حامد میر
وہ ایک مجاہد بھی تھے ،ایک عالم بھی تھے اور اکانومسٹ بھی تھے
پروفیسر صاحب کے ساتھ میری محبت کی اصل وجہ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اُنکی بھر پور وابستگی تھی
پروفیسر خورشید احمد دشمن سے بھی مہذب لب ولہجہ میں بات کرنے کے قائل تھے
مجھ پر جب بھی مشکل وقت آتا تووہ مجھے دعائیں بھجواتے۔۔میرا کالم اچھا لگتا تو تعریفی پیغام بھیجتے
انہوں نے ضابطہ اخلاق برائے مجاہدین جموں و کشمیر کی روشنی میں ثابت کیا کہ حزب المجاہدین سے وابستہ نوجوان دہشت گرد نہیں بلکہ حریت پسند ہیں
پروفیسر خورشید احمد ہراس دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے جو کشمیر اور فلسطین کیلئے دھڑکتا ہے
یہ نومبر2007ءتھا۔جنرل پرویز مشرف نے دوسری مرتبہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی اور میڈیا پر پابندیاں عائد کردیں۔مجھ پر بھی پابندی عائد ہوگئی ۔ میں نے اس پابندی کے خلاف احتجاج کے طور پر پہلے پریس کلب میں اور پھر سڑکوں پر کیپٹل ٹاک شروع کردیا۔پابندیوں کے اس دور میں جن شخصیات نے میرا حوصلہ بڑھایا اُن میں پروفیسر خورشید احمد سرفہرست تھے۔اُن سے میرا قریبی تعلق 1996ء میں قائم ہوا جب میں روزنامہ پاکستان اسلام آباد کا ایڈیٹر بنا۔1997ء میں اسلام آباد سے روز نامہ اوصاف کا اجراء کیا تو پروفیسر خورشید احمد نے میری بھر پور رہنمائی کی اور تعاون فراہم کیا۔پروفیسر صاحب کے ساتھ میری محبت کی اصل وجہ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اُنکی بھر پور وابستگی تھی ۔جب جنرل مشرف نے مجھ پر پابندی لگائی تو چوکوں اور چوراہوں پر ہونے والے کیپٹل ٹاک میں میرا لہجہ بہت تلخ ہوگیا۔پروفیسر خورشید احمد نے ایک دن پوچھا کہ آپ کا لہجہ اتنا تلخ کیوں ہوگیاہے؟ میں نے اُنہیں قدرے غصے سے بتایا کہ جنرل مشرف سے میری کوئی لڑائی نہیں لیکن جب سے اُس نے سید علی شاہ گیلانی ؒکے ساتھ بدتمیزی کی ہے تومیں نے بھی اُسکا نام عزت سے لینا چھوڑ دیاہے ۔اُنہوں نے میری بات تحمل سے سنی اور پھر بڑی نرمی سے کہا کہ جنرل مشرف اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے ۔

مجھے خوشی ہے کہ آپ گیلانی صاحب کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے ہیں لیکن آپ سخت سے سخت بات متوازن لیجے میں کرنا سیکھیں تاکہ آپ میں اور مشرف میں فرق دنیا کو نظر آئے۔پروفیسر خورشید احمد دشمن سے بھی مہذب لب ولہجہ میں بات کرنے کے قائل تھے۔2014ء میں مجھ پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا تو وہ میرے لیے ایسے فکر مند تھے جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کیلئے فکر مند ہوتاہے۔ مجھ پر جب بھی مشکل وقت آتا تووہ مجھے دعائیں بھجواتے۔اگر بیرون ملک ہوتے تو سلیم منصور خالد کے ذریعہ خبر گیری کرتے رہتے ۔میرا کالم اچھا لگتا تو تعریفی پیغام بھیجتے ۔چند ماہ قبل ایک صاحب نے روزنامہ جنگ میں علامہ اقبال پر بے بنیاد الزامات لگائے تو میں نے جواب میں کالم لکھا ۔پروفیسر خورشید احمد صاحب نے ناصرف کالم کوسراہا بلکہ سلیم منصور خالد صاحب کے ذریعے میرا شکریہ اداکیا۔اُنکی حوصلہ افزائی نے مجھ میں ایسا ولولہ پیدا کیا کہ میں نے اوپر تلے مزید دو کالم علامہ اقبال کے حق میں لکھ ڈالے۔ آخری دنوں میں وہ برطانیہ میں زیر علاج تھے۔سلیم منصورخالد بتاتے ہیں کہ وہ بستر علالت پر آپ کا کالم باقاعدگی سے پڑھتے اور اُنہیں فون کر کے کہتے کہ حامد کا کالم ضرور پڑھو۔جب موقع ملتا توکیپٹل ٹاک بھی دیکھ لیتے۔انہوں نے اپنی آخری کتاب’’یادیں اُن کی ، باتیں ہماری ‘‘بڑے اہتمام سے مجھے بھجوائی۔اس کتاب کا پہلا مضمون مولانا سعدالدینؒ کے بارے میں ہے جن کا تعلق سرینگر تارہ بل سے تھا۔اس کتاب کا ایک اور مضمون حکیم غلام نبیؒ کے بارے ہے جن کا تعلق پلوامہ سے تھا۔اُنہوں نے اپنی اس کتاب میں بتایا کہ ایوب ٹھاکر سے اُن کی پہلی ملاقات 1980ء میں بنگلہ دیش میں ہوئی جب ٹھاکر صاحب اسلامی جمعیت طلبہ مقبوضہ کشمیر کے ناظم اعلیٰ تھے۔پروفیسر خورشید کی دعوت پروہ انگلستان آئے اور وہاں انٹرنیشنل سینٹرفار کشمیر اسٹڈیز قائم کیا۔پروفیسر صاحب نے اس کتاب میں سید علی گیلانی کے ساتھ اپنی تین ملاقاتوں کا ذکر کیا۔ کتاب میں سب سے لمبا مضمون افضل گورو کے بارے میں ہے۔ اُنہوں نے اس مضمون میں افضل گورو کے ساتھ ساتھ مقبول بٹ کابھی ذکر کیا۔


دونوں کے جسد خاکی دہلی کی تہاڑ جیل میں دفن ہیں۔افضل گورو کے متعلق پروفیسر خورشید احمد کے تاثرات پڑھتے ہوئے مجھے اُن کی ایک تحریر یاد آئی جو انہوں نے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کے بارے میں 2017ء میں لکھی تھی۔یہ تحریر جولائی 2017ء میں ترجمان القرآن میں شائع ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا اور پروفیسر خورشید احمد صاحب نے اس اعلان کو سید صلاح الدین کیلئے ایک ’’نادرتحفہ ‘‘قراردیا۔پروفیسر خورشید احمد نے عالمی قوانین کو سامنے رکھ کر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حکم نامے کی دھجیاں بکھیر دیں اور ایک ماہر وکیل کی طرح سید صلاح الدین کا دفاع کیا۔اس تحریر میں انہوں نے ضابطہ اخلاق برائے مجاہدین جموں و کشمیر کی روشنی میں ثابت کیا کہ حزب المجاہدین سے وابستہ نوجوان دہشت گرد نہیں بلکہ حریت پسند ہیں جو غیر مسلموں کی عزت وناموس کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد کشمیر کاز سے اتنے کمٹڈتھے کہ ہروقت الحاق پاکستان کی تلقین کرتے ۔ ایک دفعہ انہوں نے ’’مسئلہ کشمیر کے امکانی حل‘‘کے نام سے ایک کتاب انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے زیر اہتمام شائع کرائی ۔یہ کتاب ارشاد محمود صاحب نے مرتب کی تھی ۔اس کتاب میں خودمختار کشمیر کے حق میں امان اللہ خان اور خودمختار کشمیر کے خلاف شیخ تجمل الاسلام کا مضمون شامل تھا۔ تقسیم کشمیر کے فارمولے پر نذیر احمد شال صاحب اور کشمیر پر اقوام متحدہ کے کردار پر ڈاکٹر ایس ایم قریشی کا مضمون کتاب کا حصہ بنایا گیا۔ پروفیسر خورشید احمد ہرقیمت پر جموں وکشمیر کی آزادی چاہتے تھے خواہ یہ آزادی کسی بھی راستے سے ملے۔

پروفیسر خورشید احمد تمام عمر کشمیر کے ساتھ ساتھ فلسطین کی تحریک آزادی کیلئے بھی کام کرتے رہے۔اُنکی آخری کتاب میں حسن البنا سے محمد قطب اور محمد مرسی سے یوسف القرضاوی تک عالم اسلام کے ایسے اہم رہنمائوں کا ذکر ملتا ہے جو فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت پر یقین رکھتے تھے۔فلسطینی عالم دین اسماعیل راجی الفاروقی کے ساتھ اُن کے لگائو کی وجہ الفاروقی کی پاکستان سے محبت اور بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینا تھا۔ پروفیسر خورشید احمد ایک طرف کشمیر اور فلسطین کی آزادی چاہتے تھے تو دوسری طرف دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے مختلف مذاہب کے مکالمے پر بھی یقین رکھتے تھے۔ وہ ایک مجاہد بھی تھے ،ایک عالم بھی تھے اور اکانومسٹ بھی تھے۔پروفیسر خورشید احمد ہراس دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے جو کشمیر اور فلسطین کیلئے دھڑکتا ہے۔وہ مظلوموں کے ساتھی تھے اور مظلوموں کی دعائوں میں ہمیشہ مسکراتے رہیں گے۔ مجھے امید ہے کہ اُنکی وفات کے بعد ان کے ساتھی ان کی لاتعداد بکھری ہوئی تحریروں کو موضوعات کے مطابق یکجا کرکے نئی کتابوں کی صورت میں ضرور شائع کریں گے اور یہ کتابیں ظالموں کے سرپر ہتھوڑابن کر برستی رہیں گی۔

