تاریخ نویسی اور اس کا تحفظ

شہزاد منیر احمد

اللہ تعالی کی طرف سے انسان سے سوالیہ شکل میں یہ بتانا کہ تم سے پہلے بھی ایک زمانہ گذر چکا ہے جب تیرا ابھی کہیں تذکرہ بھی نہ تھا۔ تاریخ محفوظ رکھنے کی اہمیت بیان کرتا ہے۔ حالیہ واقعات کو اس ارادے سے محفوظ کرنا کہ آئندہ نسلوں کو وہ علم میسر ہو کہ وہ اپنے سیاسی اور ثقافتی۔مسائل کو بآسانی حل کر سکیں،اس علمی عمل کو تاریخ نویسی کہا جاتا ہے۔ تاریخ مختلف زمانوں کے کلچر اور اہم شخصیات اور کرداروں کے بارے جامع اطلاعات دستیاب رکھتی ہے۔مثلادریافتیں۔ زبانیں ،مختلف دھاتوث کا استعمال ، غاروں سے زراعت تک کا سفر ، حساب و کتاب کا علم ، علم فلکیات و کیلنڈرز کا علم ، سائنسی انقلابات، سیاسی انقلابات وغیرہ وغیرہ ۔تاریخ نویسی فروغ علم کا قدیم ترین فن اور ذریعہ ہے۔ لیکن اسے دلپذیر اور معتبر فن کو دلچسپ مسلمانوں نے بنایا ہے۔ اسلام سے پہلے کے واقعات گو کہ بحیثیت تاریخ لکھے گئے لیکن وہ تاریخ کم اور افسانے زیادہ کہے جا سکتے ہیں۔ ان تاریخی واقعات میں نہ تو کوئی دلیل اور نہ ثبوت شامل ہوتا، نہ کوئی ربط ملتاہے اور نہ باقاعدہ تسلسل نظر آتا ہے، بس تفریح طبع کا باعث بننے والے قصے کہانیاں ہوتی ہیں۔ حوادث عالم کو منطقی ترتیب اور تاریخ وار تسلسل کے ساتھ پیش کرنے کا فخر صرف مسلمان مورخوں کو حاصل ہے۔ تاریخ کا ماخذ ’’ علم‘‘ ہے اور حصول علم کے دو مسلمہ وسیلے ہیں ، مشاہدہ اور مطالعہ۔گو کہ سنی سنائی باتیں بھی ایک اعتبار سے علم کا ذریعہ ہوتی ہیں کہ وہ سامع کے علم میں اضافے کا سبب بنتی ہیں لیکن ان کا معتبر ہونا مشکوک بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ ان میں زیب داستان کے لئے بہت کچھ غیر ضروری طور پر شامل کیا گیا ہوتا ہے۔

جب ہم تاریخ نویسی کی بات کرتے ہیں تو تاریخ ساز کرداروں کے ذکر کے بغیر تو بات ادھوری اور کسیلی لگتی ہے۔ تاریخ ساز ہی وہ غیر معمولی کردار ہوتے ہیں جو اپنی اپنی منفرد کارکردگی سے پہچان بناتے اور شہرت پاتے ہیں۔ یہ سچ میں نے بچپن ہی میں سکھ لیا تھا کہ ’’ صرف روزمرہ کے معاملات کو نمٹانے سے نہ تو منفرد شناخت ملتی ہے اور نہ ناموری نصیب ہوتی ‘‘ ۔ ناموری تو تبھی مقدر بن کر کسی کے نام کا حصہ بنتی ہے جب وہ ساتھی انسانوں سے بڑھ کر کوئی غیر معمولی معرکہ سر انجام دے تو، جیسے کارگل کی جنگ میں پاکستانی ، ہندؤ لشکر سے دست بدستہ لڑائی توسب مجاہدین لڑ رہے تھے لیکن دشمن کے مورچے میں زخمی جسم و جان کے ساتھ صرف کیپٹن کرنل شیر خان ہی کودا تھا۔ جس کی بے مثال جرأت و دلیری کا مظاہرہ اور میت دیکھ کر دشمن سکتے میں آ گیا تھا۔ ان کے کمانڈر نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ ایسے بہادر سپاہی کو سلام کرو۔ ہم احترام سے اس بہادر کو اس کی یونٹ میں واپس رخصت کریں گے۔بات مشاہدے اور مطالعہ سے علم و سبق سیکھنے کی ہو رہی ہے تو یہ امر بھی اپنی جگہ لازوال حقیقت ہےایسی سنی سنائی حقیقتوں میں سے ایک کردارپرتگالی بحری قزاق واسکوڈے گاما کا ہے جس نے جنوبی افریقہ کے گرد گھوم کر ہندوستان تک بحری تجارتی راستہ تلاش کیا وہ1524 میں وفات پا گیا۔اگرچہ اس کا سفر فلاح انسانیت نہیں بلکہ تجارت کا فروغ تھا مگر اس کا ہندوستان کو دریافت کر لینا آئیندہ زمانوں کے لئے کئی علمی اور سیاسی دریافتوں کا وسیلہ بن گیا۔اسی طرح ایک اور جینیوا ( اطالیہ) کے باشندے کرسٹوفر کولمبس کا ہے جس نے 1492 میں امریکہ دریافت کیا۔ کچھ مؤرخین کے قریب کولمبس نے امریکہ دریافت نہیں کیا تھا بلکہ اس نے یورپی ممالک کو امریکہ سے متعارف کروایا کیونکہ کولمبس سے پہلے وہاں لوگ رہتے تھے ۔مغربی ممالک کی امریکہ میں منتقلی سے امریکہ کینیڈا اور میکسیکو کی داغ بیل ڈالی ۔ایک اور کردار ابن بطوطہ کی زمینی دریافتوں کا سلسلہ بھی قابل داد و تحسین ہے۔ ابن بطوطہ 24 فروری 1304 کو مراکش میں پیدا ہوا ۔ اس کا اسلامی نام ابو عبداللہ محمد بن بطوطہ تھا۔ اس نے ایک لاکھ 20 ہزار مربع کلومیٹر طویل سفر کیا ۔ اس نے وہ باتیں لوگوں کو بتائیں جو پہلے لوگ نہیں جانتے تھے۔ وہ اسلامی ممالک کے علاؤہ چین اور انڈونیشیا میں بھی پہنچا تھا۔’’ حاتم طائی ‘‘بھی تاریخ کی لازوال شخصیت ہے، جس کی سخاوت و شجاعت کا ڈنکا آج تک بجتا چلا آ رہا ہے ۔میٹرک میں اُردو کی اضافی کتاب میں حاتم طائی کی کہانی پڑھی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے ایک کلاس فیلو نے ٹیچر سے پوچھا تھا کہ’’ حاتم طائی‘‘ عورت تھی یا مرد ۔ تب تک ہمارے ذہن میں یہی فارمولہ طے تھا کہ ہر وہ چیز جس کے آگے ’’ چھوٹی ی ہو، اسے مونث ہی لکھا بولاجاتا ہے‘‘۔ہمارے لیجنڈ مصنف و ادیب محترم منو بھائی اکثر لکھا کرتے تھے کہ ہر کہانی کے پیچھے ایک اور کہانی ہوتی ہے اور وہی اصل کہانی ہوتی ہے۔حاتم طائی کی کہانی کے پیچھے بھی اصل اور قابلِ ذکر و ستائش ایک اور کہانی تھی اور وہ تھا حاتم طائی کا خاندانی پس منظر، بالخصوص اس کی بہادر ماں کی شخصیت ۔ حاتم کا والد تو اس کے بچپن ہی میں فوت ہو گیا تھا ۔ اس کی پرورش اور تربیت اس کی ماں نے بہترین خطوط ، زاویوں اور اخلاقیات پر مشتمل اصولوں پر کی تھی۔حاتم کی ماں دولتمند خاتون تھی اور نہایت فیاض بھی۔ وہ اپنی ہر ملکیتی چیز سخاوت کر دیتی تھی۔ اس کے بھائیوں نے اسے ایک سال تک قید رکھ کر اسے سخاوتی رحجان سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی کہ وہ کہیں مفلسی کا شکار نہ ہوجائے ۔لیکن جب اسے تھوڑا سا مال دے کر آزاد کیا تو ’’بنو ہوازن ‘‘قبیلے کی ایک تنگ دست عورت اس کے پاس فریاد لے کر آئی تو حاتم کی ماں نے اپنا وہ سارا مال اسے دے دیا۔ اور کہا کہ جب سے میں نے بھوکا رہ کر اس کی تکلیف دیکھی ہے اس وقت سے۔میں نے قسم کھا رکھی ہے کہ کسی سائل سے کوئی چیز نہ چھپاوں گی۔ حاتم طائی عربی زبان کا شاعر تھا ، اس نے دو شادیاں کی تھیں جن میں ایک یمن کے بادشاہ کی بیٹی عفرز تھی۔ دونوں بیویوں سے اس کے تین بچے تھے دو بیٹے عبداللہ بن حاتم، عدی بن حاتم اور بیٹی سفانہ حاتم طائی کی سخاوت اور فیاضی کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی۔ بدوی قبائل میں اس مزاج کا ہمدرد شخص عام طور پر نہیں ملتا تھا۔حاتم طائی قبل از اسلام 578 عیسوی میں اس جہان سے رخصت ہو گیا تھا۔ البتہ اس کے بیٹے عدی بن حاتم اور سفانہ بنت حاتم دونوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔حاتم طائی کی بیٹی سفانہ جب قیدیوں میں قید ہو کر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو کر رہائی کی درخواست کرتے ہوئے کہنے لگی میرا باپ قیدیوں کو آزاد کراتا تھا، حقوق کی حفاظت کرتا تھا، مہمان نواز تھا، اور مصیبت زدوں کی پریشانیوں کو دور کرتا تھا ، کھانا کھلاتا تھا۔ اس نے ضرورت مندوں کو کبھی خالی ہاتھ نہیں۔لوٹایا تھا ، تو رسول اللّٰہ نے فرمایا یہ صفات مومن کی ہیں ، تیرا باپ اگر مسلمان ہوتا تو ہم ضرور اس پر رحمت بھیجتے ۔ اپنے مسلمان ساتھیوں سے رسول اللہ نے فرمایا اس عورت کو چھوڑ دو کیونکہ اس کا باپ مکارم اخلاق کو پسند کرتا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ تعلیمات اسلام میں قبول اسلام اور توحید ورسالت کے بعد اول و بہترین عمل خوش اخلاقی ہے۔ (لوگوں کو معاف کرنا )۔

ہابیل و قابیل کے واقعہ سے سبق سیکھیں کہ ہابیل نے جھگڑے میں جان دے دی مگر رد عمل کے طور پر قابیل پر ہاتھ نہیں اٹھایا ۔ وہ جانتا تھا کہ ایک دفعہ اختلاف جھگڑے میں ڈھل جائے تو یہ شیطان کی آنت کی طرح پھیلتا ہے سکڑتا نہیں۔ یہ دانش کی بات ہے ، معاشرتی خوشی کو اصول ہے اسلامی تہذیب کا مضبوط ستون ہے ۔جس پر عمل کرنے والوں کو نہ کوئی غم ہوتا ہے نہ کوئی خوف ۔ایسے ہی تاریخ ساز کرداروں میں سے ایک نام نظام سقہ کا ہے جو 1539 میں اس وقت دنیا کی نظروں میں آیا جب ظہیر الدین بابر کا بیٹا ہمایوں ، کابل کے شیر شاہ سوری سے بنگال و ںہار میں شکست کھا کر جان خلاصی کے لئےو اپس آتے ہوئے دریائے گنگا میں گھوڑے پر سوار ڈوب رہا تھا ۔ نظام سقہ ماچھی وہاں مچھلیاں پکڑ رہا تھا۔ اس نے اپنے بڑے مشکیزے کے ذریعے ہمایوں کو دریاکے اس محفوظ کنارے پہنچا دیا۔ ہمایوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیاکہ جب میں دوبارہ باشاہ ہند بنے گاتو تمہیں ہندوستان کی بادشاہت ایک دن کے لئے دوں گا۔مورخ لکھتا ہے ہمایوں جب دوبارہ تخت نشین ہوا تو اپنے وعدے کےمطابق نظام سقہ کو ایک دن کی بادشاہت دے دی۔ نظام سقہ نے اپنی عقل اور صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے چمڑے کے مشکیزے کے سر کے سائز کے برابر سکہ رائج کر دیا۔ جس سے اس نے بہت زیادہ پیسہ کمایا۔ نظام سقہ نے حکومتتو ایک دن کے لیے سنبھالی مگر دونوںکام غیر معمولی طور کر کر کے تاریخ میں محفوظ ہو گیا۔ پہلا یہ کہ بادشاہ ہمایوں کی زندگی مشکیزے کے ذریعے بچائی ۔دوسرے چمڑے کے یادگاری سکے ایجاد کر دئیے ۔جس تناسب سے کائینات پھیلتی جا رہی ہے، اس سے برتر رفتار سے تحقیق شدہ علم بڑھتا جا رہا ہے ۔ علمی تحقیق و دریافت اور سائنسی ایجادات نے دنیا میں حیران کن ترقی سے انسان کو اچھنبے میں ڈال دیا ہے ۔ گو کہ ایسا ہونا غیر فطری تو نہیں ہے مگر انسانی عقل کی رسائی وہاں تک نہ تھی جہاں وہ اب ایسے نایاب و نامعلوم کارنامے(ایجادات و دریافتیں ) اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ انسان کے تصور تک بھی نہ تھا کہ تغیر اس قدر سریع اور وسیع سطح تک پھیل جائے گا کہ اس پر قابو پانا مشکل ہوتا نظر ائے گا ۔ مشاہدہ میں آنے والے مناظر سے ، ناظر ایک نظریہ قائم کرتا ہے ۔ لیکن جب مناظر بدل دئیے جائیں تو نظریہ بھی اپنا موقف بدل دیتا ہے۔ول ڈیورانٹ ،1905 میں سوشلسٹ انقلاب پر کام کر رہا تھا۔ جنگ عظیم اول کے چھڑنے پر اس کی فکر بدلی تو اس نے دیکھا کہ LUST OF POWER سب سے زیادہ طاقتور عنصر ہے۔ جو آدمی کے ہر طرح کے سیاسی خیالات و تصورات کو کلی طور پر بدل دیتی ہے۔

ول ڈیورانٹ نے لکھا کہ انسان کو اپنی آرزوؤں کی غلامی میں غیر انسانی رویہ اختیار نہیں کرنا چائیے بلکہ انسانیت اور اخلاقیات کے فروغ و تحفظ کے لئیے وقف کر دینا چاہیے۔ کسی بھی قوم کے ترقی یافتہ ہونے اور اپنے معاملات میں خود کفیل ہونے اور محفوظ ریاست بننے کے لئے بڑھے راہنماؤں اور معتبر شخصیات کا ہونا بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی بڑی شخصیات کے نظریہ کا معتبر ہونااور فکر و خیال کا وسیع ہونا لازمی عنصر ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا مقام و نام بغیر وسیع مطالعہ کے ممکن نہیں ہوتا، اس کے لئےکتاب بہترین وسیلہ ہے ۔ کتاب میں رقم شدہ بات پائیدار اور دیر پا ہوتی ہے۔معروف اور بارسوخ فلاسفر Will Durant نے اپنی عالمی سطح پر پسند کی جانے اور شہرت پانے والی کتاب Story of Philosophy گیارہ سال کی مسلسل کوششوں سے مکمل کر کے 1926 میں چھپوائی تھی، جس میں تقریباً 16 سوشل فلاسفرز ،ارسطو Aristotle سے لیکر شوپنہارSchopenhauer تک ان کے فلسفہ حیات پر جامع تحقیق اور تنقید شامل تھی، جسے کتب بینوں اور مطالعہ کے شوقینوں نے بہت پسند کیا ۔مطلب یہ کہ حصول علم اور کتاب لکھنے کے لئیے مطالعہ بہت ضروری ہے۔ول ڈیورانٹ Will Durant نے اپنی کتاب دوسرے فلاسفرز کا حوالہ دیتے لکھا ہے کہ ہم کائنات کو زمانوں اور مختلف ادوار کے واقعات کی رو سے دیکھتے اور سمجھتے ہی ۔لیکن اللہ تعالیٰ ایک زمانے کو دوسرے زمانے اور وقت کو وقت سے تبدیل کرنے کو خدائی نہیں کہتا بلکہ اللّٰہ کے قریب ماضی حال اور مستقبل ، ابتدا سے انتہا تک ازل سے ابد تک ایک ہی جگہ موجود ہیں۔ WILL DURANT نے یہ بہت گہری بات لکھی ہے، جس پر جتنا غور و خوض کیا جائے کم دکھائی دیتا ہے۔یورپی فلاسفرز نے کوئی نئی بات نہیں کی ، ( ان کے لئے نئی ہو سکتی ہے ) کیوںکہ یورپی یہود ونصاریٰ اور دہریہ مزاج لوگوں نے انسان کی ہمیشگی کا تذکرہ پہلی بار سنا ہے ۔ دین اسلام کے پیروکاوں کو تو روز اول سے معلوم ہے کہ انسانی زندگی کے مختلف مراحل ہیں لیکن وہ۔اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق ہونے کے ناطے سے ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی مخلوق ہے۔
علامہ اقبال نے اس نظریہ کو اپنی نظم میں یوں لکھا ہے:-
برتر از اندیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم‌دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی

ہم بات تاریخ کی اہمیت اور تاریخ نویسی پر کر رہے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کن وجوہ و اسباب کی بنا پر ایک قوم ترقی کرتی ہے اور کس قسم کی۔کمزوریوں اور نقائص کے بعد زبوں حالی میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ قرآن کریم میں اسی پس منظر میں اللّٰہ تعالیٰ نے بے شمار تاریخی واقعات کا ذکر فرمایا ہے۔
در اصل کچھ مخصوص گھڑیوں میں دیکھی پڑھی حقیقتیں انسان کے دل و نگاہ میں اس موثر انداز میں اتر جاتی ہیں کہ وہ بغیر کسی حفاظتی اقدام کے دیر تک محفوظ و یاد رہتی ہیں۔ اور پھر وہ تاریخ کا انمٹ حوالہ بن جاتی ہیں۔ تاریخ نویسی میں ابن خلدون کا کوئی ثانی نہیں ملتا۔ ابن خلدون نہ صرف بہت بڑا عالم تھا ، ایک بہت ہی ذہین فقیہہ اور قانون دان تھا۔بلکہ وہ ایک عظیم الشان سیاسی مبصر بھی تھا۔اس کا تعلق تمام سلاطین کے ساتھ تھا اور وہ سب بھی اس کے قدردان تھے ۔ اس نے کئی بار کامیاب سفارت کی خدمات بھی انجام دیں۔مشیر سلطنت بھی رہا اور قاضی بھی ۔ بالآخر وہ سیاسی زندگی سے اگتا گیا ۔سلطان تلمسان کے پاس سے نکل کر قلعہ بن سلامہ پہنچ گیا۔ قلعہ ابن سلامہ ایک صحرائی قلعہ ہے جو شمالی مغربی الجزائر کا شہر ھے۔ 708 عیسوی میں اڈے عربوں نے فتح کر کے مسلم حکومت میں شامل کر لیا ۔ شہر سے دور ایک پہاڑی پر واقعہ ہے۔ ویسے تو اس قلعہ کی کوئی اہمیت نہ تھی اور نہ اج ہی ہے ۔ لیکن اس قلعہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے مورخ ابن خلدون نے یہیں رہ کر اپنی تاریخ لکھی ہے۔یہ واقعہ 775ھجری کا ہے۔ جب کہ ابن خلدون کی عمر 42 سال تھی۔ اسی قلعہ میں بیٹھ کر اس نے تاریخ اور اس کا بے مثال مقدمہ لکھا تھا۔ ابن خلدون قاہرہ میں ،871 ھجری ماہ رمضان ( فروری 1406 عیسوی)میں انتقال کرگئے ۔ اناللہ و انا الیہ راجعون

جناب شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں