آپ نے پوچھا ہے

مفتی خالدعمران خالد آپ کےسوالوں کاجواب دیں گے

سوال :قسطوں پرخریدوفروخت کرنےکاحکم کیاہے اورمدت متعین کرنے پر قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر اضافی رقم ادا کرنا ہوتی ہے؟
جواب :قسطوں پر خرید و فروخت کرنے کا حکم اصلاً یہی ہے کہ یہ جائز ہے، جب کہ اس میں کوئی غیر شرعی شرط نہ لگائی جائے، اگر اس معاملہ میں ابتداءً ہی میں کوئی ایسی شرط لگا دی جائے جس کا لگانا شرعاً جائز نہیں ہےتو ایسا معاملہ کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہو گی۔قسطوں پر خرید و فروخت کے صحیح ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا اور اُن کی رعایت کرنا ضروری ہے :عاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار۔عموعی قیمت متعین ہو۔قسط کی رقم متعین ہو۔مدت متعین ہو۔کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت جرمانہ یا کسی بھی عنوان سے اس میں اضافہ وصول نہ کیا جائے ۔قبل از وقت قسط کی ادائیگی کی صورت میں قیمت میں کمی کی شرط نہ ہو، اگر بوقتِ عقد ان دونوں میں سے کوئی شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔
سوال :میں نے 18000 والاموبائل قسطوں پر خریدا، وہ اس طرح کہ 8000ہزار کی رقم نقد دے دی، جب کہ بقیہ 10000 ادھار رقم کا 32 فیصد کل قیمت 18000 میں جمع کرکے اب جو قیمت بنی اس میں سے 8009 منہاکرکے باقی رقم 12 مہینوں میں ادا کردی، کیا قسطوں کے کاروبار کایہ طریقہ جائز ہے؟
جواب:بصورتِ مسئولہ میں اگر آپ نے موبائل قسطوں پر خریدتے وقت موبائل کی کل قیمت، قسط کی رقم اور مدت متعین کرکے موبائل خریدا تو یہ معاملہ جائز ہے، البتہ اگر قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ ادا کرنے کی شرط بھی ہو تو یہ معاملہ جائز نہیں ہوگا۔
سوال :اقساط میں موٹرسائیکل اور گاڑیوں کی خریدوفروخت کے بارے میں رہنمائی فرمادیں ۔نیز ملکیت سے پہلے بھی چیزفروخت کی جاسکتی ہے ۔
جواب: ہر شخص کے لیے اپنی مملوکہ چیز کو اصل قیمت میں کمی زیادتی کے ساتھ نقد اور ادھار دونوں طرح فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور جس طرح ادھار پر سامان فروخت کرنے والااپنے سامان کی قیمت یکمشت وصول کرسکتا ہے ، اسی طرح اس کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس رقم کو قسط وار وصول کرے، اسے اصطلاح میں ”بیع بالتقسیط“ یعنی قسطوں پر خریدوفروخت کہتے ہیں۔
قسطوں پر خرید وفروخت میں درج ذیل شرائط کا لحاظ اور رعایت کرنا ضروری ہے:قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار، اور عقد کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو، اور ایک شرط یہ بھی ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے، اور جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو۔ اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا، ان شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہے۔ کسی بھی چیز کو اپنی ملکیت میں آنے سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی بھی منقولی چیز کو خریدنے کے بعد اس پر قبضہ کرنے سےپہلے اسے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔
سوال :قسطوں پر گھر لینا درست ہے کہ نہیں؟ کیا یہ سود کے زمرے میں آتا ہے؟
جواب: قسطوں پر گھر یا کوئی اور چیز خریدنا شرعًا جائز ہے بشرطیکہ خریداری کے وقت عاقدین اس چیز کی حتمی قیمت اور ادائیگی کی مدت مقرر کرلیں اور کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے کسی قسم کا اضافہ وصول نہ کیا جائے، اور نہ ہی قسط کی جلدی ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی مشروط ہو۔اگر قسط میں تاخیر پر اضافی رقم وصول کی جائے یا شروع سے معاملے کی ایک صورت نقد یا
ادھار متعین نہ کی جائے تو یہ سود کے حکم میں ہوگا۔
سوال :نمازِ قصر کا طریقہ بتادیں!
جواب :واضح رہے قصر نماز اس وقت پڑھی جاتی ہے جب کوئی شخص اپنےشہر یا علاقےسےباہرکم از کم تین دن تین رات کی مسافت کے سفر کے ارادہ سے نکلے، جس کا اندازہ 48 میل یا سواستترکلومیٹر سے لگایا گیا ہے، اور اس شخص کا ارادہ وہاں پندرہ دن سے کم قیام کا ہو ،بشرط یہ کہ جہاں قیام کر رہا ہے وہ جگہ مسافر کا وطنِ اصلی یا وطنِ اقامت(ملازمت عارضی رہائش) نہ ہو، تو یہ شخص قصر پڑھے گا۔
قصر نماز کا طریقہ
ہر چار رکعت والی فرض نماز دو پڑھے گا، مغرب کی نماز حسبِ سابق تین رکعت ہی پڑھی جائے گی، اسی طرح وتر کی نماز بھی چوں کہ واجب ہے ؛اس لیے وتر بھی پوری تین رکعت پڑھنی لازم ہوگی،سنتوں کا حکم یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کے علاوہ باقی نمازوں کی مؤکدہ سنتیں نہ پڑھنے کا اختیار ہوگا، البتہ پڑھ لینا افضل ہے، فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ اگر سفر جاری ہو اور سنتیں پڑھنے میں حرج ہو تو چھوڑ دےیعنی قافلہ یا گاڑی یا ٹرین یا جہاز وغیرہ نکل جانے کا خطرہ ہو تو پھر سنتِ مؤکدہ نہ پڑھے، اور اگر سفر کے دوران کہیں قیام ہو اور اطمینان ہو تو سنتیں ادا کرلے، البتہ فجر کی سنتوں کی تاکید چوں کہ دیگر سننِ مؤکدہ کے مقابلہ میں زیادہ آئی ہے؛ اس لیے حتی الامکان فجر کی دو رکعت سنت کو چھوڑنا نہیں چاہیے، چاہے سفر جاری ہو یا رکا ہوا ہو۔باقی سنتِ غیر مؤکدہ اور نوافل کا حکم حالتِ سفر میں بھی وہی ہے جو اقامت کی حالت میں ہوتا ہے، یعنی اگر پڑھ لے تو ثواب ملے گا اور نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
قصر کا حکم یہ ہے
شرعی سفرمیں چار رکعات والی فرض نماز میں قصر کرنا ضروری ہے،یعنی اگر مسافر امام یا منفرد (تنہانماز پڑھنے والا) ہو تو اس کے لیے قصر کرنا ضروری اور واجب ہے، اگر کوئی شخص غلطی یا لاعلمی کی وجہ سے سفر میں چار رکعت پڑھ لے اور قعدہ اولیٰ میں بیٹھا ہو تو اس کی فرض نماز ہوجائے گی، تاہم اس پر سجدہ سہو کرنا لازم ہوگا، اگر اس نے سجدہ سہو نہ کیا تو اس کی نماز ناقص رہ جانے کی وجہ سے اس نماز کے وقت کے اندر واجب الاعادہ ہوگی ،اور وقت گزرنے کے بعد اعادہ واجب نہیں ہوگا، اور اگر قعدہ اولی میں بیٹھا ہی نہیں تو اس کی فرض نماز ہی ادا نہیں ہوئی، اسے فرض نماز دوبارہ قصر کے ساتھ پڑھنی ہوگی۔اور اگر کوئی شخص حالتِ سفر میں کسی مقیم امام کی اقتدا میں نماز پڑھے تو وہ امام کے تابع ہوکر پوری چار رکعت ہی پڑھے گا، دو رکعت الگ سے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
قصر نماز کے لیے مسافت مقدارکتنی ہے؟
سواال:کیا 78 کلومیٹر کی مسافت طے کرنے سے آدمی مسافر شرعی بن جاتا ہے، جب کہ ہمارے کے علاقے امام صاحب کا کہنا ہے کہ مسافر شرعی کے لیے 82 کلومیٹر کی مسافت کا ہونا ضروری ہے، اگر کم ہے تو وہ اتمام کرے گا قصر نہیں کرے گا ۔ تو اس بارے میں آپ رہنمائی فرمائیں کہ کلو میٹر کے حساب سے اصل شرعی مقدار کیا ہوگی ؟
جواب :کلومیٹر کے حساب سے سفر شرعی کی مسافت سوا ستتر کلو میٹر (77.24) ہے۔ میل کے حساب سے اڑتالیس میل اور اصل کے حساب سے تین دن صبح سے لے کر دوپہر تک معتدل سفرہے۔ مسافت کا اعتبار اپنے شہر / قصبے کی آبادی کے اختتام سے لے کر مطلوبہ شہر کی آبادی کی ابتدا تک ہے۔ آبادی سے نکل کراگر منفرد یاامام ہے تو قصر کرے گا اور اگرمقیم امام کی اقتدا میں نماز پڑھے گا تو پوری نماز پڑھے گا ۔شہریاآبادی سے نکل جائیں تومسافرہوجاہیں گے جب تک اگلے ابادی شہرمیں داخل نہیں ہوتے۔
سفر میں جماعت کے ساتھ نماز مل جانے کا حکم
سوال :سفر میں اگر نمازِ عصر جماعت کے ساتھ مل جائے تو جماعت کے ساتھ کتنی رکعت نماز پڑھیں؟
جواب :صورتِ مسئولہ میں اگر سفر میں عصر کی نماز یا اس کے علاوہ کوئی اور چار رکعتوں والی نماز جماعت کے ساتھ مل جائے اور امام مقیم ہو تو اس کی اقتدا میں مسافر پر بھی چار رکعات پڑھنا لازم ہے اور اگر امام مسافر ہو تو پھر مسافر مقتدی امام کی اقتدا میں دو رکعت پڑھے گا۔
سوال :کیا قصر کی قضا مقام پر پہنچنے پر بھی قصر ہوگی؟
جواب :اگر کسی کی ظہر، عصر یا عشاء کی نماز سفرِ شرعی کی حالت میں قضا ہوئی ہو تو اس کی قضا قصر ہی کی جائے گی، چاہے قضا سفر میں کرے یا حضر (اقامت کی حالت)میں کرے۔ اسی طرح سے حضر میں قضا ہونے والی نماز کی قضا مکمل نماز کی صورت میں کرنی ہوگی چاہے قضا سفر میں کرے۔
سفر کی حالت میں قضا شدہ نمازوں کی قضا پڑھنے کا طریقہ،
سوال :اگر دورانِ سفر ہم سے جو نمازیں قضا ہوجائیں تو ان کی ادائیگی کیسے کرناہوں گی؟
جواب :دورانِ سفر جان بوجھ کر نمازیں قضا نہیں کرنی چاٗہیں، البتہ جو نمازیں کسی وجہ سے سفرِ شرعی کے دوران قضا ہوگئی ہوں تو ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نماز قصر کے ساتھ دو، دو رکعت قضا پڑھی جائے گی، جب کہ فجر کی مکمل دو رکعت فرض ، مغرب کی مکمل تین رکعت فرض اور عشاء کے دو فرض کے ساتھ مکمل تین رکعت وتر قضا پڑھی جائے گی۔
سوال :سفر میں غسل واجب ہونے پر پانی دستیا ب نہ ہونے کےلئے تیمم کیسےہوگا؟
جواب :سفر میں اگر غسل واجب ہو جائے اور پانی دستیاب نہ ہونے کی صورت میں تیمم کا حکم ۔سفر کے دوران غسل واجب ہونے کی صورت میں اگر پانی موجود نہ ہونے کی وجہ سےغسل کرنا ممکن نہ ہوتو پھرتیمم کر کے نماز پڑھنا جائز ہے، البتہ پانی کا انتظام ہوتے ہی غسل کرلینا چاہیے، لیکن مذکورہ صورت میں جو نمازیں تیمم سے پڑھ لی ہوں وہ ادا ہوجائیں گی، ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
ہمیشہ سفر میں رہنے والے ڈرائیور کی نماز کے قصر اور اتمام کا حکم
سوال :ڈرائیور حضرات توہمیشہ سفرہی میں ہوتےہیں، اب ان کے لیے نماز قصر ہےیاپوری نماز؟
جواب :صورتِ مسئولہ میں ایسے ڈرائیور حضرات جو مستقل سفر میں رہتےہیں اور ان کا قصد سواستتر کلومیٹر سے زائد کاہوتا ہے تو اپنےشہر کی حدود سے نکلنے کے بعد یہ لوگ مسافر کہلائیں گے اوردورانِ سفر قصر نماز ہی پڑھیں گے، البتہ اگر کسی مقیم امام کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے تو پوری نماز پڑھیں گے، اور یہ جیسے ہی یہ اپنے شہر کی آبادی میں داخل ہوں گے تو پھرمکمل نماز پڑھیں گے۔
سوال :کیاارٹیفیشل انگوٹھی پہن کے نماز ادا کی جا سکتی ہے؟
جواب :آرٹیفیشل انگوٹھی میں نماز ادا کرنے کا حکم عورت کے لیے سونے اور چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کی انگھوٹھی جائز نہیں ہے ۔
ارٹیفیشل انگوٹھی پہننے کی متعدد حضرات نے مکروہ تحریمی یعنی ناجائز قرار دیا ہے عورت کے لیے اریٹفیشل انگوٹھی اختیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی انگوٹھی پہننے سے اجتناب کیا جائےاورنمازتو ادا ہوجاتی ہے لیکن اختیاط کے خلاف ہے اس لیے اس سے اجتناب مناسب بھی ہےاور بہتر بھی ہے۔بہرحال شرعااس میں کوئی قباحت نہیں ہے
بچے کے دستاویزات میں والد کی جگہ کسی اور کا نام لکھنا
سوال :کیا سرکاری یا نیم سرکاری کاغذات میں والد کی جگہ چچاماموں یاکسی اور فرد کا نام لکھا جا سکتا ہے
جواب :قران حکیم اور احادیث مبارکہ کی روح سے بچے کی نسبت اس کے حقیقی والدین ہی کی طرف کرنا ضروری ہےحقیقی والدین کے علاوہ بچے کی نسبت کسی اور کی طرف کرنا شرعا ناجائز اور ممنوع ہے اس لیے میاں بیوی میں علیحدگی ہو جائے یا بچے کو گود دینے کی صورت میں بچے کی سرکاری اور غیر سرکاری کاغذات میں اس کے حقیقی والد ہی کا نام لکھنا ضروری ہے تاہم اگر والد بچے کا ذاتی دستاویزات میں کسی وجہ سے اس کے حقیقی والد کا نام لکھنا مشکل ہو یاکوئی قانونی پیچیدگی ہو ایسی صورت میں والدیت کے خانے کے بجائے اس سے والدیت کے خانے میں سرپرست اور پرورش کرنے والے کے نام لکھوایاجا سکتا ہے سورۃ الاحزاب میں اس حوالے سے واضح احکامات موجود ہیں۔
ایصال ثواب کاطریقہ
سوال :ایصال ثواب کابہترین طریقہ کیا ہے جس کااہتما م کرنا مناسب ہوا ہمارے یہاں ایصال ثواب کے لیے کھانے کا اہتمام کیاجاتا ہے ؟
جواب :ایصال ثواب کرنا بہت اہمیت کا حامل عمل ہے اس کا اہتمام سعادت کی بات ہے لیکن اس کو کسی خاص دن محرم ہو گیا ربیع الاول ہو گیا عاشورہ کے لیے خاص کرنا بدعت اور گناہ ہے،بہرحال کھاناکھلانا مسجد مدرسہ بنانا ۔کنواں بنانا ۔کسی کی خدمت کرنا ۔یتیم بچوں کی کفالت کرنا ۔پل بنانا۔یتیم بچیوں کی شادیاں کروانا ۔قیدیوں کورہا کروانا یہ سب ایصال ثواب کے طریقے ہیں ۔
مروجہ تکافل۔ بیمہ کے حوالے سے احکامات شریعت کیا ہیں
سوال :تکافل یا بیمہ اس کا شرعی حکم کیا ہے
جواب :واضح رہے کہ انشورنس یعنی بیمہ کی تمام شکلیں خواہ وہ لائف انشورنس ہو ہیلتھ انشورنس یاکار انشورنس ہو یا کوئی اور شکل سب کی سب سود اور دیگر غیر شرعی امور پر مشتمل ہونے کی وجہ سے حرام البتہ اس کے مطابق تکافل کا جو ادارہ مستند اہل علم کی نگرانی میں شرعی احکام کی مکمل رعایت کرتے ہوئے معاملات سر انجام دیتا ہے تو اس کی پالیسی لینے کی گنجائش بہرحال موجود ہے تکافل سے متعلق مذکورہ حکم ایک اصولی جواب ہے اور چنانچہ اج کل تکافل کے مختلف ادارے کام کر رہے ہیں اس لیے کسی مخصوص تکافل ادارے کی پالیسی حاصل کرنے
سے پہلے اس بات کا اطمینان کر لیا جائے کہ وہ مستند اہل علم کی نگرانی میں ہے یا کہ نہیں اور اس کا شریعہ ایڈوائزر مستند اہل علم میں ہے یا نہیں اس کی تفصیلات کسی مستند مفتی صاحب کے سامنے رکھ کے مخصوص ادارے سے متعلق شرعی حکم معلوم کیا جا سکتا ہے
قبریں پکی کرنا
سوال :محترم مفتی صاحب ہمارے گاؤں میں قبریں پکی کی جاتی ہیں اس کے ساتھ سیمنٹ لگایا جاتا ہے اور بعض جگہوں پرماربل بھی لگایا جاتا ہے اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے۔
جواب :جی محترم ۔۔قبر کو پختہ بنانا جائز نہیں ہے البتہ صرف دائیں بائیں سے کوئی پتھر لگا دینا کہ اصل قبر یعنی جتنے حصے میں میت دفن ہے کچی مٹی کی ہو ارد گرد پتھر یا بلاک وائرس سے منڈیر نما بنا دیا جائے یا معمولی سا احاطہ بنا دیا جائے کہ قبر کا نشان مٹ نہ جائے یا ارد گرد زمین پر پختہ فرش کر دیا جائے تاکہ قبر واضح ہو جائے اس کی اجازت ہے لیکن اس میں بھی دو باتوں کا خیال ضروری ہے۔
1-قبر کے لیے سادہ پتھر استعمال کیا جائے زیب زینت والاکوئی پتھر نہ ہو نیز آگ پہ پکی ہوئی اینٹیں بھی نہ ہوں۔
2۔قبر کے اوپر قبہ یا حجرہ بنا کر چھت نہ ڈالی جائے ۔بہتر تو یہ ہے کہ قبرکچی ہو اگر کوئی ایسی جگہ ہو کہ جہاں قبر کے گرنے کا اندیشہ ہو وہاں اپ پتھر استعمال کر سکتے ہیں ہلکا پھلکا پختہ اس کو کر سکتے ہیں لیکن قبر کا مرکز اور محور جو اوپر کی سطح ہوتی ہے اس کو کچا ہی رکھا جائے۔
بنی ہاشم کوزکوة دی جاسکتی ہے
سوال :کیا آل ہاشم اور سادات کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔
جواب :آ ل ہاشم ہیں یا قریشی ہیں ان کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی اس کے اندر حارث بن عبدالمطلب۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب ۔حضرت علی بن ابی طالب اور ان کی اولاد حضرت کیل بن ابی طالب اور ان کی اولادرجعفر بن ابی طالب اور ان کی اولاد ،البتہ جو ہاشمی مذکورہ حضرات کی اولاد نہ ہوں بلکہ کسی اور وجہ اور نسبت کی وجہ سے قریشی ہوں تو ان کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ زکوٰۃ کے مستحق ہوں ۔
اندروانی الٹروساونڈ/ علاج سےغسل فرض ہوجاتا ہے
سوال :اندرونی الٹرا ساؤنڈ کی وجہ سے عورت پہ غسل واجب ہوتا ہے
جواب :الٹرا ساؤنڈ کی صورت میں یہ آلہ شرمگاہ میں داخل کرنے کی وجہ سے عورت پہ غسل لازم نہیں ہوتا البتہ اگر کسی اور وجہ سے عورت کو لذت کے ساتھ انزال ہو جائے یعنی منی نکل آئے تو ایسی صورت میں لازم ہو جائے گا۔ اس ضمن میں یہ مسئلہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ الٹراساؤنڈ کا آلہ شرمگاہ سے باہر نکالتے ہوئے اس کے ساتھ رحم کی رطوبت یا دیگر نجاست بھی لگ کر ا جاتی ہیں ایسی صورت میں وضو ٹوٹ جاتا ہے نیز اگر رطوبتیں اور دیگر نجاسات بدن یا کپڑوں پر لگ جائیں تو ان کو پاک کرنا ضروری ہوگا۔
سوال :اپنی جگہ کسی اور کو حاضر کرنا ملازمت پر کیا یہ تنخواہ جائز ہوگی
جواب :سرکاری استاد جو گورنمنٹ سے تنخواہ وصول کرتا ہے اپنی جگہ کسی دوسرے استاد کو رکھنا حکومت کی جانب سے سرکاری سکولوں میں پڑھانے کے لیے مقرر کیے گئے اساتذہ اپنی جگہ کسی اور کو استاد رکھ لیتے ہیں پھر جو انہیں حکومت کی جانب سے تنخواہ ملتی ہے تو اس میں سے اس دوسرے استاد کو بھی اس کی اجرت دے دیتے ہیں واضح رہے حکومت کی اجازت کے بغیر سرکاری استاد کا اپنی جگہ کسی اور استاد مقرر کرنا جائز نہیں ایسی صورت میں سرکاری استاد کے لیے حکومت کی طرف سے ملنے والی تنخواہ بھی حلال نہیں ہے البتہ جس شخص کو انہیں سرکاری استاد نے اپنی جگہ مقرر کیا ہے وہ اپنے کام کی عوض طے شدہ رقم سرکاری استاد سے لے سکتا ہے جس کی ادائیگی وہ اپنی ذاتی مال سے کرے گا ۔لیکن اس میں جو سرکاری استاد ہے وہ اپنے فرائض منصبی میں ڈنڈی مار رہا ہے اور یہ تنخواہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی بغیر کام کیے اجرت لینا اور دوسرا اس میں جرم یہ ہے کہ وہ چوری کر رہا ہے اور غیر حاضری کے نتیجے میں طلبہ اور اساتذہ اور حکومت کے ساتھ دھوکا کر رہا ہے۔
رخصتی کے لیے بارات لے کر جانا اور لڑکی والوں کا کھانے کا انتظام کرنا
سوال :شادی ہال میں بارات کے ساتھ جانا کیسا ہے؟ اور خاتون والوں کی طرف سے کھانے کے انتظام کے بارے میں شرعی ہدایات کیا ہیں؟
جواب :نکاح اور رخصتی کا بہترطریقہ یہ ہے کہ مسجد میں نکاح کیا جائے، پھر نکاح کے بعد لڑکی کو اس کے محرم کے ذریعے دولہا کے گھر پہنچا دیا جائے، اور اگر خود دولہا اور اس کے گھر والے جاکر دلہن کو لے آئیں تو یہ بھی جائز ہے، اسی طرح اگر خلافِ شرع امور سے بچتے ہوئے لڑکے کے خاندان کے چند افراد اجتماعی صورت میں لڑکی کی رخصتی کرواکر لے آئیں، اس کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ شرعی شرائط یعنی پردہ کا اہتمام ہو، اختلاط، موسیقی وغیرہ اور تمام رسومات سے بچاجائے۔بوقتِ رخصتی سادگی اختیار کرنا بہتر ہے، اور خرافات اور ناجائز کاموں سے اجتناب لازم ہے۔ غرض اسلامی مزاج یہ ہے کہ جتنی سادگی اور بے تکلفی سے آدمی اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو یہ زیادہ بہتر اور قابلِ ستائش ہے۔ اس میں میزبانوں کے لیے بھی آسانی ہے اور مہمانوں کی بھی راحت ہے۔رخصتی کے لیے باقاعدہ بارات کا لے جانا نبی کریم ﷺاور اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔اور موجودہ زمانہ میں تو رخصتی کے لیے بہت سارے امور کو لازم سمجھاجاتاہے، مثلاً لڑکی کی رخصتی کے لیے باقاعدہ بارات کا اہتمام کرنا، کئی لوگوں کو لے جانا اور لڑکی والوں سے کھانے کا انتظام وغیرہ کروانا اور اس میں اور بھی بہت سے مفسدات پائے جاتے ہیں، اس لیے مروجہ طریقہ پرخرافات مثلاً موسیقی، مرد وزن اختلاط، اور کئی رسومات کی ادائیگی کے ساتھ بارات کے اہتمام سے اجتناب لازم ہے۔نیز نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا انتظام کا ثبوت کسی صحیح حدیث سے تو نہیں؛ اس لیے اس طرح کی دعوت کرنا ،ولیمہ کی طرح سنت نہیںہے، ہاں اگر کوئی نمود ونمائش سے بچتے ہوئے، کسی قسم کے مطالبہ اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی ورضا سے اپنے اعزہ اور مہمانوں کوکھانا کھلائے تو یہ مہمانوں کا اکرام ہے، اور اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا بارات والوں کے لیے جائز ہے، اور اگر لڑکی والے اس کو لازم سمجھیں اور اس کے اہتمام کے لیے قرضے لیے جاتے ہوں تو ایسی دعوت کرنا جائز نہیں ہوگا۔مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں :لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں ۔فتاوی محمودیہ میں ہے جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر کھائیں گے! اور اپنے مہمان کو کھلانا تو شریعت کا حکم ہے، اور حضرت نبی اکرم ﷺ نے تاکید فرمائی ہے۔
مفتی صاحب سے آپ اس نمبر
03005259116
ای میل :Taibahfoundation1@gmail.com رابطہ کرسکتےہیں

مفتی خالدعمران خالد