شیخ عبد المومن
ترجمہ:محمد جواد
ایران اور کشمیر کا رشتہ محض تاریخی یا لسانی نوعیت کا نہیں بلکہ ایک روحانی ربط ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ فارسی زبان نے کشمیر کی تہذیب و ثقافت کو جس طرح سنوارا، اسی انداز میں ایران کے صوفیانہ اور فکری اثرات نے کشمیری اذہان کو روشن کیا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے کشمیر کو بجا طور پر ’’ایرانِ صغیر‘‘ قرار دیا، اور آج بھی کشمیری عوام ایران کو دل سے قریب ترین ملک سمجھتے ہیں۔1979 کا اسلامی انقلاب، امام خمینیؒ کی قیادت میں، نہ صرف ایران بلکہ عالم اسلام کے لیے ایک بیداری کا لمحہ تھا۔ اس انقلاب نے مستضعفین کو آواز دی اور سامراجی قوتوں کو للکارا۔ کشمیر میں اس انقلاب کی بازگشت بھی سنی گئی۔ کشمیری نوجوانوں نے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کے اس ایرانی ماڈل سے تحریک لی۔ یہی وجہ ہے کہ ایران ہمیشہ کشمیری مظلوموں کے حق میں کھڑا نظر آیا، چاہے اقوام متحدہ کے فورمز ہوں یا بین الاقوامی بیانات۔2025 میں اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیا گیا جارحانہ حملہ دراصل اُس صہیونی منصوبے کی ایک کڑی ہے جس کا ہدف پورے خطے کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ ایران کی تنصیبات، فوجی مراکز، اور حتیٰ کہ شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ صہیونی میڈیا نے اس حملے کو ’’دفاعی کارروائی ‘‘قرار دیا، لیکن حقیقت میں یہ ایک اعلانِ جنگ تھا۔ایران نے غیر متوقع طور پر فوری اور شدید ردعمل دیا۔ ایرانی پاسداران انقلاب نے کئی اسرائیلی مراکز کو نشانہ بنایا۔ تہران نے واضح پیغام دیا کہ یہ قوم کسی بھی قیمت پر سرنگوں نہیں ہو گی۔ ایران کی اس مزاحمتی پالیسی نے دنیا بھر کے آزاد پسندوں کے دلوں میں ایک بار پھر امید جگا دی۔



یہ مزاحمت صرف فوجی یا عسکری میدان میں نہیں تھی، بلکہ ایرانی قوم نے بھی اس جنگ میں جس یکجہتی، صبر اور جذبے کا مظاہرہ کیا، وہ اسلامی تاریخ کی یاد تازہ کر گیا۔ سوشل میڈیا پر ایرانی نوجوانوں کی اپیلیں، زخمیوں کے لیے خون دینے والے رضا کار، اور شہیدوں کے جنازوں میں لاکھوں کا ہجوم اس بات کا ثبوت تھا کہ ایران آج بھی زندہ ہے، بیدار ہے، اور جھکنے کو تیار نہیں۔ایرانی استقامت کے برعکس مسلم دنیا کی قیادت اس مرحلے پر بدترین خاموشی کا شکار رہی۔ نہ کسی عرب ملک نے مذمتی بیان دیا، نہ کسی اسلامی اتحاد نے ہنگامی اجلاس بلایا۔ کچھ ممالک نے حتیٰ کہ ایران کی مزاحمت کو ’’خطے کے امن کے لیے خطرہ‘‘ بھی قرار دیا۔ یہ رویہ اس بات کا واضح اعلان تھا کہ مسلم قیادتیں آج بھی سامراجی دباؤ کے سامنے جھکی ہوئی ہیں، اور ان کی پالیسیاں ان کے عوام کی امنگوں کے برعکس ہیں۔
کشمیری عوام اس پوری صورتحال کو محض ایک تماشائی کی نظر سے نہیں دیکھ رہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایران کی کمزوری یا تنہائی کا مطلب صرف تہران کا نقصان نہیں، بلکہ اس کے اثرات سرینگر، غزہ، اور صنعاء تک محسوس کیے جائیں گے۔ کشمیری حلقوں میں یہ احساس گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ اگر ایران کو صہیونی قوتیں کچلنے میں کامیاب ہو گئیں، تو پھر تحریکِ آزادی کشمیر کے لیے بھی عالمی سطح پر ہمدردی کا ایک بڑا دروازہ بند ہو جائے گا۔اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادی جانتے ہیں کہ ایران ہی وہ واحد ملک ہے جو اسرائیل کو اعلانیہ چیلنج کرتا ہے، فلسطین اور مزاحمتی قوتوں کا عملی و نظریاتی پشت پناہ ہے، اور عالمی نظامِ ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔ ایران کو اگر آج تنہا کیا گیا تو کل فلسطین، یمن، لبنان اور کشمیر سب صہیونی شکنجے میں آ سکتے ہیں۔ایران پر حملہ دراصل پوری اُمت پر حملہ ہے۔ اگر امتِ مسلمہ اس مرحلے پر خاموش رہی، تو کل تاریخ اس خاموشی کو بزدلی، مصلحت پرستی اور خودغرضی کے نام سے یاد کرے گی۔ ایران کی مزاحمت محض قومی غیرت کا مظہر نہیں بلکہ ایک نظریاتی دفاع ہے۔۔۔ وہ دفاع جو بیت المقدس، کربلا، اور سرینگر کو آپس میں جوڑتا ہے۔