افتخار گیلانی
جنگ کا پہلا شہید’’ سچ‘‘ ہوتا ہے
بھارتی میڈیا نے اس ہتھیار کو اس قدر اوچھے طریقے سے استعمال کیا کہ اس کو دیکھ کر ہی گھن آتی ہے
اب اس میڈیا کے ساتھ وابستگی کا حوالہ دینا ہی سبکی جیسا لگتا ہے
زی نیوز نے گرافکس چلائے کہ پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور بھارتی افواج نے بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے
سکرین پر وزیراعظم شہباز شریف کو بنکر میں چھپتے اور بھارتی افواج کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے دکھایا گیا
مودی حکومت کے دور میں بھارت کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ کا پہلا شہید’’ سچ‘‘ ہوتا ہے، کیونکہ گولہ بارود ، ہتھیاروں اور انٹیلی جنس کے علاوہ اطلاعاتی نظام بھی اس کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ مگر بھارتی میڈیا نے اس ہتھیار کو اس قدر اوچھے طریقے سے استعمال کیا کہ اس کو دیکھ کر ہی گھن آتی ہے۔ اطلاعاتی جنگ کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں، جن سے دشمن کو زیر کیا جاسکتا ہے۔ میڈیا پروفیشنلز ان سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ میں پچھلے تیس سالوں سے بھارت کے قومی میڈیا کا ایک حصہ رہاہوں۔ چند سال قبل تک اہم نیوز رومز کے انتظام و انصرام کے علاوہ بطور چیف آف بیورو سینکڑوں رپورٹروں کی نگرانی و رہنمائی کا کام کیا ہے۔ مگر ٹی وی سکرینوں اور میڈیا ویب سائٹس نے اس جنگ کے دوران قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر سفید جھوٹ کے جو دریا بہاکر جنگی جنون برپا کرایا، سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اب اس میڈیا کے ساتھ وابستگی کا حوالہ دینا ہی سبکی جیسا لگتا ہے۔ کیا ان اینکروں اور ایڈیٹروں کو معلوم نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں، جب اطلاعاتی ماحول جغرافیائی سرحدوں اور روایتی میڈیا کے کنٹرول سے آزاد ہوچکا ہے، کیسے ایک سفید جھوٹ کو پروسا جاسکتا ہے۔ایک صحافی کی سب سے اہم متاع اس کی ساکھ ہوتی ہے۔ اگر یہ متاع لٹ جائے تو صحافی کی موت واقع ہوجاتی ہے، گو کہ جسمانی طور پر وہ زندہ ہو۔رپورٹنگ میں غلطیاں تو ہو جاتی ہیں مگر ان کو تسلیم کرکے ان پر شرمندہ ہونا اور اپنے قارئین یا سامعین سے معافی کا خواستگار ہونا ، ایک عظیم صحافی کی نشانیاں ہیں۔ جب ٹی وی اینکر چیخ چیخ کربتا رہے تھے کہ کراچی کو تباہ کردیا گیاہے، بلکہ نقشہ سے ہی غائب ہو گیا ہے تو میں نے پہلے کچھ زیادہ سیریس تو نہیں لیا مگر جب ایک صحافی برکھا دت، جس کو چند احباب معتبر صحافی سمجھتے ہیں، نے ٹویٹ کرکے یہی خبر دی، میں نے اپنے ایک سابق کولیگ، جو اب کراچی شفٹ ہوگئے ہیں، کو فون کیا۔ جب وہ فون ا ٹھا نہیں رہے تھے، تو یقین آگیا کہ شاید کراچی واقعی ختم ہو گیا ہے۔ مگر چند ساعت کے بعد ان کا خود ہی فون آیا اور معذرت کی کہ وہ اس وقت نہاری لینے کیلئے ایک ریسٹورنٹ کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ بھارتی میڈیا کی چند ہیڈلائنز دیکھیں۔ بھارتی بحریہ نے کراچی پورٹ تباہ کر دیا! آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بغاوت کے بعد گرفتار کر لیا گیاہے۔ بھارتی فوج نے اسلام آباد پر حملہ کر دیا اور شہباز شریف کو کسی سیف ہاؤس میں منتقل کر دیا گیا ہے۔زی نیوز نے سنسنی خیزی میں اضافہ کرتے ہوئے اعلان کر دیا:’’اسلام آباد پر قبضہ کر لیا گیا!ــ‘‘ جس وقت یہ خبر چلائی گئی، تو پینل پر موجود ماہرین خوشی سے ڈانس کرنے لگے۔ ’’آج تک‘‘ ٹی وی نے تو حد ہی کر دی ۔کراچی پورٹ پر فرضی حملے کی ویڈیو سٹوڈیو میں ہی تیار کر کے ایسے نشر کی جیسے یہ حقیقی مناظر ہوں۔اس کے انگریزی چینل انڈیا ٹوڈے نے لاہور اور کراچی پر بیک وقت حملے کا دعویٰ کر دیا۔اے بی پی نیوز نے سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یہ دعویٰ کر ڈالاکہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر گرفتار ہو چکے ہیں۔’’ ٹی وی نو‘‘ نے بتایا کہ پاکستان کے 25شہر تباہ کر دئیے گئے ہیں۔ایک اور چینل نے دعویٰ کیا کہ آزاد کشمیر میں فوج گھس گئی ہے اور پینل میں موجود ایک ریٹائرڈ میجر تو خوشی سے چلانے لگا۔ ایک سابق فوجی ہوتے ہوئے اس کو معلوم نہیں تھا کہ بھارت میں سٹرائک کور کو سرحد کی طرف کوچ کرنے کیلئے خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ 2001میں آپریشن پراکرم کے وقت تو دو ہفتے کا وقت لگا تھا۔سبھی سٹرائک کورز اور دفاعی کورز کو تو دوماہ کا وقت لگا تھا۔ انڈیا نیوز نے تو نیا آرمی چیف بھی خود ہی تعینات کر دیا۔زی نیوز نے گرافکس چلائے کہ پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور بھارتی افواج نے بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔اسی پروگرام میں سکرین پر وزیراعظم شہباز شریف کو بنکر میں چھپتے اور بھارتی افواج کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس غلط انفارمیشن کے علاوہ ٹی اینکروں کی گندی زبان اور گالی گلوچ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ایک اینکر نے تو دورہ پر آئے ایرانی وزیر خارجہ کے خلاف نازیبا الفا ظ ادا کیے ۔ جس پر ایرانی سفارت خانہ نے احتجاج بھی درج کر دیا۔ اس طرح ریپبلک ٹی وی پراینکر ایک پاکستانی مہمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے ، ’’جنجوعہ ، تمہاری فوج پٹ گئی۔ تم بھگوڑے ہو۔‘‘ یہی حال دیگر چینلوں پر پاکستانی پینلسٹوں کا ہو رہا تھا۔ یہ پروپیگنڈا کوئی انٹرنیٹ ٹرول نہیں بلکہ قومی سطح کے بڑے میڈیا ادارے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کے کہنے پر پھیلارہے تھے۔ اس قدر پاگل پن، جب بریکنگ خبر دی گئی کہ پاکستان کا جہاز راجستھان میں مار گرایا گیا ہے اور پائلٹ زیر حراست ہے۔ کسی نے بطور مذاق ایک واٹس ایپ گروپ میں لکھا کہ پائلٹ کا نام جہاز الدین ہے۔ اگلے چند منٹ میں نیوز ٹکر ز پر جہازالدین کا نام آنے لگا۔ جو ٹویٹر اکاونٹ یا میڈیا کے ادارے صحیح خبریں نشر کر رہے تھے، ان کو بلاک کردیا گیا۔ دی وائر کی ویب سائٹ بلاک کر دی گئی۔اس سلسلے میںآٹھ ہزارسے زائد اکاونٹس تک رسائی بند کر دی گئی۔ سچ بولنے والوں کو صرف اس لئے چپ کرایا جا رہا تھاتاکہ جھوٹ پھیلانے والی فیکٹریوں کو کہیں سے مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میڈیا کو قوت ضرب یا فورس ملٹی پلیرکے بطور استعمال کرنے کا پہلا تجربہ بھارت میں اکتوبر 1993میں اس وقت کیا گیا ، جب جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ سے وابستہ عسکریت پسندوں کو حضرت بل کی درگاہ سے باہر نکالنے کیلئے فوج نے آپریشن کیا تھا۔ یہ آپریشن 32دن جاری رہا۔ اس دوران سرینگر میں 15ویں کور میں اسو قت کے بریگیڈئیر جنرل اسٹاف ارجن رے نے میڈیا کو آپریشن ایریا تک رسائی دی۔یہ آپریشن تو دو تین دن میں ختم ہو سکتا تھا مگر اس کو طول دیکر میڈیا کو قوت ضرب کا حصہ بنانے کی ریہر سہل کی گئی۔ دہلی سے قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نمائندوں کو لالاکر درگاہ کے اندر موجود عسکریوں کے انٹرویوز تک کرنے دئیے گئے۔ اندر عسکری کمانڈروں کو کھانے بہم کروانے کو بھی میڈیا وار کا حصہ بنایا گیا۔ انہی دنوں فوج نے روزانہ بریفنگ کی روایت بھی شروع کی ۔ یہ تجربہ بعد میں 1999کی کرگل جنگ میں خاصا کام آیا۔ اس وقت ارجن رے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے اور ڈائرکٹر جنرل پبلک انفارمیشن کا محکمہ قائم کرکے ان کو اس کا سربراہ بنادیا گیا۔ وہ انتہائی زیرک، چہرے پر مسکراہٹ سجائے ، میڈیا فرینڈلی جنرل تھے ۔ گو کہ کرگل جنگ کے دوران روزانہ بریفنگ کرنل بکرم سنگھ (جو بعد میں آرمی چیف بن گئے) کرتے تھے، مگر ان کی بریفنگ کا انتظام ، کرگل محاذ پر صحافیوں کو دورے کروانا، بیک گراونڈ بریفنگ کروانا ا رجن رے اور ان کے دست راست کرنل منوندر سنگھ کے سپرد تھا۔ منوندر انڈین ایکسپریس میں دفاع کے بیٹ کے رپورٹر تھے اور انہی دنوں انہوں نے استعفیٰ دیکر ٹیریٹوریل آرمی جوائن کی تھی۔

ایک روز منوندر بطور صحافی ہمارے ساتھ جنگ کور کر رہے تھے، اگلے روز وردی میں بریفنگ کا انتظام کر رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور لفٹیننٹ جنرل عزیز کی ریکارڈ کردہ بات چیت کو عام کروانے کا مشورہ جنرل رے نے ہی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو دیا تھا۔ جسونت سنگھ منوندر کے والد تھے۔ مگر اس پوری سعی کے باوجود کرگل جنگ کے دوران قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا مطمئن نہیں تھے۔ ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر انڈین میڈیا کی ساکھ خاصی نیچے ہے اور اس پر کوئی یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا ہے۔ پرائیوٹ چینلوں کا دور شروع ہو چکا تھا۔ نیوز چینلوں میں اسٹار نیوز اور زی نیوز آن ائیر ہو چکے تھے۔ اسٹار نیوز کے انگریزی شعبہ کو این ڈی ٹی وی مواد اور اینکر فراہم کرتا تھا۔ جنگ کے فوراً بعد مشرا نے این ڈی ٹی وی کے سربراہ پرنائے رائے کو بلا کر ان کو اپنا الگ چینل شروع کرنے کا مشورہ دیا۔ ان دنوں بھارت سے اپ لنکنگ کی اجازت نہیں تھی۔ مشرا نے مداخلت کرواکے اپ لنکنگ کا مسئلہ حل کروادیا۔ این ڈی ٹی وی کے بجٹ کے ایک حصہ کا بار حکومت نے اپنے ذمہ لے لیا۔ طے ہوا کہ این ڈی ٹی وی ایک سینٹر ٹو لیفٹ کی پوزیشن لیکر ٹی وی صحافت میں ایک اعلیٰ معیار قائم کرے۔ حکومت کی کارکردگی کی جتنی بھی تنقید کرنا چاہئے کرسکتا ہے، اس میں حکومت کبھی مداخلت نہیں کریگی، مگر نازک اوقات، خاص طور پر جب کشمیر میں مظاہرے ہورہے ہوں یا ملک حالت جنگ میں ہو، اس وقت حکومت کی مدد کرنے کیلئے ایک ایسا بیانیہ وضع کرے جس کو بین الاقوامی سطح پر قبولیت ہو۔اس لئے جب بھی کشمیر میں عوام سڑکوں پر ہوتے تھے یا پتھر بازی ہوتی تھی، برکھا دت فوراً پہنچ کر اس کا بیانہ وضع کروانے کا کام کرتی تھی۔ لہٰذا جو افراد برکھا دت کو قابل اعتماد اور لبرل صحافی کی حیثیت سے جانتے ہیں ان کو اپنی معلومات درست کرنی چاہئے۔ این ڈی ٹی وی اور اسکے اینکروں نے واقعی اس دوران اپنی کوریج اور حکومت کے ہمہ وقت احتساب کروانے کی وجہ سے ساکھ بنوائی۔ جس کا استعمال نازک اوقات ، خاص طور پر کشمیر میں شورش کو موڑ دینے کیلئے بیشتر اوقات کیا گیا۔ یعنی یہ چینل برجیش مشرا کی توقعات پر بالکل پورا اترا۔ بین الاقوامی سطح پر اس نے بی بی سی، سی این این کی طرح اعتبار قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ 2015کے بعد موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوول کے کہنے پر این ڈی ٹی وی کے فنڈز بند کر دئیے گئے کیونکہ معلوم ہو گیا تھا کہ فنڈز جو انگریزی چینل کیلئے مخصوص تھے ان کو دیگر شعبوں اور نان نیوز اداروں میں استعمال کیا جارہا تھا۔ چونکہ موجودہ حکومت کو ادراک ہوا کہ بھارت اب ایک ہارڈ اور معاشی پاور بن چکا ہے اسلئے بین الاقوامی بیانیہ کیلئے اسکو کسی میڈیا کی سافٹ پاور کی اب ضرورت نہیں رہی۔طے ہوا کہ صرف اسی میڈیا کی سرپرستی کی جائے گی جو بالکل حکومت کی گود میں بیٹھا ہو اور اس کی تعریفوں کے پل بغیر کسی ابہام کے باندھے۔ اطلاعاتی جنگ کا ایک بنیادی پہلو ’’اعتبار‘‘ہوتا ہے۔ یہ اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب غلط معلومات اور گمراہ کن دعوے کے ساتھ کچھ سچائی بھی پروسی جائے۔جس طرح کی کارکردگی اس وقت بھارتی چینلوں نے دکھائی اب کون ان کے بیانیہ پر اعتبار کریگا۔حکومت کی طرف سے بھی کرگل جنگ کے برعکس اس با ر دہلی میں کوئی تفصیلی بریفنگ نہیں دی گئی۔ یہ حال 1999میں پاکستان کا تھا۔لگ رہا تھا کہ اس بار رول تبدیل ہو چکے ہیں۔ جونیئر افسران کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویمکا سنگھ کو میڈیا کو بریفنگ کی ذمہ داری دی گئی۔ اس کے برعکس پاکستان نے ایئر فورس کے تیسرے سینئرترین افسر، ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد کو میڈیا کے سامنے پیش کیا، جنہوں نے نقشے کے ذریعے ایک تفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے صبر و تحمل سے بتایا کہ آپریشن سندور کے آغاز سے قبل ہی پاکستانی فضائیہ نے الیکٹرانک طریقے سے بھارتی طیاروں کی شناخت کرلی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فضائی حکمتِ عملی اب روایتی فضائی جھڑپوں تک محدود نہیں، بلکہ اب وہ ایک کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی پر مبنی ہے۔جن صحافیوں نے کرگل جنگ اور اس کے بعد آپریشن پراکرم کور کیا ہو، ان کو معلوم ہوگا کہ جب اتنی تفصیل سے بریفنگ دی جائے تو میڈیا بھی اسی بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔دونوں موقعوں پر مجھے یاد ہے کہ نئی دہلی میں نہ صرف روزانہ آن ریکارڈ بلکہ اعلیٰ افسران متواتر ایک موقع پر تو خود آرمی چیف کی طرف سے بیک گراونڈ بریفنگ دی گئی تھی۔مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے جنگ اور نیوز کے دہلی کے بیورو چیف عبدالوحید حسینی بھی اس میں شریک ہوتے تھے اور تیکھے سوالات پوچھتے تھے۔ ایڈیٹروں اور دہلی میں مقیم بین الاقوامی میڈیا کے سربراہوں کو خود وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور جسونت سنگھ بھی بسا اوقات بیک گراونڈ بریفنگ کیلئے بلاتے تھے۔ پاکستان نے چونکہ سینئرافسران کو میدان میں اتارا، اس لئے اگلے روز بین الاقوامی اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر پاکستانی موقف چھایا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھارت کی طرف سے کسی سینئرفضائی افسر نے میڈیا سے بات نہیں کی ۔جب اس غلطی کا اندازہ ہوگیا، تب تک دیر ہو چکی تھی۔ تو نتیجہ کیا نکلا؟پاکستانی موقف کو اعتبار حاصل ہوا۔ اب یہ درست ہے یا غلط، یہ ایک الگ بحث ہے۔ مگر جب بھارت کی جانب سے کوئی متبادل بیانیہ ہی موجود نہ تھا تو پھر یک طرفہ کہانی ہی سچ مان لی جاتی ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار اور فورس میگزین کے ایڈیٹر پروین ساہنی کے مطابق پاکستان کی ۔کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی مودی حکومت کے کشمیر میں 5 اگست 2019 کو کئے گئے اقدمات کا شاخسانہ ہے۔ ان کے مطابق اس سیاسی قدم نے چین اور پاکستان کی افواج کو ایک تزویراتی اتحاد میں باندھ دیا۔ پہلے بھی تعاون موجود تھا، مگر اس کے بعد یہ رشتہ کہیں زیادہ گہرا اور ادارہ جاتی ہو گیا۔ صدر شی جن پنگ سمیت تمام اعلیٰ چینی قیادت نے کھلے عام پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کے حق میں بیانات دیے۔ مطلب یہ کہ اگر بھارت کے ساتھ جنگ ہوئی تو چین کی پیپلز لبریشن آرمی براہ راست نہ سہی، پس منظر میں ضرور پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ اس کا اشارہ ہمیں آپریشن سندور میں ملا۔اس وقت بھی پاکستان کے بجائے دراصل چھوٹا چین بھارت کے ساتھ برسرپیکار تھا۔ اب اگر آئندہ کبھی بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑجاتی ہے تو وہ صرف یک محاذی جنگ نہیں ہوگی۔ ساہنی کا کہنا ہے کہ 2019 سے وہ خبر دار کرتے آئے ہیں کہ بھارت کو اب خطرہ صرف پاکستان سے نہیں بلکہ چین اور پاکستان کے مشترکہ فوجی اتحاد سے ہے۔جس میں چینی فوج میدانِ جنگ میں تو نظر نہیں آئے گی، مگر اس کی موجودگی ہر مرحلے پر محسوس کی جائے گی۔ان کے مطابق’’ کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی ‘‘کے چھ بنیادی پہلو ہیں1۔لڑاکا طیارے پاکستان کے موجودہ فرنٹ لائن طیارے، جے10 اور JF17، دونوں چینی ساختہ ہیں۔ 2۔ بی وی آر میزائل PL15، جو بہت دور تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ 3 ۔چین سے حاصل کیا گیا سیٹلائٹ نظام ، چین کے BeiDou نیٹ ورک سے استفادہ، جس میں 44 سیٹلائٹس موجود ہیں، پاکستان کو 24 گھنٹے میدانِ جنگ کی نگرانی اور میزائل ہدف بندی کی سہولت دیتا ہے۔ .4 ایئربورن ارلی وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم (AEWACS) ،پاکستان کے پاس نو نظام موجود ہیں جو دشمن کے اہداف کی شناخت اور نگرانی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں 5الیکٹرانک وار فیئر۔2019کے بالاکوٹ حملے میں پاکستان نے نہ صرف بھارتی کمیونیکیشن جام کیا تھا بلکہ اسے ریکارڈ بھی کیا۔اس بار بھی اورنگزیب نے بھارتی پائلٹوں کی پرواز کے دوران گفتگو کی ایک ویڈیو میڈیا کو سنائی، جس نے اُن کے دعوے کو مزید مستند بنایا اور.6 ڈیٹا لنکنگ تمام یونٹس، چاہے وہ سیٹلائٹ ہوں، زمینی افواج یا فضائی یونٹس، سب ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی وقت میں جڑے ہوتے ہیں۔

پاکستان کے پاسnk-17 نیٹ ورک پہلے سے موجود تھا، جسے اب مزید اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے اہم دو صلاحیتیں ڈیٹا لنکنگ اور الیکٹرانک وار فیئر ہیں، جو پائلٹ کو میدانِ جنگ کا مکمل 360 ڈگری منظر فراہم کراتی ہیں۔ اس نظام کو ’kill chain‘ کہا جاتا ہے—یعنی خبردار ہونا، ہدف تلاش کرنا، اس پر نظر رکھنا، اور پھر اسے مکمل طور پر تباہ کر دینا۔ اگر یہ تمام عناصر مربوط انداز میں کام کریں تو دشمن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔2020 کے بعد سے پاکستانی فضائیہ اور چینی فضائیہ نے اس حکمت عملی پر مشترکہ مشقیں شروع کی ہیں، جنہیںشاہین ایکسرسائزکہا جاتا ہے۔ یہ مشقیں 2012 سے جاری تھیں، لیکن پہلے ان کا محور صرف ڈاگ فائٹ اور الیکٹرانک وار فیئر ہوتا تھا۔ اب توجہ اس بات پر ہے کہ میدانِ جنگ میں کون پہلے kill chain مکمل کرتا ہے۔ اور یہ ہم آہنگی 2019 کے بعد بہت زیادہ مستحکم ہو چکی ہے۔اسی طرح یہ آنے والے خصوصاً کروز میزائل کے سسٹم میں داخل ہوکر اس میں غلط معلومات درج کرواکر اس کو بھٹکاتا ہے۔ جیسا کہ بھارت کا ایک براہموس کروز میزائل اپنے ہدف کے بجائے پاکستان کی سرحد کو کراس کرکے افغانستان کے کسی علاقے میں گرا۔ ساہنی کے مطابق آپریشن سندور مکمل جنگ کے بجائے ایک بحران تھا۔ لیکن بحران اور جنگ کے درمیان قبل از جنگ مرحلہ ہوتا ہے۔ یہاں پاکستان کو برتری حاصل ہوگئی ہے۔ کیونکہ وہ اپنے جغرافیائی خدوخال ہولڈنگ کی وجہ سے سٹرائیک فورسز کو 48 سے 72 گھنٹوں میں متحرک کر سکتا ہے۔ جبکہ بھارتی فوج چونکہ بہت بڑی ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے، اس لیے اس میں وقت لگتا ہے۔ جیسے 2001.2002 میں آپریشن پراکرم کے دوران سٹرائک کور کو متھرا، بھوپال اور آگرہ سے سرحد تک پہنچانے میں دو ہفتے لگے تھے ۔ اگرچہ اب بہتری آئی ہے، مگر پاکستان کے مقابلے میں اب بھی سست ہے۔ مودی حکومت کے11 سالوں میں تین تھرش ہولڈ قائم ہوئے ہیں۔ پہلا قدم تھا 2019 کا بالاکوٹ حملہ—جب پہلی بار بھارتی فضائیہ نے کسی بحران میں کارروائی کی، یہ ایک نئی نظیر تھی ، دوسرا قدم تھا آپریشن سندور—اس بار پاکستان مکمل طور پر تیار تھا، فضائی حملے کا انتظار کر رہا تھا، تیسرا قدم اسی آپریشن کے دوران ڈرون اور میزائلوں کا استعمال، جو اب نہ صرف لائن آف کنٹرول بلکہ بین الاقوامی سرحد پر بھی داغے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بھارتی وزیرِ اعظم کی سربراہی میں ہونے والی سکیورٹی میٹنگ کے بعد یہ اعلان ہوا کہ آئندہ کسی بھی دہشت گرد حملے کو جنگ کا اعلان تصور کیا جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کشمیر یا کسی اور علاقے میں کوئی حملہ ہوتا ہے، تو براہِ راست جنگ ہوسکتی ہے یعنی جنگ کرنے کا تھرش ہولڈ مزید گر گیا ہے۔ یعنی ایک ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جہاں جنگ بندی اور جنگ کرنے میں میں فرق مٹ چکا ہے۔ بھارتی فوج کو ہر وقت جنگی تیاری کی حالت میں رہنا ہوگا۔یعنی مودی حکومت کے دور میں بھارت کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔اب دشمن صرف پاکستان نہیں بلکہ چین اور پاکستان کی متحدہ فوجی قوت ہے۔جنگ کا دہانہ یعنی تھرش ہولڈ نیچے آ چکا ہے۔یعنی دو بلکہ چین سمیت تین جوہری طاقتوں کی حامل قوتوں کے درمیان جنگ آسانی سے چھڑ سکتی ہے۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ کیا واقعی مودی کے اس قدم سے بھارت زیادہ محفوظ ہوگیا ہے اور مسلسل تیاری کی حالت میں رہنے سے فوج کی کیا حالت ہوسکتی ہے؟ کیا اس سے بہتر یہ نہ ہوتا کہ سیاسی مسائل کو باہمی طور پر حل کیاجاتا، تاکہ پوری توجہ معاشی ترقی اور عوام کی بہبود کی طرف دی جاتی۔