شہزاد منیر احمد
ایران اسرائیل کے درمیان14 جون 25 سے شروع ہوئی جنگ نے دنیا بھر کو ہراساں کر کے رکھ دیا ہے۔ بادی النظر میں کوئی فوری وجہ اس جنگ کی نظر نہیں آتی سوائے تہذیبی ٹکراؤ اور پرانی چپقلش کے جو صدیوں سے تہذیب یورپ اور عالم مشرق میں چلی آ رہی ہے۔ ظاہر ہے بین الاقوامی ممالک کے سفارتی اور تجارتی تعلقات ہوں یا بین الاقوامی سطح کا سیاسی اتحاد ، یہ سب عارضی ہوتے ہیں۔ لیکن نفرتیں تو مٹائے بھی نہیں مٹتیں۔مثلاََ1947 میں ہندوستان میں تہذیبی، دینی و مذہبی تضاد کی وجہ سے پھیلنے والے مسائل کی بنیاد پر طویل سیاسی اور قانونی جدو جہد کے نتیجے میں بین الاقوامی قوانین کے تابع ایک باقاعدہ معاہدے کے مطابق تقسیم ہوئی اور دو نئی ریاستیں، (بھارت اور پاکستان) وجود میں آئیں ۔ بین الاقوامی اس معاہدے کے مطابق خود مختار ریاست کشمیر کو اپنی مرضی سے اپنے الحاق کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ لیکن ان کو حق خودارادیت سے آج تک محروم رکھا ہوا ہے کہ کشمیری مسلمان قوم ہیں اور حق خودارادیت دینے والے نفرتوں میں ڈھالے ہوئے کہیں یہود و نصارٰی تو کہیں چانکیہ سیاست کے پیروکار۔۔ ہنوز کشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ میں زیر سماعت ہےمگر1948ے Procrastination, ارادی التواء کا شکار ہوتا چلا آ رہا ہے۔ وجہ وہی تہذیبی،حسد ، نفرت اور آمرانہ انداز عدل و انصاف۔ ایران اسرائیل کی حالیہ جنگ کو اصولاًبند بلکہ ختم ہو جانا چاہیے ۔ لیکن حالات و واقعات، متصادم ممالک اور بین الاقوامی طاقتوں کے اکابرین اور سیاسی مدبرین کے بیانات سے لگتا ہے کہ شاید معاملات سدھرنے کی بجائے مزید بگڑ جائیں۔ بالخصوص امریکی رویہ جو بظاہر نہ غیر جانبدارانہ ہے اور نہ مصالحانہ اور ثالثانہ۔اگرچہ امریکہ اپنے ارادوں کو چھپا کر سفارتکاری اور مکاری سے کام لے رہا ہے مگر کئی فورمز پر اس کے دئیے گئے بیانات اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے اختیار کیا گیا موقف و قرائن بتاتے ہیں کہ سب ویسا نہیں جیسا بین الاقوامی سیاسی حلقوں میں دکھائی دیتا ہے۔مثلاََگزشتہ ماہ ، پاک بھارت 4 روزہ جنگ کے بند کرانے کا کریڈٹ امریکی صدر ٹرمپ لیتے ہیں کہ انہوں نے دو ایٹمی ممالک کو جنگی دہانے سے واپس کروا کر دنیا کو تباہی سے بچایا ہے۔ چونکہ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں ۔اس لیے انہوں نے دنیا کو ایٹمی جنگ کی تباہیوں اور بربادیوں سے بچانے کی خاطر فوری مداخلت کر کے جنگ بند کرا دی ۔چلو مان لیا وہ سچ کہتے ہیں ۔ اب ایران اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ کو ختم کرانے کے لئے وہ کیوں آگے اسی جذبہ مفاہمت و ثالثی سے نہیں آ رہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ، دو بڑی طاقتوں کے سربراہان، امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ں کہ ایران ہتھیار ڈال دے ، اور چینی شئ چن پنگ نے کہا ہے کہ دونوں ممالک آپس میں موجودہ کشیدگی کم کریں ۔ چین اور امریکہ کا منصفانہ اور ثالثانہ رویہ ممکن ہے حقیقت بیانی کی بجائے محض سفارتی بیان ہو۔ کیونکہ ادھر دونوں متصادم دھڑوں نے اپنے اپنے موقف پر قائم رہنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

وقائع نگار لکھتے ہیں کہ امریکہ نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے اطلاعات ملنے پر ایران کو دو ماہ کے اندر اندر اپنے پروگرام کو بے خطر بنا لینے کے لئے امریکہ کو یقین دہانی کرانے کی مہلت دی تھی۔
مزید بتایا جاتا ہے کہ 11 جون ہی کو واشنگٹن میں ایک اجلاس میں با خبر امریکی محکمہ انٹیلیجنس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ جس طرح جرمنی کے وائس چانسلر بنے ہٹلر نے دنیا بھر سے یہودیوں کو چن چن کے ختم کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا ، ویسے ہی اب ایران بھی یہودی ریاست اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینے کے لئے ایٹم بم بنا لینے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ گویا امریکہ اور اسرائیل کی نیندیں حرام اور گالف کھیلنا ملتوی کرا دیاہے۔تفصیلات کچھ اس طرح طشت از بام کی گئی ہیں کہ11 جون کو ہی ائی اے ای اے IAEA کے ہیڈ کوارٹرز سے امریکی معاونت سے رپورٹ جاری کروائی گئی کہ ایران ایٹم بم بنانے کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے۔ ( Has crossed the limit ) ۔خوئے بد را بہانہ ہائے بسیار اند ۔ بد نیتی سو بہانے اور جواز تراش لیتی ہے، جیسا عراقی صدر صدام حسین کے معاملے میں بے شمار جھوٹ تراشے گئے، اور۔ بعد میں شرمندگی اٹھائی اور معذرت کرنا پڑی کہ’’ انٹیلیجنس رپورٹس غلط تھیں ‘‘، معذرت سے عراقی تباہی بربادی کا ازالہ تو نہ ہوا۔ Might is right
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ، صدر بائیڈن کے دور میں اپنے انتخابی جلسوں میں یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ دنیا میں جاری جنگوں میں امریکی مداخلت سے ضائع ہونے والے وسائل اور دولت کو جائز اور سود مند نہیں سمجھتا۔ اس لئے وہ انتخاب جیت کر ان جنگوں میں امریکی وسائل اور قوت امریکی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرے گا۔امریکہ میں اشرافیہ مخالف حلقوں کا کہنا ہے کہ ، امریکہ میں تقریبا 6000 امریکی کھرب پتی حکمرانی کرتے ہیں۔ اب ٹرمپ کو وہ وعدہ یاد دلاتے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے۔ ادھر وہ اسرائیل کے ہاتھوں مجبوراً ایران اسرائیل جنگ کو ختم کروانے کی پوزیشن میں بوجوہ نہیں ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کے وعدہ فراموش رویے اور سیاسی دوغلی پالیسیوں کے سب سے بڑے ناقد ، امریکین جرنلسٹس ، بین سٹیو Bannon Steve اور Tucker Karlson ہیں۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو یاد دلاتے ہیں کہ اسے امریکی عوام نے آمریکہ کا دوبارہ صدر منتخب ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ امریکہ کو دوبارہ عظیم ملک بنائیں گے۔ اور خواہ مخواہ کے جنگی جھمیلوں میں نہیں الجھیں گے۔سیاست میں شاید ، صاحب اقتدار کو اپنی بات پر قائم رہنے کے لئیے جھوٹ بھی بولنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی سب کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کرنا پرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسی ہی سچویشن Situation کا سامنا ہے۔ ٹرمپ کو میری دانست میں اسرائیل ڈے ہمدردی تو نہیں لیکن اقتدار میں رہنے کے لئے اور بڑا عالمی لیڈر کہلوانے کے شوق نے اسے اب نئے طرح کی ڈرامے بازی شروع کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مگر یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ یورپی یہود و نصارٰی نے بھی علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ رکھا ہے ’’ تہران ہوگر عالم مشرق کا جینوا ۔۔۔شایدکرہ ارض کی تقدیر بدل جائے‘‘ ۔
یورپ والے خوب سمجھتے ہیں کہ تہران کے جینوا بننے کے لئے عالم مشرق کا متحد ہو کر مغرب کا مقابلہ کرنا لازمی ہے۔ اسی لئے انہوں نے مسلمانوں کو پہلے عربی اور عجمیوں میں بانٹا۔ پھر عربوں کو حجازی اور حبشیوں میں تقسیم کا شوشہ چھوڑ کر انہیں کمزور کیا۔اب یورپی ( بالخصوص امریکہ اور اسرائیل ) ہر گز نہیں چاہیں گے کہ عالم مشرق ( مسلم امہ) پھر سے کسی طرح ، کسی وجہ سے، کسی لیڈر کی کوششوں سے متحد ہو جائے ۔

برطانوی سیکرٹری آف اسٹیٹ جارج کرزن کا جہ تاریخی بیان پڑھ لیں’’ہمیں ہر اُس عنصر کا خاتمہ کرنا ہوگا جو مسلمانوں کے درمیان کسی بھی قسم کی اسلامی یگانگت پیدا کرے۔ چونکہ ہم خلافت کو ختم کرنے میں پہلے ہی کامیاب ہو چکے ہیں، اس لیے اب ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان دوبارہ کبھی کوئی اتحاد نہ جنم لے، چاہے وہ فکری ہو یا ثقافتی۔‘‘
مشہور صحافی بینن سٹیو بنیاد پرست عیسائی ہے۔ اس کے حقیقت پسندانہ صحافیانہ اسلوب کو امریکی شہری پسند کرتے ہیں ۔ پچھلے امریکی صدر کے انتخابات 2016 میں بینن نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اسی لئیے جب ٹرمپ نے اپنے عہدہ صدارت کا حلف اٹھایا تو بینن سٹیو کو اپنا مشیر مقرر کرلیا تھا۔ لیکن دونوں کے متضاد نظریہ سیاست و حکومت کی وجہ سے اصول پرست بینن ،ٹرمپ حکومت سے علیحدہ ہو گیا تھا۔
سیاست، بالخصوص جمہوری سیاست میں تو سفر ہی مفادات کے پہیوں پرطے ہوتا ہے۔ دوسروں کی ایما ءپہ بولنا چلنا ہوتا ہے ۔ یعنی Compromise مک مکا۔اسی لیے سیاسی دوستیوں میں دوام نہیں ہوتا، کبھی اس پارٹی کا گھوڑا تو کبھی دوسری سیاسی جماعت کا خچر۔ ایران میں غیر ملکی باشندوں، یونیورسٹیوں میں طلباء اور کاروباری شخصیات سے بات کرتے ہوئے میڈیا بتا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے حملے سے ایرانی چنداں حیران یا پریشان دکھائی نہیں دیتے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے انہیں معلوم تھا کہ اسرائیل ان پر کسی وقت بھی حملہ کر سکتا ہے۔ بازاروں اور سڑکوں پر رش کم پڑ گیاہے ۔لیکن وہ خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ حکومتی اعلان کے مطابق احتیاط اختیار کرنا ہے ۔
کچھ ریاست کشمیر کے بارے
ریاست کشمیر کا حق خودارادیت کا مقدمہ اقوام متحدہ میں 1948 سے زیر سماعت ہے۔
شروع شروع میں اقوام متحدہ نے دلچسپی لے کر اسے آگے بڑھایا اور پھر نرم پڑ گئے۔ کشمیری سیاسی قیادت کو بدلےہوئے حالات اور بڑی تیزی سے بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی جنگ آزادی ،( حق خودارادیت) کے حصول کے لائحہ عمل میں بڑی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔اگر یورپی سر جوڑکر بیٹھے ہیں تو آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر دونوں حصوں کی قیادت کو بھی سر جوڑ کر بیٹھ جانا چاہیے ۔ بھارت
اور امریکہ کشمیریوں کو کبھی متحد نہیں ہونے دیں گے اور اتفاق و اتحاد کشمیریوں میں نہیں ہوگا، تو جنگ آزادی کا سفر طے نہیں بلکہ طویل تر ہو جائے گا۔
***
جناب شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں
