اے۔ کے بروہی
شورش کاشمیریؒ ۔۔۔شاید میں نے پہلے بھی آپ کو ایک دفعہ لکھا تھا کہ جس چیز کا نام حق ہے تاریخ میں کب اور کہاں کامیاب ہوا؟
زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب اس پر مصائب بیت گئے اور اسکے داعی باقی نہ رہے تو انکی سرگزشت قلم نے محفوظ کرلی اور ہم نے اس تذکرہ کو تاریخ بنا دیا۔
کیا ہم لوگ “اندھیروں میں چراغ جلانے” کیلئے رہ گئے ہیں اور روشنیاں صرف ان کیلئے ہیں جو اندھیروں میں پیدا ہوئے، اندھیروں میں پروان چڑھے اور جن کا حسب و نسب اندھیروں سے ملتا ہے۔ والسلام “
مولانامودودیؒ :حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئیے کہ وہ بجائے خود حق ہے۔ وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جو سراسر صحیح اور صادق ہیں۔ اگر تمام دنیا حق سے منحرف ہو جائے تب بھی وہ حق ہی ہے، کیونکہ اسکا حق ہونا اس شرط سے مشروط نہیں ہے کہ دنیا اسکو مان لے دنیا کا ماننا یا نہ ماننا سرے سے حق و باطل کا معیار ہے ہی نہیں۔
اگر دنیا حق کو نہیں مانتی تو حق ناکام نہیں ہے بلکہ ناکام وہ دنیا ہے جس نے اسے نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا۔
مصائب حق پر نہیں بلکہ اہل حق پر آتے ہیں۔ لیکن جو لوگ سوچ سمجھ کر کامل قلبی اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کر چکے ہوں کہ انہیں بہرحال “حق” پر ہی قائم رہنا اور اسی کا بول بالا کرنے کیلئے اپنا سرمایہ حیات لگا دینا ہے وہ مصائب میں مبتلاء ضرور ہو سکتے ہیں لیکن وہ کبھی ناکام نہیں ہو سکتے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض انبیاء ایسے گزرے ہیں جنہوں نے ساری عمر “دین حق” کی طرف دعوت دینے میں کھپا دی اور ایک آدمی بھی ان پر ایمان نہیں لایا۔
کیا ہم انہیں ناکام کہہ سکتے ہیں؟ نہیں
ناکام وہ قوم ہوتی ہے جس نے انہیں رد کر دیا اور باطل پرستوں کو اپنا رہنما بنایا۔ “مکاتیب سید مودودیؒ صفحہ 127”
سید مودودی کی رفاقت لے کر آیا ہوں
جب ایک جدید تعلیم یافتہ قانون دان نے سب کو رُلا دیا…
اے۔ کے بروہی!
یہ فلیٹیز ہوٹل کا لان تھا، 1973ء کا سال تھا۔سٹیج پر بس چار ہی شخصیات براجمان تھیں۔ان میں وزیر قانون جناب اے.کے بروہی، دیوبند کے جیّد عالم جناب مولانا محمد چراغ، سرحد کے نامور عالم دین مولانا سیاح الدین کاکاخیل اور جناب سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب تشریف فرما تھے۔یہ تفہیم القرآن کی تکمیل کے موقع پر منعقد کی جانے والی تقریب تھی ۔شدید گرمی کا موسم تھا، منتظمین نے پنکھوں کا انتظام کر رکھا تھا لیکن حبس کی شدت کے آگے وہ پنکھے ناکافی محسوس ہو رہے تھے۔کشادہ شامیانہ بھی تنگی داماں کی شکایت کر رہا تھا۔لوگ شامیانے سے باہر دھوپ میں کھڑے مقررین کی گفتگو سن رہے تھے۔پسینہ ایسے بہہ رہا تھا گویا جسم کی قید سے نکلنے کو بیتاب ہو۔مولانا سیاح الدین کاکاخیل نے نہایت نفاست سے گفتگو فرمائی اور مولانا کی تفسیری خدمات کو سراہا۔پھر دیوبند کے نامور عالم جناب مولانا محمد چراغ کی باری آئی، فرمانے لگے،”میں اپنے پس منظر کے سبب سید مودودی کی تحریک کے خلاف تھا، لیکن پھر ایک خواب نے میری کایا پلٹ دی، دیکھتا ہوں کہ بادشاہی مسجد زمیں بوس ہو چکی ہے اور ایک اکیلا فرد تن تنہا اس کی بنیادوں کو کھڑا کر رہا ہے۔میں اس فرد کے قریب پہنچا تو وہ سید مودودی رحمۃاللہ علیہ تھے۔میں نے ان سے کہا کہ آپ اکیلے کیسے اس مسجد کو مکمل کریں گے۔سید نے جواب دیا کہ میں تعمیر پر معمور کیا گیا ہوں، مجھے اس سے غرض نہیں کہ عمارت کب مکمل ہو گی۔مولانا چراغ کہتے ہیں میں نیند سے بیدار ہوا تو سیدھا سید کے پاس چلا آیا اور تعمیر کے کام میں اپنی خدمات کو وقف کر دیا کہ اب مرتے دم تک یہی تحریک میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔ان کے بعد جناب اے کے بروہی مائیک پر تشریف لائے۔اپنی کتھا کچھ یوں بیان کی۔”حضرات میں ایک بیرونی تعلیم یافتہ قانون دان ہوں۔میں نے قانون کے مضامین کو اس کی جڑوں سے سمجھا ہے۔میں نے سید مودودی کا بیان سنا تھا کہ قرآن کو اسلامی دستور کا حصہ بنایا جائے،میں نے اعلان کیا کہ کوئی قرآن کو قانون کی کتاب ثابت کر دے تو میں اسے 5ہزار روپے انعام دوں گا۔غلام ملک صاحب نے سید کی تحریروں کے ذریعے مجھ پر یہ بات عیاں کر دی کہ دراصل قرآن ہی رہتی دنیا کے لیے حقیقی قانون کی کتاب ہے۔

اے کے بروہی آبدیدہ ہو کر کہنے لگے:
’’مرنے کے بعد خدا مجھ سے پوچھے گا کہ کیا نیک عمل ساتھ لائے ہو تو کہوں گا سید مودودی کی رفاقت لیکر آیا ہوں‘‘۔یہ سن کر مجمع پر بھی رقت طاری ہو گئی۔اسی دوران اچانک سے کچھ بادل نمودار ہوئے اور سورج کو ڈھانپ لیا۔گویا اس پاکیزہ محفل کو ابر رحمت نے ڈھک لیا ہو اور بارش کے کچھ موٹے موٹے قطرے سامعین پر برسے اور پھر بارش تھم گئی۔شامیانے کے باہر والے افراد بارش میں بھیگ گئے۔
اس ہلکی سی رم جھم نے سامعین کو سکون اور اطمینان بخشا اور سید مودودی کی جامع اختتامی گفتگو کے بعد تقریب اختتام پذیر ہو گئی۔