کشمیر کا چی گویرا: برہان مظفر وانی

میر عبد الرشید فرقانی

جب بھی دنیا کے مظلوموں کی تاریخ رقم کی جائے گی، چی گویرا کا نام ضرور آئے گا، جس نے ظلم کے خلاف مزاحمت کو رومانویت دی اور محکوم انسانوں کے دلوں میں بغاوت کی شمع روشن کی۔ اسی طرح کشمیر کی سرزمین پر بھی ایک ایسا نوجوان پیدا ہوا جس نے بھارتی ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کو نئی روح بخشی۔ اس نوجوان کا نام برہان مظفر وانی تھا، جو آج کشمیریوں کے دلوں میں “کشمیر کا چی گویرا” بن کر زندہ ہے۔
چی گویرا، ارجنٹینا میں پیدا ہونے والا ڈاکٹر، جب کیوبا کے انقلاب کا حصہ بنا تو اس کی تصویر اور نظریہ عالمی مزاحمت کی علامت بن گئے۔ اُس نے مارکسزم اور طبقاتی انقلاب کا علم اٹھایا، سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، اور اپنے عزم، قربانی اور جرأت سے تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔برہان مظفر وانی نے اسلامی شناخت کے ساتھ بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کی۔ دونوں کا نظریہ الگ ضرور تھا، لیکن ایک قدر مشترک تھی ،ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار۔برہان1994 میں جنوبی کشمیر کے علاقے ترال میں پیدا ہوا۔ اُس کے والد مقامی اسکول کے پرنسپل تھے، جو دیانت، شرافت اور علم دوستی میں پورے علاقے میں معروف تھے۔ برہان کا بچپن بھی ہزاروں کشمیری بچوں جیسا ہی تھا۔ اسکول، کرکٹ، دوستوں کی محفلیں، خواب اور امنگیں۔ لیکن 2010 میں اُس کے بڑے بھائی خالد وانی کو بھارتی فوج نے فرضی مقابلے میں شہید کر دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب برہان کی معصوم آنکھوں نے ظلم کی اصل صورت دیکھ لی۔صرف 15 سال کی عمر میں اُس نے ہتھیار اٹھایا اور حزب المجاہدین میں شامل ہو گیا۔ اُس کے دل میں ایک ہی آگ تھی: اپنے بھائی کا بدلہ، اپنی قوم کی آزادی اور اپنی مٹی کی حرمت کی حفاظت۔

برہان وانی کی جدوجہد کا فکری سرچشمہ سید علی شاہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت تھی۔ گیلانی صاحب کا نعرہ “ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہےـ” نوجوانوں کی روح میں اتر چکا تھا۔ انہوں نے کشمیری تحریک کو واضح نظریاتی سمت دی کہ یہ جدوجہد صرف زمین کے ٹکڑے کیلئے نہیں بلکہ اسلامی تشخص اور حقِ خودارادیت کی تحریک ہے۔ برہان ؒکے ویڈیو پیغامات میں بھی گیلانیؒ صاحب کی فکر کی جھلک نمایاں تھی۔ وہ اُنہیں ملت کا ضمیر کہہ کر پکارتا اور اُن کے صبر، استقامت اور اصولی سیاست کو اپنی مزاحمتی حکمت عملی کا حصہ بنائے ہوئے تھا۔جہاں چی گویرا ریڈیو اور کتابوں کے ذریعے انقلابی پیغام دیتا تھا، وہاں برہان وانی نے سوشل میڈیا کو اپنا مورچہ بنایا۔ اُس نے فیس بک پر ہتھیاروں سمیت اپنی تصاویر لگائیں، نوجوانوں کو مخاطب کیا، اور اُن کے دلوں میں خوف کی جگہ جرأت بھر دی۔ اُس کی تصاویر وادی کے ہر موبائل پر گردش کرنے لگیں۔ کشمیری نوجوان اسے صرف ایک کمانڈر نہیں بلکہ اپنا ہیرو، اپنا خواب، اپنا استعارہ ماننے لگے۔8 جولائی 2016 کو بھارتی فوج نے برہان کو اننت ناگ کے کوکرناگ علاقے میں ایک انکاؤنٹر میں شہید کر دیا۔ اُس کی شہادت کے بعد کشمیر میں جو ردعمل آیا، وہ پچھلی کئی دہائیوں میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ 10 لاکھ سے زائد افراد اُس کے جنازے میں شریک ہوئے۔ پورے کشمیر میں مہینوں کرفیو لگا رہا، پیلٹ گنوں سے ہزاروں نوجوان بینائی سے محروم ہوئے، لیکن تحریک آزادی کو دبایا نہ جا سکا۔اس شہادت پر نہ صرف کشمیر بلکہ پورے برصغیر کے دانشوروں، صحافیوں اور سیاستدانوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ شہید سید علی گیلانیؒ نے فرمایا:”یہ شہادتیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ برہان وانی شہید نے ہمارے نوجوانوں کو پیغام دیا ہے کہ حق کی خاطر جان دینا ہی اصل زندگی ہے”۔معروف مصنفہ ارون دھتی رائے نے کہا کہ “برہان وانی کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ کشمیر میں بھارت ایک فوجی طاقت کے سہارے بیٹھا ہے۔ اگر آج ریفرنڈم ہو تو دس لاکھ فوج کی موجودگی میں بھی کشمیر بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہے گاـ”۔معروف انسانی حقوق کارکن گوتم نولکھا نے بھارتی سرکار کی شدت پسندانہ سوچ کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ـ”برہان وانی کی موت ایک شخص کی موت نہیں، یہ اُس مزاحمت کی علامت کی موت ہے جسے دبایا نہیں جا سکتا۔ بھارت کو کشمیر میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے، ورنہ یہ تحریک مزید شدت اختیار کرے گی ـ”۔اس وقت کے سابق اور آج موجودہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا: ـ”برہان وانی کی موت کے بعد وہ زندہ برہان سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گا۔ اُس کی شہادت نے نوجوانوں میں ہیرو کا درجہ پا لیا ہے ـ”۔امیر حزب المجاہدین اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین احمد نے یقین سے کہا ـ”برہان وانی ؒنے ثابت کیا کہ کشمیر کی تحریک زندہ ہے۔ اُس کی شہادت ہمارے لیے مشعل راہ ہے ـ”۔سینئر صحافی افتخار گیلانی نے لکھا: ـ”برہان وانی نے عسکریت پسندی کو نیا چہرہ دیا۔ اُس نے خوف کی بجائے عزت کا تصور جوڑا، اور یہی ریاست کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ـ”عالمی ایوارڈ یافتہ مصنف و تجزیہ نگار مرزا ولید نے برہان کو چی گویرا قرار دیتے ہوئے کہا ـ”برہان وانیؒ کی شہادت نے ثابت کیا کہ کشمیر کی تحریک زندہ ہے۔ وہ چی گویرا کی طرح ایک نظریہ بن گیا ہے جو مارا نہیں جا سکتا ـ”۔پاکستانی قیادت اور عوام نے بھی شہید برہان کو زبردست خراج عقیدت ادا کیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ میں کہا ـ”برہان وانی ایک نوجوان رہنما تھا جو بھارتی مظالم کے خلاف کشمیریوں کی نئی نسل کی بغاوت کا چہرہ بن گیا۔ اس کی موت نے کشمیر کی تحریک کو نئی جان بخشی ہے ـ”۔سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا:برہان وانیؒ کی شہادت نے دنیا پر واضح کر دیا کہ ـ” کشمیر میں عوام آزادی چاہتے ہیں۔ وہ دہشت گرد نہیں، بلکہ اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے مجاہد ہیں ـ”۔امیر جماعت الدعوۃ حافظ محمد سعید نے کہا ـ”برہان وانیؒ شہید کشمیر کی آزادی کی منزل کو قریب لے آیا ہے۔ اس کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ بھارت کے پاس ظلم کے سوا کچھ نہیں ـ”۔سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ “برہان مظفر وانی ؒنے اپنا خون دے کر کشمیر کی آزادی کی بنیادوں کو اور مضبوط کیا۔ پوری پاکستانی قوم اس شہید کو سلام پیش کرتی ہے ـ”۔

کشمیر کا چی گویرا کیوں؟

✔ چی گویرا نے ظلم کے خلاف مسلح جدوجہد کو جواز دیا، برہان وانی نے بھی یہی پیغام دیا کہ “غلامی میں جینا موت سے بدتر ہے”۔چی گویرا کی تصویر انقلابی رومانس کی علامت بنی، برہان وانی کی مسلح تصاویر کشمیری نوجوانوں کے دلوں کو گرماتی رہیں۔چی گویرا کا فلسفہ عالمی انقلابی ورثہ ہے، برہان وانی کا فلسفہ کشمیری حریت کا امتیاز بن گیا، جس کی فکری بنیاد سید علی گیلانیؒ کی رہنمائی پر قائم تھی۔برہان مظفر وانی کی شہادت کو 9 سال ہونے کو آئے ہیں، وہ چی گویرا کی طرح زندہ ہے، بلکہ چی گویرا سے بڑھ کر کہ اُس کی جدوجہد میں ایمان کی حرارت، شہادت کی تمنا اور شہید سید علی گیلانیؒ کی فکر کی طاقت شامل تھی۔ان کا عملی پیغام یہ ہے اور اس پر عمل کرکے ہی شہید برہان کو عملی معنوں میں بہترین خراج عقیدت ادا کیا جاسکتا ہے۔ “غلامی کی زنجیریں توڑو، کیونکہ عزت کی موت، ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔”