شہید امتیاز عالم ؒ کی یاد میں تعزیتی ریفرنس

صائم فاروقی

20فروری 2025 میں ماہنامہ کشمیر الیوم اور کشمیر ایویرنس فورم کے زیر اہتمام کشمیر الیوم کے دفتر پرشہید امتیاز عالم کی یاد میں ان کی دوسری برسی کے موقعہ پر کشمیر الیوم کے چیف ایڈیٹر شیخ محمد امین کی صدارت میں ایک سمینار منعقد ہوا ۔ سمینار کا آغاز کلام الٰہی سے کیا گیاجس کی سعادت برادرم حیدر علی نےحاصل کی۔سمینار میں شہید امتیاز عالم کے برادر اصغر فاروق احمدپیر مہمان خصوصی تھے ۔اس کے علاوہ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی سمینار میں شرکت کی۔سمینار میں شرکاء نے شہید امتیاز عالم کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی زندگی کے تمام گوشوں پر روشنی ڈالی تھی۔ یونائیٹڈکشمیر جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے عبوری صدر عبدالطیف ڈار نے اس موقع پر کہا 03 فروری کے موقع پر پاکستان کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شہید امتیاز عالم کے قاتلوں کو سنائی جانے والی سزاوں کے فیصلے کا ہم دل سےخیر مقدم کرتے ہیں۔ پاکستان کی مذکورہ عدالت نے مجرموں کو سنگین سزائیں سنا کر ایک اچھا پیغام دیا۔ شہید امتیاز عالم مرد آزاد ،مرد حر تھے اور عزت و احترام کی زندگی گزار کر وہ شہادت کا خلعت پہن کر اللہ کے حضور پیش ہوئے ۔کشمیری صحافی محمد شہباز لون نے شہید کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے اپنی گفتگو کا آغاز اس شعر سے کیا:
مرے خاک و خُوں سے تُونے یہ جہاں کِیا ہے پیدا
صِلۂ شہید کیا ہے، تب و تابِ جاودانہ
شہید نےپوری زندگی اسلام کی سربلندی اور تحریک آزادی کشمیر کیلئے وقف کی تھی ۔ 20فروری2023 میں اسلام اور تحریک آزادی کے دشمنوں نے اس مرد قلندر کو شہید کیا ۔ امتیاز عالم کے ہمالیہ حوصلوں کو مضمحل کرنے کیلئے والد اور ایک بھائی کو بھارتی فوجیوں نے ایک ظالمانہ کارروائی میں شہید کیا جبکہ دیگر مالی قربانیاں بھی دیں۔لیکن ان تمام تر آزمائشیوں کے باوجود شہید کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے۔انہوں نے اپنی زندگی جہادی زندگی کے دوران تحریک آزادی کی کامیابی کیلئے جو کردار ادا کیا اسے بھولانہیں جاسکتا۔ کشمیر جرنلسٹس فورم کے جنرل سیکریٹری مقصود منتظر نے اپنی گفتگو کے دوران عظیم رہنما کوعقیدت کے پھول نچھاود کرتے ہوئے کہا یہ ایک اٹل حقیت ہے کہ ایسے جانباز مرتے نہیں بلکہ قرآن مقدس کے الفاظ میں زندہ ہوتے ہیں اور رب کی ضیافتوں سے مستقل بنیادوں پر محظوظ بھی ہوتے ہیں۔

شہیدمرکر بھی امر ہوتے ہیں۔سچ ٹی وی سے وابستہ سینئرصحافی شوکت علی ابوذر نے شہید کی یاد کو تازہ کرتے ہو ئے کہا کہ شہید امتیاز عالم عسکری ماہر ہونے کے علاوہ ایک پر جوش خطیب بھی تھے۔ان کے خطاب سے نہ صرف درودیوار ہل جا یا کرتے تھےبلکہ دلوں میں جذبے مچلنے لگتے تھے۔ کےایم ایس سے وابستہ صحافی خالد شبیرنے کہا کہ شہید امتیاز عالم تحریک آزادی کشمیر کے ایک نڈر ،بے لوث اور دشمن کیساتھ ہر وقت دو دو ہاتھ کرنے والے مجاہد رہنما تھے۔ایک اور معروف صحافی اویس بلال نے ایک نظم بعنوان ’’شہادت کا پیغام ‘‘جو شہید کی زندگی کی ترجمانی کررہی تھی محفل میں سنا کر سب پر سحر طاری کردی۔ جس کے چندبند اس طرح ہیں۔
میری شہادت جسم وتن کے لئے نہیں
میری شہادت خاک چمن کے لئے نہیں
میری شہادت ہے خدا مختاری کے لئے
میرا لہو ہے اس کی آبیاری کے لئے
سمینار کے آخر پر صدر مجلس شیخ محمدامین نے اپنے اختتامی کلمات میں شہید کی خوبیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا وہ سورۃ انعام کی اس آیت جس کا ترجمہ ہے میری نماز ،میری قربانی اور میری زندگی سب اللہ کے لئے ہے کی عملی تفسیر تھے۔شہید اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے لیکن دنیاوئی و مالی فوائد حاصل کرنے کے مواقع کے باوجود 1990 میں حزب المجاہدین کی صفوں میں شمولیت کو ترجیح دی۔سخت ترین حالات میں مجاہدین کی صفوں کو مظبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا ایمان اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ تحریک ایک مقدس تحریک ہے۔امام حسین ؓ کربلا میں ڈٹ گئے لیکن باطل کے سامنے جھکے نہیں  ،بالاکوٹ کے مقام پر سید احمد شہیداورشاہ اسماعیل شہیدنے اپنی گردنیں کٹوائیں اور ان کی شہادت کے سو سال سے زائد عرصہ کے بعد یہ علاقہ دشمن سے آزاد ہوا،شہیدوں کا لہو ایک دن ضرور رنگ لائے گا۔ خون کی یہ سرخی ایک دن آزادی کا ضرورعنوان بنے گی ۔انہوں نے شرکائے سمینارکاتہہ دل سے شکریہ ادا ۔سمینار میں کشمیر میڈیاسروس کے معروف صحافی کفایت رضوی ، فاروق احمد ،حیدر علی،فرقان الٰہی ،ظفر اقبال ، شیخ جاوید احمد،ارسلان احمد، شجر خان ,شیخ یاسین ، عبدالاحد پاجی سمیت کئی دیگر افراد نے بھی شرکت کی۔ سمینار کے آخر پر شہید امتیاز عالم سمیت تحریک آزادی کشمیر کے لاکھوں شہدا کی بلندی درجات اور تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کےلئے دعا کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ شہدا کے مشن کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا سرزمین کشمیر کے ہر فرد پر قرض اور فرض ہے ۔جس سے کوئی کوتاہی نہیں برتی جائے گی۔ان شااللہ