شہید کمانڈر مقبول الہیٰ

شہید شمس الحق

یکم جنوری ۱۹۹۳ء کو مقبول علائی کے دو قریبی ساتھی منصبِ شہادت پر سرفراز ہوئے۔ ان میں سے ایک ان کے سیکرٹری اور کمیونیکیشن کے انچارج انجینئر اظہر صدیقی تھے، سراپا سیماب صفت مجاہد۔ دوسرے ایک کمسن مجاہد فیاض احمد عرف خالد الاسلام تھے۔
خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں۔۔۔ تمغوں کے طلبگاروں میں جناب مقبول علائی کے علاوہ جناب غلام نبی شیخ (ڈاکٹر ترابی) بھی شامل تھے۔ حیرت انگیز طور پر حضور مالک پیش ہونے والوں نے اپنے رستے ہوئے زخم دکھا کر جن ’’سوختہ جانوں‘‘ کیلئے ’’تمغے‘‘ مانگے تھے‘ اُن کو بھی شہادت کے تمغوں سے نواز دیا گیا۔ پہلے شیخ غلام نبی ضلعی کمانڈر راہِ حق میں جاں پیش کرکے سرخرو ہوئے‘ پھر ڈاکٹر ترابی خلعت شہادت سے سرفراز ہوئے اور اب آخر میں ۹؍ اپریل ۱۹۹۳ء کو جمعے کی سعد ساعتوں میں جناب مقبول علائی کے سینے پر بارگاہِ الٰہی میں تمغۂ شہادت سجایا گیا۔علم، حلم، جرأت اور شجاعت اور حریت و حمیت کا پیکر کفایت مقبول علائی مقبوضہ کشمیر میں تحریک جہاد کا اوّلین سالار تھا۔ ۹؍ اپریل کو جب بیروہ کی جامع مسجد میں نماز ادا کرنے گیا تو کسی بدطینت مخبر کی نگاہ پڑگئی۔ آن کی آن میں مسجد کو بھارتی درندوں نے گھر لیا۔ مقبول علائی نے صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے وائرلیس پر بڑے سکون سے مرکز کو اطلاع دی۔ ’’جناب والا! ہم گھیرے میں آچکے ہیں۔ بچ نکلنے کے سارے راستے مسدود ہوچکے ہیں۔ اب صرف ایک راہ ہے۔۔۔۔۔ لڑنے اور جان دینے کی راہ۔‘‘ مرکز کے ساتھی دس کلومیٹر دور ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ دشمن نے کتنے وسیع پیمانے پر گھیرا ڈال رکھا ہے۔ وہ دشمن کی پہلی لائن سے ٹکراتے ہیں اور مقبول شہید اندرونی دائرے کو کاٹ کر باہر نکلنے کی سعی کرتے ہیں لیکن ان کے پاس چند رائونڈ اور چند گنیں۔ اس کے باوجود مجاہد کمانڈر دشمن پر ٹوٹ پڑتا ہے۔
نہتے اور محصور ہونے کے باوجود بھارتی فوج سے مقابلے کے دوران ان مجاہدوں کی یاد تازہ کی جنہوں نے بدر و حنین کے میدانوں میں شجاعت کی داستانیں رقم کی تھیں۔ آخر وہی ہوا جو مطلوب و مقصود تھا۔۔۔۔ شہادت، لیکن شہادت سے قبل درجنوں بھارتی فوجیوں کو واصل جہنم کیا۔ اس معرکے میں ظفر اقبال، عبدالمجید ماگرے، فاروق احمد وانی اور غلام رسول وانی عرف حمزہ نے بھی اپنے بہادر سالار کے ہمراہ شہادت کا جام نوش کیا۔
اس خبر کے پھیلتے ہی ایک کہرام مچ گیا۔ بچے، بوڑھے، جوان حتیٰ کہ عورتیں بھی سڑکوں پر نکل آئیں اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔ کاروباری مراکز بند ہوگئے اور سڑکوں پر ٹریفک رک گئی۔

اُن سے پہلے سینکڑوں ایسے راہ حق کے مسافر شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے لیکن مقبول شہید تحریکِ آزادی کے ایسے سپوت تھے جن کی یاد مجاہدین آزادی کے دل ہمیشہ گرماتی رہے گی۔ تحریک کے لئے نصب العین کی حقانیت اوّل و اہم ہوتی ہے۔ شخصیات کا آنا جانا اتنی اہمیت نہیں رکھتا۔ مقبول علائی شہید کی شہادت بھی تحریک آزادی کے لئے مہمیز کاکام دے گئی اور اس سے جہاد اور آزادی کے کاز کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
مقبول شہید اسلامی فکر اور عمل کا ایک نمونہ تھے۔ اسلام کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ علماء و صلحا کی محفل میں بیٹھنا ان کا معمول تھا۔ آپ کے دیگر ساتھی بھی ان خصوصیات کے مالک تھے۔ مجاہدوں کے اس طرز عمل نے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو اسلامی رنگ میں رنگنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مقبول شہید بڈگام کے ایک گائوں ماچھوہ کے ایک باعزت اورمتوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیاوی جاہ و منصب حاصل کرنے کے بجائے انہوں نے ایک مدرس کے طور پر عملی زندگی کا سلسلہ شروع کیا۔
جماعت کے پلیٹ فارم سے تنظیمی اور تحریکی کاموں میں پورے زور و شور سے حصہ لیتے رہے۔ اس دوران ۱۹۸۷ء کے نام نہاد انتخابات میں انہوں نے مسلم متحدہ محاذ کی کامیابی کے لئے دن رات کام کیا، لیکن وہ اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ ان انتخابات کے ذریعے بھارت صرف من پسند افراد کو کامیاب کرانے کی سازش کرے گا۔ چنانچہ یہی ہوا۔۔۔۔ اس واقعے نے مقبول شہید کے عزم کو مزید پختہ کیا۔ انہوں نے آزادی حاصل کرنے کے لئے پہلی عسکری تنظیم ’’حمزہ گروپ‘‘ قائم کی۔
اس عسکری تنظیم کے لئے پہلے معرکے کے بعد مقبول شہید ضلع اسلام آباد کے ایک گائوں مانچھوہ ہی میں کئی دن تک روپوش رہے۔ ۹۱۔۱۹۹۰ء میں اکثر ان دیہات میں آنا جانا رہتا تھا۔ وہاں کے مرد و زن ان کی شخصیت کے گرویدہ تھے۔ جب ہمارا آزاد کشمیر آنے کا پروگرام بناتو مانچھوہ کے باسیوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مقبول شہید ان کے گائوں تشریف لائیں۔ ان کی اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے مقبول شہید نے گائوں کے افراد سے ملاقات کی اور اُن کی نیک اور پرخلوص دعائیں وصول کیں۔ مقبول شہید تحریک کے ایسے سپاہی تھے جن کا اوڑھنا بچھونا تحریک تھی۔ وہ نمود و نمائش سے دور اور اپنے مقصد سے دلچسپی رکھتے تھے۔ شہید جب آزاد کشمیر سے واپس آئے تو محترم امیر جماعت بھی ان سے ملنے کے لئے بیتاب تھے۔ کئی ہفتے کے بعد ضلع بڈگام کے گائوں غوطہ پورہ میں غلام رسول ڈار کے ہاں دونوں کی ملاقات ہوئی۔ اُس وقت وہاں بڑے رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ موقعے پر جواں سال مجاہد کو دیکھ کر امیر جماعت کی حالت دیدنی تھی۔ اس ملاقات کے فوراً بعد دوبارہ آزاد کشمیر واپسی کا پروگرام بنا۔ وہ اپنے گھر جانے سے بھی گریزاں تھے، لیکن ساتھیوں کے اصرار پر والدین اور بچوں سے ملنے اور چند دن بعد جانے کی حامی بھری۔
اگست ۱۹۸۹ء میں معروف رہنما شبیر احمد شاہ‘ اشرف ڈار شہید کی دعوت پر بڈگام تشریف لائے۔ اس موقعے پر ان کی مقبول شہید سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے شبیر احمد شاہ کو دعوت دی کہ وہ ایک ہی نظم میں اور ایک ہی جھنڈے تلے تحریک آزادی کے لئے جدوجہد میں شریک ہو جائیں۔ جناب شبیر احمد شاہ نے اس دعوت پر لبیک کہا۔ اس موقعے پر شبیر احمد شاہ اور مقبول شہید سمیت دس بارہ افراد کا ایک گروپ تشکیل دیا گیا تاکہ وہ سب مل کر آزاد کشمیر جاسکیں‘ لیکن ایک بدطینت شخص کی وجہ سے یہ پروگرام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ اس شخص نے بلاوجہ تاخیر کی۔ اس وجہ سے ہندواڑہ میں گائیڈ کیپٹن رشید بھی گرفتار ہوا اور شبیر احمد شاہ نے اپنا پروگرام ملتوی کر دیا۔ تاہم مقبول شہید کے عزم میں اس حوصلہ شکن واقعے سے بھی کمی نہ آئی اور وہ حسبِ پروگرام عازم سفر ہوئے۔آزاد کشمیر میں آمد کے بعد انہوں نے جہاد کی ایک اہم ضرورت کی طرف بھرپور توجہ دی۔ بیس کیمپ میں مقیم مختلف جہادی تنظیموں کے مابین تعلقات کشیدہ تھے۔ ان کے تعلقات بہتر کرنے کے لیے شہید نے شب و روز محنت کی اور کئی ماہ تک اس مقصد کے حصول کے لئے اپنی پرخلوص کوششیں جاری رکھیں۔ وہ اس میں خاصی حد تک کامیاب رہے۔ البدر تنظیم کے نام پر مقبول شہید نے ابتدائی جدوجہد کی تھی۔ انہوں نے البدر تنظیم کے تعارف پر ایک طویل خط مقبوضہ کشمیر بھیجا۔ اس کے جواب میں قائد تحریک کی طرف سے چند سطور پر مبنی ایک ’’حکم‘‘ مقبول بھائی کو ملا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ تحریک کو منظم اور جامع خطوط پر استوار کرنے کے لئے ’’حزب المجاہدین‘‘ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے تو شہید نے حزب المجاہدین کی اہمیت کو فوراً محسوس کیا اور کسی لیت و لعل کے بغیر البدر تنظیم کو حزب میں ضم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
مقبوضہ کشمیر میں قیام کے دوران شہید تین چیزیں ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔ ایک قرآن پاک، دوسری کلاشنکوف اور تیسری پاکستان کی بنی ہوئی ایک پتلون اور ایک بیلٹ۔ میں نے پوچھا، آپ ہر وقت اس پتلون کو کیوں پہنے رہتے ہیں تو وہ بولے۔۔۔۔ یہ پاکستان کی بنی ہوئی ہے اورجب تک قابل استعمال رہے گی‘ میں اس کو پہنتا رہوں گا۔ جب اس قابل نہ رہی تو اور دوسری لے آئوں گا۔ یہ پاکستان سے گہری محبت کی ایک مثال تھی۔۔۔۔ وہ پاکستان سے شدید محبت رکھتے تھے۔ اتنی ہی شدید انہیں بھارتی حکمرانوں سے نفرت بھی تھی۔مقبوضہ کشمیر کے ساتھ پاکستانیوں کی عقیدت اورمحبت سے وہ بخوبی واقف تھے۔ اس لئے ان کی جدوجہد کا مقصد یہ تھا کہ کشمیر آزاد ہو اور پاکستان کا اٹوٹ انگ بن جائے‘ پھر عظیم تر پاکستان عالم اسلام کے لئے ایک قلعے کا کام دے۔
مقبول شہید خوش گفتار، نرم مزاج اور ملنسارشخصیت کے مالک تھے۔ کسی محفل میں شریک ہوتے تو اسے اپنے مذاق اور لطائف سے کشت زعفران بنا دیتے، وہ مجاہدین کے مسائل سے بھی بھرپور آگاہی رکھتے تھے۔مقبول شہید بہترین عسکری صلاحیتوں کے مالک تھے۔ دشمن کی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر کامیاب کارروائی حکمت عملی طے کرنا ان کی اہم خصوصیت تھی۔ مجھے آج وہ شب و روز ایک ایک کرکے یاد آرہے ہیں جب حزب کے قائدین کے اہم اجلاس ہوتے تھے تو مقبول شہید خود ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مجاہدین کی کئی کلو میٹر دور تک علاقوں میں ڈیوٹی لگاتے اور پھر مسلسل نقل و حرکت کے ذریعے ان کی نگرانی بھی کرتے تھے۔مقبول شہید کے دیئے ہوئے دو تحفے آج بھی میرے پاس ہیں۔ ایک قطب نما (Compass) اور ایک دوربین (Telescope)۔ ان تحفوں سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ شہید کی بطور مجاہد ترجیحات کیا تھیں۔ وہ چاہتے تھے کہ مجاہد کی سمت درست رہے اور وہ چیزوں کو دور تک دیکھ سکے۔ ان کے یہ تحفے اور ان کا یہ پیغام زندگی کی آخری سانسوں تک میرے ساتھ رہے گا۔میری شہید سے بڑی قربت تھی۔ ہم اکثر تحریکی مسائل پر آپس میں گفت و شنید کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ مقبوضہ کشمیر میں ایسے ہی مسائل پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبدالرشید ترابی تحریک آزادی کی ایک اہم شخصیت ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کو جنگ بندی لائن کے قریب لے جائوں اور ان سے آپ کی ملاقات کرا دوں۔ وہ تحریک جہاد کے بہت بڑے محسن ہیں۔ میں اس وقت تک ترابی صاحب سے نہیں ملاتھا۔ مقبول علائی شہید کے اس طرح تعارف کرانے سے ترابی صاحب سے میرا ملنے کا اشتیاق بڑھ گیا اور آخرکار یہ خواہش بھی پوری ہوئی۔
مقبول علائی کشمیر کے لاکھوں دلوں میں بستا تھا۔ ان کی شہادت کی خبر سن کر جموں و کشمیر کے عوام دل تھام کر رہ گئے۔ ہزاروں دیوانہ وار شہید کی زیارت کرنے کنٹرول روم کی طرف دوڑ پڑے۔۔۔۔ لیکن بھارتی فوجوں نے اپنی درندگی کا ایک اور ثبوت دیا۔ انہوں نے ان سوگواروں کو بھی نہ بخشا اور اندھا دھند فائرنگ کے ذریعے درجنوں بے گناہ افراد کو شہید کر دیا۔ اس کے باوجود مقبول کے چاہنے والوں کا ہجوم کم نہ ہوا۔ راہ حق کے اس مسافر کے جنازے میں شرکت سے روکنے کے لئے کرفیو کا نفاذ کیا گیا، لیکن اس سے بھی شہید کی محبت کم نہ ہوئی۔ بھارتی فوجیوں کے احکامات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پچاس ہزار سے زیادہ افراد نے جنازے میں شرکت کی اور اس رجل عظیم کو سسکیوں اور آہوں کے ساتھ سپردخاک کیا۔
اس موقعے پر بھارتی فوج کی بزدلی کے کئی مناظر دیکھنے میں آئے۔ لالچوک سرینگر کو وسیع پیمانے پر آگ لگا کر سینکڑوں گھر اور دکانیں خاکستر کر دی گئیں۔ اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ گولیاں چلتی رہیں، گھر جلتے رہے، سینے فگار ہوتے رہے، خاک اڑتی رہی۔۔۔۔ لیکن لوگ اپنے عظیم مجاہد سالار کو خراج عقیدت پیش کرنے آگے بڑھتے رہے۔ مانچھوہ کی عیدگاہ تک پہنچنے والے پچاس ہزار افراد ہی جانتے تھے کہ انہوں نے کون کون سی رکاوٹیں عبور کیں۔مقبول شہید کی شہادت نے جہاں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو غم و اندوہ کی وادی میں دھکیلا وہاں ان کے جذبہ جہاد کو بھی زبردست تقویت حاصل ہوئی۔
چنانچہ ’’آپریشن مقبول شہید‘‘ کے تحت ریاست کے طول و عرض میں مختلف کارروائیوں میں درجنوں بھارتی فوجیوں کو واصل جہنم کیا گیا۔ اس دوران قیمتی اسلحہ بھی مجاہدین کے ہاتھ لگا۔ سوپور، بڈگام، ڈوڈہ، سرینگر اور متعدد دوسرے مقامات پر زبردست کاروائیاں ہوئیں۔ سوپور میں آرمی کے ایک کیپٹن سمیت متعدد فوجی جہنم واصل کیے گئے۔ اس طرح شہید نے جس مقصد کے لئے کلاشنکوف اُٹھائی تھی اس کی شہادت کے موقعے پر بھی اس کی تکمیل کی گئی۔ اس کی تیار کردہ فصل اس فصل بہاراں میں لہلہاتی رہی۔ حسن بہار میں شہید نے اپنی جان بھی قربان کر دی اور اپنے مجاہد ساتھیوں کو یہ سبق دیا کہ یہ مقصد جان سے بھی عزیز ہے۔ مقبول شہید نے شمعِ آزادی کو اپنے لہوسے کچھ اور توانا اور کچھ اور روشن کر دیا۔ صبحِ آزادی قریب آرہی ہے اور مقبول شہید اپنا مشن مکمل کرتے ہوئے ہمیں کہہ گیا ہے ۔