کشمیر میں بھارتی جمہوریت کی چِتا

سید علی گیلانیؒ ایک دریچے سے اہلکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہ تمھاری جمہوریت کا جنازہ ہے، دنیا تمھاری جمہوریت کی لاش دیکھ رہی ہے

سیدعارف بہار

گزشتہ دہائی میں جب کشمیر میں عوامی مزاحمت کی ایک تحریک چل رہی تھی تو برسوں سے نظر بند کشمیری رہنما سید علی گیلانیؒ کی اپنے گھر میں ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی ۔سید علی گیلانی احتجاجی مظاہرین میں شامل ہونے کے لئے گھر سے نکلنا چاہتے تھے مگر باہر موجود پولیس اہلکاروں نے گیٹ کو تالالگا رکھا تھا اور سید علی گیلانیؒ ایک دریچے سے اہلکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہ تمھاری جمہوریت کا جنازہ ہے، دنیا تمھاری جمہوریت کی لاش دیکھ رہی ہے۔برسوں بعد جب کشمیر میں بظاہر جمہوریت بحال ہو چکی ہے اور کشمیر کی سب سے پرانی جماعت نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ وزیر اعلیٰ منتخب ہو چکے ہیں اور اس بار کے انتخاب میں کشمیری عوام کی رائے کسی حد تک شامل ہے کیونکہ کشمیری عوام نے پانچ اگست 2019کو کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرنے کے ردعمل میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے ہمنوااور پراکسی اتحادیوں کو مسترد کرکے نیشنل کانفرنس کو ایک کشمیری جماعت ہونے کی بنا پر بڑے پیمانے پر ووٹ دئیے ۔یوں عمر عبداللہ کی حکومت پہلی بار کشمیری عوام کی مقبول سوچ کی پیداوار اور آئینہ دار ہے ۔اس کے باوجود عمر عبداللہ بے بسی کی ایک تصویر بن کر رہ گئے ہیں ۔دہلی کے حکمران حسب روایت ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں دوسرے لفظوں میں انہیں کشمیری عوام کی رائے کے احترام میں چنداںدلچسپی نہیں ۔عمر عبداللہ برسرعام اپنی بے اختیاری اور بے بسی کو رونا روتے نظر آتے ہیں ۔یونین ٹیریٹری سے دوبارہ ریاستی درجہ حاصل کرنا تو درکنار وہ پولیس اور بیوروکریسی پر بھی کنٹرول حاصل نہیں کر سکتے ۔طاقت کا محور ومرکز کشمیری عوام کے منتخب نمائندے عمرعبداللہ کی جگہ بدستور دہلی کا مقرر کردہ غیر منتخب لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا ہے ۔

پولیس فورس بیوروکریسی سمت تمام بڑے ادارے اور فیصلے انہی کے کنٹرول میں ہیں اور عمر عبداللہ کا کام فقط کھانے سونے اور گھوم پھر کرتصاویر بنوانے تک محدود ہے ۔یہ حقیقت میں کسی فرد کی نہیں کشمیری عوام کی سوچ اور رائے کی توہین ہے ۔گویاکہ بھارتی حکمران کشمیریوں کی اس اختلافی سوچ کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں کہ انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے میں ایک مقامی جماعت کا انتخاب کیوں کیا ۔اب صورت حال یہ ہے کہ گورنر منوج سنہا ہندو آبادی کی ترجمانی اور سرپرستی کرتے آرہے ہیں اور عمر عبداللہ مسلمانوں کی ترجمانی کررہے ہیں جس کا مقصد ریاست میں جموں اور وادی اور مسلم اور غیر مسلم کی تقسیم کو گہرا کرنا اور اس ریاست کے مزید حصے بخرے کرنے کی بنیاد رکھنا ہے۔ بھارت اس مسئلے کی ایسی مائیکرو مینجمنٹ کر رہا ہے کہ حقیقی مسئلہ کشمیر وادی کے کشمیری سپیکنگ مسلمانوں کا درد سر بن کر رہ جائے وہ اس طویل اور ہمہ جہتی تنازعے سے پہاڑی گوجری اور بکروال کے نام پر مسلمانوں کی نمائندگی اور شراکت مزید کم کرنا چاہتا ہے۔اسی لئے تاریخ میں پہلی بار اب جموں وکشمیر میں یوم شہدئے کشمیر منانا بھی ممنوع قرار پاچکا ہے ۔یہ دن 1931کے ان شہدا کی یاد میں منایا جا تا ہے جو سری نگر سینٹرل جیل کے سامنے ایک مقدمے کی سماعت کے موقع پر اذان دیتے ہوئے شہید کئے گئے تھے ۔اس وقت کشمیر پر جموں سے تعلق رکھنے والے ڈوگرہ ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی اور شہید ہونے والے تمام افراد کا تعلق مسلمان آبادی اور وادیٔ کشمیر سے تھا اس لیے سخت گیر ہندو ذہنیت کو یوم شہدائے کشمیر سے ایک خوف سا محسوس ہوتا ہے ۔پانچ اگست کے بعد جب طاقت اور فیصلہ سازی کے مراکز اور سوچ کے انداز اورزاویے یکسر تبدیل ہوچکے ہیں یوم شہدا ئے کشمیر منانے پر عملی طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔اس کا آغاز اس دن کی تعطیل کی منسوخی سے ہوا تھا جس کے بعد لوگوں نے ذاتی حیثیت میں مزار شہدا پر جاکر ان کی یاد منانے کی کوشش کی مگر یہ کوشش بھی انتہا پسند ذہنیت کو گوار ا نہ ہوئی اور اس ساری سرگرمی کو ممنوع قرار دیا گیا ۔ اس بار عمر عبداللہ کی حکومت نے سرکاری طور پر یوم شہدائے کشمیر منانے کی کوشش کی مگر دہلی کے فیصلہ سازوں نے اس کوشش کو جس بری طرح ناکام بنایا اس سے بھارت کی جمہوریت اور کشمیر میں اس جمہوریت کی حقیقت بھی مذاق بن کر رہ گئی ۔تیرہ جولائی کو سری نگر کے مرکزی علاقے کو ناکوں اور خار دار تاروں سے ڈھانپ دیا گیا اور لوگوں کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کی گئی ۔عمر عبداللہ اور ان کی کابینہ کے ارکان کو گھروں میں نظر بند کیا گیا ۔یہ حقیقت میں کشمیری جذبات اور کشمیریت کا مضحکہ اُڑانے والی بات تھی ۔دوسرے روز عمرعبداللہ نے پھر تیرہ جولائی کے شہدا کے مزاروں پر حاضری دینے کی کوشش کی تو اس سے پھر ناکام بنانے کی کوشش کی گئی یہاں تک عمر عبداللہ ایک رکشہ میں ،ان کی کابینہ کی خاتون رکن سکینہ ایتو سکوٹر پر بیٹھ کر مزار شہدپہنچنا پڑا جہاں پولیس نے انہیں احاطے میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی ۔عمر عبداللہ اور ان کے ساتھ دیواروں اور تاریں پھلانگ کر احاطے میں داخل ہوئے ۔سوشل میڈیا پر دیوار یں پھلانگنے کی یہ وڈیو بھی وائرل ہوئی ۔احاطے میں داخل عمر عبداللہ اور فاروق عبداللہ نے فاتحہ خوانی کی ۔عمر عبداللہ نے ایکس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا جارہا تھا کہ لوگ ان بہادروں کی قبروں پر نہ جا سکیں جنہوں نے کشمیریوں کو آواز دینے اور بااختیار بنانے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ تیرہ جولائی کا قتل عام ہمارے لیے جلیانوالہ باغ کی طرح ہے ۔انہوں نے کہانی کو نیا اور خوش گوار موڑ دینے کے لئے یہ موقف اپنایا کہ جن شہدا نے اپنی جانیں قربان کیں وہ برطانوی بالادستی کے خلاف تھے کیونکہ اس وقت کشمیر پر بالواسطہ طور پر برطانیہ کی ہی بالادستی تھی ۔

یہ سچے ہیرو آج محض اس لئے ولن بنائے جا رہے ہیں کہ یہ مسلمان تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ آج جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا ہے ۔عمر عبداللہ نے اس واقعے پر بھارتی اور کشمیری میڈیاکی خاموشی کو بھی ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ شاید انہیں ملنے والے لفافے ان کی ضمیر سے زیادہ موٹے تھے ۔ عمر عبداللہ کی باتیں اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ یوم شہدا کے موقع پر ہونے والی یہ آنکھ مچولی کشمیریوں کے زخمی اورمضمحل قومی وجود میں ایک اور تیرپیوست کر گئی ہے ۔ مہاراجہ ہری سنگھ اور کانگریس کی قیادت کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہیں تھی اور مہاراجہ کشمیر کا بھارت سے الحاق کرنے کی بجائے اسے خودمختار ریاست کے طور پر بحال رکھنا چاہتا تھا ۔اس کے برعکس مہاراجہ کشمیر کے مسلم لیگی قیادت کے ساتھ خوش گوار تعلقات تھے اور قائد اعظم محمد علی جناح مہاراجہ ہری سنگھ کی کئی مقدمات میں وکالت کرتے رہے تھے اور یہی مہاراجہ ہری سنگھ تھے جن سے بھارتی حکمرانوں نے الحاق کی دستاویز پر دستخط حاصل کرنے کے بعد انہیں مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کیا ۔کانگریس کی قیادت ہم مذہب ہونے کے باوجود مہاراجہ ہری سنگھ کے مسلم لیگی قیادت کے ساتھ تعلقات کے باعث ان سے نفرت کرتی رہی ۔اس کا اندازہ مجھے 2005میں اس وقت ہوا جب ہم جموں سے تعلق رکھنے والے سوشل ایکٹوسٹ اور کانگریس کے حامی اور گاندھین کہلانے والے مسٹر ایس پی ورما کے ساتھ جموں شہر کی سیر کر رہے تھے تو انہوںنے اشارہ کیا وہ سامنے ہری سنگھ کا محل ہے ۔میں نے پوچھا کہ اب اس میں کون رہتا ہے تو مسٹر ورما نے نہایت حقارت کے ساتھ کہا کہ اب یہاںکتے بلیاں پیشاب کرتے ہیں۔ مہاراجہ سے کانگریس کی نفرت کی ایک اور وجہ پاکستان سے کیا جانے والامعاہدہ قائمہ یعنی Stand still agreementبھی ہے ۔وقت ایسا بدل گیا اب وہی مہاراجہ ہری سنگھ انتہا پسندوں کا ہیرو بن گیا ہے اور وہ مسلمانوں پر توہین مہاراجہ کا قانون لاگو کرنا چاہتے ہیں ۔

جناب سید عارف بہار آزاد کشمیر کے معروف صحافی دانشور اور مصنف ہیں۔کئی پاکستانی اخبارات اور عالمی شہرت یافتہ جرائدمیں لکھتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی ترجمانی کا الحمد للہ پورا حق ادا کر رہے ہیں ۔کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں