مفتی خالدعمران خالد(جامعہ صدیقیہ اسلامیہ راولپنڈی کینٹ)
آپ کے سوالات:مفتی صاحب کے جوابات
سوال:قربانی کس پر واجب ہے۔قربانی کےجانوروں کی عمرکیا ہونی چائیے
جواب قربانی ہرصاحب نصاب بالغ مرد و عورت پر واجب ہے، زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے کم از کم نصاب پر پورا قمری سال یا سال کا اکثر حصہ گزرنا شرط ہے، جبکہ قربانی اور فطرے کے وجوب کے لیے بالترتیب عیدالاضحی اور عیدالفطر کی صبح صادق کو محض کم از کم نصاب کا مالک ہونا کافی ہے، سال گزرنا شرط نہیں ۔ قربانی کے جانوروں کی عمریں حسبِ ذیل ہیں:_بکرا، بکری، دنبہ، بھیڑ ایک سال مکمل ہو جائے اور دوسرے سال میں داخل ہو جائیں۔بیل، گائے، بھینس، بھینسے کی عمر دو سال پوری ہو جائے اور تیسرے سال میں داخل ہو جائیں۔اونٹ، اونٹنی کی عمر پانچ سال پوری ہو جائے اور چھٹے سال میں داخل ہو جائیں، یہاں قمری سال مراد ہے؛البتہ بھیڑ اور دنبہ چھ ماہ کے اگر اتنے فربہ ہوں کہ دیکھنے میں ایک سال کے نظر آئیں توان کی قربانی جائز ہے۔
سوال ۔صاحب نصاب نےجانورخریدا اوروہ بھاگ گیا یاگم ہوگیا تو پھرکیاحکم ہے
جواب:اگر صاحبِ نصاب مال دار شخص نے قربانی کا جانور خریدا اور وہ گم ہو گیا یا قربانی سے پہلے مر گیا یابھاگ گیا تو اس پر لازم ہے کہ دوسرا جانور خرید کر قربانی دے یا قربانی کے جانور میں حصہ ڈالے۔ اگر قربانی سے پہلے گم شدہ جانور مل جائے تو مالدار شخص کو اختیار ہے کہ جس جانور کی چاہے قربانی دے، دونوں کی قربانی لازمی نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ جس جانور کی قیمت زیادہ ہو، اُس کی قربانی کرے۔اگر نادار مسکین شخص نے قربانی کا جانور خریدا اور وہ قربانی سے پہلے گم ہوگیا یا مر گیا، تو اس پر دوسرے جانور کی قربانی لازم نہیں ہے۔ اگر اس نے دوسرا جانور خرید لیا اور پہلا گم شدہ جانور بھی بعد میں مل گیا، تو اس پر دونوں کی قربانی لازم ہو گی،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو اُس پر قربانی واجب نہیں تھی، اُس نے قربانی کی نیت سے جانور خریدکر خود اپنے اوپر واجب کی، اسی طرح دوسرے جانور کا حکم ہے۔
سوال: جانورکےقربانی کےقابل ہونے کی علامت کیا ہیں
جواب:قربانی کے جانوروں کی عمر پورا ہونے کی ظاہری علامت دو دانت کا ہونا ہے، لہٰذا جس جانور کے دو دانت پورے نہیں ہوئے، اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ البتہ جانور گھر کا پلا ہوا ہے یا کسی قابل اعتماد شخص کے پاس ہے اور اس کی مطلوبہ عمر پوری ہو گئی ہے، تو اس کی قربانی شرعاًجائز ہے، خواہ سامنے کے دو دانت ابھی پورے نہ ہوئے ہوں، لیکن بہترہے دوسال مکمل ہوں اور اس کے دانت پورے ہوں عام کاروباری لوگوں پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔
سوال:قربانی کے جانور کے عیوب اوراس کاحکم
جواب: قربانی کا جانور تمام ظاہری عیوب سے سلامت ہونا چاہیے، اس سلسلہ میں فقہائے کرام نے یہ ضابطہ مقرر کیا ہے کہ ہر وہ عیب جو جانور کی کسی منفعت یا جمال کو بالکل ضائع کر دے، اس کی وجہ سے قربانی جائز نہیں ہے اور جو عیب اس سے کم تر درجے کا ہو، اس کی قربانی ہو جاتی ہے۔جو جانور اندھا‘ کانا یا لنگڑا ہو، بہت بیمار اور لاغر، جس کاکوئی کان، دم یا چکتی تہائی سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں، پیدائشی کان نہ ہوں، ناک کٹی ہو، دانت نہ ہوں، بکری کا ایک تھن یا گائے بھینس کے دو تھن خشک ہوں، ان سب جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے، فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ھَتْمَاء یعنی وہ جانور جس کے دانت نہ ہوں، اگر وہ چَر سکتا ہے اور چارا کھا سکتا ہے تو اُس کی قربانی جائز ہے‘‘ ( ج: 5، ص: 298)۔ جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا سینگ اوپر سے ٹوٹا ہوا ہے، کان، چکتی یا دُم ایک تہائی یا اس سے کم کٹے ہوئے ہیں تو ایسے جانوروں کی قربانی جائز ہے ۔جانور میں حسن پیدا کرنے کے لیے اُس کے سینگ سر کے اوپر سے رگڑ دیتے ہیں یا ایسا کیمیکل استعمال کرتے ہیں کہ سینگ کی نشو و نما رُک جاتی ہے، لیکن اس کا اثر دماغ پر مرتّب نہیں ہوتا اور سینگ کی جَڑ بھی اپنی جگہ قائم رہتی ہے، تو ایسے جانور کی قربانی جائز ہے۔۔صاحب نصاب نے عیب دار جانور خریدا یا خریدتے وقت بے عیب تھا، بعد میں عیب پیدا ہو گیا تو ان دونوں صورتوں میں اس کے لیے ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا بے عیب جانور خریدے اور قربانی کرے اور اگر خدانخوستہ ایسا شخص صاحب نصاب نہیں ہے، تو اُس کے لیے اُسی جانور کی قربانی جائز ہے۔
سوال :خصی جانور کی قربانی کرنا۔قربانی کتنے افرادکی طرف سے ہوسکتی ہے
جواب :خصی جانور کی قربانی افضل ہے، کیونکہ اس کا گوشت زیادہ لذیذ ہوتا ہے، اگر گائے کے ساتویں حصے کی قیمت بکری سے زیادہ ہو تو وہ افضل ہے اور اگر قیمتیں برابر ہوں تو بکری کی قربانی افضل ہے، کیونکہ بکری کا گوشت زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔بکرا بکری، بھیڑ دنبے کی قربانی صرف ایک فرد کی طرف سے ہو سکتی ہے، اونٹ‘ گائے وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ سات افراد شریک ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ سب کی نیت عبادت/قربانی کی ہو۔ سات سے کم (مثلاً: چھ، پانچ، چار، تین، دو) افراد بھی ایک گائے کی قربانی میں برابر کے حصے دار ہو سکتے ہیں حتیٰ کہ ایک آدمی بھی پوری گائے کی قربانی کر سکتا ہے، سات حصے داروں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
سوال :حصہ دار کاانتقال ہوجانے کاحکم ۔ قربانی کس پرواجب ہے اگرایک گھر ایک سےزیادہ صاحب نصاب ہوں
جواب :سات افراد نے مل کر قربانی کا جانور خریدا، پھر قربانی سے پہلے ایک حصے دار کا انتقال ہو گیا اگر اُس کے ورثا باہمی رضا مندی سے یا کوئی ایک وارث یا چند ورثا اپنے حصہ وراثت میں سے اجازت دے دیں تو استحساناً اس کی قربانی کی جا سکتی ہے۔ اپنی واجب قربانی ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ توفیق دے تو رسول اکرمﷺ کے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کرنا افضل ہے اور کرنیوالے کو نہ صرف پورا اجر و ثواب ملے گا، بلکہ حضورﷺ کی نسبت سے اس کی قبولیت کا بھی یقین ہے۔شریعت مطہرہ کی رو سے ہر عاقل و بالغ مسلمان مرد و عورت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے اعمال کا جواب دہ ہے، لہٰذا اگر کسی مشترکہ خاندان میں ایک سے زیادہ بالغ افراد صاحب نصاب ہیں تو سب پر فرداً فرداً قربانی واجب ہے، محض ایک کی قربانی سب کے لیے کافی نہیں ہو گی، بلکہ تعین کے بغیر ادا ہی نہیں ہو گی ۔
سوال :قربانی میں عقیقہ کاحصہ ڈالنا۔۔۔قربانی کاجانورحاملہ تھی ۔۔۔کیا اس کی قربانی ہوسکتی
جواب:گائے کی قربانی میں عقیقہ کا حصہ بھی ڈال سکتے ہیں، احناف کے نزدیک بہتر ہے کہ لڑکی کے لیے ایک اور لڑکے کے لیے دو حصے ہوں، اگر دو کی استطاعت نہ ہو تو لڑکے کے لیے ایک حصہ بھی ڈالا جا سکتا ہے، نیز عقیقے کا گوشت والدین اور قریبی رشتے دار بھی کھا سکتے ہیں۔قربانی کے جانور نے ذبح سے پہلے بچہ دے دیا یا ذبح کرنے کے بعد پیٹ سے زندہ بچہ نکلا تو دونوں صورتوں میں یا تو اسے بھی قربان کر دیں یا زندہ صدقہ کر دیں یا فروخت کر کے اس کی قیمت صدقہ کر دیں۔ اگر بچہ مردہ نکلے تو اسے پھینک دیں، قربانی ہر صورت میں صحیح ہے۔
سوال:قربانی کے گوشت کاتقسیم کرناکاطریقہ کیاہے*قربانی کاوقت کب سے کب تک ہے۔عورت کازبیح کاحکم
جواب: افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں: ایک حصہ ذاتی استعمال کے لیے، ایک حصہ اقارب و احباب کے لیے اور ایک حصہ فقرا اور ناداروں پر صرف کیا جائے، سارا گوشت رضائے الٰہی کے لیے مستحقین کو دے دینا عزیمت اور اعلیٰ درجے کی نیکی ہے اور ضرورت مند ہونے کی صورت میں کل یا اکثر گوشت ذاتی استعمال میں لانے کی بھی رخصت و اجازت ہے، لیکن یہ روحِ قربانی کے منافی ہے۔ قربانی کا وقت دس ذی الحجہ کی صبح صادق سے لے کر بارہ ذی الحجہ کے غروبِ آفتاب تک ہے۔ گیارہویں اور بارہویں شب میں بھی قربانی ہو سکتی ہے۔ اہل حدیث آئمہ کے ہاں چار دن ہوسکتی ہے شریعت کے مطابق عورت کا ذبیحہ حلال ہے ۔
سوال:نمازعید سے قبل قربانی کرنا۔قربانی کب کی جاے۔۔۔دیارغیروالوں کی پاکستان میں قربانی
جواب: ایسے دیہات اور قصبات جہاں عید کی نماز پڑھی جاتی ہے، وہاں نمازِ عید سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے اور جہاں نمازِ عید کا اہتمام نہیں ہوتا، وہاں دس ذوالحجہ کو صبح صادق کے بعد جائز ہے۔، وہاں دس ذوالحجہ کو پہلی نمازِ عید کے بعد قربانی کی جائے، تین دن اور دو راتیں ایام قربانی ہیں۔ہمارے بہت سے لوگ مغربی ممالک میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں، وہ اپنی قربانی اپنے آبائی وطن میں کرانے کو ترجیح دیتے ہیں، اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ بعض صورتوں میں اُن ممالک کے قوانین کی وجہ سے قربانی کرنا دشوار ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہاں مستحقین دستیاب نہیں ہیں، لہٰذا وہ کسی رشتہ دار یا دینی مدرسہ یا رفاہی ادارے کو وکیل بنا کر قربانی کی رقم پاکستان بھیج دیتے ہیں تاکہ قربانی مستحقین تک پہنچ جائے۔ اس میں ان امور کا خیال رکھنا ہو گا: جس دن امریکہ یا کینیڈا وغیرہ میں مقیم کسی شخص کی قربانی پاکستان میں کی جا رہی ہے تو ضروری ہے کہ اس دن دونوں ممالک میں قربانی کے ایام ہوں، خواہ وہ یہاں کے اعتبار سے عید کا پہلا دن ہو یا دوسرا یا تیسرا، کیونکہ بعض اوقات امریکہ یا کینیڈا میں عید ایک دن پہلے ہو جاتی ہے۔ البتہ وقت میں ذبح کے مقام کا اعتبار ہو گا۔ جن شہروں یا قصبات میں نمازِ عید ہوتی ہے
سوال :جانورکوزبح کرنا کاطریقہ۔سوال اپنے ہاتھ سے ذبح کرناکیسا ہے
جواب :قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت جانور بائیں پہلو پر قبلہ رو لٹائیں، خود ذبح کریں یا کسی سے ذبح کرائیں، چھری تیز ہو اورکم از کم تین رگیں کٹنی ضروری ہیں، افضل یہ ہے کہ چاروں رگیں کاٹی جائیں، بہتر یہ ہے کہ ایک جانور کے سامنے دوسرا جانور ذبح نہ کریں اور ذبح سے پہلے پانی پلائیں۔اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنا مسنون ہے اور اپنی نگرانی میں ذبح کرنا چاہے۔