فیاض نظر آتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں اور جزئیات کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے، جو ان کے کمال حافظہ پر بھی دالالت کرتا ہے۔

کتاب کی تحقیقی اہمیت

یہ کتاب محققین، طلبہ اور ریسرچرز کیلئے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ اس میں جنگ آزادی گلگت بلتستان کے حوالے سے اہم حقائق اور مستند مواد فراہم کیا گیا ہے، جو خطے کی تاریخ کو سمجھنے اور آئندہ نسلوں کو اس سے روشناس کروانے میں معاون ثابت ہوگا۔ گلگت بلتستان کی تمام لائبریریوں اور دینی و عصری تعلیمی اداروں میں اس کتاب کا ہونا ضروری ہے تاکہ یہ نوجوانوں کیلئے ترغیب کا ذریعہ بن سکے۔میری تجویز ہوگی کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے طلباء تحقیق، اس کتاب کو اپنی ریفرنس بک میں شامل کریں اور اساتذہ کرام کچھ طلبہ کو مولانا عبدالمنان مرحوم پر تحقیقی کام کرائیں، یوں ایک عظیم انسان کی کاوشوں کا شکریہ ادا کیا جاسکے اور قومی ہیروز کی قدردانی بھی ممکن ہوسکے۔

ایک قومی ہیرو

یہ انتہائی زیادتی ہوگی کہ مولانا عبدالمنان کو اہل سنت کا ایک مولوی یا جماعت اسلامی گلگت بلتستان کا سابق امیر کے طور پر دیکھا جائے، سچ یہ ہے کہ مولانا عبدالمنان مرحوم بلا تفریق سیاسی جماعت، فرقہ و علاقہ پورے گلگت بلتستان،ریاست جموں و کشمیر اور پاکستان کا اثاثہ تھے۔ انہیں سیاسی و مذہبی وابستگی اور علاقائی تعلق سے ماروا ہوکر ایک قومی ہیرو کے طور پر جاننے اور برتنے کی ضرورت ہے۔

حاصل مطالعہ

یہ کتاب مولانا عبدالمنان کی زندگی کی شاندار داستان اور ایک عظیم مجاہد کے عزم و استقلال کی علامت ہے۔ اس میں بیان کردہ واقعات و تجربات ہمیں اپنے ماضی سے جوڑ کر مستقبل کی صف بندی کیلئے اہم پیغام دیتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام، خاص طور پر نوجوان نسل، اس کتاب کے مطالعے سے اپنی تاریخ اور اس سے وابستہ ذمہ داریوں کو سمجھ سکتے ہیں تاکہ وہ بہترمستقبل کیلئے راہ ہموار کر سکیں۔ آپ کتاب پڑھنا شروع کریں تو حقائق آپ پر کھلتے جائیں گے اور حیرت انگیز معلومات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔