شہید مقبول سے شہید امتیاز تک

جناب محمد مقبولؒ بٹ11فروری1984میں تہاڑ جیل میں تختہ دار پر چڑھ کر اپنے رب کے حضور پیش ہوئے ۔جناب افضلؒ گورو 9فروری2013 میں اسی جیل میں انہی قابضین کے ہاتھوں تختہ دار کو چوم کراس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ۔علم الاعداد کی روشنی میں دیکھا جائے تو 11کو اگر 9 کے ساتھ جمع کیا جائے تو 20کا عدد آتا ہے۔اسے اتفاق کہیں یا راستے کے صحیح ہونے کا قدرت کی طرف سے اشارہ سمجھیں ۔۔۔ مہینہ فروری کا ہی تھا۔سال 2023اور تاریخ تھی 20 جی ہاں20 فروری،معروف حریت پسند رہنماجناب بشیر احمد پیر المعروف امتیاز عالمؒ برما ٹاون کھنہ میں نامعلوم بندوق برداروں کے ہاتھوں گولیوں کا شکار ہوکر شہادت سے سرفراز ہوئے ۔ سبحان اللہ۔ جناب امتیاز شہید کے والد اور جواں سال بھائی نوے کی دہائی میں ہی قابض بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں وادی کشمیر میں شہادت سے سرفراز ہوئے تھے۔دشمن نے آبائی مکان بھی جلاکر خاکستر کردیا تھا۔ ان کی اماں اپنے دو بیٹوں اور ان کے بچوں کے ساتھ مملکت خدادا پاکستان میں وارد ہوکر مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئیں ۔2018میں مہاجرت کی حالت میں ہی اللہ کے حضور پیش ہوئیں ۔امتیاز عالم ؒ کی تمنا شہادت تھی اور اس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے تھے کہ انہیں شہادت کی ہی موت ملے گی لیکن یہ ان کے وہم گماں میں بھی نہ تھا کہ انصاروں کے درمیان کوئی نامعلوم شخص یا اشخاص ان کی شہادت کا سبب بنیں گے ۔امتیاز عالم کی شہادت پر دشمن نے جشن منایا اور اس حقیقت کو آشکارا کیا کہ وہی اس قتل میں ملوث ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی تک اس قتل میں ملوث دشمن کے ایجنٹوں کوپکڑا نہیں جاسکا ۔ بہر حال بقول جناب عارف بہا رـــایک دور میں کسی کردار کا نام مقبول بٹؒ ہوتا ہے توکچھ مدت گزرنے کے بعد وہ کردار افضل گوروؒ کی شکل میں اور کچھ عرصہ بعد وہی کردار ایک اور اندازسے امتیاز عالمؒ کے نام سے سامنے آتا ہے ۔اسی طرح جبر کا کوڑا تھامنے والے کرداروں کو کسی دور میں اندراگاندھی تو کسی دور میں من موہن سنگھ اور نریندر مودی کہا جاتا ہےــ” 1947سے بالعموم اور 1984سے بالخصوص آزادی کشمیر کی شمع بجھانے کی قابض قوتوں نے بے انتہا کوششیں کیں لیکن یہ شمع جلتی رہی اور یقینا”جلتی رہے گی۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے ۔اس کی فطرت میں آزادی کا جذبہ موجزن رہتا ہے اور جب بھی اس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ مز احمت پر اترتا ہے ۔خوف و دہشت کے ماحول میں شاید کچھ دیر تک خاموش رہتا ہے لیکن جونہی اسے موقع ملتا ہے وہ آزادی کے دشمنوں کو للکارتا ہے ۔تحریک اسلامی جموں و کشمیر کے معروف رہنما جناب قاری سیف الدینؒ کے الفاط اس وقت بھی میرے ذہن میں گونج رہے ہیں کہـ”بیٹو ۔۔کشمیری عوام نے کبھی بھی بھارت کی بالادستی اور اس کے ایجنٹوں کی حکمرانی کو قبول نہیں کیا ہے ۔ایک واقعہ اس سلسلے میں انہوں نے بیان کیا کہ نارہ بل سری نگر راستے پر ایک ٹانگہ بان ٹانگہ چلاتے ہوئے کوئی گیت گا رہا تھا۔بخشی غلام محمد کا دورحکومت تھا۔پیس بریگیڈ کے نام پر پولیس اور بدنام زمانہ غنڈے کسی بھی شخص کو پاکستان کے ساتھ محبت رکھنے کے جرم میں بے پناہ تشدد کرتے تھے ۔ریڈیو پاکستان سننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی ۔ان حالات میں یہ ٹانگہ بان اچانک جب کوئی گیت گاتے گاتے ان کے سامنے سے گزرا۔ توشک بھری نگاہوں سے ان غنڈوں نے اس پر نظریں تان لیں ۔ٹانگہ بان نے اونچی آواز میں خوف کے مارے اونچی آواز میں یہ گانا شروع کیا۔زو جان وندہاہندوستانس ۔۔ دل چھم پیں ،پیں ،پیں۔۔یعنی جان ہندوستان پر قربان لیکن میرا دل ۔۔۔چپکے سے پیں پیں یعنی پاکستان کے ساتھ ہے ۔قاری صاحب کا آگے کہنا تھا کشمیری اگرچہ جسمانی طور پر غلام ہیں لیکن یہ کبھی بھی ذہنی غلام نہیں رہے ۔ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے زیادہ خطرناک ہے “مقبوضہ ریاست کے حالات اس وقت بالکل ایسے ہی ہیں ۔آہ کرنے پر پابندی ہے ،بے انتہا ظلم و جبر کا دور دورہ ہے ۔قبرستان کی خاموشی کو امن کا نام دیا جارہا ہے ۔ان حالات میں کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ کشمیری عوام نے بھارت کی غلامی کو دل سے قبول کیا ہے ۔ہر گز نہیں ۔کشمیری ذہنی غلام نہیں بن سکتا ۔جسمانی غلامی کی زنجیریں کسی نہ کسی دن ٹوٹیں گی لیکن اگر قوم ذہنی طور پر غلامی کو قبول کرلے تو وہ قوم کبھی آزادی کے ماحول میں سانس نہیں لے سکتی ۔مقبول ،افضل اور امتیاز جیسے شہداکی سرزمین اللہ کے حکم سے ضرور آزادی کی منزل حاصل کرلے گی ۔ہاں آزمائش کے دوران اصل اور نقل کا فرق واضح ہوجاتا ہے ۔الحمد للہ اصل اور نقل کو سمجھنے میں اس وقت کشمیری قوم کو اب زیادہ دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا ہے ۔الحمدللہ