محمد احسان مہر
ایران اسرائیل جنگ مستقبل میں کیا رخ اختیار کرتی ہے اور شیطانی طاقتیں گریٹر اسرائیل کے نقشے میں کس طرح کا رنگ بھرتی ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر ہمیں یہ سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔ اسرائیل کی شکل میں جو خطرہ ہزاروں میل دور سے ایران تک آ پہنچا ہے زمین پر کھینچی گئی فقط ایک لکیر ہم سے دوری پر ہے-اسرائیل کا ایران پر حملہ کھلی جارحیت اور بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل کا یہ موقف کہ ایران کی جوہری صلاحیت اس کے وجود لیے خطرہ ہے۔ سراسر جھوٹا اور گمراہ کن پراپیگنڈاہے- اسرائیل کا شیطانی وجود مشرق وسطیٰ کے امن اور پوری انسانیت کے لیے خطرہ ہے۔ ایران نے تو بارہا اس عزم کو دہرایا ہے کہ پر امن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے حصول کے لیے60% یورینیم افزودگی جاری رکھیں گے اور یہ ہمارا حق ہے۔ لیکن اسرائیل جو نہ این۔پی۔ٹی کا رکن ہے نہ کسی جوہری معاہدے کا پابند، عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے اختیارات کا غلط استعمال کر رہا ہے۔ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے اہلکار 15 سے زائد بار ایرانی جوہری تنصیبات کا معائنہ کر چکے ہیں-اور انہوں نے کبھی اس خدشے کا اظہار نہیں کیا کہ ایران ایٹمی صلاحیت کے حصول کے قریب پہنچ چکا ہے۔ امریکہ جس نے چاپان کے شہر ”ہیروشیما ”اور ” ناگا ساکی” پر ایٹم بم گرا کرتاریخ میں پہلی بار انسانیت کی تذلیل کی۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہے۔ایران 42 سال سے امریکی پابندیوں کی زد میں ہے۔ ایسے میں ایران پر حملہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اسلامی دشمن قوتیں اسلامی ممالک کو دفاعی اور معاشی طور پر کمزوردیکھنا چاہتی ہیں- ایران کے جوہری تنازع کو حل کرنے کے لیے (عمان)میں ایران امریکہ مذاکرات کے 5 دور ہو چکے تھے۔ لیکن اسرائیل نے مذاکرات کے چھٹے دور سے پہلے ہی ایران پر حملہ کر کے گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔اسرائیلی حملے کے دوران امریکی صدر ٹرمپ دھمکیوں کے ذریعے ایران کو ایٹمی معاہدے کی طرف آنے کا کہتے رہے اور کہا کہ ایران نے ایٹمی معاہدہ نہ کیا تو تباہ کن حملے ہو گے۔ایک اعلیٰ اسرائیلی عہدیدار نے کہ کہا اگر ایران کا نیوکلیٔر ری ایکٹر تباہ نہ کیا تو آپریشن بے سود ہو گا- پانچ دن کی جنگ کے بعد ایک اور اسرائیلی عہدیدار کہ رہا تھا کہ فوجی حملے سے ایران کو ہرایا نہیں جاسکتاغزہ کے بعد ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کھلی عالمی دہشت گردی روز بین اقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایسے غیر ذمہ دارانہ طرزعمل پر اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو کو جواب دہ ٹھہرائے اور عالمی برادری انسانیت کے ساتھ کھلواڑ میں ملوث عالمی طاقتوں کے چنگل سے اقوام متحدہ جیسے ادارے کو آزاد کرائے۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں مستقل جنگ بندی کی قرار داد کو ویٹو کر کے اپنے مکروہ عزائم کی ہے نقاب کیا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے سعودیہ عرب اور فرانس نے اقوام متحدہ میں17 سے19 جون تک کا نفرنس کا انعقاد کیا تھا- جیسے امریکہ نے خفیہ سفارت کاری کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک پر دباؤ ڈال کر ناکام بنانے کی کوشش کی-جس میں ناکامی پر اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ مل کر پہلے سے پلانٹڈ سازش کے تحت ایران پر حملہ کر دیا- فلسطینی سر زمین پر قبضہ اور غزہ پر حملے کے بعد ایران پر حملہ گریٹر اسرائیل کے منصوبہ کا حصہ ہے۔ امریکہ عالمی تنازعات حل کرنے کے بجائے انسانیت کے دشمنوں اور عالمی دہشت گردوں کے پیچھے کھڑا ہو کراپنے زوال کو دعوت دے رہا ہے۔
نام نہاد جمہوریت کا دعویدار بھارت اور علاقائی امن کے نام پر جارحانہ اقدامات اٹھانے والااسرائیلی دونوں ایک ہی سکے کے دوزخ ہیں۔ دنیا کا امن مسئلہ کشمیر کے حل اور فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط ہے۔ عالمی طاقتیں عالمی دہشت گردوں سے دنیا کی قیادت چھین کر عالمی تنازعات کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں-روس،یوکرین تنازع، پاک بھارت کشیدگی، غزہ میں55 ہزار سے زائد شہادتیں اور ایران اسرائیل جنگ اقوام متحدہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔جرمنی کی سابق وزیر خارجہ اینا لینا بیر بوک نے اقوام متحدہ کی صدر منتخب ہونے کے موقع پر کہا کہ تنازعات کے حل نہ ہونے کی وجہ سے اقوام پر اخلاقی اور مالی بوجھ بڑھ رہا ہے اور تنازعات کا حل نہ ہونا اقوام متحدہ کا مشن نا مکمل ہونے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اب جرأت مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل انتونیو گو تریس نے بھی سلامتی کونسل میں بین الااقوامی قوانین کی پاسداری سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ عالمی تنازعات، عالمی دہشت گردی اور اقوام متحدہ کا مایوس کن کردار یہ وہ تلخ حقائق ہیں جن کی وجہ سے آئندہ چند سالوں میں دنیا کی قیادت کا معاملہ نئے بحران کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔
***
جناب احسان مہر معروف صحافی اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں
