انجام راہ عشق سے غافل کہاں تھے وہ ۔۔۔۔۔۔ شہید حیدر بابا

قیصر یعقوب

یہ انیس سوپچانوے کی بات ہےمواصلاتی نظام کو آرپار مربوط اورموثر بنانے کے لئےبارہ ہزارفٹ بلند و بالابرف پوش پہاڑپرجموں و کشمیر کی سب سے بڑی ہمہ گیرجہادی تنظیم حزب المجاہدین کے مواصلاتی شعبہ نے ایک پوسٹ قائم کی تھی جو” چارلی پوسٹ” کے نام سے جانی جاتی تھی ۔اس پوسٹ پر موجود ساتھیوں کی نگرانی یٰسین چارلی کررہے تھے ۔ایک روزیٰسین چارلی نے ایک خاص بزرگ مہمان کی آمد کا عندیہ دیا۔ساتھ ہی گویا ہوئے مہمان حیدر باباکے نام سے مشہورہیں البتہ ان کے ساتھ میری قلبی وابستگی ہےاوروہ میرے والد کی مانند ہیں اس لئے میں انہیں ’’بابا ‘‘کے نام سے پکارتا ہوں ۔پوری ٹیم خاص کر یٰسین چارلی ان کی ملاقات کے لئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے۔با با میدان جہاد کےغازی بن کر لوٹے تھے۔ہواؤں میں خنکی تھی برف باری کا موسم شروع ہونے والا تھا۔ دن کو پہاڑوں کے دلکش اور خوبصورت مناظر ،ان کے دامن میں گھنے سرسبز جنگل ہماری آنکھوں کو خیرہ کردیتی تھی لیکن راتیں اپنوں کی جدائی کے غم میں گزرتی تھیں ۔دور دور تک آبادی کا نام ونشان نہ تھا۔اس عالم تنہائی میں ہماری حوصلہ افزائی اور اپنی محبت کا اظہار کرنے کےلئے کناروں سے کنارہ کرکے کوئی آپ کے پاس آئےتو زندگی گلزار بن جاتی ہے۔ حیدر بابا کا مہمان بن کے آنا ایسے ہی تھاجیسے ویرانے میں بہارلوٹ آئی ہو۔ مہمان نے ہواؤں کے دوش پر رابطہ کیا کہ آج ان شاءاللہ آپ لوگوں کے ساتھ ملاقات ہوگی ، مسلسل نو گھنٹے سفرکرنے کے بعد سورج غروب ہونے سے پہلے سفید داڑھی سے مزین اس نورانی چہرے والے مرد درویش نے ہمارے سٹیشن پر قدم رکھا۔ہم نے پرچوش استقبال کیا،بابا کی عمراس وقت لگ بھگ ستربرس کے قریب تھی لیکن وہ پہاڑوں پر جوانوں کی طرح چلنے کے عادی تھے اس لحاظ سے اگر انہیں پہاڑوں کا بیٹا کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ میں نے بابا کو دیکھا تو ان کے چہرے پر اتنی خوشی تھی جیسے وہ اپنے بچھڑے بیٹوں سے مدتوں بعدمل رہے تھے،اتنی مسافت اس عمر میں طے کرنے کے بعد بھی بابا تازہ دم نظر آرہے تھے ، ہم سے ملنے کی خوشی میں تھکن کے آثار ان کے پرنور چہرے سے غائب ہوچکے تھے ۔انہوں نے ہم سب کو گلے لگایا اور مجھے مسکراتے ہوئےکہا’ چھوٹے چارلی‘ آپ کا کیا حال ہے؟ میں وہاں موجود ساتھیوں میں عمر کے لحاظ سے سب سے چھوٹا تھا ،میری عمر ان دنوں بیس اکیس برس کے درمیان تھی ۔ بابا کو یاسین چارلی سے بے حد محبت تھی ،وہ بھی ان سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، دیکھتے ہی بغلگیر ہوئے اور کافی دیر تک ایک دوسرے کو گلے لگا یا ،دونوں کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئےکیوں کہ میدان کارزار میں اکھٹے رہے تھے ۔ وہاں بھی وہ سب سے پہلے قائم کئے گئے مواصلاتی مرکز چارلی سٹیشن پر ایک سخت اور کٹھن زندگی گزار چکے تھے ،چارلی سٹیشن حیدر بابا کے علاقے بانڈی پورہ کے کیتسن میں موجود تھا جہاں کئی برسوں تک ایک ساتھ کام کرنے کا انہیں بھر پور موقع ملاتھا۔ ان دنوں اس مرکز کا طوطی بولتا تھا،میدان کار زار کے حوالے سےاس مرکز کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ہوا کرتی تھی ۔ میدان کار زار میں موجودمجاہدین کے درمیان آپسی روابط میں اس کا کلیدی کردار رہا ہے ،

یہ حیدر بابا کی انتھک محنت ہی تھی جو انہوں نے اس پوسٹ کو قائم کرنے میں صرف کی اوروہاں پر موجود ساتھیوں کے لئے نہ صرف خوردونوش کا سامان اپنے گھر سے پورا کرتے تھے بلکہ تمام سہولیات بھی بہم پہنچاتے تھے۔ بزرگی کے باوجوجب تک وہ پوسٹ قائم تھی وہاں راتوں کو پہرہ بھی دیا کرتے تھے ۔وہ ہر وقت چوکنا رہتے تھے کہ کہیں دشمن وہاں پر موجود ساتھیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا ئے اس لئے وہ ہر وقت پہرے کے دوران اپنی آنکھیں اور اپنے کان کھلے رکھتے تھے۔بھارتی فوج کو اس پوسٹ کے بارے میں مخبر آگاہ کرچکے تھے اور وہ اپنی ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کا سراغ لگانے کے لیے آس پاس جنگلوں گا چپہ چپہ چھان مارتے تھے۔اسی دوران ایک دن بھارتی فوج سونگھتے سونگھتے جب ایک گھنے جنگل کی بلندی کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اس پوسٹ کے قریب ہی تھے تو ایک پہرے دار نے بھارتی فوجیوں کو آتے ہوئے دیکھ لیا تھا ، اس نے اندر مورچے میں موجود ساتھیوں کو بروقت اطلاع دی۔بھارتی فوج کی بڑی تعداد تھی جبکہ پوسٹ پرکمانڈر چارلی سمیت تین ساتھی تھے ۔ایک حکمت عملی کے طور پر بڑی سرعت کے ساتھ پہلے سے طے شدہ حفاظتی راستے سے نکلنے کا فیصلہ کیا گیاجس میں کامیابی ملی اور بھارتی فوج جو ایک پلاننگ کے تحت آئی تھی کہ پوسٹ پر موجود کمانڈر چارلی اور اس کے ساتھیوں کو زندہ بچ کر نہ جانے دیا جائے بلکہ وہ سب کو شہید کرکے ایک جشن منانے کی تیاری بھی کرتے تھے۔اللہ کی نصرت سے دشمن اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوئے بغیر، ہاتھ ملتےناکامونامراد واپس لوٹ گیا۔تاہم پوسٹ پر موجود خوردنوش کا سامان اورکچھ برتن وغیرہ فوجیوں کے ہاتھ لگ گئے ۔اس کے بعد اس علاقے میں اس پوسٹ کو کئی خدشات کی بنا پر دوبارہ قائم نہیں کیا گیا بلکہ صرف چند ہی مہینوں کے بعد اس پوسٹ کو سیف زون میں دوبارہ اسی نام سے قائم کیا گیا جو وقت کا تقاضا بھی تھا کیونکہ مجاہدین کا آپس میں رابطہ ٹوٹ چکا تھا۔بابا نے ہمارے ساتھ کئی ہفتے گزارے اس دوران رات کو میدان کارزارمیں رونما ہونے والے واقعات اور بھارتی ا فواج کا انکے علاقے میں ڈھائےجانے والے ظلم و بربریت کی جو داستان سنائی اسے سن کر روح کانپ اٹھتی تھی ۔داستان غم سناتے ہوئے کہاکہ بھارتی افواج اور سپیشل ٹاسک فورس جو بدنام زمانہ اخوان ( حکومتی بندوق بردار بھارتی فوج کے ساتھ ملکر 1990 کی دہائی کے وسط میں عسکریت پسند مخالف مہم میں شریک ہوگئے تھے)کے نام سے مشہور تھے نے گاؤں کیتھسن بانڈی پورہ کا کئی دفعہ محاصرہ کرکے ہمارے گھر وں کو جلایا ، فصلوں کو آگ لگا دی، عورتوں کو کیمپوں میں گرفتارکرکے لے جایا گیا اور مال و مویشیوں کو جنگلوں کی طرف بھگایا گیاتاکہ وہ جنگلی درندوں کی خوراک بن جائیں،مجاہدین کو پناہ اور کھانا فراہم کرنے کے جرم میں انہیں تختہ مشق بنا کر چنگیزیت کا ثبوت دیا گیا ۔ اس صورتحال کے باوجود حزب سے وابستہ مجاہدین نے کمال صبر کاعملی مظاہرہ کیا، ہمت و حوصلے سے کام لیااور دشمن کے سامنے سرینڈر نہیں کیابلکہ اپنی گردنیں کٹوانے میں ہی فخر محسوس کیا ۔ہمارے ساتھ قیام کے دوران ان کا ایک بیٹا کمانڈر شیر خان جو اس وقت میدان جہاد میں دشمن کے خلاف برسر پیکار تھا نے اپنے والد کے ساتھ وائر لیس پر کئی گھنٹوں بات چیت کی ۔بیٹے نے بھارتی فوج کے جبر کی روداد سنائی اور یہ بھی کہا کہ کچھ ساتھی جہاد چھوڑ کر ظلم کی وجہ سے سرینڈر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔یہ ساری باتیں بابا غور سے سن رہے تھے۔اس کے بعدبابانے جو جواب اپنے بیٹے کو دیا وہ حوصلہ افزا تھاکہا ’’میرے بیٹے آپ کو پتہ ہے میرا ایک لخت جگر اور آپ کا پیارا بھائی مجاہد باز خان جو 1992 میں جب جہاد کشمیر عروج پر تھا نے اپنا تازہ لہو اسلام اور تحریک آزادی کے لئے نچھاور کیا، ہمارے خاندان کےکئی دوسرے عظیم لوگوں نے بھی اسی شہید کے نقش قدم پر چل کر جہاد کیا اور اپنی جانیں اللہ کی راہ میں قربان کی ہیں ،اس لئے بھارتی فوج چاہے ہمارے گھروں کو جلائے یا فصلوں کو کاٹے چاہے ہمارے مال و مویشی سے ہمیں محروم کرے ،یہ سب دنیاوی چیزیں ہیں اللہ کی راہ میں اگر قربان ہوجائیں یہ ہمارے لئے باعث سعادت ہے۔ اللہ قبول فرمائے لیکن آپ اور آپ کے ساتھی بھارتی فوج کے سامنے بہادری کے ساتھ ڈٹ جائیں،کبھی سرینڈر نہیں کرنا ،اپنے شہید بھائی کی لاج رکھنا ، میں آپ کا والد ہوں مجھے ناراض نہیں کرنا ،یہ سختیاں وقتی ہیں اللہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو اپنے مقصد میں کامیاب کرے ،اپنی حفاظت کا خاص خیال رکھنا ‘‘۔اسی رابطے کے دوران ایک بھارتی سیٹ آپریٹر دونوں کے درمیان بات چیت کو انٹررپٹ (interrupt)کررہا تھا،بابا اس مداخلت کی وجہ سے غصے سے لال ہوگئے اور بھارتی فوجی آپریٹرکی خوب کلاس لیتے ہوئے اس بھارتی فوجی سے مخاطب ہوکر کہا ’’یاد رکھو ایک دن آئے گا جب تم کشمیر سے رسوا ہو کر نکلو گے۔ دہائیاں گزر جائیں گی لیکن آپ کشمیر میں موجود مسلح جدوجہد کوختم نہیں کر پاؤ گے چاہے آپ مزید لاکھوں فوجی کشمیر میں تعینات کرو‘‘۔ مجھے بابا کی یہ باتیں اس وقت عجیب سی لگ رہی تھیں کہ ابھی بھی کشمیر آزاد ہونے میں بیس پچیس سال لگیں گے ،آخر پر بابا نے بھارتی فوجی کو دھمکی دی ہماری بات چیت کو روک کر تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکو گے تم بھونکتے رہو ہم اپنا کام کرتےرہیں گے ۔آج اس بات کو تیس برس گزر چکے لیکن باباکی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی ،اُس وقت کشمیر میں صرف پانچ لاکھ بھارتی فوجی موجود تھے جبکہ تیس سال کزرنے کے بعد آج نو لاکھ بھارتی فوج ہونے کے با وجود کشمیر میں عسکری جد وجہد جاری ہے۔ جس کا بین ثبوت گذشتہ برس وادی کشمیر کے اندر بھارتی افواج کے ساتھ جھڑپوں کے دوران حزب المجاہدین کے چیف آپریشنل کمانڈر ابو عبیدہ سمیت سو کے قریب مجاہدین شہادت سے سرفراز ہوئے اور دو سو کے قریب بھارتی فوجی ان جھڑپوں میں مارے گئے۔

راہ جہاد میں ساتھیوں کا ملنا اور مل کے بچھڑنا ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے ،اب وہ گھڑیاں قریب آرہی تھیں کہ باباچند ہفتوں کےقیام کے بعد ہم سے رخصت چاہتے تھے۔ سب کا دل چاہ رہا تھا بابا رک جائیں لیکن ان کی کچھ مجبوریاں تھیں تو ۔انہوں نے گلے لگا کر کہا زندگی رہی پھر ملیں گے۔ برف باری کا موسم شروع ہوچکا تھا پہاڑوں نے سفید چادر اوڑھ لی تھی ،اکثر ایسےحالات میں سفر کے لئے لانگ بوٹ کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن مجھے حیرت ہوئی جس بلیک کلرکےہلکے سے پاور فلیٹ میں بابا آئے تھے جنہیں اکثر مجاہدین خشک موسم میں سفر کے دوران استعمال کرتے تھے ان ہی پاور شوز میں بابا نے واپسی کےسفر کے لئے کمر کس لی جو کسی طرح بھی اس سفر کے لئے موزون نہیں تھے ۔برف باری میں ان جوتوں کے ساتھ سفر بہت مشکل تھالیکن بابا نے کوئی پرواہ کئے بغیر سفر شروع کیا ،میں نے کہا با با برف میں کس طرح اتنا طویل سفر طے کرو گے جو اب دیا میں نے سرحد عبور کرتے وقت دس دس فٹ بلندبرف میں راستہ بنا کر مجاہدین کو سرحد پار کروایا ہے اس کے مقابلے میں یہ سفر اور برف کچھ بھی نہیں ہے ۔بہرحال ہم نے انہیں رخصت کیا لیکن جب تک وہ اپنی منز ل پر نہ پہنچے تب تک ہمیں دھڑکا ہی رہا اللہ کا شکر ہے صرف پانچ گھنٹے گزرنے کے بعد انہوں نےسیٹ پر رابطہ کیا کہ میں صحیح سلامت پہنچ چکا ہوں ۔ ایک مرتبہ مجھے ان کے ساتھ ایک دن مسلسل پیدل سفر کرنے کا موقع ملا۔شدید برف باری ہورہی تھی۔وہ پہلے ہی چھ سات گھنٹوں کا سفرطےکرکےآئے تھے ان کی اگلی منزل سینکڑوں میل دور ایک تربیت گاہ تھی ۔ مجھے چارلی سٹیشن واپس پہنچنا تھا ۔اس دوران سردی کی وجہ سےمیرے سر میں شدید درد ہوا ۔انہوں نے پورے گروپ کو حکم دیا کہ تھوڑی سی استراحت کے لئے رک جائیں ،اس حکم کی تعمیل ہوئی انہوں نے مجھے اپنے ساتھ ہی بٹھایا اور اپنی جیب سے بروفین(Brufen )کی گولی نکال کے دی ،ان دنوں اس علاقے میں دوائی کاملنا خواب ہی ہوتاتھا ، ساتھ دعا بھی دی مجھے فوراََ آرام آیا اور میں نےاپنی منزل کی جانب سفر جاری رکھا۔

سن1997 ء میں بابا کا دوسرا بیٹا کمانڈر شیر خان اپنے شہید بھائی مجاہدباز خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارتی فوج کے ساتھ ایک خونی معرکے میں شہادت کا تمغہ سینے پر سجا کر امر ہوگیا۔با با کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئےیوں اس عظیم سپوت نےبھی والد کا سرفخر سے بلند کیا۔

دوسرے بیٹے کی شہادت پر بھی ان کے عزم کو ہم نے پختہ پایا ،سخت آزمائشیوں سے نکل کر بابا کندھن بن چکے تھے ،مایوسی کو کبھی اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیا ۔ایک دفعہ ہمارے ایک ساتھی حیدر علی نے ان سے استفسار کیا’’بابا اب آپ کی عمر نوےبرس کے قریب ہے اگر آپ واپس مقبوضہ کشمیر لوٹ جانے کے لئے تیار ہیں تو اس کے لئے ہم امیر حزب سے اجازت لیں گے ‘‘بابا نے جواباََ کہا’’ میں نے ساری عمر جہاد میں گزاری ،میرے خاندان کے کئی جوان اسی راہ میں شہید ہوئے ،میرا ضمیرمجھے اجازت نہیں دیتا ہے کہ میں مودی کے سامنے سرینڈر کروں ، میں اللہ کے راستے میں نکلا ہوں اور میں اسی راہ میں شہید ہونا چاہتا ہوں‘‘ ۔اکثر جب بھی بابا راولپنڈی آتے تھے یٰسین چارلی کے گھر میں قیام کرتے ۔ایک دن بابانےان سے فرمائش کی مجھے اپنی آواز میں میاں محمد بخش کا( سیف الملوک) کلام سنائیں وہ اپنے والد کی مانند ان کو سمجھتے تھے تو فوراََ ان کی یہ فرمائش پوری کردی اور پورا کلام سنایا، ان کی سحر طاری کرنے والی آواز نے بابا کے دل کی تاروں کو چھیڑا،اس کلام نے بابا کے دل پر ایسا اثر کیا کہ ان کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوئے اور بہت دیر تک روتے رہے۔عمر کے آخری حصے میں وہ بیمار ہوئے ،چار پانچ سال سے صاحب فراش تھے۔اس دوران راولپنڈی میں موجود نرسنگ سینٹرمیں ان کی عیادت کے لئے ان کے پاس آتے جاتے رہتے تھے، خاص کر یٰسین چارلی نے ان کی بے لوث خدمت اس طرح کی جس طرح ایک اولاد اپنے والد کی کرتاہے ۔ضعیف العمری میں بالآخرقافلہ سخت جان کا یہ سپاہی،مرد مجاہد اور آزادی کا یہ متوالا3 فروری 2025کو رات کے ایک بجےاپنے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑکر اپنے رب کے حضور پیش ہوا۔یوں 1989سے جاری حیدر باباکاجہادی سفراپنے اختتام کوپہنچ گیا۔ان کی نماز جنازہ مظفرآباد کے ہاکی گراؤنڈ میں حزب المجاہدین کے نائب امیر محمد سیف اللہ خالد نے پڑھائی سینکڑوں مجاہدین و مہاجرین نےاس رجل عظیم ،بانی جہادکشمیر حیدرباباکو آہوں او ر سسکیوں کے ساتھ الوداع کیا۔حز ب المجاہدین کے امیرسید صلاح الدین احمد نے راہ حق کے اس عظیم ہیرو جس کے نہ صرف دو بیٹے اللہ کے راستے میں شہید ہوئے بلکہ خاندان کے کئی دوسرے افراد بھی اسی راہ میں قربان ہوئے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا دو شہیدوں کے والد حیدر بابا کی جہادی خدمات تحریک آزادی کا ایک روشن باب ہے ،ان کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔انہوں نے پیرانہ سالی کے باوجود تحریک آزادی اور حزب المجاہدین کے مشن کی آبیاری کی ہے۔اللہ تعالیٰ بابا حیدر اور ان کے خاندان کی ان بے مثال قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثلِ ایوانِ سحَر مرقد فرُوزاں ہو ترا
نُور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا