راج ترنگنی ۔۔۔

امجد بٹ ۔ مری

کتاب سے عشق حضرت پروفیسر علامہ مُضطر عباسی مرحوم کی وجہ سے ہوا جو آج بھی جاری ہے لیکن ان کی لائبریری میں موجود ’’راج ترنگنی‘‘ نامی ضخیم کتاب کبھی بھی میرے لیے کشش کا باعث نہ بن سکی ۔ اس کی حیثیت میرے لیے عیاش بادشاہوں کی حالات ِ زندگی سے زیادہ نہ تھی ، حالانکہ علامہ صاحب اس کے مطالعے کے لیے مُجھ سے اصرار کرتے رہتے تھے۔ اس کتاب کی تاریخی اہمیت کا احساس مجھے جناب اسحاق کشمیری مرحوم اور جناب پرویز میر نے دلایا۔ علامہ صاحب کی رحلت کے بعد یہ کتاب کہیں نہ مِل سکی۔ بالآخر میرے اسپرانتو دان دوست جناب عبدالاسلام شانی نے میری ملاقات جناب فاروق سہیل، ( ویری ناگ پبلشرز، میر پور، آزاد کشمیر) سے کروائی تو یہ نادر نسخہ مجھے مل سکا۔
’’راج ترنگنی‘‘ جنوبی ایشیاء میں بسنے والی تمام اقوام خصوصاً سرزمینِ کشمیر میں آباد قبائل کی ہزاروں سال پر مشتمل تاریخ کا ایک ایسا غیر جانبدار اور مدلّل تجزیہ ہے جسے پڑھنے کے لیے قاری کا فِکری اعتبار سے وسیع النظر ہونا ناگزیر ہے۔ نسلی، مذہبی اور قومی تفاخر اس کتاب سے استفادہ کرنے میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ راج ترنگنی سے مراد کسی سرزمین پر آئین و قانون کے مطابق حکمرانوں کا وہ سلسلہ جو سمندر کی لہروں کی مانند ابھرتا اور ختم ہوتا رہاہو۔ ان حکمرانوں کے دور میں نہ صرف عوامی اور شاہی زندگی کی جزئیات آپ راج ترنگنی میں ملاحظہ کر سکتے ہیں بلکہ سرزمینِ کشمیر، آج کے ہندوستان اور جنوبی ایشیاء کی تاریخ نویسی کی عمارت کو ’’راج ترنگنی‘‘ کی بنیاد پر قائم کیا جاسکتا ہے۔
اس معروف تاریخی دستاویز کا زمانہ آج سے 875 سال قبل یعنی 1148ء کا ہے ۔ اس وقت کشمیر پر راجہ جے سنگھ کی حکمرانی تھی۔ یہ کتاب پہلی بار متروک اور خالص سنسکرت زبان میں معروف شاعر پنڈت کلہن نے مرتب کی جِسے1915ء میں پہلی بار سر آرل سٹین کے انگریزی ترجمے سے جناب ٹھاکر اچھر چند شاہپوری نے اُردُو قالب میں ڈھا لا ۔ سرزمینِ کشمیر کی اِس معرکتہ الآراء تاریخی دستاویز کو محفوظ کرنے اور یورپی زبانوں کا لباس پہنانے کا کارنامہ بھی اہل مغرب نے سرانجام دیا۔ ’’راج ترنگنی‘‘ کا یورپی زبانوں میں سب سے پہلا ترجمہ فرانسیسی زبان میں ہوا جس کی بنیاد پر ڈاکٹر ایس ایس ولسن نے اسےانگریزی میں منتقل کیا۔ ابھی تک راقم اس کے دو ایڈیشن اُردُو میں دیکھ چکا ہے۔ پہلا جناب فاروق سہیل نے ویری ناگ پبلشرز، چوک شہیداں، میر پور آزاد کشمیر کی طرف سے شائع کیا جو کہ انھوں نے جناب کے ایچ خورشید (سابق وزیرِ اعظم۔آزاد کشمیر) کے فراہم کردہ اُردُو ترجمے ( مطبوعہ انڈیا ) سے دوبارہ شائع کیا۔ جب کہ دوسرا ایڈیشن جناب شبیرکاظمی نے رائل پیلیکیشن کمپنی، فضل داد پلازہ اقبال روڈ راولپنڈی (5205746-5541452,0300-051) کی طرف سے 2011ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا ہے ۔ اس نایاب کتاب کے مطالعے سے آپ نہ صرف یہاں آباد اقوام کے عروج وزوال کی داستان سے واقف ہو سکتے ہیں بلکہ یہ بھی جان سکتے ہیں کہ قوموں کی بلندی و پستی کے ذمہ دار دراصل حکمران ہی ہوا کرتے ہیں یہ کتاب اس فکری مغالطے کی بھی نفی کرتی ہے کہ یہاں بسنے والی اقوام خصوصاً ہندو اور کشمیری تاریخی اعتبار سے تہی دامن رہی ہیں۔ دوسرا انگریزی ترجمہ کلکتہ ایڈیشن کے ٹیکسٹ کی بنا پر بابو جو گیش چندردت نے کیا، جب کہ تیسرا انگریزی ترجمہ پنجاب یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار مسٹر ایم اے سٹین نے مختلف مسودوں کی بنیاد پر مقامی پنڈتوں کی معاونت سے کیا اور لندن سے شائع ہوا۔ نیز مقامی زبانوں میں شہنشاہ اکبر کے زمانے میں ملاعبد القادر بدایونی نے پنڈت کلہن کی کتاب کا فارسی ترجمہ کیا تھا۔ ’’راج ترنگنی‘‘ جیسی متروک زبان پر مبنی کتاب کا ترجمہ کرنا کسی وادیِ پُرخار میں آبلہ پائی سے کم نہیں لیکن اس میں سب سے پہلے سنسکرت سے انگریزی میں آبلہ پائی کا فریضہ جناب بابو جوگیش چندردت نے ہی سرانجام دیا لیکن مسٹر ایم اے سٹین نے مختصر وضاحتوں اور تحقیقی حوالہ جات و حواشی کے ذریعے راج ترنگنی کے تاریخی واقعات کو خلعتِ صداقت پہنائی ہے لہٰذا سنسکرت سے اردوترجمے کے دوران مذکورہ بالا تینوں انگریزی تراجم سے رہنمائی اور مدد لی گئی ہے۔ اس کتاب کے قارئین سے گزارش ہے کہ اسے ایک خطے کی تاریخ سمجھ کر مطالعہ کیا جائے۔ اگرچہ مذہب کو تاریخ سے الگ نہیں کیا جا سکتا لیکن مافوق الفطرت مذہبی عقائد کے زیراثر قاری تاریخ کو جانچتے وقت غیر جانبدار نہیں رہ سکتا جس طرح شریعت محمدی ﷺ کے پیرو کاروں کا ایمان ہے کہ رحمت العالمین حضرت محمدؐ ربّ کائنات سے ملنے آسمانوں پر تشریف لے گئے ، مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ قبر سے نکل کر جسمانی حالت میں آسمان پر چلے گئے، سِکّھوں کا ایمان ہے کہ ان کے مذہبی پیشوا بابا گرو نانک جسم فانی کے ہمراہ غیر فانی دنیا میں چلے گئے۔ اسی طرح ایک ہندو کا اعتقاد ہے کہ راجہ ہریش چندر اپنے جسم سمیت سوَرگ یعنی جنت میں چلے گئے ۔ ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ حجرِ اسود جنت سے آیا ہوا پتھر ہے، برہمنوں کا عقیدہ ہے کہ راجہ دامودر ثانی بد دعا سے سانپ بن گیا تھا۔ ہندوؤں کے ایمان کے مطابق گوتم بدھ کی بد دعا سے اس کی اہلیہ پتھر بن گئی تھی۔ مسلم اور مسیحی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مُردوں کو زندہ کر دیتے تھے ۔ آسمانی کُتب پر ایمان لانے والے مسلم، عیسائی اور خصوصاً یہودی اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت موسیٰ کی قوم پر آسمان سے من و سلویٰ اترتا تھا۔ اگر ہم تاریخ کے ایک غیر جانبدار طالب علم کی حیثیت سے قرونِ اولیٰ کے واقعات کی حقیقی تصویر دیکھنے کے خواہشمند ہیں تو ان واقعات سے حقائق کی کھوج لگائیں اور اس دور کی سائنسی علمی، ادبی، اور فکری اڑان کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اسی دور کی ضروریات، تہذیب و ثقافت کو پیش نظر رکھ کر کسی نتیجے پر پہنچیں ۔ اس ساری تمہید کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ’’راج ترنگنی‘‘ میں دی گئی تمام باتوں کو درست مان کر چپ سادھ لی جائے بلکہ تاریخ ہمیشہ غیر جانبدار تحقیق کی متقاضی ہوتی ہے کیونکہ آج سے سینکڑوں سال قبل جو باتیں خارج از امکان تھیں آج انہیں سائنسی انکشاف اور ترقی کا نام دیا جا رہا ہے۔
یادر ہے کہ تاریخ کی طرح سائنسی واقعات بھی اپنے آپ کو دہراتے ہیں ماضی کی سائنسی دنیا ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ عہدِ عتیق میں سائنس آج سے زیادہ ترقی یافتہ تھی۔ مصر کے فلک بوس میناروں اور ابوالہول کی تعمیر میں ہزاروں ٹن وزنی پتھروں کو کئی سوفٹ کی بلندی تک ہزاروں سال قبل کسی کرین کے بغیر کسی طرح اٹھایا گیا ہوگا یہ بات بڑے بڑے انجینئروں کو آج بھی انگشت بدندان کر دیتی ہے۔ فراعینِ مصر کی حنوط شدہ لاشیں، بابل کی ملکہ کا معلق باغ اور امریکہ میں برمودہ تکون عظیم کیمیادانوں اور انجینئروں کے لیے دعوتِ فکر ہیں ۔ آج ہزاروں میل دور بیٹھ کر آپ کسی ملک پر ڈرون حملوں کے ذریعے اپنی عسکری قوت کو منوا سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ انٹرنیٹ وخلائی تحقیق اور سٹیلائٹ سسٹم کی طاقت کا استعمال ہے۔ قدیم مصر میں ایک خاص دیو کی پجارن کو دخترِآفتاب کہا جاتا تھا ، اسے خبر رسائی کے وسائل میں کمال حاصل تھا۔ شام کے وقت جب وہ باغ میں سے گزرتی تو روش کے دونوں جانب روشنی کے حروف میں دن بھر کی خبریں کسی پوشیدہ آلے کے ذریعے خود بخود لکھی جاتیں اور تھوڑی دیر بعد خود ہی مٹ جاتیں آج کے جدید ترین موبائل آئی سیون کا’’کی بورڈ‘‘ محض روشنی اور ہوا میں تصویر کی صورت میں بنائیں اور پھر اس پر سب کچھ لکھ کر صرف ہاتھ کے اشارے سے دوسرے موبائل میں ہزاروں صفحات پر مشتمل تحریروں اور تصاویر، یہاں تک کہ دستاویزی فلموں کو بھی آنِ واحد میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ سائنس آئے روز پردہِ غائب سے نئی چیزیں نمودار کر رہی ہے جس کی بنا پر ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہم قدیم تاریخی واقعات کی تحقیق میں جانبداری ، جذبات اور جلد بازی یا عُجلت سے کام نہ لیں بلکہ تاریخی واقعات کو محفوظ کریں اور نظر انداز نہ کریں مبادا منظر عام پر آنے والے حقائق ہمیں جھٹلا دیں۔ پنڈت کلہن کے بعد لاتعداد مؤرخین نے کشمیر کی تاریخ کی گمشدہ کڑیوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے جن میں سے اکثر نے کلہن کی ’’راج ترنگنی‘‘ کو ہی بنیاد بنایا ہے۔ اِن میں سے چند معروف کتب اور ان کے مصنفین کا نام لکھا جارہا ہے۔
ا۔ راج ترنگنی۔( شریور پنڈت )
2 – راج ترنگنی ( زونراج)
3 – تاریخ نادری (مُلّانادری)
4 – وقائع کشمیر ( مُلّا نادری)
5۔بہارستان شاہی 6- تاریخِ رشیدی (مرزا حیدر کاشغری)
7 – تاریخِ نافع (مُلّا نافع )
8 – شاه نامۂ کشمیر ( عبدالوہاب شائق) 9۔ گلزارِ کشمیر( صوبیدار دیوان کرپارام) 10- تاریخ حسن (خواجہ حسن شاہ ) 11- تاریخِ خواجہ اعظم (خواجہ اعظم ) 12 – تاریخ نرائن ( نرائن کول عاجز ) 13- تاریخ بہا الدین (بہاالدین خوشنویس) 14 – سفر نامه مور کرافٹ 1820ء ( سرولیم مور کرافٹ ) 15۔ویلی آف کشمیر 1820ء ، ( سر والٹر لارنس ) 16۔ سفرنامہ وگنی ۔ 1822ء (وگنی) 17- سفرنامہ برن ہوگل (برن ہو گل ) 18۔ گلدستۂِ کشمیر 1882ء ( پنڈت ہر گوپال کول خستہ) 19۔ مکمل تاریخِ کشمیر 1912ء (محمد دین فوق) 20۔ نگارستانِ کشمیر 1933ء ( قاضی ظہور الحسن ) 21 ۔ کشیر (ڈاکٹر صوفی غلام محی الدین ) 22- تاریخِ کشمیر 1970ء (سید محمود آزاد) جدید تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ پہلے برفانی دور کی عمر پانچ لاکھ سال تھی اور وادی سواں میں 2 سے 4 لاکھ سال پہلے قدیم انسان نے زندگی کے سفر میں جوں جوں قدم آگے بڑھائے اس کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی گئیں یہاں تک کہ انسان نے تہذیبی زندگی میں قدم رکھا یہ پہلا برفانی دور ساری دنیا پر محیط تھا۔ کشمیر کے جغرافیائی محل وقوع اور اس کی قدرتی ساخت کو دیکھتے ہوئے اس بات سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ پہلے اور دوسرے برفانی دور میں کشمیر کا میدانی حصہ جسے وادی کشمیر کہتے ہیں ہزاروں گز گہری برف تلے دبا ہوا تھا۔ کشمیر کی وادی آریاؤں کی آمد اور دراوڑوں کی پسپائی کے وقت ایک وسیع جھیل کی شکل میں تھی اور وادی کے میدانی حصے کے ساتھ ساتھ کئی چشمے اور جھیلیں نمودار ہو چکی تھیں۔ ان وسیع جھیلوں کے چاروں طرف آریہ قوم کی آبادیاں تھیں جو تارک الدنیا ہو کر جنگلوں میں عبادت الہی کی غرض سے چلے جاتے تھے۔ سنسکرت زبان میں ’’ مر‘‘کے معنی آبادی یا پہاڑی درّوں کے ہوتے ہیں ۔ کیشپ رشی (راجہ کشمیر ) اور ’’مر‘‘کی ترکیب سے اس ملک کا پہلا نام’’ کیشپ مر‘‘ تھا۔ اور جوں جوں وقت گرزتا گیا یہ لفظ پہلے ’’کش مر‘‘اور پھر’’ کشمیر‘‘ کی صورت اختیار کر گیا۔ پنڈت کلہن نے راج ترنگنی کی تدوین کے وقت ہر ماخذ کی تاریخی حیثیت پر بھی نظر رکھی ۔ اس نے پرانی راج ترنگنیوں کے ساتھ ساتھ قدیم سِکّوں ، کتبوں، فنون لطیفہ اور دیگر مسودات سے بھی استفادہ کیا۔ رتنا گر کی راج ترنگنی نویں صدی عیسوی کی تصنیف ہے اور پنڈت کلہن نے اپنی راج ترنگنی گیارہویں صدی عیسوی میں مرتب کی اور اس شہرہ آفاق تصنیف کو آٹھ ابواب میں تقسیم کر کے ہر باب کو ترنگ کا نام دیا ہے کلہن کے ماخذوں میں نیل مت پوران ، راج ترنگنی کوئی راج ترنگنی پدم مہر ، راج ترنگنی کھیمہ اندرونروپہ ولی، راج ترنگنی چھولاکر ، اور سورت نامی سنسکرت شاعر کلہن کی راج ترنگنی کے بارے میں مستشرقین کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ بے سروپا حکایات اور خلاف عقل کہانیوں کا گورکھ دھندہ ہے کیونکہ اس کے مصنف نے کسی مقام پر بھی ہند و میتھالوجی کو تاریخ سے الگ نہیں رکھا مگر اس کے برعکس دوسرا گروہ کہتا ہے کہ راج ترنگنی سنسکرت ماخذات میں اپنی ایک امتیازی خصوصیت رکھتی ہے اور اس کتاب کی تاریخی حیثیت مسلمہ ہے۔
راج ترنگنی در اصل کشمیری را جاؤں کے عروج اور خصوصاً زوال کی داستان ہے جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب کسی قوم کا ستارہ ترقی کی معراج پر ہو تو قدرتی طور پر اس کے افراد کو نیک و بد کی تمیز نہیں رہتی۔ اس وقت قانون قدرت اس قوم کو اوج ترقی سے گرا کر اس طرح ذلالت کی گہرائیوں میں پھینک دیتا ہے کہ اس کا نام ونشان صفحہ ہستی سے مٹ کر اس قوم کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔

پنڈت کلہن ریاست کشمیر کے معروف وزیر چنپک کا بیٹا تھا جس کا ذکر راجہ ہرش ( 1089ء تا 1101ء) کے خاص اہلکاروں کے طور پر ہوا ہے ۔ چنپک کا بھائی اور کلہن کا چچا کنک، پرس پور میں پیدا ہوا جو ان سب کا مولد ومسکن تھا۔ کلہن ذات کے لحاظ سے برہمن اورشیوجی کا پجاری تھا۔ اس نے معروف تاریخی نظم ’’وکر مانک دیو چرت‘‘ اور’’ ہرش چرت ‘‘کے علاوہ ’’مہا بھارت“ جیسی رزمیہ نظموں کا بغور مطالعہ کر رکھا تھا وہ رامائن سے بھی ویسی ہی واقفیت رکھتا تھا۔ چونکہ کلہن کی تصنیف اس کے اپنے دور سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا بہت بڑاحصہ ان واقعات کو قلمبند کرنے کی نذر کیا گیا ہے جو کشمیر کے اندر اس کی اپنی حیات میں وقوع پذیر ہوئے۔ کلہن بارھویں صدی عیسوی کی پہلی دہائی میں پیدا ہوا جس کی یاد اس کے ذھن میں ابھی تک تازہ تھی۔
راج ترنگنی کے رزمیہ اشلوکوں سے پتا چلتا ہے کہ شاہی دربار اور کیمپ میں ہر وقت بغاوت کا دور دورہ رہتا تھا جس کے ساتھ ساتھ وہ اس لا پرواہی کا بھی ذکر کر گزرتا ہے جس کے ساتھ کشمیری آبادی ہر وقت ہر قسم کی تبدیلی کے لیے آمادہ رہتی تھی ۔ یقیناً وہ ا پنے ہم وطنوں کی فطرت کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ کلہن پروہتوں کی جاہل اور مغرور جماعت سے اپنی شدید نفرت کو چھپا نہیں سکا ۔ وہ ملکی انتظامات میں ان کی ضرر رساں مداخلت کو نہایت مذموم قراردیتا ہے۔ کلہن کے زیادہ دوستانہ تعلقات وزیر رلھن کے ساتھ تھے جو سسل کا وفادار، ہمراہی اور راجہ جے سنگھ کے تمام عہدِ حکومت میں بر سر اقتدار تھا کلہن اپنی تصنیف میں جا بجا دُنیاوی شان شوکت کو عارضی قراردیتا ہے، اسے شاہی مقبوضات پر بھی یقین نہیں ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ صرف وہی شاعر تعریف کا مستحق ہے جو زمانہ ماضی کے واقعات کو قلمبند کرتے وقت منصف کی طرح محبت یا نفرت سے پاک رہے ۔ کلہن صاف لفظوں میں اعتراف کرتا ہے کہ ’’نیل مت پران‘‘ کے علاوہ سابق علماء کی گیارہ تصانیف سے کام لیا گیا ہے جن میں راجاؤں کے حالات موجود ہیں۔
کسی مؤرخ سے یہ توقع رکھنا نا گزیر ہے کہ وہ درست نسب نامے مرتب کرے تا کہ قارئین کو با آسانی تاریخی جزئیات سمجھ آ سکیں۔ کلہن ہمیں تاریخ کے ساتھ ساتھ جغرافیائی معلومات میں بھی یہ سہولت پیش کرتا ہے اور مبالغہ آرائی سے حتی الامکان اجتناب کرتا ہے لیکن ایک انسان کی حیثیت سے اس کی یہ معرکتہ الآرا تصنیف بھی فنی نقائص سے خالی نہیں۔ کئی مقامات پر کلہن کی پیچیدہ تحریر کو قاری کے لیے سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ متروک الفاظ کے استعمال اور شاعرانہ انداز اختیار کر کے کہیں کہیں تحریرنا قابلِ فہم بنادی گئی ہے۔ ریاست کے پیچیدہ اور سازشوں سے معمور حالات کی جزئیات بیان کر کے کلہن نے گویا بال کی کھال اتارنے کی کوشش کی ہے۔ شاید اسے علم ہی نہیں تھا کہ ایک ہزار سال یا اس سے زیادہ عرصہ بعد لوگوں کے پاس ایسی فضولیات پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہوگا۔ وہ مستقبل کے قاری کو ذہن میں رکھ کر یہ تاریخ مرتب کرتا تو شاید یہ کتاب آدھی رہ جاتی ۔ مرزا غالب کا سارا دیوان 85 سے زیادہ نظموں و غزلوں پر مشتمل نہیں کیونکہ اس کی ہر لحاظ سے متعدد بار پڑتال کی گئی اور غالب آج بھی اردو ادب میں اسی مختصر دیوان کی بنیاد پر حکمرانی کر رہا ہے۔
تقریبا ساڑھے تین ہزار اشلوکوں میں ایک ہی شخص کے مختلف مواقعوں پر مختلف نام استعمال ہوئے ہیں لیکن جو شخص ہندوستان کے قدیم واقعات سے دلچسپی رکھتا ہے اسے کلہن کے ہندوازم کی طرف جھکاؤ کے باوجود ’’ راج ترنگنی‘‘ سے بڑھ کر کہیں سے بھی نسبتاً بہتر اور مُستند معلومات نہیں مل سکتیں۔
ماخوذ ۔
1راج ترنگنی (مترجم۔ اچھر چند شاہپوری)۔
2 تاریخِ کشمیر ۔(سیّد محمود آزاد)
3۔ مکمل تاریخِ کشمیر ۔( محمد دین فوق)
نوٹ: ’’راج ترنگنی‘‘ پر اُردُو زبان میں یہ پہلا تعارفی مضمون ہے۔ (امجد بٹ۔ مری پاکستان – 03151533657)