عبد الناصر خان بیٹا عبدالمنان رحمہ الله
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے آل عمران(185) ۔ترجمہ: کنزالعرفان
میرے والد محترم مولانا عبدالمنان رحمہ الله ایمان اور عمل صالح والی بھرپور زندگی گزارنے کے بعد 23ستمبر2024 بروز پیر اسلام اباد میں انتقال فرما گئے۔إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔میں نے انہیں ایک شفیق باپ ایک مرد مومن رشتہ داروں سے صلہ رحمی برتنے والے ایک باپ مثالی شوہر ،ایک مرد مومن رشتہ داروں سے صلہ رحمی کے پرتو ایک محب وطن پاکستانی ایک سماجی کارکن ایک بہترین منتظم ایک سیاسی رہنما اور بہترین داعی پایا، یہ والد محترم کی زندگی کے وہ گوشے ہیں جن کو میں نے قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے ان کے اندر جو خوبیاں دیکھیں وہ مکمل طور پر سورہ العصر کی تفسیر تھیں ،جس کا پورا مرکز و محور ایمان عمل صالح حق بات کی نصیحت اور صبر کی تلقین سے متعلق ہے۔ والد محترم ہمارے پیار ے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ کے سچے امتی اور حب رسول سے متصف تھے۔ انکا تعلق بالله دیکھ کے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ولی اللہ کے درجے پہ فائز تھے، اس کی گواہی ان کے قریبی احباب اور عزیز دیتے ہیں جنھوں نے ان کے روز وشب دیکھے۔ میں والد صاحب کی زندگی کے ان حوالوں سے متعلق بیان کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں جو ایک والدکی حیثیت سے میں نے ان کی زندگی میں دیکھے۔ ایک ایسا مرد حر جس کی بے لوث محبت اس ارض پاک کےلیےاس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے قریبی رفقا اور حکومتی ذمہ داران نے زوجیلا کے محاذ سے واپس آنے کے بعد یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ والد صاحب کے خدمات کے اعتراف میں کوئی قطعہ اراضی ان کو تحفہ دیں یااان خدمات کے صلے میں ایک State Guest کے طور پر مشرقی اور مغربی پاکستان کا دورہ کروانے کی خواہش ظاہر کی جس کے جواب میں والد صاحب نے کہا کہ میں نے یہ کام صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا ہے اوراس کا اجر انھیں الله رب العالمین ہی دیں گے۔

الله تعالیٰ نے توفیق دی تو وہ خود اپنے بل بوتے پر پاکستان کا دورہ کریں گے۔ ان کے قریبی دوست میجر طفیل شہید (نشان حیدر) نے خواہش ظاہر کی کہ جس بندوق سے انہوں نے دشمنوں کے خلاف جنگ لڑی اس بندوق کو تحفتاً قبول کریں، والد صاحب نے اس بندوق کا تحفہ میں لینے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ انہیں بھی نصیحت کی کہ پاکستان کی بے لوث خدمت کریں اور خدمات کے عوض کسی معاوضے کی امید نہ رکھیں۔ اپنی تمام خدمات کو صرف الله تعالیٰ کی رضا کےلیے کیا۔ دنیا والوں سے کوئی reward طلب نہیں کیا ۔اباجی کو ایک باپ کے روپ میں انتہائی شفیق مہربان ٹوٹ کرمحبت کرنے والے انتہائی caring ہردم دعائیں دینے والے اپنے تمام معاملات کو الله کے سپرد کرنے والے اور مستجاب الدعوات دیکھا الله تعالیٰ نے مجھے ان کی اولاد میں سب سے بڑے ہونے کا شرف بخشا اس لحاظ سے میرے والد محترم کی بھرپور شفقت محبت اور اعتماد کا مجھے ان کی آخری سانسوں تک ساتھ رہا اور ان کی مہربان محبت دعاؤں میں خلوص اور اعتماد کا اثر تھا کہ بڑی سے بڑی کامیابی کے حصول کے لیے میں اپنے اباجی کی دعاؤں پر یقین رکھتا تھا اور الله پر ان کا یقین اتنامکمل تھا کہ زندگی کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا حل وہ اپنی دعاؤں سے کرتے تھے،جس کے لیے بھی دعا مانگتے۔ انتہائی خلوص کے ساتھ ترجیحی بنیاد پر مسائل کے حل تک پوری یکسوئی سے دعا کرتے۔ دوستوں کے دوست اپنے حلقہ احباب کےلیے نرم گوشہ بے تکلفی اور خدمت گزاری میں بہت ہی مشہور تھے میں نے اپنے اباجی کو ہمیشہ اپنا رازداں پایا ۔اپنی اولاد پر ہمیشہ اعتماد کرتے تھے ان کی خواہش ہوتی تھی کہ ہم اولاد بھی ان کے خاندان اور دوست احباب کے ساتھ اتنے خلوص اور محبت سے پیش آتے۔ میری ہر کامیابی پہ وہ انتہائی خوش ہوتے تھے ہماری دنیاوی کامیابیوں کے ساتھ ہمیشہ ہماری آخرت کی فکر رہتی تھی عمر کے اس حصے میں جہاں ہم خود صاحب اولاد ہیں ہماری نمازوں کی انہیں ہمیشہ فکر رہتی تھی ۔نماز کے بارے میں پوچھتے تھے کہ ہم دیارِغیر میں نمازوں کی حفاظت اور اپنی اولاد کی تربیت کس انداز میں کرتے ہیں ۔درس قرآن کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ہفتے میں ایک بار تفہیم القرآن سے درس قرآن کا انتظام کرواتے تھے ،اس میں گھر کے تمام افراد کی شرکت لازمی ہوتی تھی ۔غیبت اور لوگوں کے بارے میں گفتگو سے شدید نفرت تھی۔ اباجی کے سامنے غلطی سے بھی کسی ایسے فردکاذکر نہیں کرسکتے تھے جس نے کوتاہی کسی بھی معاملے میں کی ہواورہم اس کی اس حرکت کا ذکر آپس میں کرنا چاہتے تھے تو وہ اس معاملے کو الله کی خاطر معاف کرنے کے لیے کہتے تھے وہ اس حدیث کے مصداق تھے جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں اور جو مجھے محروم کرے میں اس کا حق دوں اپنی عملی زندگی میں کبھی ایسی نصیحت یاکام نہیں کیا جس کے معیار پہ وہ خود پورا نہیں اترتے تھے ۔


خاندان اور دوست احباب کی خوشی غمی میں شرکت لوگوں کے مسائل کو حل کرنا ان مسائل کے سلسلے میں اعلیٰ حکام سے ملنا اوران مسائل کے حل کے لیے کوشش اور کاوش کرناوالد محترم کی زندگی کا معمول تھا میں نے محترم والد صاحب کی ایک سو ایک سال کی زندگی میں کھبی انہیںکوئی شکوہ شکایت یا گلہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔اباجی کی اس دنیا میں محبت الله کی خاطر اور عداوت بھی صرف اللہ کے لیے تھی ۔کبھی ایسی نصیحت کسی کو نہیں کی جس پہ خود عمل نہ کیا ہو۔ ان کی زندگی کے تین نمایاں پہلوجو ہم محسوس کرتے تھے ۔جماعت اسلامی کی کامیابی اپنے مرشد بابا چلاسی کے ساتھ وقت گزارنے کی خواہش اور پاکستان کے لیے ان الفاظ میں دعا مانگتےتھے ،یا الله پاکستان کو صالح صلاحیت والی جرات مند دیانت دار اور مجاہد قیادت عطا فرما۔ یہ دعا ان کی زندگی بھر کا معمول تھا وفات سے ایک روز قبل میری اباجی سے فون پر بات ہوئی اس وقت ان کی آواز کمزور تھی اس موقعے پہ اپنی صحت ضعف عمری یا کسی اور موضوع پر بات کرنے کی بجائے پاکستان کےلیے صالح قیادت کے لیے اور موجودہ حالات پہ بات کی اور مجھ سے یہ وعدہ لیا کہ پاکستان کے بہتر حالات کےلیے میں مستقبل میں کچھ کرسکوں میں نے انھیں ہمیشہ پاکستان کی بقا کے لیے دعا کرتے ہوئے دیکھا آپ کو مسجد سے بےحد لگاوتھا ۔صاحب ترتیب تھے اپنی بہترین صحت کے دوران میں نے ہمیشہ مسجد میںانہیں باجماعت نماز اداکرتے ہوئے دیکھا ۔میں جب ان کی پوری بابرکت زندگی کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے ان کی زندگی کے تین محور نظر آتے ہیں جس میں ا پنی تحریک جماعت اسلامی کے لیے تادم صحت تک اپنے کسی بھی تنظیمی کام میں رخصت نہیں لی حالانکہ پیرانہ سالی کی وجہ سے رخصت پہ تھے ،اپنے مرشد باباچلاسی کا اپنے حلقہ احباب اور مقتدر لوگوں میں تعارف کروانا تاکہ باقی لوگ بھی باباجی کی نصیحتوں اور عارفانہ کلام سے فیض حاصل کر سکیں اور پاکستان کےلئے صالح اور باصلاحیت قیادت کی تادم مرگ دعا مانگنا۔ اپنے آخری پیغام میں پاکستان کو اسم با مسمی دیکھنے کی تمنا کی۔ ان کی زندگی پر سورہ الفجر کی ان آیات کا اطلاق ہوتا تھا کہ۔ یا ایتھاالنفس المطمعنہ ارجعی الی ربک راضیتہ مرضیہ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی
ترجمہ اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تیرا پرودگار تجھ سے راضی ہےاور تو اپنے پروردگار سے راضی ہے پس داخل ہوجامیرے بندے میری ہمیشگی کی جنتوں میں
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی
یہ والد محترم کی زندگی کے وہ اوصاف ہیں جنھیں میں نے اپنے ذاتی مشاہدات کے طور پہ آپ کے سامنے بیان کئے الله تعالیٰ ہمیں اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور الله کی زمین پر اللہ کا نظام کا جو خواب وہ دیکھتے تھے اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین