عارف بہار
مقبوضہ کشمیر پانچ اگست2019 کے بعد سے سکوت اور سکتے کی ایک دبیز چادر میں لپٹ کر رہ گیا ہے ۔چیختا چنگھاڑتا بولتا اور اُبلتا ہوا معاشرہ اچانک مکمل اور پُراسرار خاموشی کی وادیوں میں گم ہو کر رہ گیا ہے۔یہ حالات کی سنگینی اور سختی کاپتا دے رہا ہے۔خاموشی کی اس چادر میں پہلا چھید اس وقت ہوا جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک لیڈر نے مقبوضہ کشمیر میں 1931کے ان شہدا کی توہین کی جو ڈوگرہ حکومت کے خلاف سری نگر سینٹرل جیل کے باہر اذان دیتےہوئے شہید کئے گئے تھے ۔ان شہدا ءکی یاد میں کشمیر کے تمام حصوں میں تعطیل بھی ہوتی ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے تقریبات بھی منعقدہوتی ہیں ۔پانچ اگست2019 کے بعد بھارتی حکومت نے اس دن کی تعطیل منسوخ کردی تھی ۔اب اس دن کی اہمیت کم کرنے کے لئے بی جے پی نے ان شہداء کو حیلوں بہانوں سے تضحیک اور تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا ہے ۔جس کا وادیٔ کشمیر میں ردعمل ہونے لگا ہے اور کئی برس بعد پہلی بار سری نگر میں عام لوگوں نے ایک احتجاجی مظاہرہ کرکے بی جے پی مردہ باد کی نعرہ بازی کی ہے۔یہ مظاہرین 1931کے شہداء کی حمایت میں بھی نعرے لگا رہے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کشمیری شہداء کو ہدف بنا کر کشمیریوں کی قومی توہین اور تضحیک کررہی ہے اور یہ ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے۔اس طرح بی جے پی نے خود ہی حالات کے باعث دبے اور سہمے ہوئے کشمیر ی سماج کو لب کشائی پر مجبور کر دیا ۔

اس واقعے کی گونج کشمیر اسمبلی میں سنائی دی اور عمرعبداللہ نے کہا کہ آمریت کے خلاف لڑنے والے ہر سماج کے ہیرو ہوتے ہیں مگر آج بی جے پی کشمیر میں شخصی آمریت کے خلاف جانیں دینے والوں کو محض اس لئے نشانہ بنا رہی ہے کہ وہ مسلمان تھے ۔محبوبہ مفتی کی طرف سے بھی بی جے پی کے لیڈر کے ریمارکس کی مذمت کی گئی ۔اس طرح کشمیر میں برسوں سے جاری سکوت اور جمود خود بی جے پی کے ہاتھوں ہی ٹوٹ گیا ۔اسی دوران بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے لندن کے تھنک ٹینک (Chatham House London) میں خطاب کرتے ہوئے آزادکشمیر پر قبضے کی دھمکی دی ہے ۔ایس جے شنکر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف اسی صورت میں حل ہو سکتا ہے جب ہم اپنا مسروقہ حصہ یعنی آزادکشمیر پاکستان سے واپس لیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیر پر ہم نے اچھا کام کیا جن میں سب سے اہم کام آرٹیکل 370کا خاتمہ ہے ۔برسوں کے حل طلب مسائل حل کیے ۔معاشی اور ترقیاتی سرگرمیاں بحال کیںاور سماجی انصاف قائم کیا جبکہ رائے دہی کے تناسب سے انتخابات کا انعقاد اس سمت کا تیسرا اہم قدم ہے۔


میرے خیال میں اب ہم جس بات کا انتظار کررہے ہیں وہ کشمیر کے مسروقہ حصے کی واپسی ہے۔جو پاکستان کے غیر قانونی قبضے میں ہے جب یہ ہوجائے گا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا۔پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے جے شنکر کے ان ریمارکس کو مسترد کیا اور کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد سے ہی ممکن ہے۔لندن کا Chatham House London) ایک ایسا ادارہ ہے جو مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے مباحثے بھی منعقد کرواتا رہا ہے اور کشمیریوں کی رائے معلوم کرنے کے لئے سروے بھی کرواتا رہا ہے ۔جس پر اکثر بھارت کی طرف سے اعتراض اُٹھایا جاتا رہا ہے ۔اب اسی ادارے میں بھارتی وزیر خارجہ مسئلہ کشمیر کے حل کی ایک نئی اور من پسند تشریح کرکے حقیقت میں اس ادارے کے ماضی کے کام کی نفی کر رہے تھے اور بین السطور یہ پیغام بھی دیا جا رہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے معقولیت پر مبنی حل کے معاملے پرChatham House London) سمیت تمام مغربی اداروں کا ماضی کام اب بے سود ہو کر رہ گیا ہے۔یہ پاکستان سے زیادہ حقیقت میںا سی ادارے کو پیغام تھا جو برسوں تک مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔ایس جے شنکر کے اس موقف کو عمرعبداللہ نے ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ آزادکشمیر اگر آپ لے سکتے ہیں تو لیں کس نے آپ کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں ۔کرگل کی جنگ ایسا کرنے کا اچھا موقع تھا جب پاکستان نے حملہ کیا تھا مگر اس وقت آپ یہ حصہ واپس نہ لے سکے ۔

عمر عبداللہ نے بھارتی حکام پر طنز کے تیر چلاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے کشمیر کوحاصل کرنے کے دعوے کرتے ہوئے یہ حقیقت کیوں نظر انداز کی جاتی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کا ایک حصہ چین کے پاس بھی ہے مگر اس کو واپس لینے کی بات نہیں کی جاتی ۔عمر عبداللہ نے کہا لگے ہاتھوں چین کا حصہ بھی واپس لے لیجئے گا۔چین کی لائن آف ایکچوئل کنٹرول پرسرگرمیاں اور پیش قدمی مودی حکومت کی چھیڑ بن چکی ہے۔کانگریس کے ساتھ ساتھ کشمیری قیادت بھی مودی حکومت کے اس دہرے میعار کو ہدف تنقید بناتی رہی ہے ۔یہاںتک کہ بھارت کے مسلمان رہنما اسد الدین اویسی بھی متعدد بار یہ کہہ کر نریندرمودی پرطنز کرچکے ہیں کہ پاکستان کو سرخ آنکھ اور چھپن انچ چوڑا سینہ دکھانے والے نریندرمودی چین کے معاملے میں پرمصلحت کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟مودی حکومت کے کل پرزوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا ۔اب بھارت بار بار آزادکشمیر کو موضوع ِ بحث بنانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ مقبوضہ علاقہ میں اس کی کاروائیاں اور اقدامات کسی بیرونی فورم پر موضوع بحث نہ بننے پائیں ۔
***
جناب سید عارف بہار آزاد کشمیر کے معروف صحافی دانشور اور مصنف ہیں۔کئی پاکستانی اخبارات اور عالمی شہرت یافتہ جرائدمیں لکھتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی ترجمانی کا الحمد للہ پورا حق ادا کر رہے ہیں ۔کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں
