حضرت نجم الدین خانؒ:وہ جو چراغ بن کے جلتا رہا

شیخ محمد امین

کبھی کبھی کچھ لوگ زمین پر نہیں، آسمان سے اترتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ایک خاص روشنی، ایک غیر مرئی صداقت اور ایک ایسی قربانی چھپی ہوتی ہے جو صدیوں کے بعد کسی قوم کو نصیب ہوتی ہے۔ نجم الدین خانؒ بھی انہی روشن میناروں میں سے ایک تھے، جن کی زندگی ایک پوری نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے۔میں ان کا صرف ہم عمر دوست نہیں تھا، میں ان کے درد کا گواہ تھا، ان کے خوابوں کا ہمسفر تھا، ان کے عزم کی حرارت کو چھو کر جینے والا ایک خوش نصیب انسان تھا۔ ان کی مسکراہٹ کے پیچھے کرب کا وہ سمندر چھپا ہوتا تھا جسے شاید وہی سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی قوم کے لیے سب کچھ لٹا دیا ہو — خاندان، سکون، صحت، حتیٰ کہ جسم کی طاقت بھی۔بھارت کے قابض مظالم نے جس طرح نجم الدین خان کے خاندان کو چُنا، وہ محض حادثہ نہیں، بلکہ اُس نظریے سے دشمنی تھی جسے یہ خاندان سینے سے لگائے بیٹھا تھا — اسلام، کشمیر، اور آزادی۔ اُن کے بھائی عبدالقیوم خان کی شہادت، والد پر بہیمانہ تشدد، اور خود نجم الدین کی گرفتاری و معذوری — یہ سب ایک ایسی داستان کا حصہ ہے جس میں کردار خون سے لکھے گئے ہیں۔جسمانی معذوری کا شکار ہونا کسی کے لیے زندگی کا خاتمہ بن جاتا ہے، لیکن نجم الدین خان کے لیے یہ قربانی کا آغاز تھا۔ 1993 میں جب وہ کنٹرول لائن عبور کر کے مظفرآباد پہنچے، تو ان کے پاؤں بھلے کمزور تھے، لیکن ارادہ فولادی تھا۔ انہوں نے نہ صرف حزب المجاہدین میں شامل ہو کر عسکری ذمہ داریاں سنبھالیں بلکہ بیس کیمپ میں نوجوانوں کی تربیت، حوصلہ افزائی، اور نظریاتی شعور بیدار کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔کشمیر کے عظیم مجاہد محمد اشرف صحرائی کے بھتیجے ہونے کے ناطے اُن پر تحریک کا رنگ گھٹی میں پڑا تھا۔

جنید اشرف صحرائی کی شہادت کے بعد ان کی آنکھیں نم تو ہوئیں، لیکن حوصلہ پست نہ ہوا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے:”ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، یہ خون رنگ لائے گا، اگر ہم سچے رہے تو فتح قریب ہے۔”آج جب میں اُن کا ذکر کرتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی گھمبیر آواز میرے دل کے اندر سے پکار رہی ہو — “مت تھکنا، مت رکنا، نجم ابھی زندہ ہے!”ایسا کردار کبھی مرتا نہیں، ایسا مجاہد کبھی دفن نہیں ہوتا، وہ تو اس تحریک کی سانسوں میں شامل ہو جاتا ہے۔24 اگست 2022 کا دن صرف اُن کی رحلت کا دن نہیں تھا، وہ دن ہماری نسل کی آزمائش کا آغاز تھا۔ کیا ہم اُن کے چھوڑے ہوئے خواب کو زندہ رکھ سکیں گے؟ کیا ہم اُس صبر، حوصلے اور نظریاتی یکسوئی کو باقی رکھ سکیں گے جس کے وہ پیکر تھے؟نجم الدین خان کے بغیر مظفرآباد کی گلیاں ویران لگتی ہیں۔ ان کے بغیر محفلیں سونی لگتی ہیں۔ اور ان کے بغیر جدوجہد کا راستہ کچھ اجنبی سا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اُن کی تربیت، اُن کی دعائیں، اور اُن کی مثال ہمیں جھنجھوڑتی ہے کہ ہم بھٹکنے نہ پائیں۔زندگی کے ہر موڑ پر اُن کی یاد ساتھ رہے گی۔ وہ میرا دوست تھا، میرا بھائی، میرا رہنما، اور میری دعا۔اللّٰہ تعالیٰ اُنہیں شہدائے حق کے ساتھ جوڑے، اور ہمیں اُن جیسا بے لوث، بے خوف، اور باوفا بننے کی توفیق عطا کرے۔سلام اے مردِ مجاہد، سلام اے چراغِ صداقت، سلام اے نجم الدین خانؒ!