موت کے حصار میں زندگی

محمد احسان مہر

تاریخ انسانی میں شاید ہی ایسا کبھی پہلے بھی ہوا ہو کہ آہن و بارود سے تباہ و برباد کرنے کے بعد بھوک اور پیاس سے نڈھال کسی قوم کو غذا کی تلاش میں موت کے حصار میں چھوڑ دیا جائے۔ اسے عالم اسلام کی بے حسی کہہ لیں ،اس کومردہ ضمیری، عالمی استعماری طاقتوں اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مسلط کردہ حکمرانوں کی شکل میں آلہ کار یا پھر یہود و نصاری کے دوست ،اس کے علاوہ انہیں کئی مناسب القابات سے پکارا جا سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عشرت اور فحش کدوںکے رسیاء عالم اسلام کے وسائل کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ تاریخ ظلم وستم اور جبر و قہر کی داستانوں سے بھری پڑی ہے،لیکن جو لعنت فلسطینیوں پر ظلم وستم کرکے اسرائیل نے سمیٹی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
امریکہ کی غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کی آڑ میں اسرائیل غزہ کے ساتھ ساتھ رفح، الشجاعیہ اور الجبالیہ کے رہائشیوں کو بھی بمباری کر کے نقل مکانی کے احکامات جاری کر رہا ہے، غزہ کے شہری بھوک اور پیاس کا سامنا کرنے کی وجہ سے خون کی کمی کا شکار ہیں، ورلڈ فوڈ پروگرام اور الناصر ہسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق بچوں میں وٹامن کی شدید کمی کی علامات پائی جا رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے بچوں کی اموات ہو رہیں ہیں اور سینکڑوں بچے اسی اندیشے کا شکار ہیں، اس وقت غزہ میں امداد کی تقسیم کے دوران نڈھال فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی بمباری معمول بن چکی ہے۔ رہائشی عمارتوں کی تباہی کے بعد فلسطینیوں کو خیموں میں گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔غزہ کی پٹی موت کے حصار کا منظر پیش کر رہی ہے، جہاں کوئی محفوظ نہیں، بچے خواتین، بوڑھے، ڈاکٹر، اساتذہ،صحافی، امدادی کارکن اسرائیلی فوج کی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ امریکا اس امداد کی تقسیم کے نظام کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر فلسطینیوں کی نسل کشی کے نئے طریقے رائج کر رہا ہے، مشرق وسطی میں اسرائیل اور امریکہ کا سفاک اور گھناؤنا کردار عالم اسلام کی بے حسی اور عربوں کی روایتی غیرت و حمیت کے لیے کھلا چیلنج ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ جس طرح غزہ پر قبضہ کے لیے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں اور اس گھناؤنے عمل کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یا ہو کی پیٹھ تھپکا رہے ہیں کہ غزہ پر کنٹرول حاصل کرنا اور اسے قبضہ میں لینا اچھی بات ہے، امریکیوں کے مطابق غزہ کے رہائشیوں کو ہمسائیہ ممالک میںبسانے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ اسرائیل کا شام میں گولان کی پہاڑیوں سے ہی آگے جارحیت کے بعد بھی اب شام کے جنوبی علاقے (سویدا) میں (دوروز) برادری کے تحفظ کے نام پر بمباری مزید اشتعال انگیزی کا باعث بن سکتی ہے۔ اسرائیل ہمسایہ ممالک میں بمباری کر کے ان کی آزادی و خود مختاری کے ساتھ ساتھ بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور صدر ٹرمپ ہمسایہ ممالک میں غزہ کے مسلمانوں کو بسانے کی بات کرتے ہیں۔!!
اسرائیل کا کہنا ہے کہ امریکہ، قطر، اور مصر کی کوششوں سے اگر غزہ میں جنگ بندی ہو جاتی ہے تو اسرائیل غزہ پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت تسلیم کرتے ہوئے غزہ کی سیکیورٹی اپنے پاس رکھے گا۔ کیا حماس اور مزاحمتی گروپ یہ تسلیم کریں گے۔۔۔؟زمینی حقائق اس کی نفی کرتے ہیں، امریکہ اور اسرائیل کی تمام تر سازشوں کے باوجود فلسطینی غزہ خالی نہیں کریں گے۔ اور حماس کو غیر مسلح کرنے کی بات بین الااقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی ہے۔ ایسا کرنا فلسطینیوں کے ہاتھ باندھنے کے مترادف ہے۔اسرائیل تاریخی اور عالمی قوانین کی نظر میں ایک جارح, ظالم اور توسیع پسندانہ عزائم رکھنے کے طور پر ثابت ہو چکا، خلیجی ریاستیں بالخصوص مذاکرات کار ممالک اسرائیل اور حماس کے تنازعہ کی اصل وجہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے متعلق بات کریں، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر، معاملے کو طاقت اور سازش سے دبانے اور عارضی جنگ بندی جیسے اقدامات سے مشرق وسطی میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا-غزہ جیسے موت کے حصار میں ہزاروں فلسطینی شہداء کا خون خواب خرگوش سے امت مسلمہ کو جگانے کا سبب بنے گا یا اسلامی ممالک یہ قابض بے حس و بے ضمیر حکمران معاشی اور اقتصادی مسائل کا نوحہ کرتے رہیں گے؟
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خواروزبوں

جناب احسان مہر معروف صحافی اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں