ایران، امریکہ اور اسرائیل

محمد جواد

ایران، امریکہ اور اسرائیل: جنگ کا اختتام، یا نئی شروعات؟

جنگ کے بادل چھٹنے لگے ہیں، مگر سوالات کے بادل ابھی باقی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے افق پر گرجتے میزائل، جلتی عمارتیں اور لرزتی فضائیں اب وقتی طور پر خاموش ہیں، لیکن یہ خاموشی فتح کی ہے یا تھکن کی؟ ایران، اسرائیل اور امریکہ—تینوں اپنی اپنی جگہ کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں، مگر حقیقت کی کھلی آنکھ پوچھتی ہے:کون جیتا؟ اور کون ہارا؟
بنجامن نیتن یاہو کی سیاست ہمیشہ ایک خوف کے گرد گھومتی رہی: ایران کے جوہری ہتھیار۔ 1996ء میں جب وہ پہلی بار اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنے، تب سے وہ امریکہ کو اس بات پر اکساتے رہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر دیا جائے۔ مگر برسوں کی کوششوں کے باوجود کسی امریکی صدر نے یہ انتہائی قدم نہیں اٹھایابلکہ نہ بل کلنٹن، نہ بش، نہ اوباما اور نہ بائیڈن۔پھر آئے ڈونالڈ ٹرمپ۔ ان کا دور، روایات توڑنے اور خطرات مول لینے کا تھا۔ نیتن یاہو سے ان کے ذاتی روابط بھی محض سفارتی نہ تھےبلکہ ان کے یہودی داماد جیرڈ کشنر کا خاندانی تعلق نیتن یاہو سے کاروباری سطح پر جڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، گولان کی پہاڑیوں پر قبضے کو جائز قرار دیا، اور ایران سے 2015ء کا جوہری معاہدہ چاک کر کے پھینک دیا۔
اب، اپنے دوسرے دورِ صدارت کے صرف چار ماہ بعد، ٹرمپ نے نیتن یاہو کے دباؤ میں ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کا حکم دے کر مشرقِ وسطیٰ کی شطرنج کو الٹ کر رکھ دیا۔اگرچہ ٹرمپ نے ایرانی مراکز پر حملہ کر کے نیتن یاہو کا خواب پورا کیا، مگر اس کے بدلے خود اپنی سیاست کو داؤ پر لگا دیا۔ ان کی ریپبلکن پارٹی کے اندر سخت بے چینی پھیل گئی۔ عوامی سروے میں صرف 16 فیصد امریکیوں نے جنگی مداخلت کی حمایت کی، جبکہ پارٹی کارکن “MAGA” کی ٹوپیاں اور شرٹس جلا کر احتجاج کرتے نظر آئے۔ کانگریس کی ان کی قریبی رکن، مارجری ٹیلر گرین، نے کھلے الفاظ میں ٹرمپ پر “سیاسی خیانت” کا الزام لگایا اور کہا:”یہ اسرائیل کی جنگ ہے، امریکہ کی نہیں!”
ایرانی جوابی کارروائی برق رفتاری، منصوبہ بندی اور ٹارگٹڈ حکمت عملی کی اعلیٰ مثال تھی۔ جب تل ابیب، حیفہ، بن گورین ایئرپورٹ اور اسرائیلی انٹیلی جنس کے مراکز پر میزائل برسنے لگے، جب اسرائیلی شہری تہہ خانوں میں پناہ لینے لگے، اور جب آئرن ڈوم بیلسٹک میزائلوں کے سامنے ناکام دکھائی دینے لگا، تو اسرائیلی قیادت کو احساس ہوا کہ وہ جس شکار کو کمزور سمجھ بیٹھے تھے، وہ درحقیقت ایک نیا طوفان ہے۔ایران نے نہ صرف اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا بلکہ دوحہ میں امریکی اڈے پر حملہ کر کے واشنگٹن کو بھی باور کرا دیا کہ ایران صرف نعرے نہیں لگاتابلکہ عمل بھی کرتا ہے۔

13 جون کے اسرائیلی حملے میں ایران کے کئی سائنسدان اور فوجی افسر مارے گئے۔ ابتداء میں دنیا کو لگا کہ ایران سنبھل نہ پائے گا، مگر صرف تین دنوں میں ایران نے جنگ کا رُخ موڑ دیا۔ خبریں آنا شروع ہوچکی تھیں کہ امریکی صدر نے امیرِ قطر سے رابطہ کیا اور ایران کو سیزفائر پر آمادہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ اسرائیل پہلے ہی تیار ہو چکا تھا۔ اب باقاعدہ سیز فائر کا اعلان ہوچکا ہے ۔بلکہ سیزفائر ہو چکا ہے۔ہاں سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کیا یہ محض ایک “وقفہ” ہے یا مستقبل کے کسی بڑے طوفان سے پہلے کی خاموشی؟ یہ سوال ابھی کھلا ہے۔تاہم صدر ٹرمپ کا God Bless You Iran کہنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے ،وہ اس جنگ میں براہ راست پھنسنا نہیں چاہتا۔
نیویارک ٹائمز نے حالیہ رپورٹ میں سوال اٹھایا ہے:Can Iran,srael and the U.S. Now All Claim to Have Won (کیا ایران، اسرائیل اور امریکہ تینوں جیت کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟)
ظاہر ہے، ہر فریق اپنے اپنے بیانیے کو کامیابی کے پردے میں لپیٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ:ایران نے عسکری طور پر ثابت کیا کہ وہ تنہا نہیں، بے بس نہیں، اور محدود نہیں۔
اسرائیل نے وقتی برتری تو حاصل کی تھی ،لیکن وہ اسے برقرار نہیں رکھ سکا، دفاعی کمزوری نے اس کی ساکھ کو زخم د ئیے۔امریکہ ایک ایسی جنگ میں کود پڑا جس کے لیے اس کے عوام، سیاستدان اور حتیٰ کہ افواج بھی ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔سیز فائر ہو چکا ہے۔ مگر مشرقِ وسطیٰ کے افق پر ابھی بھی ایک دھند سی چھائی ہوئی ہے۔ ممکن ہے آئندہ دنوں میں یہ امن کا سورج لے کر آئے۔ اور ممکن ہے یہ کسی نئی جنگ کا پیش خیمہ ہو۔