ا۔ل۔م۔ر، یہ کتاب الہٰی کی آیات ہیں، اور جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے، مگر تمہاری قوم کےاکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں۔وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں،پھر وہ اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا، اور اُس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کاپابند بنایا۔ اِس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقتِ مقرر تک کے لیے چل رہی ہے اور اللہ ہی اِس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے، شاید کہ تم اپنے ربّ کی ملاقات کا یقین کرو۔اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیے ہیں۔ اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں، اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے۔ ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیےجو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خِطّے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں۔ انگور کے باغ ہیں،کھیتیاں ہیں، کھجُور کے درخت ہیں جن میں کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دوہرے۔ سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر۔ ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔اب اگر تمہیں تعجّب کرنا ہے تو تعجّب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ”جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سِرے سے پیدا کیے جائیں گے؟“ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ سے کُفر کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ یہ جہنّمی ہیں اورجہنّم میں ہمیشہ رہیں گے۔
(سورۃ الرعد آیت 1 تا 5 )سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تفہیم القرآن
قرض سے اللہ کی پناہ مانگنا
رسول اللہ ﷺ نماز میں دعا کرتے تو یہ بھی کہتے ” اے اللہ ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔“ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ قرض سے اتنی پناہ مانگتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ جب آدمی مقروض ہوتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ۔ اور وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔
(صحیح بخاری)
جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان بھاگتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے (اذان) ہوتی ہے، تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگ نکلتا ہے، جس سے اسے اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ جب ندائے صلٰوۃ اختتام کو پہنچ جاتی ہے، تو پھر وہ لوٹ آتا ہے۔ اس کے بعد جب نماز کے لیے تکبیر کہی جاتی ہے، تو پھر وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے اور جب تکبیر اختتام کو پہنچ جاتی ہے، تو (وہ) نمازی کے دل میں کھٹکا ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر، فلاں واقع یاد کر، جو اس سے پہلے اس کو یاد نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ نمازی کو یہ یاد نہیں رہتا، اس نے کتنی (رکعات) نماز پڑھی ہے۔“
(صحیح بخاری)