جاوید مقبول بٹ

میرے والد صاحب دیندار شخص تھے ۔صوم و صلواۃ کے پابند تھے ۔انتہائی شفیق انسان تھے

میرا آبائی گاوں ترہگام کپواڑہ ہے لیکن مجھے کبھی جانے کا موقع نہیں ملا

سخت ترین حالات میں ہماری ماوں نے ہمیں پڑھایا،جینے کا حوصلہ دیا

والد صاحب کو 11فروری 1984 میں تختہ دار پر چڑھانے کی خبر طلباء کے کامن روم میں سنی

میرے شہید والد ہر کشمیری کے دل کے قریب ہیں

شیخ امین

جاوید مقبول بٹ جموں کشمیر کے مایہ ناز سپوت شہید محمد مقبول بٹ ؒکے فرزند ارجمند ہیں ۔دو برس قبل ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر خیبر پختونخوا کی حیثیت سے ریٹائر ہوچکے ہیں ۔ آج کل پاکستان ٹائون اسلام آباد میں ایک کرائے کے مکان میں اپنی مختصر سی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں ۔کافی عرصے سے ہماری خواہش تھی کہ ان سے ماہنامہ کشمیر الیوم کیلئے ایک انٹرویو کیاجائے تاکہ قارئین مجلہ شہید مقبول بٹ ؒکے خاندان اور ان کی زندگی کے بعض اہم گوشوں سے باخبر ہوسکیں۔ جہاد کشمیر کے اوالین سالار جناب محمد مقبول بٹ کے یوم شہادت کے سلسلے میں ان کے فرزند جاوید اقبال بٹ کا انٹرویو قارئین کی دلچسپی کےلئے دوبارہ شائع کیا جارہا ہے (ادارہ) (شیخ محمد امین ،شہباز بڈگامی ،فاروق قیصر ،شبیر ابن یوسف)

س: آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے ؟

میری تاریخ پیدائش04جنوری 1962 ہے۔ میں پاکستان کے مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے پشاور شہرمیں پیداہوا ہوں۔شوکت مقبول چھوٹے بھائی ہیں ،وہ مجھ سے دو برس چھوٹے ہیں اور وہ لاء گریجویٹ ہیں۔سب سے چھوٹی بہن لبنیٰ مقبول ہیں ۔۔گوکہ میرا آبائی گائوں ترہگام کپواڑہ ہے لیکن مجھے کبھی جانے کا موقع نہیں ملا یا نصیب میں نہیں لکھا تھا۔میں نے اپنے آبائی گائوں کو صرف گوگل پر ہی دیکھا ہے ،جہاں مسجد اور دوسری عمارات وغیرہ مشاہدے میں آئی ہیں۔

س :تعلیم کتنی اور کہاں سے حاصل کی ؟

مجھے پشاور میں ہی ایک سکول میں داخل کرایا گیا۔اتنا مجھے یاد ہے کہ والد صاحب کی عدم موجودگی میں ہی والدہ سکول لیکر گئی تھیں اور وہی روزانہ سکول چھوڑ آتی تھیں۔6thتک تعلیم پشاور شہر میں حاصل کی،سکول چونکہ گھر سے باکل سامنے تھا اورمجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے والدہ گھر کی دیوار سے مجھے دیکھ رہی ہیں۔ جس کے بعد مجھے ایبٹ آباد بھیجا گیاجہاں والدہ کے ایک رشتہ دارماسٹر مقبول خان تھے،جو کہ بارہمولہ کے رہنے والے تھے۔میٹرک وہیں سے کیا۔جس کے بعد میرا داخلہ میرپور آزاد کشمیر کے کالج میں کرایا گیا،جہاں میں جی ایم میر کی فیملی کے ساتھ رہا،جو کہ محاذ رائے شماری کے سرگرم کارکن ،عہدیدار اور کشمیر کی تاریخ کے بڑے نامور محقق تھے ۔FSC میرپور کالج سے کیااور بعدازاں مجھے 1980 میں فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میںمزید تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کا موقع ملا اور جہاں سے میں نے1985میں چار سالہBSC ایگریکلچرل ڈگری کورس کی تکمیل کی۔

س:پھر آپ کیسے محکمہ زراعت میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے

1986 میں محکمہ زراعت میں میری خیبر پختونخوا میں بطور زراعت افسر تعیناتی ہوئی ۔ پہلے ڈپٹی ڈائریکٹر پھر ڈائریکٹر اور آخر پر ڈائریکٹر جنرل زراعت خیبر پختونخوا کی حیثیت سے ترقی پائی اور اسی حیثیت سے میری ریٹائر منٹ ہوئی۔

س:والد صاحب کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے تھا ۔آپ کی والدہ کا تعلق کہاں سے تھا

میری والدہ بھی بارہمولہ مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھتی تھیںاور وہ راجہ بیگم کے نام سے معروف تھیں۔دستاویزات میں بھی ان کا یہی نام ہے۔والدہ Typicalکشمیری تھیں۔والد صاحب کی دوسری اہلیہ ذاکرہ بیگم پشاور سے ہی تھیں اور وہ فیملی میسور بھارت سے ہجرت کرکے آئی تھیں۔ان کے بطن سے ایک بیٹی ہوئی،لبنی مقبول کراچی یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی پروفیسر ہیں۔ان کیساتھ ہمارا مستقل رابطہ ہے اور خون کا رشتہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔

س:اور ہماری بھابی کہاں سے ہیں ۔۔۔۔

جواب:ان کے والد صاحب علی محمد قریشی نادی ہل بارہمولہ سے تعلق رکھتے تھے جو کہ وہاں سے ہجرت کرکے آچکے تھے ۔وہ تحریک آزادی کے معروف رہنما اور باہر کی دنیا میں کشمیری عوام کے سفیر جناب نذیر احمد قریشی کے چچا تھے۔ وہ کافی عرصہ پہلے فوت ہوچکے ہیں۔

سوال:اپنے والد صاحب کے بارے میں کچھ بتائیں۔کیا سنا ؟ بچپن سے جوانی اور پھر پھانسی گھاٹ تک؟

جواب: والد صاحب دوسرے والدین کی طرح ایک شفیق والد تھے۔ان کے دل و دماغ پر صرف کشمیر سوار تھا۔گوکہ وہ گھر پر سیاسی گفتگو سے پرہیز کرتے تھے البتہ کشمیر کی آزادی ان کی گفتگو کا لازماََ حصہ ہواکرتی تھی۔پشاور میں اگر چہ گھر بڑا تھا لیکن تھا پرانا اور خستہ حال ۔کبھی دیوار گری تو کبھی دروازہ ٹوٹا۔والدہ کہتی تھیںکہ مکان کی مرمت کریں تو والد صاحب کا جواب ہوتا تھاکہ مرمت کیاکرنی ہے ۔ہم نے کشمیر واپس جانا ہے آزادی ہوگی۔ہاں ایک بات یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ مکان جس میں ہم وہاں رہتے تھے اپنا نہیں تھا ۔سرکار نے مہاجرین کو رہنے کیلئے دیا تھا ۔اوپر والے پورشن میں ہم رہتے تھے نیچے والے پورشن میں وہاں ایک مقامی شخص رہتا تھا ۔ آج کل وہی مقامی شخص وہاں رہتا ہے۔والد نے ایک عظیم مجاہد کی طرح زندگی گزاری ۔حق کو حق کہا اور باطل کو باطل ۔جان بھی ایک عظیم حق پرست کی طرح دی ۔الحمدللہ

سوال:والد صاحب کے ساتھ کتنا وقت گزارا ۔ کچھ یاد ہے ۔کیا جیل سے کبھی آپ لوگوں کیساتھ رابطہ ہوا تھا؟

جواب:میں نے اپنے والد صاحب کیساتھ بہت ہی مختصر وقت گزارا ہے ۔والد صاحب جب سری نگر جیل سے فرار ہوکر آزاد کشمیر آئے تو انہیں گرفتار کیا گیا۔جس کے بعداٹک اور دوسری جیلوں میں مقید تھے۔ میں اس وقت صرف چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔پہلے پہل انہیں مظفر آباد قلعہ میں رکھا گیا۔ اس کے بعد اٹک جیل (پرانا نام کیمبل پور)لاہور کیمپ جیل میں ساتھیوں سمیت قید رہے اور لاہور ہائی کورٹ میں سپیشل ٹربیونل میں ان کا مقدمہ چلتا رہا۔جہاں ہم فیملی والے ان سے ملنے بھی گئے تھے کیونکہ جیل میں ملنے سے کورٹ میں ملاقات نسبتاََ آسان اور زیادہ دیر تک ہوجاتی تھی۔اس کیس میں ان کی باعزت رہائی 1974 ء کے اواخرمیں ہوئی ۔فروری 1976 ء میں وہ دوبارہ کشمیر چلے گئے اور غالباََ مارچ یا اپریل میںدوبارہ گرفتارہوگئے تھے۔گرفتاری کے بعد انہیں سرینگر جیل میں رکھنے کے بجائے تہاڑ جیل دہلی منتقل کیا گیا۔شروع میں ان کیساتھ روابط مشکل تھے بعدازاں ہماری ان کیساتھ خطوط کے ذریعے رابطے تھے۔مجھے بھی انہوں نے والدہ کی فوتگی کے بعد خطوط لکھے جو کہ میرے فیصل آباد میںتعلیم کے دوران تک ان کیساتھ مستقل رابطے کا ذریعہ تھے۔

سوال : والد صاحب کی شہادت کی خبر جب آپ اور آپ کی والدہ نے سنی تو آپ دونوں کا پہلا ردعمل کیا تھا؟

جواب:والد صاحب کی شہادت سے قبل ہی میں فیصل آباد یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ 9فروری رات 07 بجے کے انگریزی بلٹن میںوالد صاحب کو 11فروری 1984 میںتختہ دار پر چڑھانے کی خبر طلباء کے کامن روم (Common Room)میں سنی،جس کے بعددل کی دھڑ کنیں تیز ہوئیں۔ آنکھوں سے آنسووں کی دھارا پھوٹ پڑیں ۔تاہم مائوں کی تربیت اور صبرو ہمت کی تلقین نے حوصلہ دیا۔ رات نو بجے پی ٹی وی کے اردو بلیٹین میں تفصیلاََوالد صاحب کو پھانسی دینے کی خبر نشر کی گئی۔ا س دوران راولپنڈی سے ڈاکٹر فاروق حیدر کا فون آیا اور مجھے پنڈی آنے کیلئے کہا گیا۔میں فوری طور پر پنڈی کیلئے روانہ ہوا اور دوسرے دن10فروری کو اسلام آباد میں بھارتی سفارتخانے کے باہر احتجاج اور مظاہرے کا اعلان کیا جاچکا تھا۔ جب ہم بھارتی سفارتخانے کی جانب ٹولیوں کی صورت میں مظاہرہ کرنے جارہے تھے،تو آبپارہ کے مقام پر تقریبا200 لوگوںکو گرفتار کرکے انہیں آبپارہ تھانے میں ایک رات کیلئے بند رکھا گیا اور پھر دوسرے دن ہم سب کو چھوڑ دیاگیا۔چونکہ11فروری انہیں تختہ دار پر لٹکایا گیا ۔اللہ تعالی ان کی شہادت قبول فرمائے اور جس مقصد کیلئے یہ شہادت پیش کی گئی اللہ تعالی اس میں کا میابی عطا فرمائے ۔

چونکہ میری سگی والدہ 1980 میںوفات پاچکی تھیں،البتہ دوسری والدہ ذاکرہ اماں والد صاحب کی شہادت کے وقت پشاور میں تھیں۔پشاور کے تمام تعلیمی اداروں میں کشمیری طلباء کی بڑی تعدادنے ایک بڑا جلوس نکالا اور پھر وہ جلوس کی صورت میں ہی گھر پر آئے ۔ والد صاحب جب جیل میں تھے تو میری دونوں مائیں ہماری ہمت اور حوصلہ بڑھاتی رہتی تھیں۔چونکہ دونوں والدہ بڑی ہمت اور حوصلے والی تھیں،جیسے کشمیری خواتین میں مزاحمت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ویسا ہی مزاحمتی جذبہ ان میں بھی بدرجہ اتم موجود تھا۔

سوال:آپ اور بہن لبنیٰ کی والدہ کب دنیا سے رخصت ہوئیں؟

جواب:دوسری والدہ 17فروری 2016میں کراچی میں فوت ہوئیں۔ہم سب اکٹھے رہتے تھے۔وہ سکول ٹیچر تھیں 85۔1984میںوہ تدریسی عمل سے فارغ ہوچکی تھیں۔میں اس وقت بھی فیصل آباد میں تھا۔

سوال :بہن لبنیٰ اس وقت کہاں اور ان کی شا دی کہاں ہوئی۔ ان کے شوہر کیا کرتے ہیں؟چھوٹے بھائی شوکت مقبول کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں ؟

جواب:جی ہاں بہن کی شادی ہوچکی ہے اور بہنوئی ابدال ماگرے باغ آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی ایک ہی بیٹی عافیہ ا بدال ہے جو کہ کراچی یو نیور سٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کررہی ہیں۔بہنوئی پراپرٹی Estate Real کا کام کرتے ہیں۔چھوٹے بھائی شوکت مقبول کی شادی مظفر آباد آزاد کشمیرمیں ہوئی۔ان کے تین بچے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔ان کے سسر غلام الدین لالہ صاحب بھی مقبوضہ جموں وکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔شوکت مقبول گزشتہ چھ برسوں سے برطانیہ میں ہیں۔وہ بطور لاء گریجویٹ سیاسی شعور کے مالک تھے ،اسی لیے ا نہوں نے والد صاحب کی Legacy کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے۔جب تک وہ یہاں تھے تو وہ اس سلسلے میں بہت مصروف تھے۔وہ محاذ رائے شماری کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔وہ نیشنل لبریشن فرنٹ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔

س :آپ کے بڑے بیٹے کی شادی ہوئی ہے یا ابھی کنوارہ ہی ہیں

جواب: نہیں بھائی۔۔۔ شادی شدہ ہے ۔ان کی شادی مظفر آباد میں ریٹائرڈ ڈائریکٹر کے ایچ خورشید لائبریری رشید عاصم صاحب کے ہاں ہوئی ہے۔رشید عاصم میرے ہم زلف بھی ہیں۔بہت ہی تابعدار بیٹاہے۔

سوال :والد صاحب کے نظریات کے بارے میں کچھ بتائیں؟

جواب:۔ میرے والد صاحب دیندار شخص تھے ۔صوم صلواۃ کے پابند تھے ۔انتہائی شفیق انسان تھے ۔خود مختار کشمیر کے حامی تھے ۔ابتدائی دنوںمیں سابق صدر آزاد جموں و کشمیرکے ایچ خورشید مرحوم کے خیالات و نظریات سے متفق ہوگئے ۔ مختصر الفاظ میں میں یوں بیان کرسکتا ہوں کہ ۔۔۔۔وہ ۔۔حلقہ یاراں کیلئے بریشم اور حق و باطل کی جنگ میں ،باطل قوتوں کے خلاف فولاد کی مانند تھے۔

سوال: آپ نے والد صاحب کی جدوجہد کے بارے میں کیا سنا اپنے بزرگوں سے کب انہوں نے اس جدوجہد کا آغاز کیا۔

جواب:۔ والد صاحب بارہمولہ کالج میں پڑھتے تھے تو اس دوران انہوں نے سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کا لٹریچر پڑھا اور اس سے کا فی متاثر ہوئے ۔سید مودودی ؒ کی اس دور کی کئی کتابیں اور تفہیم القرآن ہماری لائبریری میں اس وقت بھی موجود ہیں۔وہ کالج میں اکثر و بیشتر آزادی کی بات کرتے تھے۔بھارتی حکومت کو جب ان کے ارادوں کا پتہ چلا تو ان کی گرفتاری کا منصوبہ بنایا گیا۔گھر والوں کو اس منصوبے کی بھنک پڑگئی تو دادا نے اپنے بھائی عبدالعزیز بٹ کو والد صاحب کیساتھ مظفر آباد کی جانب روانہ کیا ۔مظفر آباد سے وہ لاہور چلے گئے اور وہاں اکابرین جماعت کیساتھ مسئلہ کشمیر پر تبادلہ خیالات کرتے رہے۔والد صاحب مسئلہ کشمیر اور آزادی کشمیر کے حوالے سے ان کا منصوبہ جاننا چاہتے تھے ،شاید ان کی سوچ سے متفق نہیں ہوئے ۔پھر حالات نے کروٹ بدلی اور والد صاحب کو چچا کے برادر نسبتی نے پشاور بلایا،پشاور گئے تو پشاور یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز کیا،بعدازاں 1974میں لاء میں گریجویشن بھی کی۔،ان کے کلاس فیلوز میں معروف شاعر احمد فراز بھی تھے ۔وہیں سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔

سوال:آپ کے اپنے کتنے بچے ہیں؟

جواب:ہنستے ہوئے،بچے دو ہی اچھے۔میرے دو بیٹے ہیں۔عمار جاوید بڑا بیٹا ہے جو کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ آزاد کشمیر میں ملازمت کرتے ہیں،دوسرا بیٹا عزیر جاوید ہے جو کہ پشاور یونیورسٹی سے PHDکررہے ہیں۔

سوال: آج کل آپ کی مصروفیت کیا ہیں؟

جواب : میری ریٹائرمنٹ کو دو برس ہوچکے ہیں۔میں آج کل والد صاحب کے نظریاتی ساتھیوں کے ساتھ رابطے میں ہوں ۔والد صاحب کی زندگی سے متعلق ڈاکومنٹری تیار کر نے کی کوششوں کا آغازکیا ہے۔ان کے ساتھیوں سے پتہ کرنا ہے کہ ان کی شخصیت کیسے تھی اور وہ کن اوصاف کے حامل تھے؟

سوال :کیا آپ کو2004 میں مظفر آباد سرینگر بس سروس میں اپنے آبائی گائوں ترہگام کپواڑہ جانے کا موقع ملا تھا؟

جواب : نہیں ہمیں تو موقع نہیں ملا البتہ ہماری دو پھوپھیاں اس بس سروس کے ذریعے اپنے آبائی علاقوں میں جانے میں کامیاب ہوئیں۔

سوال: کوئی ایسا شاعر جس کی شاعری سے آپ متاثر ہیں ؟

جواب:جی ہاں علامہ اقبال میرے پسندیدہ شاعر ہیں،اس کے بعد غالب ہیں۔

سَ:آپ کی پسندیدہ شخصیات

ج: میری مائیں ۔والد صاحب جیل میں تھے ،انہیں پھرتختہ دار پر لٹکایا گیا ۔ہمارا خاندان مہاجرت کے عالم میں ایک ایسے گھر میں رہتا تھا ،جس میں نیچے والے پورشن میں ایک مقامی بندہ اور اوپر والے پورشن میں ہم والد کے بغیر رہتے تھے ۔ان سخت ترین حالات میں ہماری مائوں نے ہمیں پڑھایا،جینے کا حوصلہ دیا ۔آس پاس کے ماحول میں سر اٹھاکے جینا سکھایا۔اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے ۔ وہ عظیم مائیں تھیں ۔

س:گھر کا ماحول کیسا ہے ۔مطلب کھانے ،پکوان ،مہمان نوازی ،زبان۔۔۔کشمیری انداز یا مکمل طور پر اب یہاں کے ماحول میں ڈھل چکا ہے ۔

ج: جزوی تبدیلیاں تو آتی رہتی ہیں ماحول کے اثرات سے ۔تاہم کشمیری روایات اور کشمیری انداز کی مہمان نوازی پر کوئی کمپرومائز نہیں ،نون چائے اور چاول(بتہ) پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ رازما دال (لوبیا) چاول ،پنیر،کڑم ساگ اور نمکین چائے ہمارے گھر کا حصہ تھے اور ہیں۔ میری اہلیہ نے اس روایت کو نہ صرف زندہ رکھابلکہ آگے بھی بڑھایا ہے۔

سوال:کیاآپ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے؟

جواب: جی کالج اور یونیورسٹی سطح پر کرکٹ میں دلچسپی تھی اور میں بیٹنگ ہی کرتا تھا۔

سوال:کبھی یہ خیال آتا ہے کہ کاش تہاڑ جیل کے بجائے والد صاحب کی قبر آپ کے ارد گرد ہی کہیں کسی قبرستان میں ہوتی

جواب: وہ شہید ہوئے ۔۔ ہمارا ایمان ہے ۔قرآن کریم میں واضح کہا گیا ہے ۔۔شہید زندہ ہوتے ہیں ۔ اتنا کہنے کا مقصد یہ کہ وہ زندہ ہیں اور وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہوتے ہیں ۔ہر کشمیری انہیں اپنے دل کے قریب محسوس کرتا ہے ۔قبر فانی وجود کی نشانی ہے ۔ وہ امر ہوگئے ،اس لئے قبر کا خیال زیادہ نہیں آتا۔

س :آپ کس مذہبی تنظیم اور سیاسی تنظیم سے متاثر ہیں ۔

دینی لحاظ سے میں تبلیغی جماعت سے متاثر ہوں تاہم میں فرقہ پرستی اور ایک دوسرے کو کافر کہنے کے حق میں بھی نہیں ہوں ،جہاں تک میں نے اسلام کو سمجھا ہے اسلام دین رحمت ہے اور یہ رحمت عام ہے ۔میں محلے کی مسجد میں اپنے بریلوی امام صاحب کے پیچھے نماز ادا کرتا ہوں۔ہمارا دین رحمت ہے لیکن بد قسمتی سے ہم تنگ نظری کے دلدل میں پھنس چکے ہیں ۔اسی لیے ہم ہر جگہ مار کھا رہے ہیں ۔اللہ رحم فرمائے ۔۔۔رہا سیاست کا معاملہ تو میں عرض کروں ۔۔۔ میں سیاسی لحاظ سے والد صاحب کی سیاسی جدوجہد کا قائل ہوں۔

سوال:ماہنامہ کشمیر الیوم کے قارئین کے نام آپ کا پیغام

جواب: کسی قوم کی تقدیر نوجوان ہی ہوا کرتے ہیں ۔ نوجوانوں کو تعلیم کے میدان میں اپنے آپ کو منوانا چاہیے۔ نوجوانوں کو اپنی تاریخ اور تحریک سے روشناس کرانا چاہیے۔ چونکہ ہم پر غلامی مسلط کی گئی ۔ اس غلامی کے خاتمے کیلئے جدو جہد جاری رکھنی چاہیے ۔ ایک دن آئے گاجب ہم آزادی سے ہمکنار ہوں گے۔ میں چیف ایڈیٹر کشمیر الیوم اور آپ کی پوری ٹیم کا بے حد مشکور و ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے اپنے شہید والد صاحب اور ان کے خاندان کے بعض گوشوں کو سامنے لانے کا نادر موقع فراہم کیا ۔ اس کیلئے پھر ایک بار آپ کا شکریہ۔

٭٭٭